Tag: 30 جون انتقال

  • ماہرِ علومِ اسلامیہ و شرقیہ فؤاد سزگین کا یومِ وفات

    ماہرِ علومِ اسلامیہ و شرقیہ فؤاد سزگین کا یومِ وفات

    پروفیسر فؤاد سزگین (Fuat Sezgin) کو دنیا ایک ایسے محقق، مؤرخ اور ماہرِ‌ علومِ اسلامی کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے جس کا خصوصی موضوع مسلم عہدِ وسطیٰ رہا۔پروفیسر فؤاد سزگین 30 جون 2018ء کو وفات پاگئے تھے۔

    ترکی کے شہر استنبول میں وفات پانے والے پروفیسر فؤاد سزگین نے زندگی کی 94 بہاریں دیکھیں اور آخر وقت تک علمی و تحقیقی سرگرمیوں میں مصروف رہے۔ انھیں عصرِ حاضر کا ایک اہم اسلامی اسکالر مانا جاتا ہے جن کا سب سے اہم ترین کارنامہ Geschichte des Arabischen Shrifttums (تاریخِ علومِ عربیہ و اسلامیہ) ہے۔

    فؤاد سزگین 1924ء میں ترکی کے ایک شہر میں پیدا ہوئے اور ثانوی تعلیم کی تکمیل کے بعد استنبول منتقل ہوگئے جہاں جامعۂ استنبول میں معروف جرمن مستشرق ہیلمٹ رٹر (Hellmut Ritter) کے زیرِاثر ادبیات اور علومِ اسلامیہ و شرقیہ کی تحصیل پر مائل ہوئے۔ 1951ء میں ادبیات میں گریجویشن کے بعد 1954ء میں عربی ادبیات میں اپنے مقالے پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔

    ڈاکٹریٹ کے بعد استنبول یونیورسٹی کے کلیۂ ادبیات میں تدریس سے منسلک ہوگئے۔ 1961ء میں ترکی میں فوجی بغاوت کے بعد جرمنی جانے پر مجبور ہو گئے جہاں 1965ء میں فرینکفرٹ یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی اور اسی جامعہ میں پروفیسر مقرر ہوگئے۔ جرمنی میں قیام کے دوران ہی شادی کرلی، ان کی اکلوتی بیٹی اسی جرمن خاتون کے بطن سے پیدا ہوئی۔

    فؤاد سزگین کی شاہ کار تصنیف تاریخِ علومِ عربیہ و اسلامیہ دراصل جرمن محقّق، کارل بروکلمان کی اسی نام سے لکھی گئی کتاب کی تکمیل ہے۔ انھوں نے اس کتاب پر کام کا آغاز 1947ء میں کیا تھا جس کی متعدد جلدیں‌ شایع ہوئیں، وفات کے وقت پروفیسر سزگین اس کی اٹھارہویں جلد پر کام کررہے تھے۔

    یہ ان کی تصنیف اور مدّون کردہ وہ کتاب ہے جو اسلامی علمی و تہذیبی تاریخ پر عظیم سرمایہ ہے، جس میں عربی زبان و ادب، قرآنِ پاک، تفسیر، حدیث، تاریخ، فقہ، علمِ کلام، طب، علمِ حیوان، کیمیا، زراعت، نباتات، ریاضیات، علمِ فلک و نجوم، نقشے اور عربی مخطوطات کا مطالعہ اور ان پر علمی مواد شامل ہے۔

    پروفیسر فؤاد سزگین عربی، انگریزی، جرمن کے ساتھ عبرانی، سریانی اور لاطینی زبانیں جانتے تھے۔

    دینی اور سائنسی علوم و فنون کی تاریخ پروفیسر فؤاد سزگین کی تحقیق کا محور و مرکز رہا۔ انھوں نے عرب اسلامی ادوار کے سائنسی آلات، اوزار اور نقشوں کی نقلیں بھی تیار کیں جو فرینکفرٹ اور استنبول کے عجائب گھر میں محفوظ ہیں۔ فؤاد سزگین نے احادیث پر غیر معمولی تحقیقی کام کیا، جس میں صحیح بخاری کے تحریری مآخذ کی نشان دہی ان کا عظیم کارنامہ ہے۔

    عالمِ اسلام کے اس عظیم اسکالر اور دانش ور کو ان کی علمی و تحقیقی کاوشوں پر متعدد اعزازات سے نوازا گیا جن میں 1978ء میں کنگ فیصل انٹرنیشنل پرائز اور آرڈر آف میرٹ آف فیڈرل ریپبلک آف جرمنی شامل ہیں۔

  • یومِ وفات: نور محمد چارلی ہندوستانی فلم انڈسٹری کے پہلے مزاحیہ اداکار تھے جنھیں ‘ہیرو’ بنایا گیا

    یومِ وفات: نور محمد چارلی ہندوستانی فلم انڈسٹری کے پہلے مزاحیہ اداکار تھے جنھیں ‘ہیرو’ بنایا گیا

    نور محمد چارلی برصغیر پاک و ہند کی فلمی صنعت کے معروف مزاحیہ فن کار تھے جنھیں گزشتہ صدی میں 30 اور 40 کی دہائی میں‌ خاصی مقبولیت ملی۔ وہ 30 جون 1983ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔

    نور محمد چارلی کو ہندوستانی فلم نگری کا اوّلین مزاحیہ اداکار بھی کہا جاتا ہے جسے ‘ہیرو’ بننے اور فلموں میں مرکزی کردار نبھانے کا موقع ملا۔ کہا جاتا ہے کہ چارلی پہلے مزاحیہ اداکار تھے جن پر ایک گیت بھی فلمایا گیا اور خود ان کی آواز میں چند فلموں کے لیے گانے بھی ریکارڈ کیے گئے۔

    نور محمد چارلی 7 جنوری 1911ء کو متحدہ ہندوستان کے شہر گجرات کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے۔ وہ خاموش فلموں کا دور تھا جب نور محمد نے ایک فلم ساز ادارے سے وابستہ ہوکر اداکاری کا آغاز کیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد یہاں چلے آئے اور فلمی دنیا سے وابستہ ہوگئے۔ تقسیمِ ہند سے قبل ان کی مشہور فلموں میں پاک دامن، رقاصہ، زرینہ، پریمی پاگل، فرزندِ ہند، ستم گر، پاگل، رنگیلا راجہ اور ڈھنڈورا شامل تھیں۔

    اس دور میں شائقین پردے پر رنگوں اور آواز کے بغیر کہانی کے مطابق فن کاروں کو اپنا کردار نبھاتا دیکھتے اور یہی ان کی سب سے بڑی تفریح تھی اور ‌آرٹسٹ اور فن کار اپنے چہرے کے تاثرات اور حرکات و سکنات سے شائقین کو محظوظ کرتے جو نہایت مشکل کام تھا۔ اس دور میں کسی فن کار کا ستائش اور مقبولیت حاصل کرنا اس کے کمالِ فن سے مشروط تھا۔ نور محمد چارلی نے اپنی فن کارانہ صلاحیتوں اور محنت سے یہ مرحلہ طے کیا۔ انھیں تقسیم سے قبل اپنے ہم عصر مزاحیہ فن کاروں کی نسبت زیادہ شہرت اور مقبولیت ملی۔ وہ مشہورِ زمانہ کامیڈین چارلی چپلن کے بڑے مداح تھے اور اس کے بہروپ میں اکثر کردارو‌ں میں رنگ بھرتے نظر آئے۔

    چارلی کے فلمی سفر کا آغاز 1928ء میں ہوا تھا۔ اس زمانے کی ایک غیر ناطق فلم اپ ٹو ڈیٹ میں نور محمد نے کام کیا۔ ‘دی انڈین چارلی’ 1933ء کی وہ ناطق فلم تھی جس نے انھیں‌ ٹائٹل رول کی نسبت نور محمد سے نور محمد چارلی مشہور کردیا اور ‘چارلی’ کا لاحقہ ہمیشہ کے لیے ان کے نام کا حصّہ بن گیا۔

    پاکستان میں ان کی پہلی فلم مندری تھی۔ ان کی مشہور فلموں میں پلپلی صاحب، عمر ماروی، پرائی زمین، مس 56، استادوں کے استاد، اکیلی اور ستاروں کی دنیا شامل ہیں۔

    نور محمد چارلی نے اردو کے ساتھ پنجابی اور تین سندھی زبان میں‌ بننے والی فلموں میں بھی کام کیا، لیکن چند ابتدائی کام یابیوں کے بعد وہ شائقین کی توجہ حاصل نہ کرسکے۔ فلم نگری میں ناکامیوں سے گھبرا کر انھوں نے ہندوستان جانے کا فیصلہ کیا، مگر وہاں بھی مطمئن نہ ہوئے اور پاکستان لوٹ آئے جہاں بعد میں چند ہی فلموں میں کام حاصل کرسکے۔

    نور محمد چارلی کے صاحبزادے لطیف چارلی اور بہو معصومہ لطیف بھی پاکستان ٹیلی وژن کے ڈراموں میں اداکاری کے جوہر دکھا چکے ہیں۔