Tag: 30 مئی وفات

  • یومِ‌ وفات:‌ فضل محمود ٹیسٹ کرکٹ میں 100 وکٹوں کا ہدف عبور کرنے والے پہلے پاکستانی تھے

    یومِ‌ وفات:‌ فضل محمود ٹیسٹ کرکٹ میں 100 وکٹوں کا ہدف عبور کرنے والے پہلے پاکستانی تھے

    30 مئی 2005ء کو پاکستان کے معروف کرکٹر فضل محمود لاہور میں وفات پاگئے تھے۔ آج فضل محمود کی برسی ہے۔ ٹیسٹ کرکٹ کے آغاز میں انھوں نے اپنی کارکردگی سے پاکستان کو جو کام یابیاں دلوائیں، وہ یادگار ثابت ہوئیں۔ بھارت کے خلاف لکھنؤ ٹیسٹ میں پاکستان کی پہلی کام یابی ہو یا اوول کی شان دار فتح، فضل محمود نے نمایاں‌ کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور آگے رہے۔

    پاکستان میں ٹیسٹ کرکٹر کی حیثیت سے شہرت حاصل کرنے والے فضل محمود 18 فروری 1927ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ اسلامیہ کالج لاہور سے گریجویشن اور پنجاب یونیورسٹی سے معاشیات میں ایم اے کیا۔ 1943ء سے انھوں نے کرکٹ کھیلنا شروع کیا اور 1952ء میں بھارت کا دورہ کرنے والی پاکستان کی پہلی کرکٹ ٹیم کے رکن منتخب ہوئے۔

    فضل محمود نے اپنے کیریئر میں مجموعی طور پر 34 ٹیسٹ میچ کھیلے اور 139 وکٹیں حاصل کیں۔ انھوں نے 10 ٹیسٹ میچوں میں پاکستان کی قیادت کی بھی کی تھی۔ وہ پاکستان کے پہلے کپتان تھے جنھوں نے اپنے پہلے ٹیسٹ میچ میں کام یابی حاصل کی تھی۔

    فضل محمود پاکستان کے پہلے کھلاڑی تھے جنہیں کرکٹ کے کھیل کے لیے مشہور کتاب وزڈن نے سال کے پانچ بہترین کھلاڑیوں میں شمار کیا۔ وہ ٹیسٹ کرکٹ میں 100 وکٹوں کا ہدف عبور کرنے والے بھی پہلے پاکستانی کھلاڑی تھے۔

    حکومتِ پاکستان نے فضل محمود کو صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

  • پاکستان کے نام وَر خطّاط صوفی خورشید عالم کی برسی

    پاکستان کے نام وَر خطّاط صوفی خورشید عالم کی برسی

    30 مئی 2004ء کو پاکستان کے نام ور خطّاط صوفی خورشید عالم خورشید رقم لاہور میں وفات پاگئے تھے۔ وہ صوفی خورشید کے نام سے مشہور تھے۔

    صوفی خورشید عالم خورشید کو 1965ء کی جنگ میں‌ جامِ شہادت نوش کرنے والے راجہ عزیز بھٹی کے لوحِ مزار کی خطّاطی کا اعزاز بھی حاصل تھا۔ صوفی صاحب نے کئی موضوعات پر کتابوں اور اپنے دور کے نام ور مصنّفین کی کتابوں کے ٹائٹل کو اپنی خطّاطی سے سجایا۔

    خورشید عالم 1923ء میں کپور تھلہ، بھارت میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد رحمت علی خود بھی ایک اچھے خطّاط تھے۔ مشہور ہے کہ لاہور کے ناشرین کپور تھلہ جاکر ان سے کتابت کرواتے تھے۔ یوں انھیں بھی خوش نویسی کا شوق پیدا ہوا اور اپنے والد کو دیکھ کر خود بھی مشق کرنے لگے۔ ذوق و شوق اور مسلسل مشق نے ان کی لکھائی اور کتابت کو چمکایا اور وہ اس فن میں‌ کامل ہوئے۔

    صوفی خورشید عالم خورشید نے بعدازاں تاج الدّین زریں رقم جیسے نام ور اور عظیم خطّاط کے ادارے سے وابستگی اختیار کرلی تھی جہاں عرصے تک کام کیا، زریں رقم کی وفات کے بعد لاہور کے اکابر خطّاط نے صوفی صاحب کو ان کا جانشین مقرر کردیا تھا۔

    خوش نویسی اور فنِ خطّاطی میں کمال و مہارت رکھنے والے خورشید عالم خورشید رقم نے مختلف اخبارات غالب، آفاق، کوہستان، نوائے وقت، مساوات، ندائے ملت، آزاد اور امروز میں بھی کام کیا تھا اور مینار پاکستان کے بعض کتبات ان کے فن کا نقش ثبت ہے۔

    صوفی صاحب خطّاط ہی نہیں شاعر بھی تھے۔ انھوں نے غزل، نعت و قصیدہ گوئی اور دیگر اصناف میں طبع آزمائی کی۔ وہ مخمور تخلّص کرتے تھے اور مشہور شاعر احسان دانش سے اصلاح لیتے رہے۔

    صوفی صاحب کی نمازِ جنازہ داتا دربار، لاہور میں ادا کی گئی اور انھیں حضوری باغ کے قبرستان میں‌ سپردِ خاک کیا گیا۔