Tag: 30 نومبر برسی

  • موسیقی اور فنِ گائیکی کے استاد، شرافت علی خان کا تذکرہ

    موسیقی اور فنِ گائیکی کے استاد، شرافت علی خان کا تذکرہ

    پاکستان میں‌ سُر تال اور گائیکی کے میدان میں‌ نام و مقام حاصل کرنے والے فن کار اور مختلف سازوں اور آلاتِ موسیقی کے ماہر ایسے گھرانوں‌ سے وابستہ رہے ہیں جو تقسیمِ ہند سے قبل بھی موسیقی اور فنِ گائیکی کے لیے مشہور تھے۔

    شام چوراسی گھرانا انہی میں‌ سے ایک ہے جس میں جنم لینے والے استاد شرافت علی خان نے موسیقار اور گلوکار کی حیثیت سے بڑا نام کمایا۔

    استاد شرافت علی خان 30 نومبر 2009ء کو لاہور میں وفات پاگئے تھے۔ وہ 1955ء میں ملتان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سلامت علی خان نام وَر موسیقار تھے اور استاد کے درجے پر فائز تھے جب کہ ان کے بڑے بھائی شفقت سلامت علی خان بھی اپنے وقت کے مشہور فن کار تھے۔

    گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجویشن کے بعد شرافت علی خان نے اپنے والد سے ٹھمری، کافی اور غزل گائیکی کی تربیت حاصل کی اور دنیا کے متعدد ممالک میں اپنے فن کا مظاہرہ کرکے داد پائی۔ انھوں نے اپنے والد اور اپنے بھائیوں کے ساتھ بھی ملک اور بیرونِ‌ ملک فنِ موسیقی اور گائیکی کا مظاہرہ کیا اور خوب داد سمیٹی۔ انھیں‌ اپنے وقت کے علمِ موسیقی کے ماہر اور جیّد موسیقار و گلوکاروں نے سنا اور بے حد سراہا۔

    استاد شرافت علی خان کو بیرونِ ملک متعدد جامعات میں موسیقی اور آرٹ سے متعلق شعبہ جات کے تحت منعقدہ تقاریب میں اس فن سے متعلق اظہارِ خیال کرنے اور برصغیر کی موسیقی پر لیکچر دینے کا موقع بھی ملا۔

    کلاسیکی موسیقی اور گائیکی کی دنیا کے اس باکمال فن کار کو وفات کے بعد حضرت چراغ شاہ ولی کے مزار کے احاطے میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • سفیرِ قرآن اور صوتُ المکّہ کا خطاب پانے والے قاری عبدُالباسط کی برسی

    سفیرِ قرآن اور صوتُ المکّہ کا خطاب پانے والے قاری عبدُالباسط کی برسی

    علومِ قرآنی اور فنِ قرأت و تجوید میں کمال اور اس بنیاد پر عالمِ‌ اسلام میں بڑی عزّت و مرتبہ اور پذیرائی حاصل کرنے والوں میں سَر زمینِ مصر کے شیخ قاری عبدُالباسط محمد عبدالصّمد کا نام بھی شامل ہے۔ انھیں قدرت نے بے مثال آواز اور دل پذیر لحن سے نوازا تھا۔

    آج فنِ قرأت میں عالمی شہرت یافتہ قاری عبدالباسط کا یومِ‌ وفات ہے۔ انھیں ’’سفیرِ قرآن، صوتُ المکّہ، صوتُ الجنّتہ‘‘ اور ’’لحنِ طلائی‘‘ کے خطابات سے نوازا گیا تھا۔

    قاری عبدالباسط 30 نومبر 1988ء کو خالقِ حقیقی سے جاملے۔ 1970ء کی دہائی میں انھوں نے تین عالمی مقابلوں میں اوّل پوزیشن حاصل کی۔ انھوں‌ نے دنیا کے کئی ممالک میں مسلمان تنظیموں اور غیر مسلم اسکالروں کی دعوت پر روحانی اجتماعات کے دوران کلامِ پاک کی تلاوت کی اور لوگوں کو سحر زدہ کردیا۔ مسلمان ہی نہیں‌ غیر مسلم بھی ان کی قرأت سن کر وجد و سرور کی کیفیت سے دوچار ہو جاتے تھے۔ انھوں نے کئی ممالک کے سربراہان اور اہم حکومتی عہدے داروں کے سامنے قرآن کی آیات کی تلاوت کی۔

    وہ 1927ء میں جنوبی مصر کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد محمد عبدالصمد ایک دینی شخصیت تھے۔ قاری عبدالباسط اپنے دور کے مقبول ترین قاری شیخ محمد رفاض کی تلاوت سے بے حد متاثر تھے۔ وہ انھیں سنتے اور کلامِ پاک ان کی عظمت اور ان کی آواز کی شیرینی کے قائل ہوجاتے۔ انھوں نے بھی تلاوتِ قرآن کو معمول بنایا اور فنِ قرأت میں کمال حاصل کرتے چلے گئے۔ انھوں نے عہد کیا کہ وہ حفظ قرآن کے ساتھ قاری بنیں‌ گے۔

    انھوں‌ نے علومِ قرآنی اور فنِ قرأت و تجوید سیکھنا شروع کیا اور بالخصوص رمضان المبارک میں بڑی مساجد میں ان کی قرأت میں تروایح ادا کی جانے لگی۔ ان کے استاد اور سرپرست، شیخ محمد سالم نے بھی ان کی تربیت اور حوصلہ افزائی کی اور وہ مصر بھر میں مشہور ہوگئے۔

    1950ء میں قاری عبدُالباسط کی عمر صرف 23 برس تھی جب قاہرہ کی مسجدِ سیّدہ زینب میں منعقدہ ایک بڑی محفلِ قرأت میں انھوں‌ نے سورۃ غاشیہ کی تلاوت کی جس پر وہاں موجود تمام لوگ دَم بخود رہ گئے۔ فرطِ جذبات اور عالمِ سرشاری میں لوگ اپنی نشستوں سے اٹھ گئے اور ہر طرف سبحان اللہ کی صدا بلند ہونے لگی جس کے بعد قاری عبدُالباسط کی کام یابیوں اور مقبولیت کا نیا دور شروع ہوا۔

    1951ء سے ریڈیو پر ان کی قرأت نشر ہونے لگی اور اگلے سال وہ قاہرہ کی جامع مسجد امام الشافعیؒ کے قاری مقرر کردیے گئے۔ بعد میں عرب ممالک سے انھیں‌ دعوت دے کر قرأت سننے کے لیے بلایا جانے لگا۔ انھیں مسجدُ الحرام اور مسجدِ نبوی میں تلاوت کا شرف حاصل ہوا اور سعودی حکومت نے ’’صوتُ المکّہ‘‘ کا خطاب دیا۔

    عمر کے آخری حصّے میں قاری عبدُالباسط ذیابیطس اور جگر کے عوارض کے باعث کم زور ہوگئے تھے۔ اور ایک کار حادثے میں زخمی ہونے کے بعد 61 برس کی عمر میں وفات پائی۔ قاری عبدُالباسط دو مرتبہ پاکستان بھی تشریف لائے تھے اور پہلی مرتبہ کراچی میں‌ ’’عالمی محفلِ حسنِ قرأت‘‘ میں شریک ہوئے جب کہ وفات سے کچھ عرصہ قبل دوسری بار ناسازئ طبع کے باوجود بادشاہی مسجد لاہور میں ان کی قرأت سنی گئی تھی۔

  • اردو کے ممتاز شاعر اصغر گونڈوی کا یومِ وفات

    اردو کے ممتاز شاعر اصغر گونڈوی کا یومِ وفات

    آلامِ روزگار کو آساں بنا دیا
    جو غم ہوا اُسے غمِ جاناں بنا دیا

    اصغر گونڈوی نے کلاسیکی دور سے جدید عہد تک اپنی شاعری کو رنگِ تغزّل اور تصوّف سے یوں‌ بہم کیا کہ یہی ان کی انفرادیت اور وجہِ شہرت ٹھہرا۔ 30 نومبر 1936ء کو اصغر گونڈوی وفات پاگئے تھے۔ ان کے یہ دو اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    اللہ رے چشمِ یار کی معجز بیانیاں
    ہر اک کو ہے گماں کہ مخاطب ہمیں رہے

    چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موجِ حوادث سے
    اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہو جائے

    اصغر گونڈوی اردو کے اُن شعرا میں سے ایک ہیں جنھوں نے حُسن و عشق، لالہ و گُل، نسرین و نسترن، ہجر و وصال، آہ و زاری، داد و فریاد، جفا اور وفا جیسے خالص عشقیہ موضوعات کو بھی اس ڈھب سے برتا اور اپنے اشعار سے ایک مسرت افزا، نشاط انگیز فضا پیدا کی جس نے یاسیت اور آزردہ دلی کا زور گھٹایا۔

    ان کا کلام عصری شعور اور وارداتِ قلبی کا وہ امتزاج ہے جس میں صوفیانہ رنگ جھلکتا ہے اور ان کا دل کش پیرایۂ اظہار اور مسرت افزا بیان سبھی کو بھایا۔

    اصغر گونڈوی نے 1884ء میں گورکھ پور میں آنکھ کھولی۔ یہ ان کا آبائی وطن تھا، لیکن روزگار کے سلسلے میں‌ والد کے ساتھ گونڈہ منتقل ہوگئے تھے جہاں مستقل قیام رہا اور وہ اصغر گونڈوی مشہور ہوئے۔ ان کا اصل نام اصغر حسین تھا۔

    ان کی ابتدائی تعلیم و تربیت گھر پر ہوئی اور باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کرسکے۔ انھیں شروع ہی سے علم و ادب کے مطالعے کا شوق تھا اور اپنی اسی دل چسپی کے سبب شعر گوئی کی طرف متوجہ ہوئے۔ کہتے ہیں کہ ابتدا میں انھوں نے منشی جلیل اللہ وجد بلگرامی اور منشی امیرُ اللہ تسلیم سے اصلاح لی تھی۔ اصغر گونڈوی ایک رسالے “ہندوستانی” کی ادارت بھی کرتے رہے۔

    اصغر گونڈوی کا کلام شستہ اور پاکیزہ خیالات کا مجموعہ ہے، جس مین فنی نزاکتوں کے ساتھ رومان پرور جذبات اور اخلاقی مضامین پڑھنے کو ملتے ہیں۔

    اردو کے اس ممتاز شاعر کا یہ شعر بھی بہت مشہور ہے۔

    یہاں کوتاہیٔ ذوقِ عمل ہے خود گرفتاری
    جہاں بازو سمٹتے ہیں وہیں صیّاد ہوتا ہے