Tag: 30 نومبر وفات

  • بش سینئر کا آپریشن ڈیزرٹ اسٹورم اور ‘کویت کی آزادی’

    بش سینئر کا آپریشن ڈیزرٹ اسٹورم اور ‘کویت کی آزادی’

    بش سینئر کے دورِ صدارت کو اُن کی خارجہ پالیسی کے لیے یاد کیا جاتا ہے۔ وہ امریکا کے41 ویں صدر تھے۔ ان کے دور میں مشرقی یورپ میں کمیونزم دَم توڑ رہا تھا اور روسی ریاستوں کا اتحاد ٹوٹنے کے بعد امریکا دنیا کی واحد سپر پاور بن کر ابھرا۔

    جارج ہربرٹ واکر بُش جو بش سینئر مشہور ہیں، ان کی قیادت میں حکومتی پالیسیوں نے دنیا کو امریکا پر اعتماد کرنے پر آمادہ کیا۔ بش سینئر کا دورِ صدارت 1989ء سے 1993ء تک رہا۔ بعد میں ان کے بیٹے بش جونیئر بھی امریکا کے صدر بنے۔

    30 نومبر 2018ء کو 94 سال کی عمر میں وفات پانے والے بش سینئر کے دور میں‌ آپریشن ڈیزرٹ اسٹورم بھی کیا گیا تھا۔ یہ آپریشن عرب دنیا میں‌ تیل کی دولت سے مالا مال اور چھوٹے سے آزاد ملک کویت کے شہریوں کو تحفظ دینے اور وہاں پانچ ماہ سے جاری عراقی قبضہ چھڑانے کے لیے شروع کیا گیا تھا۔ عراق کے خلاف امریکا کی قیادت میں اتحادی ممالک نے یہ جنگ لڑی تھی۔

    آپریشن ڈیزرٹ اسٹورم 40 دن جاری رہا جس کے بعد عراقی فوج نے ہتھیار ڈال دیے تھے۔ اسے امریکا نے کویت کی آزادی کی جنگ کہا، لیکن اس سے قبل واشنگٹن میں عراقی قبضے کے دوران امریکا کی جانب سے اس محاذ کو کھولنے پر سیاسی تنازع جاری رہا تھا۔ عرب گروپوں میں عراق کے قبضے کو ختم کرانے پر بحث و مباحثہ ہو رہا تھا اور امریکی حملے سے چند دن قبل ہی صدام حسین نے کویت سے مشروط انخلا کا اعلان کیا تھا، لیکن صدر بش نے کانگریس سے جنگ کی منظوری لے لی اور جنگ شروع ہوگئی۔

    بش سینئر کے دور کے اس آپریشن نے عرب خطّے اور دنیا پر دور رَس اثرات مرتب کیے جب کہ دوسری جانب عظیم روس بکھرنے کو تھا اور امریکا دنیا کی قیادت کے لیے تیّار۔

    ریپبلکن پارٹی کے بش سینئر کو امریکا کا کام یاب سیاست دان اور ایک منجھا ہوا سفارت کار کہا جاتا رہا، لیکن اپنے دورِ‌ حکومت میں بالخصوص کام یاب خارجہ پالیسیوں کے باوجود انھیں 1992ء کے صدارتی انتخابات میں‌ بل کلنٹن کے ہاتھوں شکست ہوگئی تھی۔ اس کا ایک سبب بش سینئر کے دور میں ابتر داخلی معاشی صورتِ حال تھی۔

    کویت کی آزادی کی جنگ کے بعد امریکی عوام میں ان کی مقبولیت 89 فی صد کی ریکارڈ سطح تک پہنچ گئی تھی، لیکن چند سال گزرنے کے بعد کویت عراق تنازع میں امریکا کی حکمتِ عملی کو تنقید کا نشانہ بنایا جانے لگا، کیوں کہ آپریشن صرف کویت سے عراقی افواج کی بے دخلی تک محدود رکھا گیا تھا اور امریکا نے صدام حسین کو اقتدار سے ہٹانے کی کوئی کوشش نہیں کی تھی۔

    1924ء میں پیدا ہونے والے بش سینئر کا آبائی تعلق شمالی ریاست کنیٹی کٹ سے تھا۔ بعد میں ان کا خاندان ٹیکساس منتقل ہوگیا جہاں اپنی کاروباری سرگرمیوں کا آغاز کیا اور آئل کمپنی کی بنیاد رکھی۔

    ان کے والد پریسکاٹ بش 1952ء سے 1963ء تک اپنے آبائی علاقے کی نشست پر سینیٹر بھی رہے تھے۔ بش سینئر 1964ء میں ریپبلکن کے پلیٹ فارم سے سیاست میں قدم رکھنے سے قبل ٹیکساس میں تیل اور پیٹرول کے بڑے تاجر تھے۔

    بش سینئر نے 941ء میں امریکی بحری اڈّے پرل ہاربر پر جاپانی فضائیہ کے حملے کے بعد خود کو بحریہ میں رضا کار کے طور پر پیش کیا اور دوسری جنگِ عظیم میں فضائیہ کا حصّہ بنے۔ انھوں نے باربرا پیئرس سے شادی کی تھی۔

    جارج ڈبلیو بش امریکا کے صدر بننے سے قبل رونالڈ ریگن کے دور میں آٹھ سال تک نائب صدر بھی رہے۔ یوں وہ عملی سیاست اور منصب و اختیار کا وسیع تجربہ بھی رکھتے تھے۔

    1976ء میں جارج بش سینئر سینٹرل انٹیلیجنس ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز ہوئے اور ایک سال تک خدمات انجام دیں جب کہ 1971ء سے 1973ء تک وہ اقوامِ متحدہ میں امریکا کے مندوب کی حیثیت سے فرائض انجام دیتے رہے۔

  • سفیرِ قرآن اور صوتُ المکّہ کا خطاب پانے والے قاری عبدُالباسط کی برسی

    سفیرِ قرآن اور صوتُ المکّہ کا خطاب پانے والے قاری عبدُالباسط کی برسی

    علومِ قرآنی اور فنِ قرأت و تجوید میں کمال اور اس بنیاد پر عالمِ‌ اسلام میں بڑی عزّت و مرتبہ اور پذیرائی حاصل کرنے والوں میں سَر زمینِ مصر کے شیخ قاری عبدُالباسط محمد عبدالصّمد کا نام بھی شامل ہے۔ انھیں قدرت نے بے مثال آواز اور دل پذیر لحن سے نوازا تھا۔

    آج فنِ قرأت میں عالمی شہرت یافتہ قاری عبدالباسط کا یومِ‌ وفات ہے۔ انھیں ’’سفیرِ قرآن، صوتُ المکّہ، صوتُ الجنّتہ‘‘ اور ’’لحنِ طلائی‘‘ کے خطابات سے نوازا گیا تھا۔

    قاری عبدالباسط 30 نومبر 1988ء کو خالقِ حقیقی سے جاملے۔ 1970ء کی دہائی میں انھوں نے تین عالمی مقابلوں میں اوّل پوزیشن حاصل کی۔ انھوں‌ نے دنیا کے کئی ممالک میں مسلمان تنظیموں اور غیر مسلم اسکالروں کی دعوت پر روحانی اجتماعات کے دوران کلامِ پاک کی تلاوت کی اور لوگوں کو سحر زدہ کردیا۔ مسلمان ہی نہیں‌ غیر مسلم بھی ان کی قرأت سن کر وجد و سرور کی کیفیت سے دوچار ہو جاتے تھے۔ انھوں نے کئی ممالک کے سربراہان اور اہم حکومتی عہدے داروں کے سامنے قرآن کی آیات کی تلاوت کی۔

    وہ 1927ء میں جنوبی مصر کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد محمد عبدالصمد ایک دینی شخصیت تھے۔ قاری عبدالباسط اپنے دور کے مقبول ترین قاری شیخ محمد رفاض کی تلاوت سے بے حد متاثر تھے۔ وہ انھیں سنتے اور کلامِ پاک ان کی عظمت اور ان کی آواز کی شیرینی کے قائل ہوجاتے۔ انھوں نے بھی تلاوتِ قرآن کو معمول بنایا اور فنِ قرأت میں کمال حاصل کرتے چلے گئے۔ انھوں نے عہد کیا کہ وہ حفظ قرآن کے ساتھ قاری بنیں‌ گے۔

    انھوں‌ نے علومِ قرآنی اور فنِ قرأت و تجوید سیکھنا شروع کیا اور بالخصوص رمضان المبارک میں بڑی مساجد میں ان کی قرأت میں تروایح ادا کی جانے لگی۔ ان کے استاد اور سرپرست، شیخ محمد سالم نے بھی ان کی تربیت اور حوصلہ افزائی کی اور وہ مصر بھر میں مشہور ہوگئے۔

    1950ء میں قاری عبدُالباسط کی عمر صرف 23 برس تھی جب قاہرہ کی مسجدِ سیّدہ زینب میں منعقدہ ایک بڑی محفلِ قرأت میں انھوں‌ نے سورۃ غاشیہ کی تلاوت کی جس پر وہاں موجود تمام لوگ دَم بخود رہ گئے۔ فرطِ جذبات اور عالمِ سرشاری میں لوگ اپنی نشستوں سے اٹھ گئے اور ہر طرف سبحان اللہ کی صدا بلند ہونے لگی جس کے بعد قاری عبدُالباسط کی کام یابیوں اور مقبولیت کا نیا دور شروع ہوا۔

    1951ء سے ریڈیو پر ان کی قرأت نشر ہونے لگی اور اگلے سال وہ قاہرہ کی جامع مسجد امام الشافعیؒ کے قاری مقرر کردیے گئے۔ بعد میں عرب ممالک سے انھیں‌ دعوت دے کر قرأت سننے کے لیے بلایا جانے لگا۔ انھیں مسجدُ الحرام اور مسجدِ نبوی میں تلاوت کا شرف حاصل ہوا اور سعودی حکومت نے ’’صوتُ المکّہ‘‘ کا خطاب دیا۔

    عمر کے آخری حصّے میں قاری عبدُالباسط ذیابیطس اور جگر کے عوارض کے باعث کم زور ہوگئے تھے۔ اور ایک کار حادثے میں زخمی ہونے کے بعد 61 برس کی عمر میں وفات پائی۔ قاری عبدُالباسط دو مرتبہ پاکستان بھی تشریف لائے تھے اور پہلی مرتبہ کراچی میں‌ ’’عالمی محفلِ حسنِ قرأت‘‘ میں شریک ہوئے جب کہ وفات سے کچھ عرصہ قبل دوسری بار ناسازئ طبع کے باوجود بادشاہی مسجد لاہور میں ان کی قرأت سنی گئی تھی۔

  • اردو کے ممتاز شاعر اصغر گونڈوی کا یومِ وفات

    اردو کے ممتاز شاعر اصغر گونڈوی کا یومِ وفات

    آلامِ روزگار کو آساں بنا دیا
    جو غم ہوا اُسے غمِ جاناں بنا دیا

    اصغر گونڈوی نے کلاسیکی دور سے جدید عہد تک اپنی شاعری کو رنگِ تغزّل اور تصوّف سے یوں‌ بہم کیا کہ یہی ان کی انفرادیت اور وجہِ شہرت ٹھہرا۔ 30 نومبر 1936ء کو اصغر گونڈوی وفات پاگئے تھے۔ ان کے یہ دو اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    اللہ رے چشمِ یار کی معجز بیانیاں
    ہر اک کو ہے گماں کہ مخاطب ہمیں رہے

    چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موجِ حوادث سے
    اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہو جائے

    اصغر گونڈوی اردو کے اُن شعرا میں سے ایک ہیں جنھوں نے حُسن و عشق، لالہ و گُل، نسرین و نسترن، ہجر و وصال، آہ و زاری، داد و فریاد، جفا اور وفا جیسے خالص عشقیہ موضوعات کو بھی اس ڈھب سے برتا اور اپنے اشعار سے ایک مسرت افزا، نشاط انگیز فضا پیدا کی جس نے یاسیت اور آزردہ دلی کا زور گھٹایا۔

    ان کا کلام عصری شعور اور وارداتِ قلبی کا وہ امتزاج ہے جس میں صوفیانہ رنگ جھلکتا ہے اور ان کا دل کش پیرایۂ اظہار اور مسرت افزا بیان سبھی کو بھایا۔

    اصغر گونڈوی نے 1884ء میں گورکھ پور میں آنکھ کھولی۔ یہ ان کا آبائی وطن تھا، لیکن روزگار کے سلسلے میں‌ والد کے ساتھ گونڈہ منتقل ہوگئے تھے جہاں مستقل قیام رہا اور وہ اصغر گونڈوی مشہور ہوئے۔ ان کا اصل نام اصغر حسین تھا۔

    ان کی ابتدائی تعلیم و تربیت گھر پر ہوئی اور باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کرسکے۔ انھیں شروع ہی سے علم و ادب کے مطالعے کا شوق تھا اور اپنی اسی دل چسپی کے سبب شعر گوئی کی طرف متوجہ ہوئے۔ کہتے ہیں کہ ابتدا میں انھوں نے منشی جلیل اللہ وجد بلگرامی اور منشی امیرُ اللہ تسلیم سے اصلاح لی تھی۔ اصغر گونڈوی ایک رسالے “ہندوستانی” کی ادارت بھی کرتے رہے۔

    اصغر گونڈوی کا کلام شستہ اور پاکیزہ خیالات کا مجموعہ ہے، جس مین فنی نزاکتوں کے ساتھ رومان پرور جذبات اور اخلاقی مضامین پڑھنے کو ملتے ہیں۔

    اردو کے اس ممتاز شاعر کا یہ شعر بھی بہت مشہور ہے۔

    یہاں کوتاہیٔ ذوقِ عمل ہے خود گرفتاری
    جہاں بازو سمٹتے ہیں وہیں صیّاد ہوتا ہے

  • مقبول ترین ڈرامہ نگار اور انشا پرداز آسکر وائلڈ کی برسی

    مقبول ترین ڈرامہ نگار اور انشا پرداز آسکر وائلڈ کی برسی

    آسکر وائلڈ کی ادبی تحریریں اسلوبِ بیان اور ندرتِ ادا کے لحاظ سے بے حد دل کش تسلیم کی گئی ہیں۔ اس کی یہ خصوصیت اس کے ڈرامے میں بھی بدرجۂ اتم موجود ہے۔ وہ شاعر بھی تھا، لیکن ڈرامہ نویسی میں اس نے بڑا نام و مقام پیدا کیا اور مقبول ہوا۔

    آسکر وائلڈ کا تعلق آئرلینڈ سے تھا۔ اس کے والد سَر ولیم وائلڈ مشہور ڈاکٹر تھے جب کہ والدہ جین وائلڈن ڈبلن کی مشہور شاعرہ اور ادیب تھیں۔ 1854ء میں دنیا میں آنکھ کھولنے والے آسکر وائلڈ کی پہلی معلّمہ اس کی والدہ تھی جنھوں نے اس کی بنیادی تعلیم و تربیت کے ساتھ اسے باذوق اور کتاب دوست بھی بنایا۔

    آسکر وائلڈ کی ادب میں دل چسپی نے اسے کالج تک پہنچتے ہوئے شاعر بنا دیا تھا۔ جب اسے زمانۂ طالبِ علمی میں اپنی ایک نظم پر انعام ملا تو اس کا خاصا شہرہ ہوا۔

    1878ء میں آسکر وائلڈ کی ملاقات ادب کے پروفیسر رسکن سے ہوئی جنھوں نے اس کی تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔1881ء میں آسکر وائلڈ کی چند نظموں کا ایک مجموعہ شایع ہوا اور 1891ء تک وہ ڈرامہ نویسی کی طرف مائل ہوچکا تھا۔ اس نے رزمیہ اور بزمیہ ڈرامے لکھے جنھیں بہت پسند کیا گیا۔

    آسکر وائلڈ نے اپنے زمانے کی مختلف ادبی اصناف میں طبع آزمائی کی جن میں ناول، مضمون نگاری اور ڈرامہ نویسی شامل ہیں۔ اس نے آرٹ اور تخلیقی ادب کے حوالے سے لیکچرز بھی دیے اور امریکا و کینیڈا کا دورہ کیا جہاں اسے ایک نثر نگار کی حیثیت سے اپنے افکار و خیالات کا اظہار کرنے کا موقع ملا۔

    1890ء کی دہائی کے آغاز میں آسکر وائلڈ لندن کا سب سے مشہور ڈراما نگار بن چکا تھا۔ اسے جرمن اور فرانسیسی زبانوں‌ پر بھی عبور حاصل تھا۔

    اس کی جدّتِ طبع اور شگفتہ نگاری خصوصاً مغالطہ آمیز مزاح کے علاوہ چھوٹے چھوٹے خوب صورت جملے اور شگفتہ و برجستہ فقرے اس کی انفرادیت ہیں۔ نقّادوں کے مطابق انشا پردازی میں اس کا مخصوص رنگ ایسا ہے جس کا تتبع آسان نہیں۔ اس نے اپنے سحر نگار قلم سے قارئین اور ناقدین دونوں کو متاثر کیا۔

    برطانوی ہند میں آسکر وائلڈ کی تخلیقات کا اپنے وقت کے بلند پایہ ادیبوں اور تخلیقی شعور کے حامل ماہر مترجمین نے اردو ترجمہ کیا جس نے یہاں قارئین کو اس کی تخلیقات سے لطف اندوز ہونے کا موقع دیا اور اس کے افکار و اسلوب سے متعارف کروایا۔

    آسکر وائلڈ کی زندگی کے آخری ایّام بڑی مصیبت اور مشکل حالات کا سامنا کرتے ہوئے گزرے جس میں‌ اکثر اسے پیٹ بھر کھانا بھی نصیب نہیں ہوتا تھا۔ ایک بیماری نے اس کے دماغ اور اس کے نتیجے میں‌ ریڑھ کی ہڈی کو متاثر کیا تھا، جس سے وہ اذّیت میں‌ مبتلا ہوگیا اور اپنے بیٹے کے گھر پڑا زندگی کے دن گنتا رہا۔ 1900ء میں آج ہی کے دن 46 سال کی عمر میں‌ آسکر وائلڈ کی زندگی کا سفر تمام ہوگیا۔