Tag: 31 اکتوبر وفات

  • اردو غزل اور ولی دکنی

    اردو غزل اور ولی دکنی

    اردو میں میں ولی دکنی کو غزل کا اوّلین شاعر تسلیم کیا گیا ہے جنھوں نے شاعری میں‌ فارسی غلبہ یا ایرانی تقلید کے برعکس اپنے کلام سے مقبولیت حاصل کی۔ وہ ریختہ کے اوّلین شاعر کہلائے۔ آج ولی دکنی کا یومِ وفات ہے۔

    ولی کو میر تقی میر سے پہلے اردو غزل میں وہی مرتبہ حاصل تھا جو بعد میں اور آج تک میر کو حاصل ہے۔ ولی نے شعری اظہار کو نہ صرف یہ کہ ایک نئی زبان دی بلکہ ایک نیا شعری اظہار بھی دیا جو ہر طرح کے تصنع سے آزاد تھا۔

    ولی نے ہندوستان کے شعرا کو اردو غزل میں اظہار کا نیا سانچہ دیا اور شاعری کو فارسی کے اثر سے آزاد کیا۔ انھوں نے اردو غزل کی تعمیر و ترقی اور مقبولیت کی وہ روایت قائم کی جس میں شعرا فارسی شعری روایت کو ترک کرنے پر مجبور ہوگئے۔

    ولی کے نام اور وطن کے بارے میں اختلاف ہے۔ تاہم اہلِ دکن کی تحقیق کے مطابق ان کا وطن اورنگ آباد دکن تھا اور اسی خیال کو تقویت حاصل ہے۔ ولی کے اشعار سے ان کا دکنی ہونا ثابت ہے۔

    وہ قطب شاہی عہد میں 1667ء میں اورنگ آباد میں پیدا ہوئے۔ اس کے بعد حصولِ علم کے لیے احمد آباد آگئے۔ ان کی عمر کا بیشتر حصہ احمد آباد میں گزرا۔

    اردو غزل کو عام کرنے کا سہرا ان کے سر ہی جاتا ہے۔ انھوں نے مثنوی، قصیدہ گوئی اور ر باعی کی صورت میں بھی شاعری کی۔ ان کے ہم عصر شعرائے کرام میں کسی اور شاعر کو اتنی مقبولیت نصیب نہ ہوئی۔ ولی کا کلام نہ صرف ہندوستان بلکہ یورپ کی کئی لائبریریوں کی زینت بنا۔ ناقدین کے مطابق ولی دکنی کے ہاں فلسفہ کی گہرائی اور علمی مضامین اور اخلاقی باتیں نہ ہونے کے باوجود ان کی شاعرانہ اہمیت مسلمہ ہے۔

    ولی کے حالاتِ زندگی کی طرح ان کی تاریخِ وفات میں بھی اختلاف ہے تاہم زیادہ تر محققین کا خیال ہے کہ ولی 31 اکتوبر 1708ء کے لگ بھگ فوت ہوئے تھے۔

  • جیمز بانڈ اسٹار سَر شان کونری کا تذکرہ

    جیمز بانڈ اسٹار سَر شان کونری کا تذکرہ

    جیمز بانڈ کے کردار نے سَر شان کونری کو شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچا دیا تھا۔ اس مشہورِ زمانہ جاسوس کے روپ میں انھوں نے بڑی اسکرین پر سات فلموں میں اداکاری کی۔

    انھیں ملکہ برطانیہ نے 2000ء میں "سَر” کے خطاب سے نوازا۔ شان کونری 90 سال کی عمر میں پچھلے سال وفات پا گئے تھے۔

    اسکاٹ لینڈ سے تعلق رکھنے والے اس اداکار کا کریئر دہائیوں پر محیط ہے۔ انھیں بہترین اداکار مانا جاتا ہے اور متعدد فلمی ایوارڈز حاصل کرنے والے شان کونری نے ایک آسکر، دو بافٹا ایوارڈّز اور تین گولڈن گلوبز بھی اپنے نام کیے۔

    انھیں 1988ء میں فلم دی انٹچ ایبلز میں ایک آئرش پولیس افسر کا کردار نبھانے پر بہترین معاون ادکار کا ایوارڈ ملا تھا۔ سر شان کونری کی دیگر فلموں میں دی ہنٹ فار ریڈ اکتوبر، انڈیانا جونز اور لاسٹ کروسیڈ اور دی راک شامل ہیں۔

    شان کونری 1930ء کو اسکاٹش شہر ایڈنبرا کی نواحی بستی فاؤنٹین برج میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے غربت اور تنگ دستی دیکھی اور نوعمری میں‌ رنگ ریزی، دودھ فروشی اور لائف گارڈ جیسے معمولی کام اور نوکریاں کیں۔

    نوجوانی میں انھیں اداکار بننے کا شوق ہوا اور اس میں کام یاب بھی ہوگئے۔ تاہم وہ برطانوی اور امریکی فلمی صنعت تک محدود رہے اور بہترین اداکاری سے پہچان بنائی۔

    شان کونری کو فلمی افق پر شہرت سن 1962ء کی فلم ڈاکٹر نو سے ملی۔ اس کے بعد وہ جیمز بانڈ سیریز کی فلموں میں نظر آئے اور بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔

    وہ زندہ شخصیات میں اسکاٹ لینڈ کا سب سے معتبر اور مقبول فرد قرار پائے تھے۔ انھیں امریکن فلم انسٹیٹیوٹ کا ‘لائف ٹائم اچیومنٹ‘ اعزاز بھی دیا گیا تھا۔

  • نوجوانی میں اسلام قبول کرنے والی مریم جمیلہ کے سفرِ زیست پر ایک نظر

    نوجوانی میں اسلام قبول کرنے والی مریم جمیلہ کے سفرِ زیست پر ایک نظر

    عرب معاشرت اور اسلام میں نوعمری ہی میں کشش محسوس کرنے والی مرگریٹ پیگی مارکوس کو اسرائیل کے فلسطین پر قبضے اور وہاں کے مسلمانوں کو ان کے علاقوں سے بے دخل کرنے سے شدید تکلیف پہنچی تھی جب کہ وہ خود ایک یہودی جوڑے کی اولاد تھیں۔

    ان کی ہم دردیاں فلسطینیوں کے ساتھ تھیں۔ معصوم و نہتے مسلمانوں کی اپنے آبائی علاقوں اور گھروں سے بے دخلی اور یہودی بستیوں کی تعمیر نے انھیں از حد رنجیدہ و ملول کیا۔

    اسی زمانے میں انھیں اسلام سے لگاؤ پیدا ہوا اور ایک روز انھوں نے اسلام قبول کرلیا۔ ان کا نام مریم جمیلہ رکھا گیا۔

    انھوں نے 23 مئی 1934ء کو امریکا میں آنکھ کھولی۔ یہودی گھرانے کی اس لڑکی نے جب نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو مشہور نو مسلم مستشرق محمد اسد کی روڈ ٹو مکہ اور اسلام ایٹ کراس روڈز اور محمد مارما ڈیوک پکتھال کا کیا ہوا قرآن مجید کا انگریزی ترجمہ پڑھنے کو مل گیا اور تب جیسے انھوں نے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کیا۔

    1961ء میں انھوں نے لاہور میں مولانا مودودی کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا تھا۔ وہ اسلام کے حوالے سے دو درجن سے زائد کتب کی مصنفہ بھی تھیں۔

    انھوں نے 2012ء میں آج ہی کے دن وفات پائی۔

    قبولَ اسلام کے بعد مریم جمیلہ کو اپنے گھر اور امریکا میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور وہ امریکی شہریت ترک کرکے پاکستان منتقل ہوگئیں اور یہیں‌ زندگی کا سفر تمام کیا۔

    ان کی کتابوں میں از ویسٹرن سویلائزیشن یونیورسل، اسلام ان تھیوری اینڈ پریکٹس، اسلام اینڈ اورینٹل ازم، اسلام اینڈ موڈرن ازم اور اسلام ورسز دی ویسٹ سرفہرست ہیں۔

  • عظیم موسیقار ایس ڈی برمن کا تذکرہ

    عظیم موسیقار ایس ڈی برمن کا تذکرہ

    ہندوستانی فلمی صنعت کو اپنی لافانی موسیقی سے مالا مال کرنے والے سچن دیو برمن پاک و ہند میں ایس ڈی برمن کے نام سے مشہور ہوئے دنیائے موسیقی کا یہ باکمال 31 اکتوبر 1975ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگیا تھا۔

    فلمی نغمات کو اپنی بے مثال دھنوں سے لافانی بنا دینے والے ایس ڈی برمن نے نہ صرف کئی فلموں کو کام یاب بنایا بلکہ کئی شاعروں اور گلوکاروں کی مقبولیت کا سبب بھی انہی کی ترتیب دی ہوئی دھنیں بنیں۔

    ان کے لازوال گیت آج بھی اپنی مقبولیت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ وہ بھارتی فلمی صنعت کا اہم ستون سمجھے جاتے تھے۔ ایس ڈی برمن کا تعلق بنگال سے تھا۔ وہ یکم اکتوبر 1906ء کو پیدا ہوئے۔ وہ تری پورہ کے شاہی خاندان کے رکن تھے۔ انھوں نے 1937ء میں بنگالی فلموں سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا اور مجموعی طور پر 100 ہندی اور بنگالی فلموں کی موسیقی ترتیب دی۔

    ایس ڈی برمن ایک ورسٹائل موسیقار تھے۔ انھوں نے بنگالی لوک موسیقی میں کئی گیت بھی گائے۔ ان کی موسیقی پر لتا منگیشکر، محمد رفیع، گیتا دت، مناڈے، کشور کمار، آشا بھوسلے، شمشاد بیگم، مکیش اور طلعت محمود جیسے فن کاروں نے اپنی آواز کا جادو جگایا اور خوب شہرت حاصل کی۔

    میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد کومیلا کے وکٹوریہ کالج سے 1924ء میں بی اے کیا اور اس کے بعد 1925ء سے 1930ء تک موسیقار کے سی ڈے سے تربیت حاصل کرتے رہے۔ انھوں نے بعد میں بشما دیو، خلیفہ بادل خان اور استاد علاءُ الدین خان سے بھی راہ نمائی حاصل کی۔ ایس ڈی برمن نے 1920ء کی دہائی کے آخر میں کلکتہ ریڈیو اسٹیشن پر گلوکار کی حیثیت سے کام کیا اور ان کا ریکارڈ 1932ء میں ریلیز ہوا۔ بعد کی دہائی میں وہ گلوکار کی حیثیت سے پہچانے گئے اور بنگالی گانے گائے۔

    40 ء کی دہائی میں ایس ڈی برمن نے بنگالی فلموں کے لیے میوزک دیا اور مستقل طور پر ممبئی چلے گئے اور موسیقی پر توجہ دینے لگے لیکن حقیقی معنوں میں 1947ء میں ان کی شہرت کا وہ سفر شروع ہوا جب فلم ’’دو بھائی‘‘ کا یہ گیت ہر زبان پر تھا، ’’میرا سندر سپنا بیت گیا‘‘۔ اس کے بعد انھوں نے فلم ’’شبنم‘‘ کی موسیقی ترتیب دی۔ ان کے چند یادگار گیتوں میں کھویا کھویا چاند ہے، دیوانہ مستانہ ہوا دل، آج پھر جینے کی تمنا ہے شامل ہیں-

    ایس ڈی برمن کے بیٹے آر ڈی برمن کو بھی دنیائے موسیقی میں بے پناہ شہرت اور مقبولیت ملی- ایس ڈی برمن 69 برس کی عمر میں ممبئی میں چل بسے تھے۔

  • یومِ وفات: زبیدہ آغا کا شمار پاکستان میں تجریری مصوّری کے بانیوں میں ہوتا ہے

    یومِ وفات: زبیدہ آغا کا شمار پاکستان میں تجریری مصوّری کے بانیوں میں ہوتا ہے

    1997ء میں آج ہی کے دن پاکستان کی معروف مصوّرہ زبیدہ آغا لاہور میں وفات پاگئیں۔ وہ پاکستان میں تجریدی مصوّری کے بانیوں میں شمار کی جاتی ہیں۔

    ان کا تعلق فیصل آباد سے تھا۔ وہ 1922 میں پیدا ہوئیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد ملک میں سب سے پہلے جس آرٹسٹ کے فن پاروں کی نمائش منعقد ہوئی، وہ زبیدہ آغا تھیں۔

    لاہور کے کالج سے گریجویشن مکمل کرنے کے بعد انھوں نے بھابیش چندر سانیل جیسے باکمال ہندوستانی پینٹر اور مجسمہ ساز سے فنِ مصوّری سیکھنا شروع کیا۔ یہ سلسلہ زیادہ عرصہ جاری نہ رہ سکا اور 1944ء سے 1946ء تک وہ اس عظیم آرٹسٹ کے ساتھ کام کرسکیں۔ شہرۂ آفاق مصوّر پکاسو کے فن پارے زبیدہ آغا کو اپنی جانب کھینچتے اور وہ برٹش دور کے ایک اٹلی کے جنگی قیدی فن کار میریو پرلنگیرے سے بھی متاثر تھیں۔ یہ بھی پکاسو کا شاگرد تھا۔

    تقسیم سے قبل ہی لاہور میں انھوں نے ایک گروپ نمائش میں اپنی چار پینٹنگز اور دو مجسموں کی نمائش کی جن کی بڑی شہرت ہوئی۔ قیام پاکستان کے بعد انھیں بیرون ملک تربیت حاصل کرنے اور فن پاروں کی نمائش کرنے کا بھی موقع ملا۔

    زبیدہ آغا نے اپنے استاد اور ان باکمالوں کے فن پاروں کو دیکھ کر اور اپنے مشاہدے سے جو کچھ سیکھا اسے کینوس پر نہایت کمال سے منتقل کرتی رہیں اور جلد اپنی پہچان بنا لی۔ سوسائٹی آف فائن آرٹس نے انھیں 1946 میں ماڈرن پینٹنگ پر پہلے انعام سے نوازا۔ 1950 میں وہ سینٹ مارٹن اسکول آف آرٹ، لندن سے منسلک ہو گئیں۔ تاہم یہاں سال ہی گزارا اور پیرس کے ایک آرٹ اسکول کے لیے خدمات انجام دینے لگیں۔ 1961 میں انھیں راولپنڈی میں آرٹ گیلری کا ایگزیکٹو ڈائریکٹر کا عہدہ دے دیا گیا۔

    زبیدہ آغا کو ملک کے ابتدائی دور کے فائن آرٹسٹوں میں سے ایک مانا جاتا ہے جن کا کام ہر سطح پر قابلِ توجہ ٹھیرا۔ یہی نہیں بلکہ وہ ملک میں ماڈرن آرٹ کے بانیوں میں سے ایک ہیں۔ ابتدائی دور ہی میں ان کے کام نے فائن آرٹسٹوں اور سنجیدہ شائقین کی توجہ حاصل کر لی تھی اور پھر ایک وقت آیا جب زبیدہ آغا سے ان کے معاصرین اور غیر ملکی آرٹسٹ بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور ان کے کمالِ فن کو سراہا۔

    ان کے فن کی مہارت یا انفرادیت رنگوں کا بامعنی اور قابلِ توجہ استعمال تھا۔ اس حوالے انھیں ملک میں آرٹ کی دنیا کی کلرسٹ پینٹر کہا جاتا ہے جس سے نہ صرف شائقین پر گہرا تاثر قائم ہوتا بلکہ ان کی یہ مہارت ان کے فن پاروں کو بامعنٰی بناتی تھی۔

    2002ء میں لاہور میں زبیدہ آغا کے فن پاروں کی نمائش منعقد کی گئی تھی جس میں بڑی تعداد میں شائقین فن نے ان کے آرٹ اور اس فن میں مہارت کو سراہا۔ 2006ء میں ان کے فن کا اعتراف کرتے ہوئے یادگاری ٹکٹ کا اجرا بھی کیا گیا۔

    زبیدہ آغا کے فن پارے ملک کی مختلف آرٹ گیلریز میں رکھے گئے ہیں جو اس میدان میں نوواردوں کی راہ نمائی کرتے ہیں اور انھیں اساتذہ کے کام سے روشناس کرواتے ہیں۔

    حکومت پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔