Tag: 31 جنوری وفات

  • ممتاز ادیب، محقق اور مترجم ظ انصاری کا تذکرہ

    ممتاز ادیب، محقق اور مترجم ظ انصاری کا تذکرہ

    اردو کے نام وَر ادیب، نقّاد، محقّق اور مترجم ظ انصاری 31 جنوری 1991ء کو وفات پاگئے تھے۔ وہ اردو، عربی، فارسی، انگریزی اور روسی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ انھوں نے اردو ادب کو کئی یادگار کتابیں دیں جو ان کی قابلیت و صلاحیت اور علم و ادب سے ان کے گہرے لگاؤ کا ثبوت ہیں۔

    ظ انصاری کا تعلق ہندوستان سے تھا۔ ان کا مکمل نام ظلِّ حسنین نقوی تھا۔ وہ 6 فروری 1925ء میں سہارن پور میں پیدا ہوئے۔ حصولِ تعلیم کے بعد جب دہلی آئے تو وہاں ایک روزنامے سے منسلک ہوگئے۔ اس زمانے کے ایک ہفتہ وار اخبار کے مدیر سید سبطِ حسن تھے، یہ کمیونسٹ پارٹی کا اخبار تھا۔ ظ انصاری اس کی مجلسِ ادارت میں شامل ہوئے۔ اس وقت ترقی پسندی کا بھی بڑا شور تھا اور کئی لکھاریوں کی طرح وہ گرفتار بھی ہوئے۔ وہ کمیونزم کے نظری پیرو کار تھے، لیکن بعد میں مایوس ہوگئے تھے۔

    صحافت کو پیشہ بنایا اور قلم تھاما تو علمی و ادبی مضامین، کالم اور مختلف اصنافِ ادب کو اپنی فکر اور فن سے مالا مال کیا، اخبار اور مختلف رسائل سے منسلک رہے اور اپنی علمی استعداد بڑھاتے رہے۔ انھوں نے انگریزی اور روسی زبان پر عبور حاصل کیا۔ روس کے دارالترجمہ میں کام بھی کیا اور کئی روسی ادیبوں کی کہانیوں اور ناولوں کو اردو کے قالب میں ڈھالا۔ انھوں نے مولانا آزاد، غالب، میر، خسرو، اقبال اور انیس پر اپنی تحقیق کو سپردِ‌قلم کیا۔

    انھوں نے کارل مارکس، اینجلس کی منتخب تصانیف بھی اردو میں شایع کیں جب کہ دستووسکی، چیخوف، اور پشکن کے ناول ترجمہ کیے اور جدید روسی شاعری کو بھی اردو میں منظوم کیا۔ ان کی متعدد تصانیف میں سے اہم اور چند قابلِ ذکر کتب میں ’’مثنوی کا سفر نامہ‘‘، ’’کانٹوں کی زبان‘‘، ’’کہی ان کہی‘‘، ’’کتاب شناسی‘‘، ’’اقبال کی تلاش‘‘، ’’غالب شناسی‘‘، ’’کمیونزم اور مذہب‘‘، ’’ورق ورق‘‘ شامل ہیں۔

  • ممتاز شاعر، نقّاد اور ماہرِ تعلیم انجم اعظمی کا یومِ وفات

    ممتاز شاعر، نقّاد اور ماہرِ تعلیم انجم اعظمی کا یومِ وفات

    اردو کے ممتاز شاعر، ادیب، نقّاد اور ماہرِ تعلیم پروفیسر انجم اعظمی 31 جنوری 1990ء کو وفات پاگئے تھے۔ ان کا تعلق ہندوستان کے ضلع اعظم گڑھ سے تھا جہاں وہ 2 جنوری 1931ء کو پیدا ہوئے تھے۔

    پروفیسر انجم اعظمی کا اصل نام مشتاق احمد عثمانی تھا۔ انھوں نے گورکھ پور، الٰہ آباد اور علی گڑھ سے تعلیم حاصل کی اور قیامِ پاکستان کے بعد 1952ء میں کراچی چلے آئے۔ یہاں وہ محکمہ تعلیم سے وابستہ ہوئے۔ کراچی کی علمی و ادبی فضا میں وہ اپنی شعر گوئی اور نقد و نظر کی وجہ سے پہچان بنانے میں‌ کام یاب رہے۔ ان کے شعری مجموعوں میں لب و رخسار، لہو کے چراغ، چہرہ اور زیرِ آسماں کے نام شامل ہیں۔ پروفیسر انجم اعظمی کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ادب اور حقیقت اور شاعری کی زبان بھی شایع ہوا۔

    پروفیسر انجم اعظمی نے اپنے مجموعہ کلام چہرہ کے لیے 1975ء میں ادب کا آدم جی انعام حاصل کیا تھا۔

    انھیں‌ کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • سدا بہار فلمی دھنوں کے خالق ماسٹر عبداللہ کی برسی

    سدا بہار فلمی دھنوں کے خالق ماسٹر عبداللہ کی برسی

    31 جنوری 1994ء کو پاکستان کے نام ور فلمی موسیقار ماسٹر عبداللہ لاہور میں وفات پاگئے تھے۔ آج اس لیجنڈ موسیقار کی برسی ہے۔ ماسٹر عبداللہ نے انور کمال پاشا کی فلم سورج مکھی سے فلمی دنیا میں‌ قدم رکھا تھا۔ ان کی دھنوں میں خالص راگ راگنیوں کا رچائو ہوتا تھا جس نے انھیں‌ فلمی دنیا میں ایک صاحبِ طرز موسیقار کے طور پر شہرت اور مقام دیا۔

    ماسٹر عبداللہ کی ترتیب دی ہوئی موسیقی میں‌ فلم ٹیکسی ڈرائیور، بابل، نظام، ضدی، شریف بدمعاش، بدل گیا انسان، اک سی چور، ہرفن مولا، دلیر خان، لاڈو، میدان، کمانڈو، وارث، شہنشاہ، پیار دی نشانی، رنگی، اکھ لڑی بدو بدی، کشمکش، رستم، ہیرا پتّھر، دل ماں دا، قسمت اور ضدّی کے نام سرِفہرست ہیں۔

    فلم انڈسٹری کو کئی سدا بہار دھنیں دینے والے لیجنڈ موسیقار ماسٹر عبداللہ نے اردو سے زیادہ پنجابی دھنیں فلموں کے لیے کام کیا۔ انھوں نے اپنی موسیقی سے شائقین ہی نہیں‌ معروف گلوکاروں‌ کو بھی متاثر کیا اور وہ ان کی تخلیق کردہ دھنوں‌ پر گیت ریکارڈ کروانے کے خواہش مند نظر آتے تھے۔

    فلم واہ بھئی واہ، لاڈو، ملنگی، کمانڈر، زندگی، رنگو جٹ اور دیگر فلموں کی شان دار کام یابی میں ماسٹر عبداللہ کی موسیقی کا بڑا دخل تھا۔

  • مشہور فلمی اداکارہ اور مقبول گلوکارہ ثریّا کی برسی

    مشہور فلمی اداکارہ اور مقبول گلوکارہ ثریّا کی برسی

    آج مشہور فلمی اداکارہ اور گلوکارہ ثریّا کی برسی ہے۔ 15 جون 1929ء کو گوجرانوالہ (پاکستان) میں پیدا ہونے والی ثریّا کا پورا نام ثریّا جمال شیخ تھا۔ وہ اپنے وقت کی مقبول اداکارہ اور پلے بیک سنگر تھیں۔ ثریّا نے 31 جنوری 2004ء کو ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں‌ موند لیں۔ وہ ممبئی میں آسودۂ خاک ہیں۔

    ثریّا نے 1937ء میں بننے والی ایک فلم میں پہلی بار چائلڈ ایکٹریس کے طور پر کیمرے کا سامنا کیا تھا۔ 1941ء میں ہدایت کار ننو بھائی وکیل نے اس نوجوان اداکارہ کو اپنی فلم تاج محل میں ممتاز محل کا مرکزی کردار نبھانے کے لیے منتخب کیا اور یوں‌ وہ بڑے پردے پر سب کی توجہ کا مرکز بنی۔ ثریّا کی دیگر فلموں میں پھول، انمول گھڑی، تدبیر، عمر خیام، پروانہ، پیار کی جیت، بڑی بہن، دل لگی، وارث، مرزا غالب اور رستم و سہراب شامل ہیں۔

    اداکارہ ثریّا نے ایک دہائی تک ہندی فلم نگری پر راج کیا۔ ان کا شمار اس وقت کی کام یاب ترین اداکاراؤں‌ میں‌ میں کیا جاتا ہے۔ ثریّا نے کُل 68 فلموں‌ میں‌ اداکاری کی اور تین سو سے زائد گانے اپنی آواز میں‌ ریکارڈ کروائے۔

    ثریّا کو موسیقی اور گائیکی کا بھی شوق تھا۔ ان کی آواز اچّھی تھی اور اسی صلاحیت نے انھیں‌ اپنی ہم عصر اداکارائوں میں ممتاز بھی کیا۔ وہ اپنی فلموں کے نغمات اپنی آواز میں ریکارڈ کرواتی تھیں۔

    ثریّا اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھیں اور تقسیم کے بعد ان کے خاندان کے تمام لوگ اور قریبی عزیز پاکستان چلے آئے، لیکن ثریّا تمام عمر ممبئی کے ایک اپارٹمنٹ میں تنہا رہیں۔ انھوں نے شادی نہیں‌ کی تھی۔ ان کے پڑوسی ان کی دیکھ بھال کرتے تھے۔

    ثریّا نے اداکاری اور گلوکاری دونوں‌ شعبوں میں‌ اپنی صلاحیتوں کو آزمایا اور خود کو منوانے میں کام یاب رہیں۔ کہتے ہیں وہ اپنے زمانے کی سب سے زیادہ معاوضہ لینے والی اداکارہ تھیں۔

  • سیماب اکبر آبادی: اک آئینہ تھا ٹوٹ گیا دیکھ بھال میں

    سیماب اکبر آبادی: اک آئینہ تھا ٹوٹ گیا دیکھ بھال میں

    آج اردو کے قادرُ الکلام شاعر سیماب اکبر آبادی کا یومِ وفات ہے۔ وہ 31 جنوری1951ء کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ سیماب اکبر آبادی کراچی میں قائدِاعظم کے مزار کے نزدیک آسودہ خاک ہیں۔

    اکبر آباد، آگرہ میں‌ 5 جون 1880ء کو پیدا ہونے والے سیماب کا اصل نام عاشق حسین صدیقی تھا۔ شعر گوئی کا آغاز کیا تو اپنے وقت کے نام وَر اور استاد شاعر داغ دہلوی کے شاگرد ہوئے۔ مشقِ سخن کے بعد ایک وقت آیا جب خود سیماب کے ڈھائی ہزار تلامذہ ہندوستان بھر میں پھیلے ہوئے تھے۔

    وہ کچھ عرصہ ریلوے میں ملازم رہے، لیکن زبان و ادب کی خدمت کے خیال سے مستعفی ہوکر آگرہ میں ’’قصرُ الادب‘‘ کی بنیاد ڈالی۔ ایک ہفتہ وار پرچہ ’’تاج‘‘ اور ایک ماہ نامہ پرچہ ’’شاعر‘‘ نکالا اور شعروادب کو فروغ دیا۔

    علّامہ سیماب اکبر آبادی کو اردو، فارسی اور ہندی زبان کے قادرُ الکلام شعرا میں شمار کیا جاتا ہے جن کی تصانیف کی تعداد 300 کے لگ بھگ ہے۔ انتقال سے کچھ عرصہ قبل انھوں نے قرآنِ پاک کا منظوم ترجمہ وحئ منظوم کے نام سے مکمل کیا تھا۔

    ان کا شمار بیسویں صدی کے اوائل کے ان شعرا میں ہوتا ہے جنھوں نے مختلف اصنافِ سخن مثلاً غزل، نظم، قصیدہ، رباعی، مثنوی، مرثیہ، سلام، نوحہ اور حمد و نعت میں فکری و فنّی التزام کے ساتھ کام یاب اور بامقصد تجربے کیے اور مقبولیت حاصل کی۔ سیماب اکبر آبادی کے کئی اشعار زبان زدِ عام ہوئے اور ان کا کلام اپنے زمانے کے مشہور و معروف گلوکاروں نے گایا۔

    سیماب اکبر آبادی کی شاعری ان کے مخصوص اور منفرد لب و لہجہ کے سبب اپنے ہم عصر شعرا کے مقابلے میں‌ خاصی مقبول ہوئی اور وہ ہر خاص و عام میں‌ پہچانے جاتے تھے۔ نیرنگیِ خیال، شستہ و پاکیزہ، پُراثر اور زبان و بیان کی نزاکتوں اور لطافتوں سے آراستہ ان کا کلام آج بھی نہایت ذوق و شوق سے پڑھا اور سنا جاتا ہے۔

    ان کی تصانیف میں ’’کلیمِ عجم‘‘، ’’سدرۃُ المنتہیٰ‘‘، ’’لوحِ محفوظ‘‘، ’’ورائے سدرہ‘‘، ’’کارِ امروز‘‘، ’’ساز و آہنگ‘‘، ’’الہامِ منظوم‘‘(مثنوی مولانا روم کا منظوم ترجمہ) ’’وحئ منظوم‘‘(قرآن مجید کا منظوم ترجمہ) ’’عالمِ آشوب‘‘ (رباعیات)، ’’تغیّرِ غم‘‘(سلام و مراثی)، ’’شعر انقلاب‘(انقلابی نظمیں) شامل ہیں۔

    سیمابؔ کے اشعار موجودہ دور اور آج کے شاعرانہ مزاج کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اس حوالے سے انہی کا ایک شعر دیکھیے۔

    کہانی میری رودادِ جہاں معلوم ہوتی ہے
    جو سنتا ہے اسی کی داستاں معلوم ہوتی ہے