Tag: 36th death anniversary

  • آج تاریخ شہیدوں کےلہوکاحساب مانگ رہی ہے، آصف زرداری

    آج تاریخ شہیدوں کےلہوکاحساب مانگ رہی ہے، آصف زرداری

    نوڈیرو: سابق صدرآصف زرداری نے کہا ہے کہ سعودی عرب اورخلیج کےملکوں میں لاکھوں پاکستانی کام کرتےہیں،وہاں سیاسی تبدیلی پاکستان کےمفادمیں نہیں۔

    ذوالفقار علی بھٹو کی برسی پر جلسے سے خطاب کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ ملک کوشہیدوں کےلہوکی ضرورت ہے،آج تاریخ شہیدوں کےلہوکاحساب مانگ رہی ہے،ہمارے بچوں کوماضی کی آگ سے آج بھی خطرہ ہے، بھٹو نے لکھا تھا کہ میرے جانے کے بعد ہمالیہ روئیں گے۔

    یمن کے معاملے پر سابق صدر کا کہنا تھا کہ  پارلیمنٹ میں بات کی جائے ، اسلامی دنیا میں ہر ملک آخر کیوں پریشان ہے،انہوں نے کہا کہ بیس لاکھ پاکستانی سعودی عرب اوردس لاکھ گلف میں کام کرتےہیں،ان ملکوں کی سلامتی پاکستان کی اقتصادی ضرورت ہے، کسی کوسعودی عرب کی سلامتی خطرےمیں ڈالنےکی اجازت نہیں دے سکتے،حرمین شریفین کی ہم سب عزت اورخدمت کرتے ہیں، ہرمسلمان حرم شریف کے لیے اپنی جان دے سکتا ہے۔

    آصف زرداری نےکہا کہ مسلمانوں کولڑانےوالوں کےاپنےعزائم ہیں،انہیں اپنےہتھیاربھی بیچنا ہیں،انہوں نے حکومت کومشورہ دیا کہ مدد اتنی ہی کریں جتنا بوجھ اٹھاسکیں۔

    انہوں نے وزیراعظم نوازشریف سےشکوہ کیا کہ وہ چھوٹے صوبوں سےزیادتی بھی کرتے ہیں اورمشورہ بھی نہیں کرتے، سندھ میں اٹھارہ گھنٹےلوڈشیڈنگ کرائی جارہی ہے۔

    آصف زردری نے عمران خان کومشورہ دیا کہ وہ پارلیمنٹ میں آئیں،الیکشن کمیشن کومالی لحاظ سےخودمختاربنانےکے لیے اپوزیشن کاہاتھ بٹائیں۔

    اس سے قبل پیپلزپارٹی کےرہنمااعتزازاحسن نے کہا کہ وزیراعظم صرف ترکی ہوکر آگئے،امت مسلمہ کو بھٹو جیسے رہنما کی ضرورت ہے جوتمام مسلم ملکوں کومتحد کرکے یمن کامسئلہ حل کرتا۔

    تقریب میں وزیراعلٰی سندھ قائم علی شاہ نےعلامہ اقبال کامسلمانوں کےلیےکہا گیا شعرجیالوں کےلیےپڑھ دیا، انہوں نے کہا آصف زرداری جب مشورہ دیتےہیں توسب انہیں سلام کرتےہیں۔

  • ذوالفقار علی بھٹو کی 36ویں برسی آج منائی جارہی ہے

    ذوالفقار علی بھٹو کی 36ویں برسی آج منائی جارہی ہے

    پیپلزپارٹی کے بانی اور سابق وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو کی برسی آج منائی جارہی ہے۔

     ذوالفقار علی بھٹو 5جنوری 1928کو لاڑکانہ میں پیدا ہوئے، کون جانتا تھا کہ وہ بین الاقوامی قد آور سیاسی شخصیت کے روپ میں اُبھر کر سامنے آئیں گے، ان کے والد سر شاہ نواز بھٹو بھی سیاست کے میدان سے وابستہ رہے تھے۔

    ذوالفقار علی بھٹو نے ابتدائی تعلیم کے بعد اُنیس سو پچاس میں برکلے یونیورسٹی کیلیفورنیا سے سیاسیات کی ڈگری حاصل کی اور اُنیس سو باون میں آکسفورڈ یونیورسٹی سے اصولِ قانون میں ماسٹرز کیا، تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہوں نے کراچی میں وکالت کا آغاز کیا اور ایس ایم لاء کالج میں بین الاقوامی قانون پڑھانے لگے۔

    ذوالفقار علی بھٹو نے سیاست کا آغاز اُنیس سو اٹھاون میں کیا اور پاکستان کے پہلے آمر فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان کے دورِ حکومت میں وزیر تجارت، وزیر اقلیتی امور، وزیر صنعت وقدرتی وسائل اور وزیر خارجہ کے قلمدان پر فائض رہے، ستمبر 1965ءمیں انہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان کا موقف بڑے بھرپور انداز سے پیش کیا۔

    جنوری 1966ءمیں جب صدر ایوب خان نے اعلان تاشقند پر دستخط کیے تو ذوالفقار علی بھٹو بڑے دلبرداشتہ ہوئے اور اسی برس وہ حکومت سے علیحدہ ہوگئے، اُنہوں نے پاکستان کی خارجہ پالیسی میں مسئلہ کشمیر کو مرکزی حیثیت دی۔

    قائد عوام نے دسمبر اُنیس سو سڑسٹھ میں پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی، جو بہت جلد پاکستان کی مقبول ترین سیاسی جماعت بن گئی۔ عوامی جلسوں میں عوام کے لہجے میں خطاب اُنہی کا خاصا تھا۔

    اُنیس سو ستر کے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی نے مغربی پاکستان جبکہ شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں نمایاں کامیابی حاصل کی، اقتدار کے حصول کی اس لڑائی میں نتیجہ ملک کے دوٹکڑوں کی صورت میں سامنے آیا۔سقوط ڈھاکہ کے بعد وہ 1971ءمیں پاکستان کے صدر اور پھر 1973ءمیں پاکستان کے وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہوئے۔

    ملک کے دولخت ہونے کے بعد شہید ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور اقتدار میں بے پناہ کارنامے انجام دیئے، اُنہوں نے اُنیس سو تہتتر میں ملک کو پہلا متفقہ آئین دیا، یہی نہیں اُنکے دور میں ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس کو آج بھی اُنکی بڑی کامیابی قرار دیا جاتا ہے۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام شروع کرنے کا سہرا بھی ذوالفقار علی بھٹو کے سر جاتا ہے۔

    پیپلزپارٹی کا دورِ حکومت ختم ہونے کے بعد اُنیس سو ستتر کے عام انتخابات میں دھاندلی کے سبب ملک میں حالات کشیدہ ہوئے، جس کے نتیجے میں پانچ جولائی اُنیس سو ستتر کو جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء نافذ کردیا۔

    ملک میں ہونیوالے مظاہروں کے نتیجے میں قائدِ عوام کو دوبار نظر بند کرکے رہا کیا گیا تاہم بعدازاں ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کے ایک مقدمہ میں گرفتار کرلیا گیا اور 18 مارچ 1977ءکو انہیں اس قتل کے الزام میں موت کی سزا سنادی گئی۔

    ذوالفقار علی بھٹو نے اس سزا کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی، جس میں تین ججوں نے انہیں بری کرنے کا اور تین ججوں نے انہیں سزائے موت دینے کا فیصلہ کیا۔

     پاکستانی سیاست کے اُفق کے اس چمکتے ستارے کو راولپنڈی ڈسٹرکٹ جیل میں 4اپریل اُنیس سو اُناسی کو پھانسی دیدی گئی لیکن پاکستان کی سیاست آج بھی اُن کی شخصیت کے گرد گھومتی ہے۔