Tag: 3D-Print

  • تھری ڈی پرنٹ شدہ پھول جو انسانوں کی بقا کے لیے ضروری ہیں

    تھری ڈی پرنٹ شدہ پھول جو انسانوں کی بقا کے لیے ضروری ہیں

    شہد کی مکھیاں اور دیگر کیڑے مکوڑے اس دنیا میں ہمارے وجود کی ضمانت ہیں، اگر یہ نہ رہیں تو ہم بھی نہیں رہیں گے۔

    ماہرین کے مطابق ہماری غذائی اشیا کا ایک تہائی حصہ شہد کی مکھیوں کا مرہون منت ہے۔ دراصل شہد کی مکھیاں پودوں کے پولی نیٹس (ننھے ذرات جو پودوں کی افزائش نسل کے لیے ضروری ہوتے ہیں) کو پودے کے نر اور مادہ حصوں میں منتقل کرتی ہیں۔

    اس عمل کے باعث ہی پودوں کی افزائش ہوتی ہے اور وہ بڑھ کر پھول اور پھر پھل یا سبزی بنتے ہیں اور ہمیں غذا فراہم کرتے ہیں۔ تاہم گزشتہ دو دہائیوں میں ان مکھیوں کی آبادی میں تیزی سے کمی واقع ہوئی ہے جس نے ماہرین کو تشوش میں مبتلا کردیا ہے۔

    اسی مسئلے کے حل میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے نیدر لینڈز کی ایک طالبہ نے تھری ڈی پرنٹ شدہ پھولوں کو شہروں کے اندر اصل پھولوں کے ساتھ اور درختوں پر نصب کرنے کا کام شروع کیا ہے۔

    یہ پھول بارش کے پانی کو جمع کرتے ہیں اور اپنے اندر پہلے سے موجود چینی کے ساتھ اسے مکس کر کے مکھیوں کی غذائی ضرورت پورا کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق یہ مکھیوں کے لیے اس لیے ضروری ہے کیونکہ شہد کی مکھیاں پھولوں کا رس جمع کرنے کے لیے دور دور نکل جاتی ہیں اور بعض دفعہ وہ تھکن کا شکار ہو کر واپس اپنے چھتے تک نہیں پہنچ پاتیں۔

    ایسے میں ایمرجنسی فوڈ فلاورز کا نام دیے جانے والے ان پھولوں میں موجود چینی، ان مکھیوں کی توانائی بحال کر کے واپس انہیں ان کے گھر تک پہنچنے میں مدد دے سکتی ہے۔

    ایسی ہی ایک تجویز کچھ عرصہ قبل معروف محقق اور ماہر ماحولیات سر ڈیوڈ ایٹنبرو نے بھی دی تھی جب انہوں نے کہا کہ گھر کے لان یا کھلی جگہ میں ایک چمچے میں ایک قطرہ پانی اور چینی کی تھوڑی سی مقدار ملا کر ان مکھیوں کے لیے رکھ دی جائے، تاہم بعد ازاں ان کی یہ فیس بک پوسٹ جعلی ثابت ہوئی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ 5 برسوں میں شہد کی مکھیوں کی ایک تہائی آبادی ختم ہوچکی ہے۔ اگر شہد کی مکھیاں نہ رہیں تو ہم انسان صرف 4 برس مزید زندہ رہ سکیں گے۔

  • تھری ڈی پرنٹر کے ذریعے انسانی دل تیار

    تھری ڈی پرنٹر کے ذریعے انسانی دل تیار

    تھری ڈی پرنٹنگ ہر سائنسی شعبے میں انقلاب لانے والی ٹیکنالوجی ہے جسے مختلف مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے، اب محققین نے تھری ڈی پرنٹر کی مدد سے ایسا پہلا دل تیار کر لیا ہے جس کے لیے انسانی جسم کی بافتوں کو استعمال کیا گیا ہے۔

    اپنی نوعیت کا یہ منفرد تجربہ اسرائیلی ماہرین نے کیا ہے۔ تل ابیب یونیورسٹی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس نئے دل کی تیاری انسانوں میں دوران خون کے امرض کے خلاف جنگ میں ایک اہم پیش رفت ثابت ہوگی۔

    ماہرین کے مطابق یہ دل ان طبی خطرات اور پیچیدگیوں کو بھی کم کر سکے گا جو کسی مریض کے جسم میں کسی دوسرے انسان کے دل کی پیوند کاری سے جنم لیتے ہیں۔

    خرگوش کے دل کے جتنا یہ دل پہلی بار پوری کامیابی کے ساتھ خلیوں، رگوں اور دل کا خون وصول کرنے والے خانے ’وینٹریکل‘ سے بنایا گیا ہے۔ ماضی میں دل کی تھری ڈی ساخت بنائی گئی تھی مگریہ خلیوں یا خون کی رگوں کے ساتھ نہیں بنایا گیا تھا۔

    ماہرین کا خیال ہے کہ مستقبل میں دنیا کے بہترین اسپتالوں میں اعضا کے پرنٹرز دستیاب ہوں گے اور یہ معمول کے طریقہ کار کے مطابق ٹرانسپلانٹ کیے جائیں گے۔

  • دنیا کا پہلا تھری ڈی پرنٹنگ سے تیار شدہ پل

    دنیا کا پہلا تھری ڈی پرنٹنگ سے تیار شدہ پل

    آپ نے تھری ڈی پرنٹنگ کے ذریعے بے شمار اشیا کی پرنٹنگ ہوتے دیکھی ہوگی، تاہم حال ہی میں یورپی ملک نیدر لینڈز میں تھری ڈی پرنٹنگ کی مدد سے کنکریٹ کا پل تیار کرلیا گیا ہے جو دنیا کا پہلا تھری ڈی پرنٹڈ پل ہے۔

    ڈچ حکام کا کہنا ہے کہ یہ پل فی الحال صرف سائیکل سواروں کے لیے ہے۔

    پل کو بنانے والے ٹیکنالوجی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس پل کی ’پرنٹنگ‘ میں 3 ماہ کا عرصہ لگا ہے۔ اس میں مختلف اجزا کی 800 تہیں شامل ہیں جبکہ پرنٹنگ کے بعد بھی اس کی مضبوطی پر کام کیا گیا ہے۔

    مزید پڑھیں: اپنا تھری ڈی ہمزاد تیار کریں

    ان کے مطابق اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے ایک عام پل بنانے کے مقابلے میں تھری ڈی پل پرنٹ کرتے ہوئے کنکریٹ کا استعمال کم ہوتا ہے۔

    ندی کے اوپر بنایا جانے والا 26 فٹ طویل یہ پل تکمیل کے بعد ٹیسٹ کیا گیا جس کے بعد علم ہوا کہ یہ 2 ٹن کا وزن اٹھا سکتا ہے اور اس پر سے 40 ٹرک روز گزر سکتے ہیں، تاہم حفاظت کے پیش نظر اسے فی الحال صرف سائیکل اور موٹر سائیکل سواروں کے لیے مختص کیا گیا ہے۔

    یاد رہے کہ اس سے قبل اسپین کے دارالحکومت میڈرڈ میں بھی ایک تھری ڈی پرنٹنگ سے تیار شدہ پل نصب کیا گیا تھا تاہم وہ صرف پیدل چلنے والوں کے لیے مخصوص تھا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔