Tag: 4 اکتوبر وفات

  • عبدالسّلام ندوی: انشا و ادب میں ممتاز ایک اسلامی مفکّر اور عالم فاضل شخصیت

    عبدالسّلام ندوی: انشا و ادب میں ممتاز ایک اسلامی مفکّر اور عالم فاضل شخصیت

    ان کی طبیعت شاعرانہ اور تخیل پرست تھی، ہلکے پھلکے مضامین کو وہ ادبی حسن و لطافت سے پورا کر دیتے تھے، قلم اتنا پختہ اور منجھا ہوا تھا کہ قلم برداشتہ لکھتے تھے۔

    یہ عبدالسّلام ندوی کا تذکرہ ہے جو دارُ العلوم ندوۃُ العلما، لکھنؤ کے فارغ التحصیل اور اوّلین فاضل شخصیات میں سے ایک تھے۔

    ہندوستان میں انشا و ادب میں ممتاز اس مصنّف، شاعر اور مؤرخ کا شمار اپنے وقت کی بلند پایہ علمی و ادبی شخصیت اور اسلامی مفکّر علاّمہ شبلی نعمانی کے چہیتے شاگردوں میں ہوتا تھا۔

    عبد السلام ندوی پہلے مصنّف ہیں جنھوں نے باقاعدہ تصنیف کا کام سیکھا، انھوں نے طلبائے ندوہ میں سب سے پہلے مضمون نویسی پر انعام پایا، سب سے پہلے اپنے استاد علامہ شبلی کا طرزِ تحریر اختیار کیا اور سب سے زیادہ کام یاب رہے۔

    اس نادرِ روزگار شخصیت کا آبائی علاقہ اعظم گڑھ کا موضع علاءُ الدّین پٹی تھا جہاں 16 فروری 1883ء کو شیخ دین محمد کے گھر آنکھ کھولی۔ والد فارسی، ہندی اور قدیم ہندوانہ طریقہ حساب کے بڑے ماہر تھے، اسلامیات اور دینیات کے بھی عالم تھے، شرحِ جامی تک عربی تعلیم حاصل کی تھی۔ ان کا تعلق متوسط درجے کے زمین دار، کاشت کار اور تاجر خاندان سے تھا۔

    عبدُ السّلام ندوی نے ابتدائی تعلیم گاؤں کے مکتب میں حاصل کی، اس کے بعد عربی کی تعلیم کے لیے کان پور، آگرہ اور غازی پور کا سفر کیا۔ اور 1906ء میں دارُ العلوم ندوۃُ العلما میں درجہ پنجم میں داخلہ لے لیا۔ 1910ء میں تعلیم سے فراغت کے بعد وہیں عربی ادب میں استاد مقرر ہو گئے۔

    عبد السلام ندوی کو شعر وادب کا ذوق اور لکھنے پڑھنے کا شوق بچپن سے تھا۔ دارُ العلوم میں علّامہ شبلی نعمانی نے ان کی اس صلاحیت کو بھانپ لیا تھا اور تصنیف و تالیف کے حوالے سے ان کی بہترین تربیت کی تھی۔ ان کا پہلا مضمون اسی زمانے میں علّامہ شبلی کی نظر سے گزرا اور انھوں نے اسے "الندوی” رسالہ میں تعریفی نوٹ کے ساتھ شائع کردیا۔

    یہ عبدالسّلام ندوی کی بڑی حوصلہ افزائی تھی اور شبلی جیسے استاد اور عالم فاضل کی تعریف اور توجہ ان کے نزدیک بڑی عزّت اور انعام کی بات تھی۔ یوں ان کا تصنیف و تالیف میں شوق بڑھا۔ بعد کو "الندوہ” کے معاون مدیر اور پھر مدیر بنائے گئے۔ علّامہ شبلی نے جب سیرتُ النّبی کی تالیف کا کام شروع کیا تو مولانا عبد السّلام کو اپنا معاون بنایا تھا۔

    1912ء میں وہ مولانا ابو الکلام آزاد کے ساتھ "الہلال” کلکتہ سے وابستہ ہو گئے اور ڈیڑھ دو سال تک الہلال میں کام کیا۔ 1914ء میں الہلال کی بندش اور اسی سن میں علامہ شبلی کی وفات کے بعد انھوں‌ نے اپنے مرحوم استاد کے خوابوں کی تکمیل کے لیے دارُ المصنّفین شبلی اکیڈمی جاکر وہاں سید سلیمان ندوی اور مسعود علی ندوی کے ساتھ اس کی تعمیر و ترقی میں حصّہ لیا۔ ان کا شمار اس کے مؤسسین اور بانیان میں ہوتا ہے۔

    مولانا عبدُ السّلام کو کئی جہتوں کے سبب اس دور میں اہمیت حاصل رہی ہے اور ان کے کام کو لائقِ تحسین جانا گیا ہے۔

    مولانا عبدُ السّلام ندوی نے مختلف موضوعات پر سیکڑوں مضامین لکھے جب کہ ان کی مستقل تصنیفات ایک درجن سے زائد ہیں جن میں اسوۂ صحابہ اور اسوۂ صحابیات 1922ء، حکمائے اسلام (دو جلدیں) 1956ء، اقبال کامل 1929ء، امام رازی 1953ء، اسلامی قانون فوجداری 1950ء، شعر العرب و دیگر شامل ہیں۔

    ان کا انتقال 1955ء میں آج ہی کے دن ہوا تھا۔ عبدالسّلام ندوی اپنے استاد علّامہ شبلی مرحوم کے سرہانے مدفون ہیں۔

  • رضیہ بٹ کا تذکرہ جنھوں نے اپنے ناولوں میں پاکستانی عورت کے فرائض و ذمہ داریوں کو خاص اہمیت دی

    رضیہ بٹ کا تذکرہ جنھوں نے اپنے ناولوں میں پاکستانی عورت کے فرائض و ذمہ داریوں کو خاص اہمیت دی

    رضیہ بٹ کی رومانوی اور گھریلو موضوعات پر مبنی کہانیاں اس زمانے میں بہت مقبول ہوئیں جب تقریباً ہر گھر میں عورتیں بہت شوق سے ادبی جرائد، مختلف رسائل اور ڈائجسٹ پڑھا کرتی تھیں۔

    مصنّفہ کی کہانیوں کا مرکزی کردار بھی یہی عورت اور اس کی گھریلو زندگی تھی جسے انھوں نے اپنے ناولوں کے رومانوی کرداروں کے ذریعے بڑی خوبی سے پیش کیا۔

    رضیہ بٹ نے 1940ء کے عشرے میں لکھنا شروع کیا تھا۔ انھوں نے تقسیمِ ہند کے چشم دید واقعات کو بھی اپنے ناولوں میں شامل کیا ہے۔ ان کے ناولوں کی کُل تعداد 53 ہے۔

    ’بانو‘ وہ ناول تھا جو قیامِ‌ پاکستان کے بعد شایع ہوا اور اس نے مقبولیت کے سارے ریکارڈ توڑ دیے۔ اس ناول کی ڈرامائی تشکیل کے بعد اسے ٹیلی ویژن پر بھی پیش کیا گیا۔

    انھوں نے پاکستانی معاشرے میں عورت کے کردار کو بہت اہمیت دی۔ اس کی مثال ان کے ناول نائلہ، صاعقہ، انیلہ، شبو، بانو، ثمینہ، ناجیہ، سبین، رابی اور بینا ہیں جن کا مرکز عورت کا کردار ہے۔ 60 کی دہائی میں مغربی پاکستان کی پہلی رنگین فلم نائلہ پیش کی گئی جو انہی کے ناول پر مبنی تھی۔ اس فلم نے زبردست کام یابی سمیٹی اور رضیہ بٹ کے ناول انیلہ اور شبو پر بھی فلمیں بنائی گئیں۔ ٹیلی ویژن کے لیے بھی ان کے ناولوں کی ڈرامائی تشکیل کی گئی۔

    پاکستان کی یہ مشہور ناول نگار اور کہانی نویس 89 برس کی عمر میں 4 اکتوبر 2012ء کو وفات پاگئی تھیں۔ آج ان کی برسی ہے۔

    رضیہ بٹ کی ابتدائی زندگی کے اوراق الٹیں تو معلوم ہوگا کہ ان کا تعلق کشمیر کے ایک علمی و ادبی گھرانے سے تھا۔ وہ 1924ء کو راولپنڈی میں پیدا ہوئیں۔ ان کا اصل نام رضیہ نیاز بٹ تھا۔ ان کا زیادہ تر بچپن پشاور میں گزارا۔ چوں کہ انھیں شروع ہی سے علمی و ادبی ماحول میسر آیا تھا، تو مطالعے کا شوق بھی رہا جس نے انھیں بھی لکھنے لکھانے پر اکسایا۔ گھر کے ماحول اور مطالعے کے شوق نے انھیں تخلیقی صلاحیتوں کو اُجاگر کرنے کا موقع دیا اور اسکول کے زمانے میں ہی انھوں نے اردو کے مضمون میں اپنے معیاری مضامین اور تحریروں کی وجہ سے اساتذہ کی توجہ حاصل کرلی۔

    اساتذہ کی تعریفوں کے ساتھ ان کے والد کو بھی احساس ہوا کہ ان کی بیٹی زرخیز اور تخلیقی ذہن کی حامل ہے اور انھوں نے رضیہ بٹ کی بہت حوصلہ افزائی اور راہ نمائی۔ یوں ان کی اوّلین تحریر ایک ادبی جریدے تک پہنچی اور شائع ہوئی اور ان کا ادبی سفر شروع ہو گیا۔

    1946ء میں رضیہ بٹ کا پہلا ناول ’’نائلہ‘‘ شائع ہوا۔ اسی سال ان کی شادی بھی ہوگئی، لیکن انھوں نے لکھنا ترک نہیں کیا۔ انھوں نے ناول نگاری کے علاوہ 350 سے زائد کہانیاں اور ریڈیو پلے بھی لکھے۔

    رضیہ بٹ نے اپنے ناولوں میں عورت کے کردار اور اس کے فرائض و ذمہ داریوں کو خاص اہمیت دی اور ان سے متعلق موضوعات اور ایسے مسائل کو اجاگر کیا جن پر افادی مباحث اور تبصرے سامنے آئے۔ انھیں خواتین میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی ناول نگار کا درجہ حاصل ہے۔

  • یومِ وفات: استاد امراؤ بندو خان گائیکی اور سارنگی نوازی میں یکساں مہارت رکھتے تھے

    یومِ وفات: استاد امراؤ بندو خان گائیکی اور سارنگی نوازی میں یکساں مہارت رکھتے تھے

    استاد امراؤ بندو خان نے اپنے والد کی طرح موسیقی کے ابتدائی اسباق اور تربیت اپنے ماموں اُستاد چاند خان سے لی تھی۔ یہ اسباق کلاسیکی گائیکی اور سارنگی نوازی دونوں کے تھے۔

    اس طرح استاد امراؤ بندو خان کو ان خوش نصیبوں میں سے ایک کہا جاسکتا ہے جو گائیکی اور سارنگی نوازی دونوں میں مہارت رکھتے تھے۔

    استاد امراؤ بندو خان کی پیدائش 1915ء کی تھی اور 4 اکتوبر 1979ء ان کا یومَ وفات ہے وہ برصغیر پاک و ہند کے نامور گائیک اور سارنگی نواز کے طور پر مشہور ہوئے۔ ان کے والد ہندوستان کے نام ور کلاسیکی گائیک اور سارنگی نواز استاد بندو خان تھے جو بین الاقوامی شہرت کے حامل تھے۔

    امراؤ بندو خان بھی موسیقی اور آواز، راگ راگنیوں اور سازوں کے شیدائی نکلے۔ ان کی سارنگی نوازی میں اپنے والد کی جھلک نظر آتی تو گائیکی میں استاد چاند خان کی۔

    وہ آل انڈیا ریڈیو کے مُستند گائیک تھے، لیکن 1958ء میں پاکستان چلے آئے اور یہاں ریڈیو پاکستان کراچی میں میوزک ڈائریکٹر مقرر ہو گئے۔

    استاد امراؤ بندو خان 1958ء سے لے کر اپنی وفات 1979ء تک ریڈیو پاکستان کراچی میں بطور موسیقار، کلاسیکی گائیک اور سارنگی نواز وابستہ رہے۔ انھیں حکومتِ پاکستان نے 1981ء میں بعد از مرگ تمغا حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

  • پاکستان فلم انڈسٹری کے صفِ اوّل کے گلوکار مسعود رانا کا تذکرہ

    پاکستان فلم انڈسٹری کے صفِ اوّل کے گلوکار مسعود رانا کا تذکرہ

    پاکستان کی فلمی صنعت سے وابستہ ہوکر اپنی مدھر آواز کا جادو جگانے والے مسعود رانا 2005ء میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    اس عظیم گلوکار کا فنی سفر تین عشروں پر محیط ہے جس میں انھوں نے اردو اور پنجابی فلموں کے لیے گیت گائے۔ ایسے گیت جن کی مقبولیت آج بھی برقرار ہے اور مسعود رانا کی آواز بھی سماعتوں میں محفوظ ہے۔

    گلوکار مسعود رانا 9 جون 1938ء کو سندھ کے شہر میرپورخاص میں پیدا ہوئے۔ ان کے فلمی کیریئر کا آغاز 1962ء میں بننے والی فلم انقلاب سے ہوا۔ انھوں نے بہت جلد اردو اور پنجابی کے نام وَر گلوکاروں کے درمیان اپنی پہچان بنا لی اور انڈسٹری میں ان کی مصروفیت بڑھتی چلی گئی۔

    مسعود رانا کو پاکستان فلم انڈسٹری کا مکمل اور ورسٹائل گلوکار کہا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اپنے وقت کے بڑے بڑے فلم ساز ضرور اپنی فلم کے لیے ان سے رابطہ کرتے تھے۔

    مسعود رانا نے اپنے فنی کیریئر میں 700 سے زائد گانے ریکارڈ کرائے اور ساتھی گلوکاروں کے ساتھ ان کے دو گانے بھی بہت مقبول ہوئے۔ انھوں نے بڑے اور نام ور گلوکاروں کے ساتھ اپنی آواز کا جادو جگایا اور اپنی انفرادیت برقرار رکھی۔ مسعود رانا نے چند پاکستانی فلموں میں اداکاری بھی کی۔

    ان کے مشہور اردو گانوں میں فلم آئینہ کا گانا ’تم ہی ہو محبوب میرے، میں کیوں نہ تم سے پیار کروں‘ فلم بدنام کا گانا ’کوئی ساتھ دے کہ نہ ساتھ دے یہ سفر اکیلے ہی کاٹ لے‘ فلم چاند اور چاندنی کا گانا ’تیری یاد آگئی غم خوشی میں ڈھل گئے‘ اور دیگر مقبول گانے شامل ہیں۔

    انھوں‌ نے آئینہ، دھڑکن، مجاہد، نائلہ، کون کسی کا، بھیّا، سنگ دل، پاک دامن، احساس، دامن اور چنگاری، میرا ماہی، مرزا جٹ، دھی رانی اور کئی فلموں‌ کے لیے گیت گائے۔

    مسعود رانا کا شمار ان گلوکاروں‌ میں‌ ہوتا ہے جنھیں خاص طور پر ہائی پِچ کے گيت ريکارڈ کرانے کے لیے موزوں سمجھا جاتا تھا۔ رومانوی گیت ہی نہیں طربیہ دھنوں اور غمگین شاعری‌ کو اپنی دل گداز آواز دینے والے مسعود رانا کو ان کی اسی خوبی نے اپنے دور کے دیگر گلوکاروں میں‌ ممتاز کیا۔