Tag: 4 جنوری وفات

  • البرٹ کامیو: "موت کی‌ خوشی” کا خالق جس نے کار حادثے میں‌ موت کا ذائقہ چکھا!

    البرٹ کامیو: "موت کی‌ خوشی” کا خالق جس نے کار حادثے میں‌ موت کا ذائقہ چکھا!

    البرٹ کامیو نے 1913ء میں الجزائر میں‌ آنکھ کھولی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب وہاں فرانسیسی قابض تھے اور طویل جدوجہد اور قربانیوں کے بعد یہاں کے عوام نے آزادی حاصل کی تھی۔

    کامیو شمالی افریقہ میں‌ پلا بڑھا اور پھر فرانس چلا گیا جہاں جرمنی کے قبضے کے بعد وہ خاصا متحرک رہا اور ایک اخبار کا مدیر بن گیا۔ اس کی مادری زبان فرانسیسی تھی۔ اسی زبان میں اس نے ناول نگاری سے صحافت تک اپنا تخلیقی سفر بھی طے کیا اور ایک فلسفی کی حیثیت سے بھی شہرت پائی۔ اس نے ناولوں کے ساتھ متعدد مضامین لکھے اور کتابیں‌ تصنیف کیں۔ اسے 1957ء میں‌ ادب کا نوبل انعام دیا گیا تھا۔

    البرٹ کامیو فرانسیسی نژاد اور ہسپانوی والدین کی اولاد تھا۔ اس نے غربت اور تنگ دستی دیکھی اور کم عمری میں اپنے والد کو کھو دیا۔ اسے مختلف کام کر کے گزر بسر کرنا پڑی۔

    ’’اجنبی‘‘ اس کا پہلا ناول تھا جس کی اشاعت نے اسے دنیا بھر میں شہرت دی۔ یہ ایک ایسے بیٹے کی داستان تھی جسے اچانک اپنی ماں کے مر جانے کی خبر ملتی ہے۔ وہ اس خبر کو سننے کے بعد سے اپنی ماں کی تدفین تک تمام معاملات سے جذباتی طور پر قطعی لاتعلق رہتا ہے۔

    کامیو کے اس ناول کو دو عالمی جنگوں کے فوراََ بعد یورپ میں پھیلی انسانی زندگی، معاشرتی رشتوں اور ریاستی معاملات پر لوگوں کے بے تعلق ہوجانے کا مؤثر ترین اظہار ٹھہرایا گیا۔ وہ ایک ایسے ناول نگار کے طور پر دنیا میں‌ مشہور ہوا جس نے فلسفے کو نہایت خوبی سے اپنی کہانیوں میں‌ پیش کیا اور اسے مؤثر و قابلِ‌ قبول بنایا۔ اس نے الجیریا میں‌ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے دوران ٹی بی جیسے مرض سے بھی مقابلہ کیا۔ اس وقت یہ مرض خطرناک اور جان لیوا تصوّر کیا جاتا تھا اور لوگ ایسے مریضوں‌ سے دور رہتے تھے۔ غربت اور ان حالات نے اسے فلسفے کے زیرِ اثر رشتوں اور تعلقات کو کھوجنے پر آمادہ کیا اور اس نے اپنے تخلیقی شعور سے کام لے کر ان مسائل کو اجاگر کیا۔

    ’’متھ آف سی فس‘‘ میں کامیو نے لایعنیت کا فلسفہ پیش کیا۔ ناول کی صورت میں اس فلسفے کی اطلاقی شکل ’’اجنبی ‘‘ میں بھی نظر آتی ہے۔ کامیو کا ناول ’’طاعون‘‘ بھی دنیا بھر میں سراہا گیا۔ اس کے ڈرامے اور ناولوں کے ساتھ فلسفے پر مبنی تصانیف نے علمی اور ادبی حلقوں‌ کو بہت متاثر کیا۔

    فرانس کے اس فلسفی اور ناول نگار نے 4 جنوری 1960ء کو ایک حادثے میں‌ موت کا ذائقہ چکھا تھا۔

  • فتح علی خان: کلاسیکل سنگیت کا ایک انمول رتن

    فتح علی خان: کلاسیکل سنگیت کا ایک انمول رتن

    آج کلاسیکی موسیقی اور طرزِ گائیکی کے لیے مشہور پٹیالہ گھرانے کے استاد بڑے فتح علی خان کی برسی ہے۔ پاکستان کے اس عظیم گلوکار کو کلاسیکی فنِ‌ گائیکی کا بادشاہ کہا جاتا ہے جنھوں نے نوجوانی ہی میں‌ ہندوستان بھر میں‌ شہرت اور پذیرائی حاصل کرلی تھی۔

    فتح علی خان نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم اپنے والد استاد اختر حسین سے حاصل کی تھی۔ انھوں نے تینوں بیٹوں جن میں فتح علی، امانت علی اور حامد علی کو اس فن میں ان کی بھرپور تربیت اور راہ نمائی کی اور جب آل بنگال موسیقی کانفرنس کلکتہ میں منعقد ہوئی تو فتح علی اور امانت علی کی جوڑی سامنے آئی۔ اس وقت فتح علی کی عمر 17 اور امانت علی کی عمر 14 سال تھی۔ ان بھائیوں‌ کا خوب چرچا ہوا۔ لمبی تان لگانا استاد فتح علی خان کا طرّۂ امتیاز تھا۔

    استاد فتح علی خاں 1935ء میں ہندوستان کی ریاست پٹیالہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد باکمال گائیک تھے جنھوں نے اپنے بیٹوں کو بھی اس فن میں‌ طاق کیا۔ ان بھائیوں کی شہرت انگریز حکام تک بھی پہنچی اور ہندوستان بھر میں‌ قدر دانو‌ں نے انھیں‌ بڑی پذیرائی دی۔

    استاد فتح علی خان اور ان کے بھائی استاد امانت علی خان کی جوڑی نے لڑکپن میں ہی مہاراجہ پٹیالہ کے سامنے بھی فن کا مظاہره کیا اور اپنے زمانے کے نامی گرامی اساتذہ کے سامنے بھی گائیکی کے جوہر دکھائے۔

    تقسیمِ ہند کے بعد دونوں بھائی پاکستان آ گئے اور یہاں پاکستان کے کلاسیکی موسیقاروں میں انھیں‌ سب سے ممتاز اور باکمال جوڑی کہا گیا۔ یہاں فتح علی خان ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہے اور ٹیلی وژن پر بھی پرفارمنس دی۔

    استاد بڑے فتح علی خان کا شمار خیال گائیکی کے ان سرخیل گلوکاروں میں ہوتا تھا جنھیں ٹھمری، دادرا، غزل، راگ درباری اور پیچیدہ سُر گانے میں ملکہ حاصل تھا۔ پیار نہیں ہے سُر سے جس کو وہ مورکھ انسان نہیں، دل میں کسی کی یاد چھپائے ایک زمانہ بیت گیا، نین سے نین ملائے رکھنے دو سمیت ستّر سے زائد فلموں میں گیتوں کو انھوں نے اپنی آواز دی۔ فتح علی خان بے حد شفیق اور سادہ مزاج انسان تھے۔ انکساری ان کا بڑا وصف تھا۔ انھیں‌ کئی اعزازات سے نوازا گیا اور بیرونِ ملک بھی ان کی گائیکی کا چرچا ہوا۔

  • ہندوستان کی آزادی کے متوالے مولانا محمد علی جوہر کی برسی

    ہندوستان کی آزادی کے متوالے مولانا محمد علی جوہر کی برسی

    آج مولانا محمد علی جوہر کا یومِ وفات ہے۔ وہ برصغیر کے مسلمانوں کے بے لوث خدمت گار، تحریکِ خلاف کے متوالے اور جدوجہدِ آزدی کے راہ نما تھے۔

    4 جنوری 1931ء کو وفات پانے والے مولانا محمد علی جوہر کا تعلق رام پور سے تھا۔ وہ 10 دسمبر 1878ء کو پیدا ہوئے تھے۔ 1898ء میں گریجویشن اور اوکسفرڈ سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد وطن واپس لوٹے جہاں سیاسی اور سماجی میدان میں تبدیلیاں اور مختلف تحاریک کا زور تھا۔ اس وقت انھیں محسوس ہوا کہ قلم کی طاقت اور اخبار کے زور پر ہندوستان کی آزادی کی جنگ لڑنا ہو گی اور تب انھوں نے صحافت کا آغاز کیا۔ ان کے انگریزی اخبار کامریڈ کو کو ہندوستان بھر میں شہرت ملی۔

    اسی زمانے میں آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا تو مولانا محمد علی جوہر اس سے وابستہ ہوگئے اور عملی سیاست شروع کی۔

    مولانا کی قابلیت اور ان کے فہم و تدبر نے انھیں اس تنظیم کا دستور مرتب کرنے کا موقع بھی دیا۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد مولانا محمد علی جوہر نے اپنے بڑے بھائی مولانا شوکت علی کے ساتھ اس وقت زور پکڑنے والی تحریکِ خلافت اور تحریکِ ترک موالات میں بڑا فعال کردار ادا کیا۔ مولانا جوہر کی والدہ اماں‌ بی کے نام سے مشہور تھیں۔ انھوں‌ نے ہندوستان میں‌ آزادی کی جدوجہد میں‌ مسلم لیگ کے لیے جلسے اور اس پلیٹ فارم پر خواتین کو اکٹھا کرنے میں‌ اہم کردار ادا کیا اور اپنے بیٹوں‌ کو بھی اسلام اور پاکستان کے نام پر مر مٹنے کا درس دیا۔

    تحریکِ خلافت کے دوران مولانا جوہر پر بغاوت کا مقدمہ بھی چلایا گیا۔ بظاہر تحریک خلافت ناکام رہی، لیکن اس تحریک کے برصغیر اور یہاں کے مسلمانوں کے مستقبل پر ضرور اثرات مرتب ہوئے۔

    1928ء میں مولانا محمد علی جوہر نے نہرو رپورٹ کے جواب میں تیار کیے جانے والے قائداعظم کے چودہ نکات کی تیاری میں ان کی معاونت کی۔

    وہ ایک انقلابی اور سیاسی راہ نما ہی نہیں‌ بلکہ علم و ادب کے میدان میں‌ بھی اپنی انشا پردازی اور مختلف اصنافِ ادب میں‌ تخلیقات کی وجہ سے بھی یاد کیے جاتے ہیں۔ انھیں شعر و ادب سے دلی شغف تھا۔ ان کی غزلوں اور نظموں میں آزادی کے مضامین اور مجاہدانہ رنگ نظر آتا ہے۔ صحافت، علم و ادب اور جدوجہدِ آزادی کے اس عظیم راہ نما کو بیت المقدس میں سپردِ خاک کیا گیا۔ ان کا ایک مشہور شعر ہے۔

    قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
    اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

  • منگولوں کو شکست دینے والا سلطان علاؤ الدّین خلجی محسن کُش بھی تھا!

    منگولوں کو شکست دینے والا سلطان علاؤ الدّین خلجی محسن کُش بھی تھا!

    علاؤ الدّین خلجی کی تاج پوشی کے موقع پر سلطنتِ دہلی کے دارُالحکومت میں‌ واقع شاہی محل میں‌ جشن کا ماحول تھا۔ 1296ء کو زمامِ حکومت سنبھالنے کے بعد علاؤ الدّین خلجی 1316ء میں اپنی وفات تک ہندوستان پر راج کرتا رہا۔ اس نے 4 جنوری کو دارِ فانی سے کوچ کیا۔

    تاریخ کے اوراق الٹیے تو معلوم ہوگا کہ علاؤ الدّین خلجی نے بھی اقتدار کے حصول کے لیے سازش رچی اور اپنے چچا جو اس کے سسر بھی تھے، ان کو قتل کروانے سے بھی دریغ نہ کیا۔ ایک طرف وہ بہترین حکم ران اور دوسری جانب محسن کُش بھی مشہور ہوا۔

    مؤرخین نے خلجی خاندان کے اس دوسرے اور طاقت ور سلطان کی پیدائش کا سنہ 1266ء اور مقام دہلی لکھا ہے۔ وہ اس وقت کے بادشاہ جلال الدّین کے بڑے بھائی شہاب الدین مسعود کے گھر پیدا ہوا تھا۔ اس کا اصل نام علی گرشپ تھا جسے اس کے چچا جو اس وقت خلجی حکم ران تھے، نے بڑے ناز و نعم سے پالا۔

    علاؤ الدّین خلجی کو کم عمری ہی میں‌ تیر اندازی، نیزہ بازی، شکار اور گھڑ سواری کا شوق تھا۔ اس نے سپاہ گری میں مہارت حاصل کی اور بادشاہ کی نظر میں‌ اہمیت اختیار کرتا گیا۔ نوجوان علاؤ الدّین خلجی کو کڑہ کی بغاوت کو فرو کرنے کے لیے بھیجا گیا جس میں کام یابی کے بعد اسے وہاں کا گورنر بنا دیا گیا۔ بعد میں بادشاہ نے اپنی ایک بیٹی کی شادی بھی اپنے اس بھتیجے سے کردی۔

    مؤرخین نے علاؤ الدین خلجی کو انتظامی ذہانت سے مالا مال، باتدبیر اور حوصلہ مند حکم ران بھی لکھا ہے جس نے مضبوط اور منظّم فوج کے ساتھ کئی بغاوتوں کو کچلا اور کام یابی سے حکومت کی۔ جب منگولوں نے دہلی سلطنت کو روندنے کے لیے پیش قدمی کی تو سلطان ہی نے اپنی فوج کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا اور بدترین شکست دی۔

    ایک جنگی مہم کے بعد اس نے ایک سازش کے تحت بادشاہ کو قتل کروا دیا اور اس کی جگہ تخت سنبھالا۔ علاؤ الدّین نے کام یابی سے حکومت کی لیکن بعد میں‌ اس کے جانشین نااہل ثابت ہوئے اور خلجی خاندان کا زوال ہوا۔

    تاریخ کے ماہرین نے اسے امورِ سلطنت میں قابل اور بہترین لکھا ہے۔ کہتے ہیں اس کے دور میں‌ بازاروں‌ پر انتظامیہ کا مکمل کنٹرول تھا، معاشی اصلاحات اور ایک منظّم محصول پالیسی تھی جو ذخیرہ اندوزی اور گراں فروشی کا توڑ کرتی تھی۔ اس سے عوام کو براہِ راست فائدہ پہنچانا مقصود تھا، جب کہ ایک بڑا کارنامہ منگولوں کو کچلنا تھا۔

    سلطان کہلانے والے علاؤ الدّین خلجی کی زندگی کے آخری ایّام بیماری کے سبب بستر پر گزرے جہاں ان کا معتمدِ خاص ملک کافور تخت سے لے کر جانشینی تک کے معاملات نمٹانے میں پیش پیش رہا۔