Tag: 4 جون انتقال

  • ممتاز نقّاد، افسانہ نگار، مترجم اور ماہرِ تعلیم مجنوں گورکھپوری کی برسی

    ممتاز نقّاد، افسانہ نگار، مترجم اور ماہرِ تعلیم مجنوں گورکھپوری کی برسی

    اردو کے ممتاز نقّاد، محقق، مترجم، ماہرِ تعلیم اور افسانہ نگار مجنوں گورکھ پوری 4 جون 1988ء کو اس جہانِ‌ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج اردو زبان کی اس نام وَر شخصیت کی برسی ہے۔

    مجنوں گورکھپوری کا اصل نام احمد صدیق تھا۔ وہ 10 مئی 1904ء کو متحدہ ہندوستان کے شہر گورکھ پور میں پیدا ہوئے تھے۔ علم و ادب کی دنیا میں مجنوں نے اپنی قابلیت اور فن کی بدولت بڑا نام پیدا کیا اور مقام بنایا۔

    ان کا شمار اردو کے چند بڑے نقّادوں میں ہوتا ہے جنھوں نے نقوش و افکار، نکاتِ مجنوں، تنقیدی حاشیے، تاریخِ جمالیات، ادب اور زندگی، غالب شخص اور شاعر جیسا سرمایہ کتابی شکل میں چھوڑا ہے۔

    مجنوں گورکھ پوری ایک اچھے افسانہ نگار بھی تھے۔ ان کے افسانوں کے مجموعے خواب و خیال، مجنوں کے افسانے، سر نوشت، سوگوار شباب اور گردش کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔ انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ کراچی میں بطور استاد خدمات انجام دیں۔

    انگریزی زبان و ادب پر بھی مجنوں گورکھ پوری کی گہری نظر تھی۔ انھوں نے شیکسپیئر، ٹالسٹائی، بائیرن، برنارڈ شا اور جان ملٹن کی تخلیقات کو بھی اردو کے قالب میں ڈھالا تھا۔

    مجنوں گورکھ پوری کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • یومِ‌ وفات:‌ معروف شاعرہ سارہ شگفتہ نے کہا تھا، "موت کی تلاشی مت لو!”

    یومِ‌ وفات:‌ معروف شاعرہ سارہ شگفتہ نے کہا تھا، "موت کی تلاشی مت لو!”

    4 جون 1984ء کو سارہ شگفتہ نے اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا تھا۔ وہ اردو اور پنجابی زبان میں شاعری کرتی تھیں۔ اصنافِ سخن میں سارہ کو نثری نظم مرغوب تھی۔

    سارہ شگفتہ 31 اکتوبر 1954ء کو گوجرانوالہ میں‌ پیدا ہوئی تھیں۔ ان کا تعلق ایک غریب اور تعلیم سے بے بہرہ خاندان سے تھا، سارہ پڑھنا چاہتی تھیں، مگر گھریلو حالات اور شدید اتار چڑھاؤ کے ساتھ ذاتی مسائل کے باعث میٹرک بھی نہ کرسکیں۔ زندگی سے مایوس ہو جانے والی سارہ شگفتہ نے کراچی میں‌ ٹرین کے نیچے آکر اپنی جان دے دی تھی۔

    خود کُشی کے بعد جہاں سارہ کی زندگی کے حالات، حوادث اور المیے زیرِ بحث آئے، وہیں ان کی شاعری کو ایک نئی جہت بھی ملی۔ وفات کے بعد ان کی شخصیت پر نام ور ناول نگار اور پنجابی زبان کی مشہور شاعرہ امرتا پرتیم نے ’ایک تھی سارہ‘، صحافی اور ادیب انور سن رائے نے ’ذلّتوں کے اسیر‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی جب کہ پاکستان ٹیلی ویژن نے ڈرامہ سیریل پیش کیا جس کا نام ’آسمان تک دیوار‘ تھا۔

    سارہ کی نثری نظمیں ان کے منفرد اور خوش رنگ اسلوب سے مرصع ہیں۔ اردو زبان میں ان کا مجموعہ کلام آنکھیں اور نیند کا رنگ اشاعت پذیر ہوئے جب کہ پنجابی زبان میں ان کی شاعری بھی کتابی شکل میں محفوظ ہے۔