Tag: 4 فروری برسی

  • تہذیبی اور ثقافتی روایات کی امین، مشہور ناول نگار بانو قدسیہ کا یومِ وفات

    تہذیبی اور ثقافتی روایات کی امین، مشہور ناول نگار بانو قدسیہ کا یومِ وفات

    بانو قدسیہ اردو ادب کی ایک قد آور شخصیت ہیں۔ ان کا شمار اُن ادبا اور اہلِ علم و دانش میں‌ ہوتا ہے جو اردو زبان کی آب یاری کے ساتھ اپنے قلم سے اپنی تہذیب اور روایات کا پرچار بھی کرتے رہے۔ انھوں نے ادب کو ایسی شاہ کار تخلیقات سے مالا مال کیا جس نے معاشرے کے مختلف طبقات کو غور و فکر پر آمادہ کیا اور سوچ کے دَر وا کیے۔

    بانو قدسیہ نے فکشن، معاشرتی اور سماجی مسائل پر اپنے قلم کے زور ہی سے شہرت حاصل نہیں کی بلکہ مختلف مجالس میں‌ اپنی گفتگو سے بھی معاشرے کی تعمیر اور اصلاح کی کوشش کی اور بے حد مقبول ہوئیں۔

    وہ اردو اور پنجابی زبان کی ناول نگار، افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس کے طور پر مشہور تھیں۔ 28 نومبر 1928ء کو مشرقی پنجاب کے شہر فیروز پور کے ممتاز علمی و ادبی گھرانے میں پیدا ہونے والی بانو قدسیہ تین سال کی تھیں جن اُن کے والد کا انتقال ہو گیا۔ تعلیم و تربیت کے مراحل طے کرتے ہوئے پانچویں جماعت میں پہنچیں تو قلم تھاما اور مختصر کہانیاں لکھنے لگیں۔ اس طرح مشق اور حوصلہ افزائی نے انھیں مزید سوچنے اور اپنے خیالات کو کاغذ پر منتقل کرنے پر آمادہ کیا جس میں وقت کے ساتھ شعور اور پختگی آتی گئی۔ تقسیمِ ہند کے بعد وہ اپنے خاندان کے ساتھ ہجرت کر کے لاہور آ گئیں، جہاں انھوں نے 1949ء میں کینیرڈ کالج لاہور برائے خواتین سے ریاضیات اور اقتصادیات میں گریجویشن مکمل کیا۔

    اس عرصے میں وہ اپنے کالج کے میگزین اور دوسرے رسائل کے لیے بھی لکھتی رہیں۔ بعد ازاں 1951ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے اردو کی ڈگری حاصل کی۔ وہیں ان کی ملاقات مشہور ناول نگار اور ڈرامہ نویس اشفاق احمد سے ہوئی، جو اس وقت ان کے ہم جماعت تھے۔ اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت میں گہری دل چسپی لینے والی یہ دونوں شخصیات 1956ء میں رشتۂ ازدواج میں بندھ گئیں۔

    ایم اے کے بعد لاہور کے معروف ادبی مجلہ ’’ادبِ لطیف ‘‘ میں ان کا پہلا افسانہ شایع ہوا جس کا عنوان ’واماندگیٔ شوق‘ تھا۔ اس کے بعد یہ سلسلہ ناول نگاری تک پھیل گیا اور راجہ گدھ، بازگشت، امربیل، آتش زیرِپا، آدھی بات، دوسرا دروازہ، تمثیل، حاصل گھاٹ اور توبہ شکن جیسے ناول سامنے آئے جو بہت مقبول ہوئے۔ ’راجہ گدھ‘ ان کا سب سے مقبول ناول ہے، جس کے اسلوب اور علامتی انداز کو قارئین نے بے حد سراہا اور بانو قدسیہ کو بے مثال شہرت نصیب ہوئی۔

    وہ اردو اور پنجابی زبانوں پر عبور رکھتی تھیں اور اس زمانے میں‌ ریڈیو اور ٹیلی ویژن تفریح کا سب سے بڑا ذریعہ تھے جن کے لیے بانو قدسیہ نے بھی ڈرامے لکھے۔ ان کے ڈرامے ’آدھی بات‘ کو کلاسک کا درجہ حاصل ہے۔ ان کے تحریر کردہ ڈرامے سماجی مسائل پر بامقصد اور تعمیری انداز میں نظر ڈالنے کا موقع دیتے تھے۔ ان کی تحریروں کا بڑا وصف روایات اور اقدار کی پاس داری کا درس ہے جس میں وہ مذہب اور تعلیم و تربیت کی اہمیت کے ساتھ رشتے ناتوں کے تقدس کو نہایت خوب صورتی سے پیش کرتی ہیں۔

    بانو قدسیہ کی علمی اور ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان نے انھیں ستارۂ امتیاز اور قومی خدمات پر ہلالِ امتیاز سے نوازا تھا۔ اس کے علاوہ انھیں کمالِ فن ایوارڈ اور بعد میں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ بھی دیا گیا۔

    4 فروری 2017ء کو بانو قدسیہ لاہور میں وفات پاگئی تھیں۔

  • سدا بہار دھنوں کے خالق، مشہور موسیقار ایم اشرف کی برسی

    سدا بہار دھنوں کے خالق، مشہور موسیقار ایم اشرف کی برسی

    درجنوں سریلی اور سدا بہار دھنوں کے خالق، موسیقار ایم اشرف 4 فروری 2007ء کو یہ ہمیشہ کے لیے دنیا چھوڑ گئے تھے۔

    تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا پلکیں‌ بچھا دوں، ساری عمر بِتا دوں جیسے درجنوں لازوال گیتوں کی موسیقی ترتیب دینے والے ایم اشرف یکم فروری 1938ء کو پیدا ہوئے۔ وہ ماسٹر عنایت اور ماسٹر عبداللہ کے بھانجے اور موسیقار اختر حسین کے شاگرد تھے۔

    بطور میوزک ڈائریکٹر انھوں نے شباب کیرانوی کی فلم سپیرن سے اپنے سفر کا آغاز کیا اور چار دہائیوں سے زائد عرصے تک اردو اور پنجابی فلموں کے لیے دھنیں‌ تخلیق کیں۔ ایم اشرف نے اپے کیریئر میں 400 فلموں کی موسیقی ترتیب دی اور لگ بھگ 2800 فلمی گانے کمپوز کیے۔ انھوں نے متعدد گلوکاروں کو بھی فلم انڈسٹری میں‌ متعارف کروایا جن میں ناہید اختر، نیرہ نور، رجب علی اور دیگر شامل ہیں۔ وہ 60 اور 70 کے عشروں کے مصروف ترین موسیقار تھے۔

    ایم اشرف کو کئی ایوارڈز سے نوازا گیا تھا۔ یہ دنیا رہے نہ رہے میرے ہمدم، ہمارے دل سے مت کھیلو، تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا، پلکیں‌ بچھا دوں جیسے کئی گیتوں کو ان کی موسیقی نے مقبولِ عام بنایا اور یہ فلمیں‌ بھی اپنے گانوں کی وجہ سے سپر ہٹ ثابت ہوئیں۔ آج بھی اس زمانے کی ترتیب دی ہوئی موسیقی میں‌ یہ گانے ہمارے کانوں‌ میں‌ رس گھولتے ہیں اور انھیں نہایت ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے۔ ملکہ ترنم نور جہاں اور مہدی حسن سے لے کر طاہرہ سید، رجب علی، اخلاق احمد، نیّرہ نور اور کئی نام ور گلوکاروں نے اُن کے مرتب کردہ گیت گائے۔

    ان کی مشہور فلموں میں سپیرن، ماں کے آنسو، تیس مار خان، جمیلہ، عورت کا پیار، آئینہ، سوسائٹی، انسان اور آدمی، دامن اور چنگاری، میرا نام ہے محبت، آئینہ اور صورت، شبانہ، گھرانہ اور قربانی شامل ہیں۔ ایم اشرف نے مجموعی طور پر 13 فلموں کے لیے بہترین موسیقار کے نگار ایوارڈز حاصل کیے جو ایک ریکارڈ ہے۔

  • برِّصغیر کی عظیم مغنیہ ملکہ پکھراج کا یومِ وفات

    برِّصغیر کی عظیم مغنیہ ملکہ پکھراج کا یومِ وفات

    آج برصغیر کی مشہور مغنیہ ملکہ پکھراج کا یومِ وفات ہے۔ انھوں نے 4 فروری 2004ء کو ہمیشہ کے لیے دنیا سے ناتا توڑ لیا تھا۔ کہتے ہیں، سُر ان کے آگے گویا ہاتھ باندھے کھڑے ہوتے اور جو بھی وہ گنگناتیں، ذہنوں میں نقش ہو جاتا۔ ملکہ پکھراج ان پاکستانی گلوکاراؤں میں‌ سے ایک تھیں‌ جنھیں پہاڑی راگ گانے میں‌ کمال حاصل تھا۔

    ملکہ پکھراج کا اصل نام حمیدہ تھا۔ وہ 1910ء میں جمّوں میں پیدا ہوئیں۔ وہ اردو اور فارسی زبانوں پر عبور اور ادب کا اعلیٰ ذوق رکھتی تھیں۔ وہ پاکستان میں پہاڑی راگ گانے کے حوالے سے اپنے دور کے دیگر گلوکاروں میں‌ نمایاں‌ تھیں۔ ملکہ پکھراج نے ٹھمری، غزل، بھجن اور لوک گیتوں میں‌ اپنے فن کا مظاہرہ کرکے خوب داد سمیٹی اور خاص طور پر فنِ موسیقی اور ساز و آواز کے ماہروں نے ان کے کمالِ فن کا اعتراف کیا۔

    ان کی آواز میں اردو زبان کے معروف شاعر حفیظ جالندھری کا گیت ‘ابھی تو میں جوان ہوں’ بہت مشہور ہوا اور ملکہ پکھراج کی پہچان بنا۔ مشہور شاعر عبدالحمید عدم کی غزل ‘وہ باتیں تیری فسانے تیرے’ بھی ملکہ پکھراج کی آواز میں‌ بہت مقبول ہوئی اور ان کی شناخت بنی۔

    ملکہ پکھراج کے شوہر سید شبیر حسین شاہ اعلیٰ تعلیم یافتہ سرکاری افسر تھے اور اردو کے مشہور ناول جھوک سیال کے خالق تھے۔ ان کی صاحب زادی طاہرہ سیّد بھی پاکستان کی مشہور گلوکارہ ہیں۔

    ملکہ پکھراج کو حکومتِ پاکستان نے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔ پاکستان کی اس نام ور گلوکارہ کی سوانح عمری بھی شایع ہوئی تھی جس کا انگریزی ترجمہ بھی کیا گیا۔