Tag: 44 ویں برسی

  • استاد امانت علی خان کی 44 ویں برسی آج منائی جارہی ہے

    استاد امانت علی خان کی 44 ویں برسی آج منائی جارہی ہے

    سُروں کے بے تاج بادشاہ استاد امانت علی خان کو ہم سے بچھڑے آج چوالیس برس بیت گئے، ان کی غزلیں اورگیت آج بھی مداحوں کے کانوں میں رس گھولتے ہیں۔

    برصغیر میں کلاسیکی موسیقی کے پٹیالہ گھرانے کے استاد امانت علی خان 1922 میں غیرمنقسم ہندوستان میں پنجاب کے علاقے ہوشیار پور میں پیدا ہوائے، موسیقی کی ابتدائی تعلیم اپنے والد اختر حسین خان سے حاصل کی۔

    موسیقی کی باقاعدہ تعلیم کے حصول کے بعد امانت علی خان اپنے بھائی استاد فتح علی خان کے ساتھ مل کرگایا کرتے تھے جلد ہی یہ جوڑی مقبولیت کی چوٹی پر پہنچ گئی، بعد ازاں ریڈیو پاکستان میں موسیقی کے سُر بکھیرنے لگی اور قبولیت سند عام پائی۔

    خدا نے استاد امانت علی خان کو میٹھے لہجے اورعمدہ آواز سے نوازا تھا انہوں نے کم عمری میں ہی دادرا، ٹھمری، کافی اور غزل کی گائیکی میں مہارت حاصل کر لی تھی۔

    یوں جلد ہی استاد امانت علی خان نے غزل گائیکی میں اپنے منفرد اندازکے باعث اپنے ہم عصرگلوکاروں جن میں استاد مہدی حسن خان،استاد غلام علی اوراعجاز حضروی میں اپنا ایک الگ مقام اورشناخت بنائی۔

    آج بھی استاد امانت علی خان کے گائے ہوئے کلاسیکی گیت اور غزلیں سن کر ان کے مداحوں کے دلوں کی دھڑکنیں تیز ہو جاتی ہیں۔

    قیام پاکستان کے بعد استاد امانت علی خان اپنے خاندان کے دیگر افراد کے ہمراہ مستقل طور پر لاہور شفٹ ہو گئے اور منٹو پارک کے قریبی علاقے میں رہائش پذیر ہو گئے۔

    ان کے گائے ہوئے چند مشہور گیتوں میں ’ہونٹوں پہ کبھی ان کے میرا نام ہی آئے‘، ’چاند میری زمیں پھول میرا وطن‘، ’موسم بدلا رت گدرائی اہل جنوں بے باک ہوئے‘ اور ’یہ آرزو تھی تجھے گل کے روبرو کرتے‘ بھی شامل ہیں۔

    استاد امانت علی خان کا انتقال 52 سال کی عمرمیں 1974ء میں ہوا، کیا خبر تھی کہ اُن کا وہ جملہ جو وہ اکثر جنی محافل میں کہا کرتے تھے یوں سچ ثابت ہو جائے گا وہ کہا کرتے تھے، ہمیں رضاکارانہ طور پر اپنی عمریں کم کر لینی چاہئیں، تاکہ تھوڑی تھوڑی آسودگی سب کے حصے میں آجائے۔

  • نامورغزل گو شاعر ناصرکاظمی کی آج 44 ویں برسی ہے

    نامورغزل گو شاعر ناصرکاظمی کی آج 44 ویں برسی ہے

    کراچی : غزل کے نامور شاعر ناصر کاظمی کو ہم سے بچھٹرے 44 برس بیت گئے، ناصر رضا کاظمی آٹھ دسمبر انیس سو پچیس کو انبالہ میں پیدا ہوئے۔ ناصر کاظمی کے والد محمد سلطان کاظمی سرکاری ملازم تھے۔ والد کے پیشہ ورانہ تبادلوں کی وجہ سے ان کا بچپن کئی شہروں میں گزرا تھا۔

    انہوں نے میٹرک مسلم ہائی اسکول انبالہ سے کیا۔ تقسیم ہند کے بعد لاہور میں سکونت اختیار کی۔ ناصر کاظمی لاہور کے ایک ہاسٹل میں رہتے تھے ان کے استادِ خاص رفیق خاور ان سے ملنے کے لئے اقبال ہاسٹل میں جاتے اور ان کے کمرے میں شعر و شاعری پر ہی بات کرتے تھے۔

    ،کبھی دیکھ دھوب میں کھڑے تنہا شجر کو’’
    ‘‘ایسے جلتے ہیں وفاؤں کو نبھانے والے

    قیام پاکستان تک اُن کے شعروں کی مہک چہار سو پھیل چکی تھی، ناصر کاظمی نے غزل کو اپنی زندگی بنا لیا اور رات دن اسی کی دھن میں مست رہے، ناصر کاظمی نے میر تقی میر کی پیروی کرتے ہوئے غموں کو شعروں میں سمویا اور ان کا اظہارغم پورے عہد کا عکاس بن گیا۔

    استاد نصرت فتح علی خان کی آواز میں ایک مشہور غزل غم ہے یا خوشی ہے تو قارئین کی نذر

    ناصر کاظمی غزل کو زندگی بنا کر اسی کی دھن میں دن رات مست رہے۔ ناصر نے غزل کی تجدید کی اور اپنی جیتی جاگتی شاعری سے غزل کا وقار بحال کیا اور میڈیم نور جہاں کی آواز میں گائی ہوئی غزل ’’دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا ‘‘ منہ بولتا ثبوت ہے۔

    ،دنیا نے مجھ کو یوں ہی غزل گر سمجھ لیا’’
    ‘‘میں تو کسی کے حسن کو کم کر کے لکھتا ہوں

    اسی طرح خلیل حیدر کو بھی ناصر کی غزل ’’نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں ‘‘ گا کر پہچان ملی۔ نا صر کا ظمی نے شاعری میں سادہ الفاظ کا چناؤ کیا خوبصورت استعاروں اورچھوٹی بحر میں غزلیں کہنے میں انہیں کمال حاصل تھا۔

    ناصر کاظمی کے اشعار سر اور تال کے ساتھ مل کر سماعتوں تک پہنچتے ہیں تو ایک خوشگوار احساس دلوں میں ہلکورے لیتا ہے۔ ناصر کاظمی کا پہلا مجموعہ “برگ نے” ان کی زندگی میں شائع ہوا۔ دوسرے دو مجموعے “دیوان” اور “پہلی بارش” ان کی وفات کے بعد سامنے آئے۔ یہ مجموعے صرف غزلوں پر مشتمل ہیں جس کی بنیاد پر ناصر کاظمی کے مقام و مرتبے کا تعین ہوتا ہے۔

    گئے دنوں کا سراغ لیکر کہاں سے آیا کدھر گیا وہ
    عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کرگیا وہ

    ناصر کی شاعری میں محبت کے ان جزیروں کی تلاش ہے جہاں پرندے چہکتے اور پھول مہکتے ہیں،جہاں کو ئی کسی سے نہ بچھڑتا ہو۔ ناصر کاظمی دو مارچ 1972 کو اِس دارفانی سے کوچ کرگئے، وہ ﻻﮨﻮﺭ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﻣﻦ ﭘﻮﺭﮦ ﮐﮯ ﻗﺒﺮﺳﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺍٓﺳﻮﺩﮦ ﺧﺎﮎ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻟﻮﺡ ﻣﺰﺍﺭ ﭘﺮ ان ہی ﮐﺎ ﯾﮧ ﺷﻌﺮ ﺗﺤﺮﯾﺮ ﮨﮯ۔

    ﺩﺍﺋﻢ ﺍٓﺑﺎﺩ ﺭﮨﮯ ﮔﯽ ﺩﻧﯿﺎ
    ﮨﻢ ﻧﮧ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﮨﻢ ﺳﺎ ﮨﻮﮔﺎ