Tag: 5 اکتوبر وفات

  • کامران مرزا کی بارہ دری سے وابستہ مغل دور کی تلخ یادیں

    کامران مرزا کی بارہ دری سے وابستہ مغل دور کی تلخ یادیں

    لاہور میں کامران کی بارہ دری اپنے طرزِ تعمیر کا ایک نمونہ اور اس وقت کے حکم راں کی ایک یادگار ہے۔ اسے مغل شہنشاہ ظہیر الدین محمد بابر کے بڑے بیٹے کامران مرزا نے بنوایا تھا اور یہ اسی کے نام سے موسوم ہے۔

    کامران مرزا نے یہاں صرف بارہ دری نہیں بلکہ اس کے آس پاس ایک شان دار مغل باغ بھی تعمیر کروایا تھا۔ جج عبدالطیف نے ”تاریخِ لاہور میں اس کا خصوصی تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے“ یہ مستحکم و مضبوط پرانی عمارت اپنی عالی شان اور بلند و بالا محرابوں کے ہمراہ دریائے راوی کے دائیں کنارے پر کھڑی ہے۔

    آج کامران مرزا کا یومِ‌ وفات ہے۔ بابر کے بعد مغلیہ سلطنت کا وارث کامران مرزا کا سوتیلا بھائی نصیر الدین محمد ہمایوں بنا۔ کہتے ہیں اس نے فراخ دلی سے اس وقت کے لاہور کا یہ علاقہ اپنے بھائی کامران مرزا کو سونپ کر حکم راں بنا دیا، مگر ان میں دشمنی اور شاہی رقابت ہوگئی۔ یہ بھی کہتے ہیں کہ کامران نے لاہور پر قبضہ کر لیا تھا۔

    کامران مرزا نے 1530ء میں شہر میں اپنا باغ تعمیر کروایا تھا۔ اسی باغ میں اس نے 1540ء میں یہ بارہ دری تعمیر کروائی، جو لاہور میں تعمیر کی جانے والی پہلی مغلیہ عمارت بھی کہلاتی ہے۔

    کامران مرزا مغلیہ سلطنت کے بانی مغل شہنشاہ ظہیرالدین بابر کا دوسرا بیٹا تھا۔ اس کا سنِ پیدائش 1512ء لکھا گیا ہے، وہ بابر کی بیوی گل رخ بیگم کے ہاں کابل میں پیدا ہوا تھا۔ مغل تخت کے وارث نصیرالدین ہمایوں اور کامران مراز میں دشمنی کا نتیجہ وہی نکلا جو تاج و تخت کے پیچھے ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔ کامران کو پسپائی اختیار کرنا پڑی اور کہتے ہیں کہ سوتیلے بھائی ہمایوں نے اسے اندھا کروا دیا اور بعد میں حج کے لیے مکّہ روانہ کردیا۔

    5 اکتوبر 1557ء کو کامران نے وہیں وفات پائی۔

  • ڈاکٹر داؤد رہبر: انھوں نے اپنے ملک اور ثقافت سے دور رہ کر بھی اردو سے اپنا ناتا نہیں توڑا

    ڈاکٹر داؤد رہبر: انھوں نے اپنے ملک اور ثقافت سے دور رہ کر بھی اردو سے اپنا ناتا نہیں توڑا

    اردو ادب کی کثیر الجہت شخصیت ڈاکٹر داؤد رہبر کی زندگی کا کم و بیش سارا شعوری حصّہ علم و ادب کی تحصیل، جمع و تدوین، تشریح اور تخلیق میں گزرا۔

    نثر کے علاوہ شاعری بھی ان کا حوالہ ہے لیکن اس کا ذکر کم کم ہوا ہے۔اردو زبان کے نام ور ادیب، مضمون نگار، ماہرِ موسیقی اور شاعر کا آج یومِ وفات ہے۔ ڈاکٹر داؤد رہبر نے 5 اکتوبر 2013 کو داعئ اجل کی آواز پر لبیک کہا۔ وہ امریکا میں سکونت پذیر تھے۔

    داؤد رہبر 1926ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ جامعہ کیمبرج سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد انھوں نے اورینٹل کالج لاہور اور بعد ازاں کینیڈا، انقرہ اور امریکا کی جامعات سے تعلیم مکمل کی اور درس و تدریس کے ساتھ علمی و ادبی موضوعات پر لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔

    ڈاکٹر محمد داؤد رہبر ایک لائق باپ کے لائق بیٹے تھے۔ ان کے والد پروفیسر محمد اقبال پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ فارسی کے سربراہ تھے، فرانسیسی اور دوسری مغربی زبانوں پر کامل دسترس رکھتے تھے۔ ان کی خصوصی توجہ اور اپنی خداداد صلاحیتوں کے باعث داؤد رہبر جلد ہی علم و فضل کے اس مقام پر پہنچ گئے جہاں پہنچنے کی تمنا کی جاتی ہے۔ ڈاکٹر داؤد رہبر نے اپنے ملک اور کلچر سے دور رہنے کے باوجود اردو سے اپنا ناتا نہیں توڑا تھا۔

    اکرام چغتائی نے اپنے تذکرے میں ان کے بارے میں لکھا، ’’داؤد رہبر کثیر تصانیف مصنف ہیں اور ان کے موضوعات میں حیران کن تنوع پایا جاتا ہے، ان کی کتب اور مقالات کی جامع فہرست پر اچٹتی ہوئی نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ نوعمری ہی میں ان کے مقالات برصغیر کے معتبر علمی جرائد میں چھپنا شروع ہو گئے تھے۔ داؤد نے لاہور سے عربی میں ایم اے کیا، کیمبرج یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ پھر انقرہ یونیورسٹی میں تقرری ہوئی، بقیہ زندگی کینیڈا اور امریکا کی یونیورسٹیوں میں تدریسی فرائض انجام دیے، کتابیں لکھیں اور مقالات تحریر کیے۔‘‘

    ان کی تصانیف میں تسلیمات(مضامین)، باتیں کچھ سُریلی سی اور نسخہ ہائے وفا (موسیقی پر مضامین)، پراگندہ طبع لوگ (عام آدمی کی کہانیاں)، مشاعرے کا فاتح- نواب میرزا داغ دہلوی، کلچر کے روحانی عناصر اور شعری کلیات شامل ہیں۔

  • معروف شاعر اور افسانہ نگار اختر انصاری دہلوی کی برسی

    معروف شاعر اور افسانہ نگار اختر انصاری دہلوی کی برسی

    آج ترقّی پسند فکر کے اہم شاعر، افسانہ نگار اور نقّاد اختر انصاری دہلوی کا یومِ وفات ہے۔ وہ 5 اکتوبر 1988ء کو انتقال کرگئے تھے

    ان کی شاعری، تنقید اور افسانے ان کی ترقی پسند فکر اور جدوجہد کا عکس ہیں۔ بھارت سے تعلق رکھنے والے اختر انصاری دہلوی اپنی تخلیقات میں گہرے طنز اور شدّتِ جذبات کے اظہار کے لیے مشہور ہیں۔

    ’نغمۂ روح‘ ’آبگینے‘ ’ٹیڑھی زمین‘ ’سرور جاں‘ (شاعری) ’اندھی دنیا اور دوسرے افسانے‘ ، ’نازو اور دوسرے افسانے‘، ’حالی اور نیا تنقیدی شعور‘، ’افادی ادب‘ (تنقید) وغیرہ ان کی تصانیف ہیں۔

    اختر انصاری یکم اکتوبر 1909ء کو بدایوں میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام محمد ایوب انصاری تھا، لیکن ادب کی دنیا میں الگ نام سے پہچانے گئے۔ والد چوں کہ ترکِ سکونت کے بعد دہلی آگئے تھے، سو انھوں نے خود کو دہلوی کہلوانا پسند کیا۔ اختر نے اینگلو عربک اسکول میں تعلیم حاصل کی۔ دہلی یونیورسٹی سے بی اے کیا اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی ٹی کرنے کے بعد یونیورسٹی اسکول میں ملازمت اختیار کرلی۔

    1947ء میں اردو میں ایم اے کرنے کے بعد کچھ عرصے تک شعبۂ اردو میں لکچرر رہے۔ بعد میں ٹرینگ کالج میں ملازمت اختیار کی۔ ان کے دو مشہور شعر ملاحظہ کیجیے۔

    یادِ ماضی عذاب ہے یارب
    چھین لے مجھ سے حافظہ میرا

    شباب نام ہے اس جاں نواز لمحے کا
    جب آدمی کو یہ محسوس ہو جواں ہوں میں

    اختر انصاری دہلوی کی دو کتابیں ایک قدم اور سہی اور اردو افسانہ، بنیادی اور تشکیلی مسائل بعد از مرگ شائع ہوئیں۔

  • یومِ وفات: نام وَر مصوّر احمد پرویز نے تیز اور شوخ رنگوں میں‌ اپنی بے رنگ زندگی کو چھپائے رکھا

    یومِ وفات: نام وَر مصوّر احمد پرویز نے تیز اور شوخ رنگوں میں‌ اپنی بے رنگ زندگی کو چھپائے رکھا

    پاکستان سے تعلق رکھنے والے بین الاقوامی شہرت یافتہ مصوّر احمد پرویز 1979ء میں آج ہی کے دن دارِ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔ انھیں تجریدی مصوّر کے طور پر شہرت ملی۔

    احمد پرویز 7 جولائی 1926ء کو راولپنڈی، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ تعلیم کا سلسلہ سینٹ جوزف کالج اور گورڈن کالج راولپنڈی میں مکمل کیا۔ وہ ایک سیماب صفت انسان تھے جن کی زندگی والدین کی علیحدگی اور دوسرے عوامل کے سبب متاثر ہوئی تھی اور خود انھوں نے بھی تین شادیاں کیں جو ناکام رہیں۔ یوں احمد پرویز کی ذاتی زندگی بھی ذہنی دباؤ اور کرب میں گزری۔

    شراب نوشی نے انھیں اور ان کے اہلِ‌ خانہ کو مشکل سے دوچار کردیا تھا، وہ گھر اور آسائشوں سے دور ہوتے چلے گئے اور زندگی میں تلخیاں بڑھتی چلی گئیں۔ بعد میں بھی دوسری شادیاں ایسے ہی حالات کی وجہ سے ناکام ہوگئیں۔ تاہم انھوں نے اپنے فن میں کمال حاصل کیا اور دنیا بھر میں‌ پہچانے گئے۔

    1952ء میں احمد پرویز کے فن پاروں کی پہلی نمائش جامعہ پنجاب لاہور کے فائن آرٹس ڈپارٹمنٹ میں منعقد ہوئی جسے اہلِ فن نے بے حد سراہا۔ 1955ء سے 1964ء تک وہ لندن میں قیام پذیر رہے اور 1966ء سے 1969ء تک امریکا کے شہر نیویارک میں وقت گزارا۔ اس دوران ان کا بڑے بڑے آرٹسٹوں اور آرٹ سے تعلق برقرار رہا۔ اس سے قبل بھی بیرونِ ملک رہتے ہوئے انھوں نے غیرملکی فن کاروں سے بہت کچھ سیکھا تھا اور تجریدی مصوّری میں ایک علٰیحدہ اور منفرد اسلوب کے مالک کہلائے۔

    زندگی کے آخری دورمیں انھوں نے اپنے لیے گلدان اور پھول کے موضوع کا انتخاب کیا تھا۔ اس پر انھوں نے لاتعداد تصویریں بنائی تھیں۔ احمد پرویز کی مصوّری کی پہچان تیز اور شوخ رنگ تھے۔

    حکومتِ پاکستان نے اس باکمال مصوّر کو 1978ء میں صدارتی اعزاز برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

  • سلویا بیچ: ایک چھوٹی سی دکان کی مالک جو دنیا بھر میں مشہور ہوئی

    سلویا بیچ: ایک چھوٹی سی دکان کی مالک جو دنیا بھر میں مشہور ہوئی

    سلویا بیچ نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چکی تھی جب اس کا خاندان امریکا سے پیرس منتقل ہوا۔ وہ زندگی کو اپنے انداز سے گزارنے اور کچھ کر دکھانے کی آرزو مند تھی۔

    1919ء میں سلویا نے ایک ایسے سفر کا آغاز کیا جس نے اسے پیرس کی ایک مشہور شخصیت بنا دیا اور بعد کے برسوں میں اس نے دنیا بھر میں اپنی پہچان بنائی۔

    سلویا بیچ 1887ء میں پیدا ہوئی۔ پیرس میں قیام کے دوران 1919ء میں سلویا بیچ نے کتب فروش کے طور پر اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا تھا۔ کون جانتا تھاکہ ایک دکان کی مالک دنیا بھر میں ادب کی دلدادہ، کتاب دوست اور فنونِ لطیفہ کی شایق کے طور پر اتنی مشہور ہوجائے گی اور دور دور سے علم و ادب سے وابستہ شخصیات اور نام ور ادیب و شاعر اس کتاب گھر کا رخ کریں گے۔

    اس دکان کا نام شیکسپیئر اینڈ کمپنی تھا جس نے بعد میں سلویا بیچ کو ایک مستند اور مستحکم ناشر کے طور پر بھی شہرت دی۔ اس بک شاپ میں انگریزی ادب اور دیگر موضوعات پر کتابیں رکھی گئی تھیں جو جلد ہی مطالعے کے شوقین افراد کی توجہ کا مرکز بن گئی۔

    شہر اور مختلف قصبات سے کتابوں کے عام خریداروں کے ساتھ ساتھ اب یہاں مختلف شاعراورادیب بھی آنے لگے تھے۔ سلویا بیچ خود بھی مطالعے کی شوقین اور علم دوست لڑکی تھی اور یہی وجہ تھی کہ یہ قلم کار اس سے بہت متاثر ہوئے۔ وہ اکثر ان سے کسی نہ کسی موضوع پر گفتگو کرتی اور مختلف علمی و ادبی نوعیت کے مباحث اسے سیکھنے اور جاننے کا موقع فراہم کرتے تھے۔

    سال بھر میں اس نے اپنے اسی ذوق و شوق کے سبب پیرس کے اہلِ قلم کی توجہ حاصل کرلی اور اس کی دکان پر ایک قسم کی ادبی نشستوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس دکان میں گنجائش کم تھی اور رش کی وجہ سے کام اور علمی اور ادبی گفتگو کا تسلسل برقرار رکھنا ممکن نہ تھا۔ تب اس نے قریب ہی ایک کشادہ دکان کرائے پر حاصل کرلی۔

    1921ء میں محنت اور لگن کی بدولت سلویا کا یہ نیا کتاب گھر علم و فنون کا مرکز اور اس وقت کے نابغوں کی بیٹھک بن گیا۔ وہاں نام وَر ادیب، شاعر اور صحافی جمع ہونے لگے۔ اکثر ایسا ہونے لگا کہ ادب اور فنونِ لطیفہ سے متعلق مباحث کے دوران رات گہری ہو جاتی، اور قلم کار اس دکان ہی میں لمبی تان کر سو رہتے۔

    سلویا بیچ کی دکان پر ارنسٹ ہیمنگوے، ایزرا پاؤنڈ، گرٹروڈ اسٹین، مینا لوئے اور مین رے جیسی قدآور شخصیات آتی اور محفل بپا کرتی تھیں۔ انہی احباب کے مشورے سے سلویا بیچ نے کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ بھی شروع کردیا جس سے مالی فائدہ ہی نہیں اسے خوب شہرت بھی ملی۔ مشہور رائٹر جوئس کا وہ ناول بھی سلویا بیچ نے شایع کیا جو متنازع بنا اور امریکا، برطانیہ میں اس کی خرید و فروخت پرمکمل پابندی عائد کردی گئی تھی۔ اس ناول کا نام یولیسس تھا۔

    اسی طرح عالمی شہرت یافتہ لکھاری ارنسٹ ہیمنگوے کی تین کہانیوں اور دس نظموں پر مشتمل کتاب بھی اسی ادارے کے تحت شایع ہوئی۔ تاہم 1941ء میں فرانس پر جرمنی کے تسلط کے بعد یہ بک شاپ بند کر دی گئی۔

    کئی برس بعد ایک اور علم دوست جارج وہٹمین نے پیرس میں اِسی طرز کی ایک دکان کھولی اور اسے علم و ادب کی سرگرمیوں کا مرکز بنانے کے لیے دن رات محنت کی اور کام یاب رہا۔ وہ دراصل سلویا بیچ کا بڑا مداح تھا۔ جارج وہٹمین نے بھی اپنے اس کتاب گھر کو ”شیکسپیئر اینڈ کمپنی“ کا نام دیا اور اس موقع پر اعلان کیا کہ یہ سلویا بیچ سے ان کی عقیدت کے اظہار کی ایک شکل ہے۔

    1962ء میں آج ہی کے دن وفات پانے والی سلویا بیچ نے زندگی کی 75 بہاریں دیکھیں۔