Tag: 5 اگست وفات

  • یومِ وفات: ٹونی موریسن امریکا کی پہلی سیاہ فام نوبیل انعام یافتہ ادیب تھیں

    یومِ وفات: ٹونی موریسن امریکا کی پہلی سیاہ فام نوبیل انعام یافتہ ادیب تھیں

    نوبیل انعام یافتہ ادیب ٹونی موریسن 5 اگست 2019ء کو انتقال کرگئی تھیں۔ وہ امریکا کی پہلی سیاہ فام مصنّف تھیں جنھوں نے ادب کا معتبر ترین ایوارڈ اپنے نام کیا۔

    ٹونی موریسن امریکا کے سیاہ فام ادیبوں میں منفرد اور بلند مقام و مرتبے کی حامل تھیں۔ انھیں افریقی نژاد امریکی مصنّفین کی نمائندہ سمجھا جاتا تھا۔

    وہ اوہائیو کے ایک علاقے میں 1931ء میں پیدا ہوئیں۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد جہاں اپنے تخیل اور قلم کا سہارا لے کر شہرت اور مقبولیت کا سفر شروع کیا، وہیں درس و تدریس ان کے معاش کا ذریعہ کا شعبہ بنا۔ اس دوران وہ ادبی سرگرمیوں میں حصّہ لیتی رہیں اور تخلیقی سفر بھی جاری رکھا۔ انھوں نے ناول نگاری کے میدان میں اپنے اسلوب اور منفرد کہانیوں کی بدولت قارئین کی بڑی تعداد کو متاثر کیا۔ سابق امریکی صدر بارک اوباما بھی ان کے مداح تھے۔

    ٹونی موریسن کو 1993ء میں ادب کا نوبیل انعام دیا گیا تھا اور اس موقع پر سویڈش اکیڈیمی کی جانب سے ان کے طرزِ تحریر، لسانی انفرادیت اور مصنّف کی بصیرت کو خاص طور پر سراہا گیا تھا۔

    ٹونی موریسن کو ان کے ناول ‘محبوب‘ (Beloved) نے شہرت بھی دی اور یہ ناول 1988ء میں فکشن کے پلٹزر پرائز کا بھی حق دار قرار پایا۔ یہ ایک درد ناک کہانی تھی جس میں انھوں نے ایسی ماں کو پیش کیا تھا جو اپنی بیٹی کو غلامی کی زندگی سے بچانے کے لیے اسے قتل کر دینے کا فیصلہ کرتی ہے۔ ان کی دیگر اہم ترین تصنیفات میں ‘چشمِ نیلگوں(Bluest Eye)‘، ‘سلیمان کا گیت‘ (Song of Solomon)، شامل ہیں۔ مؤخر الذّکر ناول بہت مقبول ہوا اور ٹونی موریسن کو امریکا میں زبردست پذیرائی ملی۔

    باراک اوباما کے دورِ صدرات میں انھیں امریکا کا ‘صدارتی میڈل آف آنر‘ بھی دیا گیا تھا۔

    نیویارک میں مقیم ٹونی موریسن مختصر علالت کے بعد 88 سال کی عمر میں وفات پاگئی تھیں۔

  • بڑے پردے کی مقبول ہیروئن اور کام یاب ہدایت کار شمیم آرا کی برسی

    بڑے پردے کی مقبول ہیروئن اور کام یاب ہدایت کار شمیم آرا کی برسی

    آج پاکستان فلم انڈسٹری کی مشہور اداکارہ شمیم آرا کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 2016ٰء میں آج ہی کے دن دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئی تھیں۔ شمیم آرا بڑے پردے کی مقبول ہیروئن اور 1950ء سے 1970ء کی دہائی تک صفِ اوّل کی اداکارہ رہیں۔ انھوں نے فلم نگری میں ہدایت کارہ کے طور پر بھی خود کو آزمایا اور کام یاب فلمیں بنائیں۔

    22 مارچ 1938ء کو بھارتی ریاست اتر پردیش کے مشہور شہر علی گڑھ میں پیدا ہونے والی شمیم آرا کا خاندانی نام ’پتلی بائی‘ تھا۔ تقسیمِ ہند کے بعد کراچی میں سکونت اختیار کرنے کے بعد جب انھوں نے فلمی دنیا میں قدم رکھا تو شمیم آرا کے نام سے متعارف ہوئیں۔

    انھوں نے نجم نقوی کی فلم ’کنواری بیوہ‘ سے اداکاری کا سفر شروع کیا تھا جس میں انھیں خاص کام یابی تو نہیں ملی، لیکن وہ نازک اندام اور خوب صورت تھیں اور سنیما بینوں کو ان کا معصومانہ اندازِ بیان بہت پسند آیا اور اس طرح 1958ء میں انھیں فلموں میں کاسٹ کیا جانے لگا، لیکن اگلے دس سال تک ناکامیوں نے شمیم آرا کا راستہ روکے رکھا۔ تاہم 1960ء میں فلم’ سہیلی‘ نے ان کا نصیب کھول دیا۔ یہ فلم ہٹ ہوگئی اور اس میں شمیم آرا کی کردار نگاری کو بہت پسند کیا گیا۔

    1962ء میں اُن کی فلم’ قیدی‘ آئی جس میں فیض احمد فیض کی غزل ’مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ‘ شمیم آرا پر فلمائی گئی تھی۔ یہ فلم کام یاب ترین فلم قرار پائی اور اداکارہ کو شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ اسی سال ان کی کئی فلمیں کام یاب رہیں جن میں آنچل، محبوب، میرا کیا قصور، قیدی اور اِنقلاب شامل ہیں۔ 1963ء میں ’دلہن، اِک تیرا سہارا، غزالہ، کالا پانی، سازش، سیما، ٹانگے والا جیسی فلموں نے دھوم مچا دی اور شمیم آرا صفِ اوّل کی اداکارہ کہلائیں۔

    شمیم آرا کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انھوں نے پاکستان کی پہلی رنگین فلم ’نائلہ‘ میں اداکاری کی۔

    1970ء کی دہائی میں انھوں نے ہدایت کاری کا آغاز کیا اور پلے بوائے، مس استنبول، منڈا بگڑا جائے، ہاتھی میرے ساتھی جیسی کام یاب ترین فلمیں بنائیں۔

    2011ء میں دماغ کی شریان پھٹ جانے کے باعث ان کا آپریشن کیا گیا تھا جس کے بعد وہ کوما میں چلی گئی تھیں اور بعد میں انھیں علاج کے لیے لندن لے جایا گیا تھا اور وہاں تقریباً 6 سال علالت کے بعد وفات پاگئیں۔ ان کی عمر 78 برس تھی۔