Tag: 5 دسمبر برسی

  • پتھر کی سرگذشت

    پتھر کی سرگذشت

    شہر میں پتھر کی ایک سڑک تھی۔

    گزرتی ہوئی گاڑی کے پہیے نے ایک پتھر کو دوسرے پتھروں سے جدا کردیا۔ اس پتھر نے دل میں سوچا۔’’ مجھے اپنے ہم جنسوں کے ساتھ موجودہ حالات میں نہیں رہنا چاہیے۔ بہتر یہی ہے کہ میں کسی اور جگہ جا کر رہوں۔‘‘

    ایک لڑکا آیا اور اس پتھر کو اٹھا کرلے گیا۔ پتھر نے دل میں خیال کیا۔’’ میں نے سفر کرنا چاہا تو سفر بھی نصیب ہوگیا، صرف آہنی ارادہ کی ضرورت تھی۔‘‘ لڑکے نے پتھر کو ایک گھر کی جانب پھینک دیا۔

    پتھر نے خیال کیا ’’میں نے ہوا میں اڑنا چاہا تھا۔ یہ خواہش بھی پوری ہوگئی۔ صرف ارادہ کی دیر تھی۔ پتھر کھٹ سے کھڑکی کے شیشہ پر لگا۔

    شیشہ یہ کہہ کر چکنا چور ہوگیا۔’’بدمعاش! ایسا کرنے سے تمہارا کیا مطلب ہے؟‘‘ تم نے بہت اچھا کیا۔ جو میرے راستے سے ہٹ گئے۔ میں نہیں چاہتا کہ لوگ میرے راستے میں حائل ہوں۔‘‘ ہر ایک چیز میری مرضی کے مطابق ہونی چاہیے۔ یہ میرا اصول ہے۔‘‘

    یہ کہتے ہوئے پتھر ایک نرم بستر پر جا پڑا۔ پتھر نے بستر پر پڑے ہوئے خیال کیا۔’’ میں نے کافی سفر کیا ہے اب ذرا دو گھڑی آرام تو کروں۔‘‘

    ایک نوکر آیا اور اس نے پتھر کو بستر پر سے اٹھا کر باہر سڑک پر پھینک دیا۔ سڑک پر گرتے ہی پتھر نے اپنے ہم جنسوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ ’’بھائیو! خدا تمہیں سلامت رکھے۔ میں ابھی ابھی ایک عالی شان عمارت سے ہو کر آرہا ہوں لیکن اس کی شان و شوکت مجھے بالکل متاثر نہ کرسکی۔ میرا دل تم لوگوں سے ملاقات کے لیے بیتاب تھا۔ چنانچہ اب میں واپس آگیا ہوں۔‘‘

    (روس کے مشہور شاعر اور ادیب فیودور سلوگب کی کہانی، جو علامت اور تمثیل نگاری کے لیے مشہور تھے)

  • مجاز لکھنوی: ایک رندِ بلاخیر جو اپنے ہم عصر شعرا کے مقابلے میں‌ لڑکیوں‌ میں‌ زیادہ مقبول تھا

    مجاز لکھنوی: ایک رندِ بلاخیر جو اپنے ہم عصر شعرا کے مقابلے میں‌ لڑکیوں‌ میں‌ زیادہ مقبول تھا

    اسرار الحق مجاز کی شاعری میں‌ رومان کی ترنگ، کیف و مستی، درد و الم، اور انقلاب کی دھمک سبھی کچھ ملتا ہے۔ معمولی صورت والے مجاز کی شخصیت بڑی دل نواز تھی اور شاعری بہت مقبول۔

    وہ بیسویں صدی کی چوتھی دہائی میں اردو شاعری کے افق پر طلوع ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے نوجوانوں، بالخصوص لڑکیوں کے دل و دماغ پر چھا گئے۔

    اردو زبان کے اس مشہور شاعر نے جہاں‌ زندگی کی رعنائیوں‌ کو اپنے کلام میں‌ سمیٹ کر داد وصول کی، وہیں اس رندِ بلا خیر کے جنون اور رومان نے اسے‌ “آوارہ” اور “رات اور ریل” جیسی نظموں کا خالق بھی بنایا جن کا شہرہ ہر طرف ہوا۔ نظموں‌ نے مجاز کو زیادہ شہرت دی۔

    وہ 19 اکتوبر 1911ء میں قصبہ رودولی، ضلع بارہ بنکی میں پیدا ہوئے۔ اصل نام اسرارُالحق اور مجازؔ تخلص تھا۔ تعلیم کے لیے لکھنؤ آئے اور یہاں سے ہائی اسکول پاس کیا۔ اسی شہر سے محبّت نے انھیں مجاز لکھنوی مشہور کردیا۔ 1935ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی اے کیا او دہلی ریڈیو اسٹیشن سے شائع ہونے والے میگزین ’’آواز‘‘ کی ادارت سنبھالی۔ کچھ وقت بمبئی انفارمیشن میں بھی کام کیا اور پھر لکھنؤ آکر ’نیا ادب‘ اور ’پرچم‘ کی ادارت کی۔ اس کے بعد دہلی میں ہارڈنگ لائبریری سے منسلک ہوگئے۔

    مجازؔ انجمنِ ترقی پسند مصنّفین کے رکن تھے۔ انھوں نے 3 دسمبر 1955ء کو لکھنؤ میں ایک مشاعرہ پڑھا تھا اور دو دن بعد ان کے پرستاروں ان کے انتقال کی خبر ملی۔ ان کی تاریخِ وفات 5 دسمبر 1955ء ہے۔

    ان کی مشہور زمانہ نظم ’’آوارہ‘‘ کے دو بند پیشِ خدمت ہیں۔

    شہر کی رات اور میں ناشاد و ناکارہ پھروں
    جگمگاتی جاگتی سڑکوں پہ آوارہ پھروں
    غیر کی بستی ہے کب تک در بہ در مارا پھروں
    اے غمِ دل کیا کروں اے وحشتِ دل کیا کروں

    جھلملاتے قمقموں کی راہ میں زنجیر سی
    رات کے ہاتھوں میں دن کی موہنی تصویر سی
    میرے سینے پہ مگر رکھی ہوئی شمشیر سی
    اے غمِ دل کیا کروں اے وحشتِ دل کیا کروں

    ان کی وحشت نے انھیں چین سے جینے نہ دیا۔ وہ شراب نوشی کی بری عادت کا شکار رہے اور یہی عادت ان کی موت کا سبب بنی۔

    نام ور نقّاد اور شاعر آل احمد سرور نے ان کے بارے میں‌ ایک جگہ لکھا، اپنے ہم عصروں میں جو مقبولیت مجازؔ کو حاصل ہوئی وہ کم لوگوں کے حصّے میں آئی ہے۔ مجازؔ نے کبھی کوئی ڈولی نہیں بنائی، شہرت کے لیے اس نے کوئی جال نہیں بچھایا، ہم عصروں میں سے ہر ایک سے اسی سطح پر ملتا رہا۔ اس کے دوستوں میں ہر مسلک اور مشرب کے آدمی تھے۔

    نشے کے عالم کی بات دوسری ہے۔ اس عالم میں اکثر لوگ ناقابلِ برداشت ہوجاتے ہیں۔ آخر میں مجازؔ کی بھی یہی کیفیت ہو گئی تھی، مگر نشے میں ایک دفعہ جو کچھ اس نے کیا میں بھول نہیں سکتا۔

    ہوا یوں کہ ڈاکٹر علیم، احتشام اور میں ایک اردو کانفرنس میں شرکت کے لیے پٹنے گئے، مجازؔ بھی ساتھ تھے۔ ایک ڈبّے میں صرف تین برتھ خالی تھیں۔ مجازؔ کو دوسرے ڈبّے میں جانا پڑا۔ جلد ہی لوٹ آئے، میں نے پوچھا، کیا ہوا، کہنے لگے، وہاں ایک سردار جی کرپان لیے میرے منتظر تھے۔ چناں چہ میں نے شان دار پسپائی ہی میں نجات سمجھی، فرش پر بستر بچھا کر لیٹ گئے۔

    پٹنے پہنچے تو سب ایک ہی ہوٹل میں ٹھہرائے گئے، ایک کمرے میں، مَیں اور احتشام تھے۔ برابر کے کمرے میں پنڈت کیفیؔ تھے۔ اس کے بعد کے کمرے میں مجازؔ اور جذبیؔ تھے۔

    رات کو سب سونے لیٹے ہی تھے کہ پنڈت جی کے کمرے سے شور اٹھا ’’ارے دوڑیو، بچائیو۔ یہ مار ڈالتا ہے۔‘‘ ہم لوگ گھبرا کر دوڑے تو دیکھا کہ مجازؔ نشے میں پنڈت جی کے پیر زور زور سے داب رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ آپ بزرگ ہیں۔ آپ کی خدمت میں سعادت ہے۔

    پنڈت جی چیخ رہے تھے کہ ہائے میں مرا، بڑی مشکل سے مجازؔ کو علاحدہ کیا۔ صبح ہوئی تو اب مجازؔ پنڈت جی کے سامنے نہیں آتے۔ آخر پنڈت جی نے گلے سے لگایا اور کہا کہ ’’مجازؔ تم سے اردو شاعری کی بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔ تمہارے خلوص سے میں بڑا متاثر ہوا مگر خلوص میں تم نے میرا کام ہی تمام کر دیا ہوتا۔ بھائی اپنے آپ کو سنبھالو۔ تمہیں ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔‘‘ ہم سب آبدیدہ ہوگئے۔

  • نیلسن منڈیلا: امن اور مساوات کے عظیم پرچارک اور ہردل عزیز راہ نما

    نیلسن منڈیلا: امن اور مساوات کے عظیم پرچارک اور ہردل عزیز راہ نما

    نسلی امتیاز کے خلاف طویل جدوجہد کے دوران صعوبتیں‌ اٹھانے اور فتح حاصل کرنے والے نیلسن منڈیلا دنیا کے لیے نہایت قابلِ احترام ہیں۔ انھیں امید کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ وہ جنوبی افریقا کے ہر دل عزیز سیاست دان اور عوامی راہ نما تھے۔

    جنوبی افریقا کے پہلے سیاہ فام صدر نیلسن منڈیلا نے 2013ء میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں‌ موند لی تھیں۔ دنیا بھر میں امن و مساوات کے اس پرچارک کو متعدد اعزازات اور انعامات سے نوازا گیا تھا، انھیں کئی اعزازی ڈگریاں دی گئیں، اور کئی ممالک میں‌ سڑکوں، چوراہوں، اور قابلِ ذکر عمارتوں کو ان کے نام سے موسوم کیا گیا۔

    نیلسن منڈیلا جنوبی افریقا میں 1918ء میں تھیمبو قبیلے میں پیدا ہوئے جس کی اکثریت ایک چھوٹے سے گاؤں میں آباد ہے۔ ان کی زبان کوسا تھی۔ منڈیلا کا نام رولیہلا ہلا تھا، لیکن ان کے ایک استاد نے انھیں‌ انگریزی زبان میں‌ ’نیلسن‘ نام دے دیا اور وہ اسی سے پہچانے گئے۔

    وہ نو برس کے تھے جب والد کی شفقت سے محروم ہوگئے۔ ان کے زمانے میں‌ افریقا نسلی امتیاز اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے بدترین ملک مشہور تھا۔ امتیازی سلوک اور ناانصافی و غیر جمہوری روایات پر مبنی قوانین نے سیاہ فاموں کی زندگی اجیرن کررکھی تھی۔ نیلسن منڈیلا نے 1943ء میں افریقن نیشنل کانگریس (اے این سی) میں شمولیت اختیار کرلی اور بعد میں اے این سی یوتھ لیگ کے بانی اور صدر بنے۔

    نیلسن منڈیلا نے وکالت پڑھی اور اپنے ایک دوست کے ساتھ مل کر 1952ء میں جوہانسبرگ میں دفتر لے کر پریکٹس شروع کردی۔ بعد میں انھوں نے اپنے دوست کے ساتھ مل کر نسل پرستی کے خلاف سفید فام افراد پر مشتمل جماعت نیشنل پارٹی کے وضع کردہ نظام کے خلاف مہم شروع کی اور سیاہ فام اکثریت کے استحصال کے راستے میں مزاحم ہوئے۔

    1956ء میں منڈیلا اور ان کے ساتھی کارکنوں پر غداری کا مقدمہ چلا، لیکن 4 سال بعد الزامات خارج کر دیے گئے۔ تاہم ملک میں سیاہ فام اکثریت کے لیے رہائش اور روزگار سے متعلق ایک نیا بدنیتی پر مبنی قانون بنایا گیا جس نے نیسلن منڈیلا کو ایک بار پھر میدان میں نکلنے پر مجبور کردیا۔ اے این سی کو 1960ء میں کالعدم قرار دے دیا گیا اور منڈیلا روپوشی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے۔ اسی برس ملک کی نسل پرست حکومت کے خلاف سیاہ فام اکثریت اس وقت سخت مشتعل ہوگئی جب پولیس نے 69 افراد کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ یہ تمام سیاہ فام تھے۔

    اس بدترین واقعے نے نیلسن منڈیلا کی پُرامن مزاحمت کو بھی جارحیت اور بغاوت کی طرف دھکیل دیا اور اے این سی کے نائب صدر کی حیثیت سے انھوں نے ملکی معیشت کے نظام کو بکھیر کر رکھ دینے کی مہم چلا دی۔ اس پر منڈیلا کی گرفتاری عمل میں لائی گئی اور انھیں پُرتشدد اور حکومت کا باغی قرار دیا گیا۔

    نیلسن منڈیلا نے جنوبی افریقا میں نسل پرست سفید فام حکم رانوں سے آزادی کی جدوجہد کے دوران اپنی جوانی کے 27 سال جیل میں گزارے۔ انھیں 1964 میں معیشت کو سبوتاژ اور عوام کو بغاوت پر اکسانے کے الزامات کے بعد عمر قید کی سزا دی گئی تھی۔ وہ فروری 1990ء میں رہا ہوئے تھے۔

    اس دوران سیاہ فام نوجوانوں کی اکثریت جو اپنے قائد کی آواز پر حکومت کے خلاف متحد ہوچکے تھی، نے حقوق کی جدوجہد جاری رکھی اور بین الاقوامی برادری کا دباؤ بھی بڑھتا گیا اور جنوبی افریقا کی نسل پرست حکومت کو سخت پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔

    اسی کے بعد منڈیلا کی رہائی عمل میں آئی اور وہاں ایک نئی اور مخلوط النسل جمہوریت کے قیام کے لیے بات چیت کا آغاز ہوا۔

    نسل پرستی اور عدم مساوات کے خلاف طویل جدوجہد پر 1993ء میں منڈیلا کو امن کا نوبل انعام دیا گیا اور اگلے ہی سال بھاری اکثریت سے وہ ملک کے پہلے سیاہ فام صدر منتخب ہوگئے۔

    اپنے حقوق کے حصول کے لیے طویل اور نہایت تھکا دینے والے لڑائی کے بعد وہ ناتوانی اور امراض‌ کا شکار ہوتے چلے گئے اور 2004ء کے بعد سے عوامی مصروفیات کو خیر باد کہہ دیا تھا۔ وہ پھیپھڑوں کے انفیکشن سے متاثر تھے۔

    نیلسن منڈیلا کو ان کے وطن میں بابائے جمہوریت تسلیم کیا گیا اور مقامی لوگ انھیں احترام سے ’مادیبا‘ پکارتے ہیں۔

    نیلسن منڈیلا نے جنگ زدہ علاقوں میں قیامِ امن کے لیے کلیدی کردار ادا کیا اور ملک میں صحّت اور دنیا بھر میں‌ مخصوص امراض کی روک تھام اور علاج کے لیے بھی ان کی کاوشیں قابلِ قدر ہیں۔

    1992ء میں‌ نیلسن منڈیلا پاکستان آئے تھے اور کراچی میں بانیِ پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح کے مزار پر حاضری دی تھی۔ انھوں نے اس موقع پر حکومت اور پاکستانی عوام کا شکریہ ادا کیا اور اپنی تقریر کے اختتام پر اردو میں‌ ‘خدا حافظ’ کہا تھا۔

    وہ ایک ایسے لیڈر تھے جنھوں نے مسلسل جدوجہد کے زمانے اور بعد میں بھی اپنے مخالفین ہی نہیں اپنے قریبی ساتھیوں کی نکتہ چینی اور کڑی تنقید کو بھی برداشت کیا۔ بلاشبہ انھوں نے ایک تلخ اور سخت زندگی گزاری، لیکن ہر موقع پر درگزر اور تحمّل کا مظاہرہ کرتے رہے۔