Tag: 5 دسمبر وفات

  • مرزا غالب کو بھی طرزِ بیدل میں ریختہ کہنے کی آرزو تھی!

    مرزا غالب کو بھی طرزِ بیدل میں ریختہ کہنے کی آرزو تھی!

    عبدالقادر بیدل کو برصغیر میں‌ عظیم فارسی شاعر کی حیثیت سے نہ صرف یاد کیا جاتا ہے بلکہ جو مقام و مرتبہ انھیں‌ حاصل ہے، وہ کسی دوسرے شاعر کو نہیں‌ مل سکا۔ بیدل ہندوستان ہی نہیں وسط ایشیائی ممالک میں بھی فکری، تہذیبی اور فنی اعتبار سے قابلِ تقلید فارسی گو شاعر ہیں۔

    طرزِ بیدل کی پیروی اس عظیم شاعر کی زندگی ہی میں شروع ہو گئی تھی اور ان کی وفات کے بعد ان کا انداز اپنانے کو شعرا نے اپنا طرّۂ امتیاز سمجھا۔ ہندوستان اور مغلیہ سلطنت کے علاوہ، افغانستان اور وسط ایشیا میں بیدل کو لازوال شہرت نصیب ہوئی۔ انیسویں صدی کے آغاز پر وسط ایشیائی علاقوں میں مقلدینِ بیدل کا وہ گروہ بھی تھا، جو ان کی پیروی کو اپنا امتیاز اور فارسی ادب کا معیار تصوّر کرتے تھے۔ اس ضمن میں کئی مشہور شعرا کے نام لیے جاسکتے ہیں۔

    بیدل نے فارسی کے علاوہ عربی، ترکی زبانوں میں بھی طبع آزمائی کی ہے اور ان کے اشعار کلیاتِ بیدل کے بعض قلمی نسخوں میں موجود ہیں۔ ان کی علاقائی زبان بنگالی تھی اور وہ سنسکرت بھی جانتے تھے۔ بیدل کے فلسفیانہ تصورات، صوفیانہ افکار اور معاشرتی نظریات کا بالخصوص فارسی اور اردو زبان کے شعرا نے گہرا اثر قبول کیا ہے۔

    آج مرزا عبد القادر بیدل کی برسی ہے۔ فارسی زبان کے اس عظیم شاعر کے سوانحی خاکہ کچھ یوں‌ ہے کہ وہ 1644ء میں عظیم آباد، پٹنہ میں پیدا ہوئے اور عمر کا بیش تر حصّہ وہیں بسر کیا۔ ان کو نوعمری ہی میں تصوف سے رغبت پیدا ہوگئی تھی۔ لڑکپن ہی سے شاعری کا شغف اپنایا اور تصوف کی راہ میں تربیت اور معرفت کی منازل طے کرنے کی غرض سے میرزا قلندر، شیخ کمال، شاہ ابوالقاسم، شاہ فاضل اور شاہ کابلی جیسی ہستیوں کی صحبت میں‌ رہے۔ اس دور کے دستور کے مطابق تعلیم و تربیت پائی اور مطالعہ کے عادی رہے۔ وسیع القلب، سوز و گداز سے معمور دل کے مالک اور صاحبانِ فکر و جمال کی صحبت میں رہنے والے بیدل نے شاعری جیسا لطیف مشغلہ اختیار کیا تو اپنا سوزِ جگر، غم دوراں کے مصائب کو اپنے اشعار میں پھونک دیا۔ ان کی تصانیف میں چہار عنصر، محیطِ اعظم، عرفان، طلسمِ حیرت، طورِ معرفت، گلِ زرد، نکات اور دیوان شامل ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے غزلیات، مثنویوں، قصائد اور رباعیات کی شکل میں ایک لاکھ سے زیادہ اشعار کہے۔ اردو کے عظیم شاعر غالب اور علّامہ اقبال بیدل سے بے حد متاثر تھے۔ 5 دسمبر 1720ء کو بیدل یہ دنیا چھوڑ گئے تھے۔

    مرزا غالب کا ایک مشہور شعر ہے:
    طرزِ بیدل میں ریختہ کہنا
    اسد اللہ خاں قیامت ہے

    بیدل کا زمانہ وہ تھا جب برصغیر پر مغل حکومت قائم تھی اور فارسی کی عظمت اور اس کا رعب بھی جب کہ اردو گہوارۂ طفولیت میں‌ تھی۔ اس زمانے کے بیدل کا دیوان وہ کتاب ہے جو فارسی ادب میں‌ گلستانِ سعدی، مثنوی معنوی اور دیوانِ حافظ کے برابر رکھی جاتی ہے۔ اس شاعر کا کلام فکری اور فنی اعتبار سے ارفع اور نہایت معنی آفریں ہے۔

    اردو اور فارسی زبان میں بیدل کے تذکروں میں‌ لکھا ہے کہ فارسی زبان کے اس شاعر نے کم و بیش معاشرے کے ہر پہلو کو اپنے کلام میں بیان کیا ہے۔ بیدل کی وہ صفت جس نے نہ صرف انھیں‌ یگانہ و مقبول کیا وہ پسے ہوئے طبقات کی زندگی کے پہلوؤں پر بات کرنا تھا جس میں وہ فکری بلندی اور گہرے تہذیبی رچاؤ کے ساتھ شعر کہتے نظر آئے۔ برصغیر میں بیدل کو خانقاہی شاعر کے طور پر پیش کیا گیا جس سے اکثر ناقدین متفق نہیں ہیں۔ یہ درست ہے کہ بیدل کی شاعری کا بڑا حصّہ وحدتُ الوجود کے زیرِ اثر ہے وہ حقیقی معنوں میں انسان کی عظمت کے قائل تھے اور اسی کو اپنا وظیفہ سمجھتے تھے۔

    فارسی زبان کے اس عظیم شاعر کا مدفن دہلی میں ہے۔ بیدل نے اپنے فارسی کلام سے ایسا قصرِ طلسمِ معانی تخلیق کیا کہ ان کی نظم و نثر عدیم النظیر اور گراں قدر سرمایۂ ادب قرار پائی۔ ان کی مثنویات اور غزلوں کا اردو زبان کے علاوہ خطّے کی دیگر زبانوں‌ میں‌ بھی ترجمہ کیا جا چکا ہے۔

  • الیگزینڈر ڈوما کا تذکرہ جس کی کہانیاں حیرت انگیز اور پُرتجسس واقعات سے بھری ہوئی ہیں

    الیگزینڈر ڈوما کا تذکرہ جس کی کہانیاں حیرت انگیز اور پُرتجسس واقعات سے بھری ہوئی ہیں

    الیگزینڈر ڈوما کو فرانس کا سب سے زیادہ پڑھے جانے والا اور مقبول ادیب کہا جاتا ہے جس کی کہانیوں اور ڈراموں کا متعدد زبانوں‌ میں‌ ترجمہ ہوا اور اسے دنیا بھر میں شہرت حاصل ہوئی۔

    5 دسمبر 1870ء کو وفات پانے والے الیگزینڈر ڈوما نے فرانس کے ایک علاقے میں‌ 1802ء میں آنکھ کھولی۔ اس نے تعلیم حاصل کرنے کے بعد خود کو ایک ڈرامہ نویس کے طور پر منوایا اور بعد کے برسوں میں کہانیاں‌ لکھیں۔ اس کی کہانیاں بہت زیادہ مقبول ہوئیں۔

    فرانس میں ڈوما کو جو مقبولیت حاصل ہوئی وہ کسی اور ناول نگار کو نصیب نہیں ہوئی۔ اس کی کہانیوں‌ کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے انھیں‌ مختلف زبانوں‌ جن میں اردو بھی شامل ہے، ترجمہ کیا گیا۔ ڈوما کے ناولوں کو آج بھی دنیا بھر میں نہایت شوق اور دل چسپی سے پڑھا جاتا ہے۔

    الیگزینڈر ڈوما کی کہانیوں‌ کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس نے تاریخ اور مہم جوئی کے واقعات کو کہانی سے جوڑ کر اسے نہایت دل چسپ بنا دیا ہے۔ اس کی کہانیاں انتقام اور دولت سے پیدا ہونے والے مسائل یا ایسے واقعات کے گرد گھومتی ہیں جو قارئین کا شوق اور تجسس بڑھاتے ہیں۔ اس کی کہانیاں‌ حیرت انگیز دنیا میں‌ لے جاتی ہیں‌ جہاں قارئین کو سنسنی خیز اور پُرتجسس واقعات اپنی گرفت میں‌ لے لیتے ہیں۔

    ڈوما کی چند کہانیوں‌ میں‌ "تین بندوقچی”، "فولادی خود میں انسان”، "ملکہ مارگو” اور "مونٹی کرسٹو کا نواب” اردو میں‌ ترجمہ ہوکر بہت مقبول ہوئیں۔ اس نے اپنی کہانیوں‌ سے شہرت ہی نہیں دولت بھی کمائی، لیکن موت کے وقت وہ مالی مسائل سے دوچار تھا۔

    خاص طور پر اس کا ناول "مونٹی کرسٹو کا نواب” بہت مشہور ہوا۔ اس ناول کے بعض واقعات اتنے حیرت انگیز اور دل چسپ ہیں کہ قاری اس کہانی کو ختم کیے بغیر نہیں‌ رہ سکتا اور واقعات کا تسلسل اسے صفحہ پلٹنے پر مجبور کرتا چلا جاتا ہے۔

    فرانس کے عظیم شہر پیرس میں‌ اپنے وقت کا یہ مقبول کہانی کار آسودۂ خاک ہے۔ ڈوما کی کہانیوں پر متعدد فلمیں‌ بھی بنائی‌ گئیں‌ جنھیں‌ بہت پسند کیا گیا۔

  • اردو زبان و ادب کے ایک نادرِ روزگار پطرس بخاری کا تذکرہ

    اردو زبان و ادب کے ایک نادرِ روزگار پطرس بخاری کا تذکرہ

    اردو زبان و ادب کو پطرس بخاری کے قلم نے انشائیوں کے ساتھ بیک وقت مزاح، بہترین تنقیدی مضامین اور عمدہ تراجم دیے، لیکن وہ صرف اصنافِ ادب تک محدود نہیں رہے بلکہ صحافت میں‌ جیّد، صدا کاری و شعبۂ نشریات میں‌ ماہر اور ایک منجھے ہوئے سفارت کار بھی کہلائے۔ آج پطرس بخاری کا یومِ وفات ہے۔

    1898ء میں‌ پشاور کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہونے والے پروفیسر احمد شاہ بخاری نے اپنے قلمی نام پطرس بخاری سے شہرت پائی۔ وہ اردو، فارسی، پشتو اور انگریزی پر دسترس رکھتے تھے۔ ان کا انگریزی زبان کا درست تلفّظ مشہور تھا۔

    احمد شاہ بخاری نے گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی اور اپنے علم و ادب کے شوق کے سبب کالج کے معروف مجلّے ’راوی‘ کی ادارت سنبھالی۔ یہیں سے ان کے لکھنے لکھانے کا باقاعدہ آغاز بھی ہوا۔ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے کیمبرج گئے جہاں ان کی دل چسپی اور رغبت انگریزی شعروادب میں‌ بڑھی اور انھوں نے انگریزی کے ادب پاروں کو اردو کے قالب میں ڈھالنا شروع کیا۔ ہندوستان واپس آکر بھی انھوں نے یہ سلسلہ جاری رکھا اور دوسرے ادیبوں کو بھی ترجمے اور تالیف کی طرف راغب کیا۔

    ان کی ادبی خدمات اور فنونِ لطیفہ میں‌ دل چسپی نے انھیں‌ آل انڈیا ریڈیو کے ناظمِ اعلیٰ کے منصب پر پہنچایا، لیکن ان کی اردو سے محبّت اور ریڈیو پر ان کے بعض فیصلوں نے انھیں غیرمقبول اور بعض‌ شخصیات کی نظر میں‌ ناپسندیدہ بنا دیا اور وہ سازشوں اور شکایات کی وجہ سے تنگ آگئے اور جب انھیں گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل کا عہدہ پیش کیا گیا تو انھوں نے فوراً یہ پیش کش قبول کر لی۔

    بخاری صاحب علمی و ادبی شخصیت اور باصلاحیت ہی نہیں‌ ذہین، مدبّر اور معاملہ فہم بھی تھے جنھیں‌ لیاقت علی خاں نے سفارت کار کے طور پر منتخب کرلیا۔ وہ اپنے اوّلین دورۂ امریکا بخاری صاحب کو پاکستانی ترجمان کے طور پر ساتھ لے گئے۔ پچاس کے عشرہ میں‌ پطرس بخاری اقوامِ متحدہ میں پاکستانی مندوب کے فرائض سرانجام دینے لگے۔ بعد میں‌ وہ اقوامِ متحدہ کے انڈر سیکرٹری جنرل بھی بنائے گئے۔ اسی زمانے میں ان کا انتقال ہوا۔ 5 دسمبر 1958ء کو پطرس بخاری نیویارک میں چل بسے۔

    پطرس کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی ہوئی تھی۔ انھوں نے پشاور سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور بی اے کرنے کے بعد 1922ء میں لاہور یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ایم اے کیا۔ انھوں نے امتحان میں اوّل پوزیشن حاصل کی تھی۔

    وطن واپسی پر گورنمنٹ کالج لاہور میں کئی سال تک ادبیات کے پروفیسر رہے اور پنجاب ٹیکسٹ بک کمیٹی سے وابستہ رہے۔

    پطرس کے شگفتہ و سنجیدہ مضامین اور تراجم کے علاوہ ان کی تصنیف و تالیف کردہ کئی کتب شایع ہوچکی ہیں۔ وہ برجستہ گو، حاضر دماغ اور طباع تھے جن کی کئی پُرلطف اور دلچسپ باتیں مشہور ہیں۔

    ہاسٹل میں‌ پڑھنا، مرحوم کی یاد میں، کتّے، میبل اور میں کے علاوہ ان کے کئی شگفتہ مضامین اور خطوط بالخصوص قارئین میں مقبول ہیں۔