Tag: 6 ستمبر وفات

  • سلطنتِ‌ عثمانیہ کے مشہور سلطان سلیمانِ اعظم کی زندگی کے اوراق

    سلطنتِ‌ عثمانیہ کے مشہور سلطان سلیمانِ اعظم کی زندگی کے اوراق

    آج سلطنتِ عثمانیہ کے ایک مشہور اور عظیم حکم ران سلیمان اوّل کا یومِ وفات ہے جنھیں ترکی میں سلیمان قانونی بھی کہا جاتا ہے جب کہ مغرب و یورپ کے غیر مسلم مؤرخین نے بھی ان کی عظمت کا اعتراف کیا ہے اور انھیں سلیمانِ اعظم لکھا ہے۔

    سلطان کی ریاست ترکی کے بعد سَر زمین حجاز، مصر، الجزائر، عراق، کردستان، شام، بیتُ المقدس، خلیج فارس اور بحیرہ روم کے ساحلی علاقوں تک پھیلی ہوئی تھی اور یونان اور مشرقی و مغربی ہنگری بھی ان کے زیرِ نگیں‌ تھے۔

    سلیمان اوّل سلطنت عثمانیہ کے دسویں اور طویل ترین عرصہ تک حکم ران رہنے والے سلطان تھے۔وہ 1464ء میں پیدا ہوئے اور 1520ء میں سلطنت سنبھالی۔ سلطان 1566ء میں اپنی وفات تک سلطنت کے حکم ران رہے۔

    ان کے عہد میں سلطنت عثمانیہ کے لیے قانون سازی کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا اور اس بنا پر ترک انھیں سلیمان قانونی کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔

    وہ نہ صرف ایشیا بلکہ یورپ کے اُن اہم اور مشہور حکم رانوں میں سے ایک تھے جنھوں نے زبردست فتوحات کیں اور یورپ میں مسیحیوں کے اہم مراکز کے علاوہ جنگوں کے بعد مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقا کے متعدد علاقے سلطنت میں شامل کیے۔ ان کے دور میں سلطنتِ عثمانیہ میں فن و ادب اور تعمیرات کے شعبوں میں بہت ترقی ہوئی۔

    ان کے والد سلیم اوّل سلطنت عثمانیہ کے نویں سلطان تھے جن سے سلیمان قانونی نے حربی فنون سیکھے۔ سلیمان نے اپنے دورِ سلطانی میں عثمانی سلطنت کو سیاسی برتری دلوانے اور اسے قائم و برقرار رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔ وہ اپنے 46 سالہ دورِ حکومت میں جنگ یا کسی نہ کسی مہم میں مصروف رہے حتیٰ کہ دورانِ جنگ ہی داعی اجل کی آواز پر لبیک کہا۔

    وہ آسٹریا میں 1565ء میں ایک جنگی مہم کے دوران اپنی فوج کی قیادت کررہے تھے جہاں فتح سے قبل انتقال کرگئے، تاہم ان کی فوج نے غلبہ پایا اور فتح کے بعد سلطان کی میّت قسطنطنیہ لائی گئی جہاں مسجدِ سلیمانیہ میں انھیں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • پاکستانی فلمی صنعت کے ایک معمار اور مشہور ایورنیو اسٹوڈیو کے مالک آغا جی اے گل کا تذکرہ

    پاکستانی فلمی صنعت کے ایک معمار اور مشہور ایورنیو اسٹوڈیو کے مالک آغا جی اے گل کا تذکرہ

    آغا جی اے گل پاکستان کے مشہور فلم ساز اور مشہور ایور نیو اسٹوڈیو کے مالک تھے جن کا آج یومِ‌ وفات ہے۔ وہ قیامِ پاکستان کے بعد ملک میں فلمی صنعت کی بنیاد رکھنے اور یہاں فلم سازی اور اس شعبے کی ترقّی و ترویج میں نمایاں کردار ادا کرنے والوں میں سے ایک تھے۔

    آغا جی اے گل نے لاہور میں ایور نیو اسٹوڈیو قائم کر کے فلم سازی کے شعبے کی ترقی اور سنیما کو مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ایک دور تھا جب ایورنیو اسٹوڈیوز کی رونق دیدنی تھی اور اس بینر تلے سنیما کے لیے شان دار اور قابلِ ذکر کام کیا گیا۔

    پاکستان کی فلم انڈسٹری کے معمار اور سرپرست آغا جی اے گل 6 ستمبر 1983ء کو لندن میں وفات پاگئے۔

    ان کا تعلق پشاور سے تھا جہاں وہ 19 فروری 1913ء کو پیدا ہوئے۔ انھوں نے فلم مندری سے خود کو انڈسٹری میں فلم ساز کے طور پر متعارف کروایا۔ یہ 1949ء میں نمائش کے لیے پیش کی گئی فلم تھی۔ اس کے بعد سنیما کو ایور نیو پروڈکشنز کے تحت یادگار فلمیں‌ دیں جن میں دلا بھٹی، لختِ جگر، نغمۂ دل، اک تیرا سہارا، قیدی، رانی خان، راوی پار، ڈاچی، عذرا، شباب، نجمہ اور نائلہ سرِفہرست ہیں۔

    انھوں نے ایور نیو اسٹوڈیو کو اس زمانے میں فلم سازی کے جدید آلات اور ساز و سامان سے آراستہ کیا اور اس پلیٹ فارم سے کئی لوگوں کو متعارف کروایا اور سیکھنے کا موقع دیا۔

    آغا جی اے گل لاہور کے قبرستان میں ابدی نیند سورہے ہیں۔

  • معروف ترقّی پسند ادیب، شاعر اور صحافی حسن عابدی کا یومِ وفات

    معروف ترقّی پسند ادیب، شاعر اور صحافی حسن عابدی کا یومِ وفات

    سیّد حسن عسکری اردو ادب میں‌ حسن عابدی کے نام سے معروف ہوئے اور اپنی تخلیقات کے سبب بڑا نام و مرتبہ حاصل کیا۔ وہ ترقّی پسند ادیب، شاعر اور صحافی تھے جن کی آج برسی ہے۔ حسن عابدی 2005ء میں آج ہی کے دن کراچی میں وفات پاگئے تھے۔

    7 جولائی 1929 کو ضلع جونپور میں پیدا ہونے والے حسن عابدی نے اعظم گڑھ اور الہ آباد سے تعلیم حاصل کی۔ قیام پاکستان کے بعد انھوں نے لاہور ہجرت کی اور بعد میں کراچی میں اقامت اختیار کرلی۔ لاہور میں 1955 میں حسن عابدی نے روزنامہ آفاق سے صحافتی کیریر کا آغاز کیا اور بعد میں شہرہ آفاق شاعر فیض احمد فیض کی ادارت میں نکلنے والے جریدے لیل و نہار سے وابستہ ہوگئے۔ کراچی منتقل ہونے کے بعد بھی ان کا صحافتی سفر جاری رہا اور اسی دوران انھوں‌ نے کالم نگاری شروع کی۔ وہ ایک بہترین مترجم بھی تھے۔

    حسن عابدی کی تصانیف میں کاغذ کی کشتی اور دوسری نظمیں، نوشت نَے، جریدہ اور فرار ہونا حروف کا شامل ہیں۔ انھوں نے جنوں میں جتنی بھی گزری کے نام سے اپنی یادداشتیں بھی رقم کیں‌۔ حسن عابدی کئ ترجمہ شدہ کتاب بھارت کا بحران کے نام سے بھی اشاعت پذیر ہوئی تھی۔

    اردو کے اس معروف شاعر اور ادیب نے بچوں کے لیے بھی کئی کہانیاں اور نظمیں لکھیں۔ شریر کہیں‌ کے، بچوں‌ کے لیے حسن عابدی کی لکھی گئی نظموں کے مجموعے کا نام ہے۔ اپنے ترقی پسند نظریات کی وجہ سے انھوں نے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ حسن عابدی کی غزل کے دو اشعار دیکھیے۔

    ہم تیرگی میں شمع جلائے ہوئے تو ہیں
    ہاتھوں میں سرخ جام اٹھائے ہوئے تو ہیں
    اس جانِ انجمن کے لیے بے قرار دل
    آنکھوں میں انتظار سجائے ہوئے تو ہیں