Tag: 6 مئی وفات

  • نام وَر ادیب، شاعر اور نقّاد پروفیسر شمیم حنفی انتقال کرگئے

    نام وَر ادیب، شاعر اور نقّاد پروفیسر شمیم حنفی انتقال کرگئے

    اردو کے ممتاز ادیب، نقّاد، ڈراما نگار، شاعر اور مترجم ڈاکٹر شمیم حنفی انتقال کرگئے۔ ان کی عمر 81 برس تھی۔ شمیم حنفی کا شمار اردو کے نام وَر نقّادوں میں کیا جاتا ہے۔

    شمیم حنفی 1938ء میں سلطان پور(یو پی) میں پیدا ہوئے تھے اور ان دنوں دہلی میں مقیم تھے۔ بھارت سے تعلق رکھنے والے شمیم حنفی نے الٰہ آباد یونیورسٹی سے ایم اے اردو اور ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی تھی۔ انھیں زمانہ طالبِ علمی میں جن صاحبانِ علم و فضل سے سیکھنے کا موقع ملا ان میں فراق گورکھپوری، احتشام حسین، ستیش چندر دیب جیسی شخصیات شامل ہیں۔

    تعلیم مکمل کرنے کے بعد شمیم حنفی چھے سال علی گڑھ یونیورسٹی میں تدریس سے منسلک ہوئے اور بعد میں جامعہ ملیہ اسلامیہ سے وابستہ ہوگئے، وہ 2003ء میں اپنی ریٹائرمنٹ تک اس تعلیمی ادارے سے وابستہ رہے۔

    شمیم حنفی نے تنقید کے علاوہ خاکے، ڈرامے اور کالم بھی لکھے۔ انھوں‌ نے تراجم اور کئی اہم کتابوں کی ترتیب و تدوین کا کام بھی انجام دیا۔

    شمیم حنفی کو بھارت اور پاکستان کے علاوہ اردو ادب کے حوالے سے عالمی سطح پر منعقدہ تقاریب میں مدعو کیا جاتا تھا۔ انھوں نے پاکستان میں منعقدہ عالمی اردو کانفرنس کے علاوہ متعدد ادبی تقاریب میں شرکت کی اور زبان و ادب کی ترویج و فروغ کے لیے کوشاں رہے۔

    شمیم حنفی کی تصانیف اردو ادب کا بیش قیمت سرمایہ ہیں۔ ’’جدیدیت کی فلسفیانہ اساس‘‘، ’’غزل کا نیا منظر نامہ‘‘، ’’کہانی کے پانچ رنگ‘‘، ’’اردو کلچر اور تقسیم کی وراثت‘‘، ’’سرسید سے اکبر تک‘‘، ’’منٹو حقیقت سے افسانے تک‘‘، ’’اقبال کا حرفِ تمنا‘‘، اور خاکوں کی کتاب ’’ہم سفروں کے درمیان‘‘ ان کی چند نہایت اہم اور قابلِ ذکر کتب ہیں۔ شمیم حنفی نے تراجم کے علاوہ ڈرامے اور بچّوں کے لیے بھی کہانیاں تخلیق کیں۔

  • زمزمۂ حیات اور غزال و غزل کے شاعر سراج الدّین ظفر کا تذکرہ

    زمزمۂ حیات اور غزال و غزل کے شاعر سراج الدّین ظفر کا تذکرہ

    6 مئی 1972ء کو اردو کے معروف شاعر سراج الدّین ظفر وفات پاگئے تھے۔ وہ دنیائے ادب میں اپنے منفرد لب و لہجے اور اسلوب کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔

    جہلم میں‌ پیدا ہونے والے سراج الدّین ظفر کا تعلق ایک علمی و ادبی گھرانے سے تھا۔ والدہ بیگم زینب عبدالقادر اردو کی مشہور مصنفہ تھیں جب کہ نانا فقیر محمد جہلمی سراج الاخبار کے مدیر تھے اور ان کی کتاب حدائقُ الحنیفہ ایک بلند پایہ تصنیف تسلیم کی جاتی ہے۔

    سراج الدین ظفر نے شاعری تخلیق کرنے کے ساتھ افسانے بھی لکھے۔ انھیں منفرد لب و لہجے کا شاعر کہا جاتا ہے۔ نئی زمینیں اور ادق قافیے ان کے کلام کی خوب صورتی اور ان کے فن کی انفرادیت کا ثبوت ہیں۔ ان کی شاعری کے دو مجموعے زمزمہ حیات اور غزال و غزل منظرِ عام پر آچکے ہیں۔ غزال و غزل وہ مجموعہ تھا جس کے لیے 1968ء میں انھیں آدم جی ادبی انعام دیا گیا۔ سراج الدین ظفر کی شاعری میں حسن و شباب اور رندی و سرمستی کے موضوعات ملتے ہیں۔

    ان کی ایک غزل کے چند اشعار دیکھیے۔

    موسمِ گل ترے انعام ابھی باقی ہیں
    شہر میں اور گل اندام ابھی باقی ہیں

    اور کھل جا کہ معارف کی گزر گاہوں میں
    پیچ، اے زلف سیہ فام ابھی باقی ہیں

    اک سبو اور کہ لوحِ دل مے نوشاں پر
    کچھ نقوشِ سحر و شام ابھی باقی ہیں

    ٹھہر اے بادِ سحر، اس گلِ نورستہ کے نام
    اور بھی شوق کے پیغام ابھی باقی ہیں

    اٹھو اے شب کے غزالو کہ سحر سے پہلے
    چند لمحاتِ خوش انجام ابھی باقی ہیں

    اردو زبان کے اس نام ور شاعر کی ابدی آرام گاہ کراچی میں ہے۔