Tag: 65 ویں سالگرہ

  • بینظیربھٹوکی65 ویں سالگرہ پربلاول بھٹوکا والدہ کا مشن جاری رکھنے کاعزم

    بینظیربھٹوکی65 ویں سالگرہ پربلاول بھٹوکا والدہ کا مشن جاری رکھنے کاعزم

    کراچی : چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے سابق وزیراعظم بینظیربھٹو کی 65 ویں سالگرہ پراپنے پیغام میں کہا کہ والدہ کے مشن پرگامزن ہوں۔

    تفصیلات کے مطابق شہید محترمہ بینظیربھٹو کی سالگرہ کے موقع پر بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ بی بی نے خوشحال ، مضبوط اورجمہوری پاکستان کے لیے جدوجہد کی۔

    چیئرمین پیپلزپارٹی نے کہا کہ بی بی نے قوم کے بچوں کواپنی اولاد کی طرح سمجھا اورپیاردیا، بی بی کی جدوجہد آئندہ نسلوں کےلیے ولولے کا نشان ثابت ہوچکی ہے۔

    بلاول بھٹو نے کہا کہ بینظیربھٹونے 1994میں پاکستان سے پولیوکے خاتمےکا مشن شروع کیا تھا، بی بی نے ہی خواتین کو جائزحق دلوانے کی جدوجہد شروع کی۔

    انہوں نے کہا کہ ہم شہید بینظیربھٹوکے مشن کی تکمیل میں لگے رہیں گے، عوام 2018ء میں پیپلزپارٹی کو ہی دوبارہ اقتدارمیں لائیں گے۔

    شہید محترمہ بینظیربھٹو کی65 ویں سالگرہ آج منائی جارہی ہے

    واضح رہے کہ سابق وزیر اعظم اور پاکستان پیپلز پارٹی کی شہید چیئرمین محترمہ بینظیر بھٹو کی 65 ویں سالگرہ آج منائی جارہی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • شہید محترمہ بینظیربھٹو کی65 ویں سالگرہ آج منائی جارہی ہے

    شہید محترمہ بینظیربھٹو کی65 ویں سالگرہ آج منائی جارہی ہے

    سابق وزیر اعظم اور پاکستان پیپلز پارٹی کی شہید چیئرمین محترمہ بینظیر بھٹو کی 65 ویں سالگرہ آج منائی جارہی ہے۔

    شہید بینظیر بھٹوکی جمہوریت اور ملک و قوم کےلیے انجام دی گئیں خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں شہید رانی آج بھی عوام کے دلوں کی دھڑکن ہے۔

    بینظیر نے اکیس جون انیس سو ترپن کو شہرت یافتہ سیاسی بھٹو خاندان میں آنکھ کھولی،انہوں نے ابتدائی تعلیم لیڈی جیننگز نرسری اسکول کراچی میں حاصل کی اور پندرہ سال کی عمر میں اولیول کا امتحان پاس کیا،اپریل انیس تہتر میں ہارورڈ یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں گریجویشن اور آکسفورڈ یونیورسٹی سےاور سیاسیات میں ایم اے کیا۔

    انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے مشن کی تکمیل کی جدوجہد میں مصائب و مشکلات کا جرات و بہادری کے ساتھ سامنا کیا،قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں،جلا وطنی کی مشکلات کی پرواہ نہیں کی،جمہوریت اور پاکستان کے استحکام کی خاطر انہوں نے اپنی جان تک قربان کردی۔

    بینظیر بھٹو نے ضیاء آمریت کے خلاف بیگم نصرت بھٹو کے شانہ بشانہ چلتے ہوئے قوم کو متحد رکھا شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے انتہا پسندی کے خلاف قوم میں شعور بیدار کیا انہوں نے قید و بند اور جلاوطنی کے مصائب برداشت کیے مگر ہمت نہیں ہاری 1973ء کے آئین کی بحالی شہید بی بی کا مشن تھا۔

    محترمہ نے اپنے دونوں ادوار حکومت میں عوام کی فلاح و بہبود ،تعلیم،خواتین کے حقوق،صحت،توانائی،و دیگر شعبوں میں بے پناہ کام کیے انہوں نے او آئی سی میں کشمیری رہنماؤں کی بطور مبصر شمولیت کو یقینی بنایا اور کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی اخلاقی اور سفارتی مصائب کو تیز کردیا۔

    شہید بینظیر بھٹو نے پاکستان کے استحکام اور جمہوریت کی جدوجہد میں اپنی جان کانذرانہ پیش کردیا محترمہ کی شخصیت ملکی سیاست کے افق پر درخشندہ ستارے کی مانند ہمیشہ ہمیشہ اس طرح ہی چمکتی رہے گی،انہوں نے پوری زندگی جمہوریت کی مضبوطی اور آمریت کے خاتمے کے خلاف جدوجہد میں گزاری۔

    انیس سو ستاسی میں بینظیر وطن لوٹیں تو لاہور میں فقیدالمثال استقبال کیا گیا، انیس سو اٹھاسی کےعام انتخابات میں پی پی نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں اور بینظیر بھٹو ملک اور اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیرِاعظم بن گئیں۔

    اگست انیس سو نوے میں صدر اسحاق خان نے کرپشن کی وجہ سے حکومت کو برطرف کر دیا، انیس سو ترانوے کے عام انتخابات میں بینظیر دوسری بار وزیراعظم منتخب ہوئیں لیکن اس بار بھی صدر فاروق لغاری نےانیس سو چھیانوے میں بدامنی اور بدعنوانی پر بینظیر کی حکومت کو برطرف کر دیا۔

    انہوں نے انتہا پسندی سے پاک جمہوری پاکستان کےلیے جرات و بہادری کے ساتھ جدوجہد کی انہیں وطن واپسی سے روکنے کےلیے موت کی دھمکیاں دی جاتی رہیں موت کی پرواہ کیے بغیر انہوں نے 2007میں وطن واپسی کا فیصلہ کیا۔

    ان کا اس بات پر مکمل یقین تھا کہ پاکستان کو بچانے کےلیے ان کی واپسی ناگزیر ہوچکی ہے انہوں نے واضح طور پر کہا کہ “میرے وطن کو خطرات لاحق ہیں اور اس موقع پر عوام اور ملک کو انتہا پسندی کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا ہے۔

    دسمبر2007 کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں بینظیر بھٹو نے اپنی زندگی کے آخری عوامی جلسے سے خطاب کیا اس موقع پر عوام کی کثیرتعداد موجود تھی۔

    خطاب کے بعد کارکنان سے اظہارِ یکجہتی کے لیے وہ گاڑی کی سن روف سے باہرنکلیں اس موقع پرایک نامعلوم شخص نے انہیں گولی کا نشانہ بنایا اوراس کے ساتھ ہی ان کی گاڑی سے محض چند قدم کے فاصلے پر ایک خود کش حملہ ہوا۔

    بینظیربھٹوکو راولپنڈی جنرل اسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • آج شیخ رشید کی65 ویں سالگرہ منائی جا رہی ہے

    آج شیخ رشید کی65 ویں سالگرہ منائی جا رہی ہے

    اپنے اسکول کے دور سے سیاست کے پُرخار راستے پر عوامی طرز سیاست کرنے والے شیخ رشید آج 65 سال ہو گئے ہیں ان 65 سالوں میں وہ سیاست کی پھیکی دنیا میں ظرافت،طنز اور دبنگ اسٹائل کے باعث عوام میں مقبولیت رکھتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان کی تاریخ کے مشہور ترین کنوارے سیاست دان کی 65 ویں سالگرہ آج راولپنڈی میں منائی گئی وہ 6 نومبر 1950 کو راولپنڈی میں پیدا ہوئے اور زمانہ طالب علمی سے ہی اس شہر سے اپنی سیاسی جدو جہد کا آغاز کیا اور نہایت ہی کم عمری میں اسیری بھی کاٹی۔

    sheikh-rasheed-post-2

    اس اسیری کے دوران انہوں نے سیاست کو ہی مقصد زندگی بنانے کا اٹل فیصلہ کر لیا اور جیل میں رہتے ہوئے بھی اپنے سیاسی نظریات کا پرچار کرتے رہے اور رہائی کے بعد گلی محلوں کی سیاست میں بھر پور حصہ لیا اور آج تک خود سے کیے گئے وعدے پر قائم ہیں۔

    sheikh-rasheed-post-3

    گریجویشن کے بعد انہوں نے ایک فیکٹری میں بھی کام کیا لیکن سیاست سے جڑے رہے 80 کی دہائی میں پاکستان مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے میونسپل سطح کی سیاست میں حصہ لینے کے بعد 1985 میں پہلی مرتبہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے،وہ اپنے عوامی طرز خطاب اور ذو معنوی جملوں کی وجہ سے کسی بھی جلسے کی کامیابی سمجھے جاتے ہیں۔

    sheikh-rasheed-post-1

    سیاسیات میں ماسٹر ڈگری حاصل کرنے کے بعد ان کے سیاسی داؤ پیچ میں مزید مہارت آ گئی اور وہ جلد اپنے قائدین کے خاص لوگوں میں شمار ہونے لگے،پنجاب کی سیاست میں شاید وہ واحد شخصیت ہوں گے جن کا تعلق کسی سیاسی گھرانے سے نہ تھا اور نہ ہی وہ کسی جاگیردار،وڈیرے یا کسی پیر کے گدی نشین تھے۔

    sheikh-rasheed-post-4

    اس کے باوجود شیخ رشید نے سیاست کے پیچ و خم کو نہایت کامیابی سے پار کیا اور اپنے قائد نواز شریف کے نہایت با اعتبار اور قریبی ساتھی تصور کیے جانے لگے موروثی سیاست کے درمیان انہوں نے اپنا الگ اور منفر مقام اپنے ہی زورِ بازو سے حاصل کیا جو کم ہی سیاست دان کر پائے ہیں۔

    تا ہم 2002 میں شیخ رشید نے اپنے قائد میاں نواز شریف سے راہیں جدا کر کے جنرل مشرف کے ہاتھ مضبوط کرنے کا ارادہ کیا اور 2002 سے 2006 تک وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات کی ذمہ داریاں نبھائیں اس دوران پاکستانی میڈیا میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا اور میڈیا سرکار کے چنگل سے نکل کر جدیدیت کی طرف گامزن ہوا اور اس دوران کئی نئے ٹی وی چینلز سامنے آئے جنہیں آزادی رائے اظہار کا بہترین موقع بھی میسر آیا۔

    بعد ازاں انہیں وفاقی وزیر ریلوے بھی مقرر کیا گیا اور انہوں نے اپنے دورِ وزارت 2006 تا 2007 میں ریلوے ملازمین کی فلاح و بہبود کے حوالے سے انقلابی اقدامات کیے اور چند نئی ٹرین سروسز بھی متعارف کرائیں تا ہم یہ ناکافی ثابت ہوئے اور محکمہ ریلوے مطلوبہ ترقی حاصل نہیں کرسکا۔

    سات مرتبہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے والے شیخ رشید نے 2008 کا انتخابات میں اپنی علیحدہ جماعت عوامی مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے لڑا تا ہم وہ کامیاب نہ ہو سکے اور 2013 میں تحریک انصاف کے ساتھ مل کر الیکشن لڑا اور کامیاب ہوئے اس کے بعد سے اب تک شیخ رشید اپوزیشن جماعتوں میں سب سے زیادہ متحرک اور مضبوط لیڈر ثابت ہوئے ہیں۔

    VIDEO: Sheikh Rasheed Arrives On Motorbike by arynews
    نواز حکومت کے خلاف حالیہ تحریک کے دوران شیخ رشید جس طرح تمام ناکے اور پہرے توڑ کر موٹر سائیکل پر کمیٹی چوک پہنچے وہ بھی انہی کا خاصہ تھا جب کہ دیگر اپوزیشن لیڈرز اپنے اپنے گھروں میں محفوظ بیٹھے تھے،شیخ رشید کی انہی عوامی طرز سیاست اور عوامی انداز گفتگو کے باعث پاکستانی سیاست میں منفرد مقام بنا چکے ہیں۔