Tag: 65 کی جنگ

  • جنگِ ستمبر: جب بھارت نے کراچی کی تباہی کی فرضی فلم بنائی!

    جنگِ ستمبر: جب بھارت نے کراچی کی تباہی کی فرضی فلم بنائی!

    1965ء میں کئی گنا زیادہ فوج اور بھاری اسلحے کے زعم میں پاکستان کی سرحدوں کو روند کر قابض ہونے کا خواب دیکھنے والے بھارت کو جب ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تو اس نے دنیا اور اپنے عوام کے سامنے جھوٹ اور پروپیگنڈے کا سہارا لیا۔ اس حوالے سے یہ واقعہ تاریخ کا حصّہ ہے۔

    6 ستمبر سے 23 ستمبر تک ہوائی حملوں کی وجہ سے پورے پاکستان میں بلیک آؤٹ رہا۔ حکومت کو اس سلسلے میں کسی قسم کی زحمت نہ کرنا پڑی۔ پبلک کو خود اپنی ذمہ داری کا اتنا احساس تھا کہ رات کے وقت کسی ایک گھر سے بھی روشنی کی کرن تک دکھائی نہیں دیتی تھی۔

    محلّے والے ٹولیاں بنا کر گشت کرتے تھے تاکہ محلّے کی بھی حفاظت رہے۔ کراچی پر کئی رات بھارت کے طیّارے آئے اور اپنی دانست میں بم بھی گراتے رہے مگر معلوم ہوا کہ یا تو بم چلے نہیں یا سمندر میں گرتے رہے۔ دو چار شل البتہ آبادی پر گرے مگر کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ مگر بھارت نے بڑے فخر سے اعلان کیا کہ لالو کھیت کا ہوائی اڈہ اور تین ہٹی کا پل برباد کر دیا گیا۔ حالاں کہ لالو کھیت میں کوئی ہوائی اڈّہ نہیں ہے اور ایک برساتی نالے پر تین ہٹّی کی پلیا ہے۔

    بھارت کے محکمہ اطلاعات نے ایک فرضی فلم بھی کراچی کی تباہی کی بنا لی جس میں دکھایا ہے کہ جہاں پہلے کراچی آباد تھا اب وہاں سمندر موجیں مار رہا ہے۔ بھارت کے پروپیگنڈے کا اصول یہ ہے کہ بمرگش بگیر تابہ تپ راضی شود۔

    اتنا بڑا جھوٹ بولو کہ اسے گھٹاتے گھٹاتے بھی کچھ نہ کچھ باقی رہ جائے۔

    (انشا پرداز اور نام ور ادیب شاہد احمد دہلوی کے مضمون سے اقتباس)

  • جنگِ ستمبر اور غیبی جھٹکا

    جنگِ ستمبر اور غیبی جھٹکا

    17 روزہ پاک بھارت جنگ پر مؤرخین کے علاوہ اس زمانے کے بڑے ادیبوں اور مضمون نگاروں‌ نے بھی اپنے قلم کو تحریک دی اور آنکھوں دیکھا احوال رقم کیا۔ اہلِ قلم نے 1965ء کی اس جنگ کے کئی واقعات بیان کیے ہیں اور بتایا ہے کہ کس طرح مختلف محاذوں پر عوام اپنے فوجی بھائیوں کے شانہ بہ شانہ دشمن افواج سے لڑنے کے لیے پہنچے تھے اور ان کا جوش و ولولہ دیدنی تھا۔

    یہ ایک ایسی ہی مختصر، مگر پُراثر تحریر ہے جو نام وَر ادیب شاہد احمد دہلوی کے ایک طویل مضمون کا حصّہ ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

    "پاکستان سے چھے گنی فوجی طاقت اور چار گنی آبادی کے زعم میں بھارت نے پاکستان پر قبضہ کرنے کی ٹھان لی تھی، مگر یہ حق اور باطل کی لڑائی تھی۔ چراغِ مصطفوی سے شرارِ بولہبی کی ستیزہ کاری تھی۔

    نتیجہ آپ نے اور ہم نے بھی دیکھ لیا اور دنیا نے بھی۔ پاکستان کے لیے یہ جنگ ایک رحمت ثابت ہوئی۔ یہ ایک ایسا غیبی جھٹکا تھا جس نے اہلِ وطن کو متفق و متحد کر دیا اور پوری قوم میں ایک نئی لہر دوڑ گئی۔

    لاہور والوں نے تو کمال ہی کر دیا کہ دشمن کے ٹینک اور فوجیں شہر سے کوئی آٹھ میل کے فاصلے پر آگئیں تھیں اور ہماری فوجیں ان کے پرخچے اڑا رہی تھیں کہ شہر کے جیالے جو کچھ ہاتھ میں آیا، لے کر دشمن کو مارنے گھر سے نکل پڑے۔ ان کے پیچھے لڑکیاں اور عورتیں بھی چل پڑیں اور سب کے سب دم کے دم میں شالیمار پہنچ گئے۔

    ہماری فوجوں کے پچھلے دستوں نے انھیں روکا۔ ورنہ حیدرآباد کے رضا کاروں کی طرح یہ سب بھی ٹینکوں کے آگے لیٹ جاتے اور دشمن کو للکارتے کہ جب تک ہم زندہ ہیں تو ہمارے شہر میں داخل نہیں ہوسکتا۔ پہلے تجھے ہماری لاشوں پر گزرنا پڑے گا، مگر اس کی نوبت نہ آئی۔

    ہماری فوجوں نے بڑی مشکل سے انھیں سمجھا بجھا کے واپس کیا کہ آپ شہر کا انتظام کیجیے، یہاں ہمیں دشمن سے نمٹنے دیجیے۔ آپ پر آنچ اس وقت آئے گی جب ہم نہ ہوں گے۔ اس پر بھی جوشیلے نوجوانوں نے واپس جانے سے انکار کر دیا اور محاذ پر رسد بھیجنے میں‌ فوجیوں کا ہاتھ بٹاتے رہے۔”

  • یوم دفاع: "سارا بھارت یقیناًَ گوش بَر آواز ہو گا”

    یوم دفاع: "سارا بھارت یقیناًَ گوش بَر آواز ہو گا”

    ریڈیو سنو ممکن ہے کوئی اہم اعلان ہو!

    ریڈیو پاکستان گرجا۔ صدر ایوب آج دن کے گیارہ بجے قوم سے خطاب کریں گے۔

    سارا لاہور گوش بر آواز ہوگیا۔ سارا پاکستان گوش بر آواز ہوگیا۔

    سارا بھارت یقیناًَ گوش بر آواز ہو گا۔

    اور صد ایوب کی آواز فضائے بسیط میں گونجی۔

    بھارت کو معلوم نہیں اس نے کس قوم کو للکارا ہے۔ حالات نے دشمن سے مقابلے کے لیے لاہور کے بہادروں کا سب سے پہلے انتخاب کیا ہے۔ تاریخ ان جواں مردوں کے کارنامے اس عبارت کے ساتھ زندہ رکھے گی کہ یہی لوگ تھے جنھوں نے دشمن کی تباہی کے لیے آخری ضرب لگائی۔

    لاہور کا سَر فخر سے بلند ہوگیا۔ لاہور کا ہر شہری یہ محسوس کرنے لگا جیسے صرف لاہور ہی نہیں سارے پاکستان کی حفاظت اس کے کاندھوں پر آن پڑی ہے۔ کیوں نہ ہو لاہور کو پاکستان کا دل کہا جاتا ہے اور جب تک دل میں دھڑکن باقی ہے زندگی ہے تابندگی ہے۔

    نہ لاہور کا دل ڈوبا نہ لاہور کی نبضیں چھوٹیں۔ صدر کے گراں قدر الفاظ نے لاہور کی رگوں میں تازہ خون کی لہر دوڑا دی۔ لاہور کمر کس کے تیار ہو گیا۔ سارا پاکستان دشمن کی توپوں کے دہانے سرد کرنے کے لیے چوکس ہوگیا۔

    دیکھتے ہی دیکھتے سارے شہر میں ایک نیا جذبہ پیدا ہو گیا۔ جذبہ ایثار۔ بچّہ ہو کہ بوڑھا امیر ہو کہ غریب۔ اعلی افسر ہو کہ ادنیٰ ملازم۔ امیر کبیر تاجر ہو کہ چھابڑی والا۔ ہر ایک اپنے وطن کی حفاظت کے لیے اپنی عزیز شے قربان کرنے لگا۔

    صدر نے قومی دفاعی فنڈ کا اعلان کیا تو ہر طرف سے روپوں کی بارش ہونے لگی۔

    آدم جی نے لاکھوں روپے دے کر یہ اعلان کیا کہ یہ تو محض پہلی قسط ہے۔

    اسکول کے دو ننّھے بچے نیشنل بینک کے باہر بینک کھلنے کا انتظار کرنے لگے۔ ان کی مٹھیاں بند تھیں۔ بینک کھلنے پر انھوں نے خزانچی کے پاس جاکر ٹیڈی پیسوں کے ڈھیر لگا دیے اور کہنے لگے۔ یہ ہمارے جیب خرچ کے پیسے ہیں مگر ہم نے ان پر کلمہ طیبہ پڑھا ہے۔ اسے اپنے پیسوں میں ملا لیجیے بڑی برکت ہوگی۔

    (حبیب اللہ اوج کے قلم سے جنھوں نے 1966ء میں جنگ کے حوالے سے اپنی یادیں رقم کی تھیں)

  • جنگِ ستمبر: پاکستانی بچّہ جو قومی رضا کار بھرتی ہونے کے لیے دفتر پہنچ گیا

    جنگِ ستمبر: پاکستانی بچّہ جو قومی رضا کار بھرتی ہونے کے لیے دفتر پہنچ گیا

    صدر ایوب نے اپنی تقریر میں کہا: ’’ہندوستان کے حکم ران شاید یہ نہیں جانتے کہ انھوں نے کس قوم کو للکارا ہے…‘‘

    جب صدر کی تقریر ختم ہوئی تو ہم نعرہ تکبیر، پاک فوج زندہ باد، پاکستان پائندہ باد کے نعرے لگاتے محلّے کے چھوٹے سے بازار میں چھوٹا سا جلوس لے کر چل پڑے۔

    دکان داروں نے ہمیں دیکھا تو وہ بھی کھڑے ہو کر ہمارے نعروں کا جواب دینے لگے۔ ایسے چھوٹے چھوٹے جلوس اور نعرے بازی ہمارا معمول بن گیا تھا۔ دن بھر ریڈیوپر قومی و ملّی نغمے، شام کو فوجی بھائیوں کے لیے خصوصی پروگرام سنا کرتے۔

    پاک فضائیہ کے پاس بھارت کے جدید طیاروں کے برعکس سیبر طیارے تھے۔ ریڈیو نے بتایا کہ پاک فضائیہ نے وطن کے دفاع کے لیے وہ کار ہائے نمایاں انجام دیے کہ قوم کا جذبۂ حُب الوطنی اور جذبۂ ایمانی فوج کی طاقت بن گیا۔ پاکستان کے فلائٹ لیفٹیننٹ یونس حسن شہید اور ایم ایم عالم کا واقعہ بھی عالمی ریکارڈ ہے۔

    ایک روز جب بھائی خاکی وردی میں ملبوس سر پر ہری ٹوپی پہنے گھر میں داخل ہوا تو اس نے بتایا کہ اسے شہری دفاع میں رضا کار کے طور پر بھرتی کرلیا گیا ہے۔

    جب بلیک آؤٹ ہوا کرتا تو یہ رضا کار لوگوں کے گھروں کی بتیاں بند کروایا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ یہ رضا کار محاذ تک استعمال کی اشیا اور سامانِ خور و نوش کی رسد کا فریضہ بھی ادا کرنے پر مامور تھے۔ مگر ہمارا معمول تھا کہ جب بھی سائرن بجتے چھتوں پر چڑھ جاتے اور فضائے نیلگوں میں پاکستانی طیاروں کی بھارتی طیاروں پر جھپٹ پلٹ کا نظارا کرتے۔

    گھر والے روکتے، سول ڈیفنس والے بھی دروازے پر دستک دیتے، تنبیہ کرتے مگر ہم کہاں ٹلتے۔ خوف سے کھیلنا ہمارا مشغلہ بن گیا تھا۔ ہمارے گھر کے قریب ہی سول ڈیفنس کا علاقائی دفتر تھا جہاں تمام رضا کار جمع ہوتے اور انھیں ان کی ذمہ داریاں دی جاتیں۔

    ایک دن بھائی کو بتائے بغیر میں بھی سول ڈیفنس کے دفتر پہنچ گیا جہاں پر رضا کاروں کے ساتھ ساتھ ان کے انچارج بھی موجود تھے۔ میں نے کہا کہ میں بھی رضا کار بننا چاہتا ہوں۔ دشمن کو پتا نہیں اس نے کس قوم پر حملہ کیا ہے۔ میں نے بڑے جذباتی انداز میں تقریر شروع کر دی۔ سب سنتے رہے۔ آخر ان کے افسر میرے پاس آئے میرے سَر پر ہاتھ پھیرا۔ میں نے دیکھا ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔

    انھوں نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا: خدا کی قسم! جس قوم کے بچّوں میں وطن کی محبّت کا یہ جذبہ ہو اسے دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔ اس کے بعد انھوں نے مجھے کہا۔ بیٹا تم ابھی بہت چھوٹے ہو۔ تم اپنی پڑھائی پر دھیان دو، اپنے والدین کا کہا مانو، ہمسایوں سے اچھا سلوک کرو، تمہارا یہی فرض ہے، یہی جہاد ہے اور وطن سے محبّت کا یہی طریقہ ہے۔ تم سمجھو کہ تم بھی پاک فوج کے شانہ بشانہ لڑرہے ہو۔

    وحدت کالونی کی سڑک ان دنوں بہت چھوٹی سی تھی جو ملتان روڈ کو فیروز پور روڈ سے ملاتی تھی۔ ہم سڑک پر کھڑے ہو کر منتظر رہتے کہ کب فوجی گاڑی یہاں سے گزرے۔ دور سے آتی ہوئی گاڑی کو دیکھ کر ہم اپنے دوسرے ساتھیوں کو آوازیں دے کر بلاتے اور بتاتے کہ گاڑی آرہی ہے اور وہ دوسرے لڑکوں کو بتاتے اور سب سڑک کے کنارے آکر کھڑ ے ہو جاتے۔

    فوجیوں کو ہاتھ ہلا کر سلام کرتے، پاک فوج زندہ باد کے نعرے لگاتے۔کبھی کبھار کوئی گاڑی ایک پل کے لیے رکتی، ہم بھاگم بھاگ سپاہیوں سے ہاتھ ملاتے۔ سپاہی ہمارے گال تھپتھپاتے اور نعروں کی گونج میں چل دیتے۔

    خبروں میں سب سے زیادہ جن محاذوں کے نام سنے، ان میں واہگہ، چھمب جوڑیاں، کھیم کرن، گنڈا سنگھ والا کے نام مجھے یاد رہ گئے۔ آج بھی جب ان شہروں اور علاقوں کے نام سنتا ہوں تو جنگِ ستمبر 65 ء کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔

    (محمد ظہیر بدر کے مضمون پینسٹھ اور قومی زندہ دلی سے اقتباسات)