Tag: 7 ستمبر وفات

  • ممتاز شاعر اور ادیب سرشار صدیقی کا تذکرہ

    ممتاز شاعر اور ادیب سرشار صدیقی کا تذکرہ

    اردو زبان کے ممتاز شاعر، ادیب اور کالم نگار سرشار صدیقی 7 ستمبر 2014ء کو جہانِ فانی سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے۔ وہ ترقّی پسند تحریک اور کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ رہے تھے۔

    ان کا اصل نام اسرار حسین محمد تھا۔ 25 دسمبر1925 ء کو کان پور میں پیدا ہوئے۔ والد ممتاز طبیب تھے اور طبیہ کالج دہلی میں استاد تھے۔ سرشار صدیقی نے میٹرک کلکتہ سے جب کہ انٹر کان پور سے کیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد 1950ء میں پاکستان آئے اور کراچی میں سکونت اختیار کی۔

    یہاں بھی شعر و ادب سے جڑے رہے اور ساتھ ہی صحافت سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا، انھوں نے مختلف اخبارات کے لیے کالم لکھے اور 1955ء میں نیشنل بینک میں ملازم ہوگئے۔ اسی ملازمت سے ریٹائر ہوئے جب کہ علاّمہ نیاز فتح پوری کے مشہور مجلّے ’’نگار‘‘ کی مجلسِ ادارت سے آخری وقت تک وابستگی برقرار رکھی۔

    سرشار صدیقی کے شعری مجموعوں میں پتّھر کی لکیر، زخمِ گل، ابجد، بے نام، خزاں کی آخری شام، اساس، میثاق، آموختہ اور اعتبار شامل ہیں جب کہ ان کی نثری تخلیقات کے مجموعے ارتقا، حرفِ مکرّر، اجمال، نا تراشیدہ اور رفتگاں کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔

    حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔ ان کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے

    چہرے کو بحال کر رہا ہوں
    دنیا کا خیال کر رہا ہوں

    اک کارِ محال کر رہا ہوں
    زندہ ہوں کمال کر رہا ہوں

    وہ غم جو ابھی ملے نہیں ہیں
    میں ان کا ملال کر رہا ہوں

    اشعار بھی دعوتِ عمل ہیں
    تقلیدِ بلال کر رہا ہوں

    تصویر کو آئینہ بنا کر
    تشریحِ جمال کر رہا ہوں

    چہرے پہ جواب چاہتا ہوں
    آنکھوں سے سوال کر رہا ہوں

    کچھ بھی نہیں دسترس میں سرشارؔ
    کیوں فکرِ مآل کر رہا ہوں

  • ڈاکٹر ابواللیث صدیقی: اردو ادب میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پہلے پی ایچ ڈی اسکالر

    ڈاکٹر ابواللیث صدیقی: اردو ادب میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پہلے پی ایچ ڈی اسکالر

    ڈاکٹر ابواللیث صدیقی متحدہ ہندوستان کے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے اردو ادب میں پی ایچ ڈی کرنے والے پہلے اسکالر تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد کراچی آگئے اور یہاں علمی و ادبی میدان میں نمایاں کارنامے انجام دیے۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔

    پاکستان کے ممتاز ماہرِ لسانیات، محقّق، ماہرِ تعلیم اور نقّاد ابواللیث صدیقی نے جامعہ کراچی کے شعبہ اردو کے سربراہ اور کولمبیا یونیورسٹی کے وزیٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے بھی کام کیا۔

    آگرہ ان کا وطن تھا جہاں 15 جون 1916ء کو پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم وکٹوریہ ہائی اسکول، آگرہ مشن اسکول اور اسلامیہ ہائی اسکول بدایوں سے مکمل کی۔ بعد ازاں انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے 1942ء میں پروفیسر رشید احمد صدیقی کے زیرِ نگرانی پی ایچ ڈی مکمل کی۔

    وہ متعدد کتب کے مصنّف تھے جب کہ ان کی ایک خود نوشت بھی منظرِ عام پر آئی جس کے مقدمے میں ڈاکٹر معین الدّین عقیل لکھتے ہیں کہ “ڈاکٹر ابواللیث صدیقی زمانہ طالب علمی ہی سے مضامین و مقالات لکھنے لگے تھے جو جامعہ دہلی، علی گڑھ میگزین علی گڑھ، ہمایوں لاہور، معارف اعظم گڑھ اور نگار لکھنؤ میں شائع ہوتے رہے۔ تنقید اور تحقیق دونوں ہی میں ڈاکٹر صاحب کی دل چسپی یکساں تھی۔ بعد میں لسانیات اور خاص طور پر اردو لسانیات ان کا محبوب موضوع بن گیا۔ ان کے پی ایچ ڈی کے تحقیق مقالے لکھنؤ کا دبستانِ شاعری نے، جو شعبہ اردو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کا پہلا تحقیقی کام تھا، انھیں اسی زمانے میں شہرت سے ہم کنار کر دیا تھا۔ یہ مقالہ بھارت اور پاکستان میں کئی بار شائع ہوا۔“

    ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کی چند اہم تصانیف میں مصحفی: اس کا عہد اور شاعری، جرأت: اس کا عہد اور شاعری، نظیر اکبر آبادی: اس کا عہد اور شاعری، تاریخِ زبان و ادبِ اردو، بیسویں صدی کا اردو ادب اور تاریخِ اصولِ تنقید شامل ہیں جب کہ رفت و بود ان کی خود نوشت ہے۔

    ان کے مضامین کے تین مجموعے غزل اور متغزلین، روایت اور تجربے اور ادب اور لسانیات کے عنوانات سے شایع ہوئے۔

    انھیں‌ زمانہ طالبِ علمی میں علی گڑھ کے آفتاب ہوسٹل میں جن نابغہ روزگار شخصیات اور علم و ادب کی دنیا کے قابل اور نام وَر لوگوں کی صحبت میّسر آئی، ان میں اختر حسین رائے پوری، سبطِ حسن، حیات اللہ انصاری، فضل الرّحمن انصاری شامل تھے۔ اسی زمانے میں انھیں اپنی تعلیمی قابلیت کے سبب علی گڑھ کے اکابرین کی خصوصی توجہ اور ان کی شفقت و عنایت بھی نصیب ہوئی جن میں نواب سَر راس مسعود اور پروفیسر محمد حبیب کا ذکر ابواللیث صدیقی نے اپنی خود نوشت میں خاص طور پر کیا ہے۔

    ڈاکٹر ابواللیث صدیقی 7 ستمبر 1994ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ ان کی تدفین جامعہ کراچی کے قبرستان میں کی گئی۔

  • یومِ وفات:‌ ’’شام کی منڈیر‘‘ سے پرواز کرجانے والے ڈاکٹر وزیر آغا کا تذکرہ

    یومِ وفات:‌ ’’شام کی منڈیر‘‘ سے پرواز کرجانے والے ڈاکٹر وزیر آغا کا تذکرہ

    آج نام وَر نقّاد، انشائیہ نگار، محقّق اور شاعر ڈاکٹر وزیر آغا کی برسی ہے۔ انھوں نے 2010ء میں آج ہی کے روز ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لی تھیں۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے اردو ادب کی مختلف اصناف کو نئی جہات سے روشناس کیا اور ادبی و تنقیدی موضوعات کو مختلف زاویے سے پیش کرتے ہوئے نئے رجحانات متعارف کروائے۔

    ڈاکٹر وزیر آغا 18 مئی 1922ء کو ضلع سرگودھا کے علاقے وزیر کوٹ میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک متموّل علمی گھرانے سے تھا۔ فارسی کی تعلیم اپنے والد سے جب کہ پنجابی کی تعلیم والدہ سے حاصل کی۔ گورنمنٹ کالج جھنگ سے گریجویشن اور گورنمنٹ کالج لاہور سے ماسٹرز کرنے کے بعد 1956ء میں پنجاب یونیورسٹی سے طنز و مزاح کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کیا۔

    ڈاکٹر وزیر آغا 1960 سے 1963 تک ’’ادبی دنیا‘‘ کے شریک مدیر رہے اور 1966 میں ’’اوراق ‘‘ کا اجرا کیا جو نہایت معیاری اور مقبول جریدہ ثابت ہوا۔

    ان کے تنقیدی مضامین “نظمِ جدید کی کروٹیں، تنقید اور احتساب، نئے مقالات، نئے تناظر، دائرے اور لکیریں، تنقید اور جدید اردو تنقید کے نام سے جب کہ ان کی دیگر کتابیں اردو ادب میں طنز و مزاح، اردو شاعری کا مزاج، تخلیقی عمل، مجید امجد کی داستان محبت، غالب کا ذوقِ تماشا کے نام سے منظرِ عام پر آئیں۔ انھیں انشائیہ نگاری میں کمال حاصل تھا۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے انشائیے کی تعریف اور اس کے خدوخال پر بات کرتے ہوئے خود بھی انشائیے لکھے جو علم و ادب کا بڑا سرمایہ ہیں۔ ان کے انشائیے کتابی شکل میں محفوظ ہیں۔

    ڈاکٹر وزیر آغا ایک ہمہ جہت شخصیت تھے۔ وہ شاعر بھی تھے جن کے متعدد شعری مجموعے شائع ہوئے۔ ان میں شام اور سائے، دن کا زرد پہاڑ، نردبان، اک کتھا انوکھی، یہ آواز کیا ہے، چٹکی بھر روشنی شامل ہیں۔

    اردو ادب کے اس نام ور تخلیق کار کی خود نوشت سوانح عمری ’’شام کی منڈیر‘‘ کے نام سے شایع ہوئی تھی۔

    لاہور میں‌ وفات پانے والے ڈاکٹر وزیر آغا کو ان کے آبائی گاؤں(سرگودھا) میں سپردِ‌ خاک کیا گیا۔

  • نام وَر ادیب اور ڈرامہ نگار اشفاق احمد کی برسی

    نام وَر ادیب اور ڈرامہ نگار اشفاق احمد کی برسی

    آج اشفاق احمد کا یومِ وفات ہے جو اردو اور پنجابی کے نام وَر ادیب، افسانہ و ڈرامہ نگار، دانش وَر اور مشہور براڈ کاسٹر تھے۔

    اردو ادب کے قارئین کا اشفاق احمد سے تعارف ان کے افسانوں کے ذریعے ہوا اور پھر انھوں نے مختلف اصنافِ‌ ادب میں طبع آزمائی کی۔ ان کا پہلا افسانہ ’توبہ‘ سنہ 1944ء میں ’ادبی دنیا‘ میں شایع ہوا۔ تقسیمِ ہند کے بعد جو نئے افسانہ نگار سامنے آئے، ان میں اشفاق احمد کو بہت پسند کیا گیا۔

    ’گڈریا‘ ان کا لازوال افسانہ تھا۔ اشفاق احمد نے جہاں ادب کے قارئین کو اپنی تخلیقات سے متاثر کیا، وہیں وہ ایک صوفی اور دانا کی حیثیت سے بھی مشہور ہوئے اور ان کی نصیحتوں اور حکایات نے انھیں ہر خاص و عام میں مقبول بنایا۔

    اشفاق احمد 22 اگست 1925ء کو ضلع فیروز پور میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد دیال سنگھ کالج اور اورینٹل کالج لاہور میں تدریس کے فرائض انجام دیے۔ اٹلی کی روم یونیورسٹی اور گرے نوبلے یونیورسٹی فرانس سے اطالوی اور فرانسیسی زبان میں ڈپلومے کیے، اور نیویارک یونیورسٹی سے براڈ کاسٹنگ کی خصوصی تربیت حاصل کی۔

    وہ ’’داستان گو‘‘ اور ’’لیل و نہار‘‘ نامی رسالوں کے مدیر رہے اور 1966ء سے 1992ء تک اردو سائنس بورڈ کے ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔ اردو کی نام وَر ادیبہ بانو قدسیہ ان کی شریکِ حیات تھیں۔

    ان کے افسانوی مجموعے ایک محبت سو افسانے، اجلے پھول، سفرِ مینا، پھلکاری کے نام سے شائع ہوئے۔ اس کے علاوہ سفر نامے بھی لکھے۔ ان کی کہانیوں پر مبنی طویل دورانیے کے کھیل پی ٹی وی پر نشر ہوئے اور بہت پسند کیے گئے۔ اشفاق احمد نے عالمی ادب سے چند ناولوں کا اردو ترجمہ بھی کیا۔

    ریڈیو کا مشہور ڈرامہ ’’تلقین شاہ‘‘ ان کا تحریر کردہ تھا جس میں اشفاق احمد نے صدا کاری بھی کی۔

    اشفاق احمد نے پاکستان ٹیلی وژن کے لیے متعدد کام یاب ڈرامہ سیریلز تحریر کیے۔ 80ء کی دہائی میں ان کی سیریز توتا کہانی اور من چلے کا سودا نشر ہوئی جو بہت مقبول ہوئی۔ اسی عرصے میں وہ تصوّف کی طرف مائل ہوگئے تھے۔ ایک عرصے تک انھوں نے پی ٹی وی پر زاویہ کے نام سے پروگرام کیا جو دانائی اور حکمت کی باتوں پر مبنی تھا۔ یہ ایک مجلس ہوتی تھی جس میں وہ اپنے ساتھ موجود لوگوں کو نہایت پُرلطف اور اپنے مخصوص دھیمے انداز میں‌ قصّے کہانیاں اور حکایات سناتے اور ان کے سوالات کے جوابات دیتے تھے۔

    حکومتِ پاکستان نے اشفاق احمد کو صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی، ستارۂ امتیاز اور ہلالِ امتیاز عطا کیا تھا۔

    اشفاق احمد 2004ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے انھیں لاہور میں ماڈل ٹاؤن کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔