Tag: 7 نومبر وفات

  • مشہور فلسفی، مؤرخ ول ڈیورانٹ اور ہندوستان

    مشہور فلسفی، مؤرخ ول ڈیورانٹ اور ہندوستان

    دنیا ول ڈیورانٹ کو فلسفی اور مؤرخ کے طور پر جانتی ہے۔ وہ برصغیر پاک و ہند میں اپنی تحریر کردہ اُن کی کتابوں کی وجہ سے پہچانا گیا جو ہندوستانی تہذیب و ثقافت کے مختلف ادوار کا احاطہ کرتی ہیں۔

    انگریزی زبان میں لکھی گئی ول ڈیورانٹ کی کتابوں‌ کے اردو تراجم کی بدولت بالخصوص تاریخ کے طالبِ علم اور مطالعہ کے شوقین افراد اس کے نام اور کام سے واقف ہوئے۔

    ول ڈیورانٹ پر اعتراضات بھی کیے جاتے رہے ہیں، لیکن اس بات سے انکار نہیں‌ کیا جاسکتا کہ اس کی کتابوں نے قارئین کی بڑی تعداد میں تہذیبوں کے بارے میں جاننے اور فلسفے کو پڑھنے کا شوق پیدا کیا۔

    اس مشہور مفکّر اور مؤرخ کی ہندوستان کی تاریخ، تہذیب، تمدن و فلسفہ پر مبنی تحریروں کو اس حوالے سے مستند تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس کا طرزِ بیان خاصا مختلف ہے، اپنی کتاب ‘ گریٹ مائنڈز اینڈ آئیڈیاز آف آل ٹائمز’ میں اس نے ہندوستان سے متعلق ابواب میں بہترین زبان برتی ہے۔ اس نے تشبیہات، استعاروں اور تلمیحات سے کام لے کر اپنی تحریر کو پُر اثر بنایا ہے۔ مصنّف نے مذکورہ کتاب میں ہندوستان کی تاریخ، تہذیب، تمدّن اور فلسفہ کا قبل از مسیح سے بعد از مسیح مفصّل تاریخی جائزہ لیا ہے۔

    ول ڈیورانٹ کی اہم اور مشہور ترین تصانیف میں ’اسٹوری آف فلاسفی‘ اور ’اسٹوری آف سویلائزیشن‘ شامل ہیں۔

    اردو میں اس کی کتابوں کا ترجمہ عابد علی عابد، ڈاکٹر پروفیسر محمد اجمل، ظفرُالحسن پیرزادہ اور طیّب رشید و دیگر نے کیا۔ ’اسٹوری آف سویلائیزیشن‘ ول ڈیورانٹ کی 11 جلدوں‌ پر مبنی کتاب ہے جسے اس کا کارنامہ قرار دیا جاتا ہے۔

    اس کا پورا نام ول ڈیورانٹ نارتھ ایڈمز تھا جس نے میساچوسٹس، امریکا میں 5 نومبر 1885ء کو آنکھ کھولی۔ 11 جلدوں میں انسانی تہذیب و تمدّن کے جس سفر کو اس نے کتاب کی شکل دی، وہ اس کا ایک کارنامہ قرار پایا اور 1968ء میں پلٹزر پرائز اور 1977ء میں صدارتی تمغا برائے آزادی اس مصنّف کے نام کیا گیا۔

    اسکول سے فراغت کے بعد ول ڈیورانٹ نیو جرسی شہر کے کالج میں‌ داخل ہوا اور گریجویشن کے بعد ایک اخبار سے منسلک ہوگیا۔ وہ متعدد زبانیں‌ سیکھ چکا تھا اور نیو جرسی کی یونیورسٹی میں لاطینی، فرانسیسی، انگریزی اور جیومیٹری پڑھانے پر مامور ہوا۔ 1913ء میں شادی کے بعد نوکری چھوڑ کر یورپ کے دورے پر نکل گيا اور بعد ازاں ایک گرجے میں لیکچرز دینے لگا۔

    فلسفہ اور تاریخ اس کا محبوب موضوع تھے۔ ول ڈیورانٹ نے 1917ء میں کولمبیا یونیورسٹی سے فلسفے میں پی ایچ ڈی کی۔ اسی زمانے میں اس نے پہلی کتاب لکھی تھی جس کا نام تھا، "فلسفہ اور سماجی مسائل۔” ول ڈیورانٹ کا خیال تھا کہ فلسفہ میں سماجی مسائل سے گریز کیا جاتا رہا ہے۔ اس کی دیگر کتب منتقلی (Transition) 1927، فلسفہ کی عمارت (The Mansions of Philosophy) 1929، زندگی کی تشریح (Interpretations of Life) 1970 میں شایع ہوئیں۔

    وہ 7 نومبر 1981ء کو 96 سال کی عمر میں چل بسا تھا۔

  • اردو اور تعلیمِ نسواں کے حامی، ریاضی کے ماہر شمسُ العلماء مولوی محمد ذکاءُ اللہ

    اردو اور تعلیمِ نسواں کے حامی، ریاضی کے ماہر شمسُ العلماء مولوی محمد ذکاءُ اللہ

    انیسویں صدی میں اپنے علمی، ادبی مشاغل کے سبب نمایاں‌ اور تصنیف و تالیف کے میدان میں ممتاز ہونے والوں میں سے ایک شمسُ العلماء مولوی محمد ذکاءُ اللہ اردو زبان اور تعلیمِ نسواں کے زبردست حامی بھی تھے۔

    ذکاءُ اللہ نے جس دور میں آنکھ کھولی اور سنِ شعور کو پہنچے، اس میں ہندوستانی معاشرے پر مغربی تہذیب اثرانداز ہو رہی تھی اور سماج میں بڑی تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں۔ نئی تہذیب و تعلیم کی بنیاد پڑ رہی تھی جس میں مولوی ذکاءُ اللہ اردو زبان کے زبردست حامی بن کر سامنے آئے اور علم و ادب کی خدمت کے لیے خود کو وقف کر دیا۔

    اس نابغہ روزگار شخصیت سے متعلق ادبی تذکروں میں آیا ہے کہ ذکاءُ اللہ کا تعلق دہلی کے کوچہ بلاقی بیگم سے تھا اور انھوں نے علمی، ادبی اور دینی ماحول میں‌ پرورش پائی۔ 1832ء ان کا سنِ پیدائش ہے۔ ابتدائی تعلیم اپنے دادا حافظ محمد بقاءُ اللہ اور والد حافظ محمد ثناءُ اللہ سے حاصل کی۔ کم عمری ہی میں عربی و فارسی کتابیں پڑھنی شروع کر دی تھیں۔

    دہلی کالج میں داخلہ لیا تو دل چسپی سائنس کی طرف زیادہ رہی اور ریاضی ان کا پسندیدہ مضمون۔ اس مضمون سے شغف اور اس میں مہارت ایسی بڑھی ہی کہ اردو زبان میں ریاضی کی پہلی کتاب لکھ ڈالی۔ وہ ریاضی کے استاد ماسٹر رام چندر کے چہیتے شاگرد بن گئے جب کہ دہلی کالج ہی میں ریاضی کے مضمون میں مدرس کی حیثیت عملی زندگی کا آغاز کردیا۔ اس کے بعد آگرہ، بلند شہر، مراد آباد اور الٰہ آباد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔

    وہ دہلی کالج کے بعد آگرہ کالج میں فارسی اور اردو کے استاد بھی رہے۔ اور بعد میں
    میور سنٹرل کالج میں عربی اور فارسی کے پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ الغرض اپنے دور میں ذکاءُ اللہ دہلوی ماہرِ تعلیم جانے گئے۔ علمی و ادبی مضامین، مقالے اور کئی کتابیں لکھیں اور آخری سانس تک پڑھنے لکھنے کا سلسلہ جاری رہا۔ انھیں برطانوی سرکار نے شمسُ العلما اور خان بہادر کا خطاب دیا۔ وہ تعلیمِ نسواں کے حامی تھے اور اس ضمن میں کاوشوں پر انھیں‌ سرکار نے خلعت سے نوازا۔

    اردو زبان اور تصنیف و تالیف اور علم و فنون کی ترویج کے حوالے سے ہندوستان میں دہلی کالج کے قیام کے بعد بڑا کام ہوا اور مولوی ذکاءُ اللہ کی ریاضی اور طبیعیات کے مضمون پر اردو میں‌ درجنوں کتب شایع ہوئیں، انھیں نصاب میں شامل کیا گیا اور مولوی صاحب کو علمی خدمات پر انعامات سے نوازا گیا۔

    مولوی ذکاءُ اللہ کا میدان یوں تو سائنس اور ریاضی تھا، لیکن انھوں نے اردو تاریخ نگاری کی بھی بنیاد ڈالی اور کئی جلدوں پر مشتمل تاریخِ ہندوستان لکھی۔ مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد کی تاریخ انھوں نے سلطنت انگلیشیہ کے نام سے لکھی۔ مولوی ذکاءُ اللہ کی ڈیڑھ سو سے زائد کتابوں کی اشاعت اور بہت سے دل چسپ اور مفید مضامین بھی قارئین میں‌ پسند کیے گئے۔ وہ نکتہ بیں‌ اور مصلح تھے جنھوں اپنے موضوعات کو دوسروں کے لیے افادی اور کارآمد بنایا۔

    7 نومبر 1910ء کو علم و فنون کے شیدائی، ماہرِ‌ تعلیم اور مصنّف مولوی ذکاءُ اللہ نے دہلی میں‌ اپنی زندگی کا سفر تمام کیا۔

  • عقل و خرد کے موتی رولنے والے پروفیسر کرّار حسین کا تذکرہ

    عقل و خرد کے موتی رولنے والے پروفیسر کرّار حسین کا تذکرہ

    پروفیسر کرّار حسین علم و آگاہی کا دبستان تھے۔ پاکستان میں دہائیوں تک عقل و خرد کے موتی رولنے والی اس بے مثل شخصیت سے جہانِ فکر و فن کی کئی ممتاز اور نمایاں شخصیات نے تعلیم اور راہ نمائی حاصل کی۔ پروفیسر کرّار حسین نے7 نومبر 1999ء کو اس دنیا سے کوچ کیا۔

    1911 ء میں انھون نے راجستھان کے ضلع کوٹہ کے ایک گھرانے میں‌ آنکھ کھولی۔ پرائمری تعلیم ایک انگریزی اسکول سے حاصل کی اور گھر پر قرآن پڑھا۔ کرّار حسین نے 1925ء میں میٹرک اور 1927ء میں انٹر کا امتحان پاس کیا۔ وہ ذہین طالبِ علم اور شروع ہی سے غور و فکر کے عادی رہے۔ کتب بینی کا شوق تھا اور مطالعہ نے انھیں‌ سیاست کی طرف بھی مائل کیا۔ یہی وجہ ہے تھی کہ وہ زمانہ طالبِ علمی میں طلبہ تنظیم اور سیاست میں نہایت فعال رہے۔ نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی بھرپور حصّہ لیتے تھے۔ تقریری مقابلوں، ذہنی آزمائش اور مقابلۂ مضمون نویسی میں وہ اپنا نام ضرور لکھواتے تھے۔ انگریزی، اُردو ادب، تاریخ، فلسفہ، مذہب اور معاشرتی مسائل ان کے پسندیدہ مضامین اور موضوعات تھے، جب کہ فارسی ادبیات میں ازحد دل چسپی تھی۔

    آگرہ کے ’’سینٹ جونز کالج‘‘ میں داخلہ لینے کے بعد ہاسٹل میں رہے جہاں کرّار حُسین کا اکثر وقت تعلیمی مصروفیات کے ساتھ مطالعہ اور سماجی مسائل میں‌ غؤر و فکر کرتے ہوئے گزرنے لگا۔ اسی زمانے میں سیاسی محاذ پر فرنگی راج کے خلاف تحریکیں بھی زور پکڑ رہی تھیں۔ وہ ’خاکسار تحریک‘‘ سے وابستہ ہوگئے، لیکن یہ وابستگی طویل عرصے تک برقرا نہ رہ سکی۔

    1932ء میں کرّار حسین نے میرٹھ کالج سے انگریزی ادب میں ماسٹرز کیا اور اگلے سال اسی کالج میں انگریزی ادب کے استاد بن کر تدریسی سفر کا‌ آغاز کیا۔ بعد کے برسوں‌ میں‌ متعدد کالجوں اور جامعات سے وابستہ ہوئے۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ تدریس ان کی شخصیت کا ایک لازمی حصّہ تھا۔

    خاکسار تحریک سے علیحدگی کے بعد انھوں نے ہندوستان کے مسلمانوں کی حالت بدلنے اور ان کے مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے انگریزی اور اردو زبان کے دو پرچوں کا اجرا کیا۔ وہ اپنے سیاسی، سماجی اور فکری شعور و تجربات کی روشنی میں ان پرچوں میں‌ مضامین لکھتے رہے اور وہ وقت آیا جب سرکار نے ان پرچوں کے اجرا کی راہ میں روڑے اٹکانے شروع کیے۔ یہاں تک کہ دونوں پرچے مالی مسائل کا شکار ہوکر بند ہو گئے۔ ساتھ ہی کرّار حُسین کو ناپسندیدہ قرار دے کر داخلِ زنداں کر دیا گیا۔ رہائی پانے کے بعد وہ 1948ء میں پاکستان آگئے اور کراچی میں‌ سکونت اختیار کی۔

    یہاں اسلامیہ کالج کراچی میں انگریزی کے پروفیسر ہوگئے اور پھر اِسی کالج میں وائس پرنسپل کے طور پر تعینات رہے۔ 1955-67ء تک میرپور خاص، خیر پور اور کوئٹہ میں مختلف کالجوں میں پرنسپل کے طور پر خدمات انجام دیں۔ بعد میں‌ کراچی واپس آئے اور جامعہ مِلّیہ کالج میں انگریزی کے پروفیسر کے طور پر تدریس کا آغاز کیا۔ 1977ء سے 1999ء تک کراچی میں ’’اسلامک کلچر اینڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ‘‘ کے ڈائریکٹر رہے۔

    پروفیسر کرّار حُسین رکھ رکھاؤ میں شائستگی اور اپنی انکساری و سادہ دلی کے ساتھ ایک نہایت شفیق استاد کی حیثیت سے مشہور تھے۔ ان کی شخصیت میں جہان و معانی کی دنیا آباد تھی۔ ان کی تصانیف میں قرآن اور زندگی اور غالب: سب اچھا کہیں جسے شامل ہیں۔ ان کی تقاریر کے کئی مجموعے بھی کتابی صورت میں شائع ہوچکے ہیں۔

  • تحریکِ پاکستان کے بے لوث کارکن اور قائدِ اعظم کے رفیقِ خاص شمسُ الحسن کی برسی

    تحریکِ پاکستان کے بے لوث کارکن اور قائدِ اعظم کے رفیقِ خاص شمسُ الحسن کی برسی

    سیّد شمسُ الحسن تحریکِ آزادی کے اُن سپاہیوں میں سے ایک تھے جنھیں بانی پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح کی رفاقت ہی نصیب نہیں ہوئی بلکہ وہ ان کے معتمد اور لائقِ بھروسا ساتھیوں میں‌ شمار ہوئے۔

    ان کا ایک امتیاز اور اعزاز یہ بھی ہے کہ ان کے خلوص، نیک نیّتی، دیانت داری، عزمِ مصمم اور اٹل ارادوں کو دیکھ کر بانی پاکستان قائدِ‌ اعظم محمد علی جناح نے انھیں شان دار الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا اور فرمایا: ’’مسلم لیگ کیا ہے، میں، شمسُ الحسن اور ان کا ٹائپ رائٹر۔‘‘

    سّید شمسُ الحسن نے برصغیر کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت مسلم لیگ کو توانا، مضبوط اور فعال بنانے کے لیے ناقابلِ فراموش کردار ادا کیا۔ قیامِ پاکستان کی جدوجہد میں انھوں نے نمایاں کردار ادا کیا۔

    آزادی کی تحریک کے اس ممتاز رکن کا نام سیّد شمسُ الحسن تھا جنھوں نے 1892ء میں بریلی میں آنکھ کھولی۔ بریلی اور آگرہ میں تعلیم حاصل کی۔ میٹرک کرنے کے بعد عملی زندگی میں قدم رکھا۔ 1909ء میں جب مسلم لیگ نے ادارہ روزگار ایمپلائمنٹ قائم کیا تو وہ مسلم لیگ کے سیکرٹری وزیر حسن کے دفتر سے منسلک ہو گئے۔ جولائی 1914ء میں آفس سیکرٹری بنے۔ 1919ء میں قائدِ اعظم محمد علی جناح نے آل انڈیا مسلم لیگ کی صدارت سنبھالی تو شمسُ الحسن کی ان سے رفاقت اور رابطہ بڑھ گیا۔ 1914ء سے 1947ء تک وہ مسلم لیگ کے آفس سیکریٹری کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔

    تحریکِ پاکستان کے لیے ان کی بے لوث، پُرخلوص کاوشوں اور شبانہ روز محنت کو دیکھتے ہوئے قائدِ‌اعظم نے انھیں اہم ذمہ داریاں سونپیں۔

    قیامِ پاکستان سے چند روز قبل قائدِ اعظم نے دہلی میں اپنی رہائش گاہ پر شمسُ الحسن کو بلوا کر اپنے ذاتی خطوط، مسلم لیگ کا ریکارڈ اور دوسری دستاویزات ان کے سپرد کیں جنھیں‌ بعد میں 98 جلدوں میں مرتّب کیا گیا۔ یہی جلدیں ”شمسُ الحسن کلیکشن“ کہلاتی ہیں۔

    قیامِ پاکستان کے بعد شمسُ الحسن 1948ء سے 1958ء تک پاکستان مسلم لیگ کے اسسٹنٹ سیکریٹری کے طور پر کام کرتے رہے۔

    انھوں نے 7 نومبر 1981ء کو وفات پائی۔ سید شمسُ الحسن کو کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں سپردَ خاک کیا گیا۔

    حکومتِ پاکستان کی جانب سے بعد از مرگ ان کے لیے ستارۂ امتیاز کا اعلان کیا گیا۔

  • یومِ وفات: آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا سب سے بڑا ورثہ ان کی شاعری ہے

    یومِ وفات: آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا سب سے بڑا ورثہ ان کی شاعری ہے

    بہادر شاہ ظفر کے پاس فوج کا لشکر تھا، نہ تیر اندازوں کا دستہ، ایسے تیر انداز جن کا نشانہ خطا نہ جاتا۔ شمشیر زنی میں ماہر سپاہی یا بارود بھری بندوقیں تان کر دشمن کا نشانہ باندھنے والے بھی نہیں تھے، لیکن ان کی آواز پر جنگِ آزادی لڑنے کے لیے ہندو اور مسلمان دونوں اٹھ کھڑے ہوئے اور تاجِ شاہی کے لیے اپنی جانیں قربان کر دیں۔

    1837ء میں اکبر شاہ ثانی کے بعد ابوالمظفر سراج الدّین محمد بہادر شاہ غازی نے مغلیہ سلطنت کا تاج اپنے سَر پر سجایا، لیکن اپنے مرحوم باپ اور مغل بادشاہ کی طرح‌ بے اختیار، قلعے تک محدود اور انگریزوں کے وظیفہ خوار ہی رہے۔ عظیم مغل سلطنت اب دہلی و گرد و نواح میں‌ سمٹ چکی تھی، لیکن لوگوں کے لیے وہ شہنشاہِ ہند تھے۔

    پیری میں‌ اقتدار سنبھالنے والے بہادر شاہ ظفرؔ کو اندازہ ہوگیا تھا کہ ان کے ہاتھ کچھ نہیں۔ مسند نشینی سے 1857ء کی جنگِ آزادی تک ان کا دور ایک نہ ختم ہونے والی شورش کی داستان سے پُر تھا۔

    وہ ایسے شہنشاہ تھے جنھیں زر و جواہر سے معمور شاہی خزانہ ملا، نہ بیش قیمت ہیرے۔ پکھراج کے قبضے والی وہ تلواریں بھی نہیں‌ جنھیں خالص سونے کے بنے ہوئے نیام میں رکھا جاتا ہو، لیکن رعایا ان سے بے پناہ عقیدت رکھتی تھی اور ان کی تعظیم کی جاتی تھی۔ البتہ ظفرؔ کے مزاج میں شاہی خُو بُو نام کو نہ تھی۔ انھیں ایک دین دار، نیک صفت اور بدنصیب بادشاہ مشہور ہیں۔

    بہادر شاہ ظفر، شیخ فخرالدّین چشتی کے مرید تھے اور ان کے وصال کے بعد قطب الدّین چشتی سے بیعت لی۔ انگریزوں کے برصغیر سے جانے کے بعد ان کا عرس ہر سال باقاعدگی سے منایا جانے لگا اور بالخصوص برما کے مسلمان انھیں صوفی بابا ظفر شاہ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

    بہادر شاہ ظفرؔ 14 اکتوبر 1775ء کو ہندوستان کے بادشاہ اکبر شاہ ثانی کے گھر پیدا ہوئے۔ بہادر شاہ ظفر نے 1840ء میں زینت محل کو اپنا شریکِ حیات بنایا جن کے بطن سے مرزا جواں بخت پیدا ہوئے تھے۔

    بہادر شاہ ظفرؔ کو اپنے دادا شاہ عالم ثانی کی صحبت میں رہنے اور سیکھنے کا بھرپور موقع ملا۔ انھوں نے اردو، فارسی، عربی اور ہندی پر دست گاہ حاصل کی۔ وہ خطّاط اور خوش نویس بھی تھے۔ گھڑ سواری، تیر اندازی، شمشیر زنی میں بھی اپنا لوہا منوایا۔ انھیں ایک غیرمتعصب حکم ران بھی کہا جاتا ہے۔

    انگریزوں نے 1857ء میں‌ غدر، یعنی جنگِ‌‌ آزادی کی ناکامی پر بہادر شاہ ظفر کو جلا وطن کر کے رنگون(برما) بھیج دیا تھا جہاں‌ وہ بے یار و مددگار، عسرت اور وا ماندگی کے عالم میں وفات پاگئے۔

    بہادر شاہ نے زندگی کے آخری چار سال اپنی بیوی زینت محل کے ساتھ رنگون میں شویڈاگون پاگوڈا کے جنوب میں ملٹری کنٹونمنٹ میں گزارے۔ ان کے معتقدین اور پیروکاروں کے اشتعال اور بغاوت کے خطرے کے پیشِ نظر انگریزوں نے انھیں اسی گھر کے ایک کونے میں دفن کردیا اور ان کی قبر کو بے نام و نشان رہنے دیا۔

    بہادر شاہ ظفر کا یہ شعر آخری ایّام میں عالمِ حسرت و یاس اور ان کے صدمہ و کرب کا عکاس ہے۔

    بھری ہے دل میں جو حسرت، کہوں تو کس سے کہوں
    سنے ہے کون، مصیبت کہوں تو کس سے کہوں

    بادشاہ نے میانمار کے شہر رنگون کے ایک خستہ حال چوبی مکان میں اپنے خاندان کے گنے چنے افراد کی موجودگی میں دَم توڑا تھا۔ 7 نومبر 1862ء کو بہارد شاہ ظفر کی برسی منائی جاتی ہے۔ ان کا یہ شعر دیکھیے۔

    ہے کتنا بدنصیب ظفر دفن کے لیے
    دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں

    ہندوستان کے آخری بے تخت و تاج مغل بادشاہ کا سب سے بڑا ورثہ ان کی اردو شاعری ہے۔ ان کی غزلیں برصغیر بھر میں مشہور ہوئیں۔ ان کا کلام نام ور گلوکاروں نے گایا اور ان کی شاعری پر مقالے اور مضامین تحریر کیے گئے۔

    مولانا حالیؔ نے کہا ظفر کا تمام دیوان زبان کی صفائی اور روزمرّہ کی خوبی ہیں، اوّل تا آخر یکساں ہے۔‘‘ اسی طرح آبِ بقا کے مصنّف خواجہ عبد الرّؤف عشرت کا کہنا ہے کہ ’’اگر ظفر کے کلام پر اس اعتبار سے نظر ڈالا جائے کہ اس میں محاورہ کس طرح ادا ہوا ہے، روزمرہ کیسا ہے، اثر کتنا ہے اور زبان کس قدر مستند ہے تو ان کا مثل و نظیر آپ کو نہ ملے گا۔

    ظفر بحیثیت شاعر اپنے زمانہ میں مشہور اور مقبول تھے۔ ‘‘ منشی کریم الدین ’’ ’’طبقاتِ شعرائے ہند‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ’’شعر ایسا کہتے ہیں کہ ہمارے زمانہ میں ان کے برابر کوئی نہیں کہہ سکتا۔

    بہادر شاہ ظفر کے ساتھ بطور شاعر بھی ناانصافی روا رکھی گئی۔ وہ اپنے دور کے معروف شعرا میں سے ایک تھے، لیکن بدقسمتی سے انھیں کلاسیکی شاعروں کے تذکروں میں وہ مقام نہیں‌ دیا گیا جس کے وہ حق دار تھے۔ اکثر بلاتحقیق اور غیرمستند یا سنی سنائی باتوں کو ضبطِ تحریر میں لاتے ہوئے قلم کاروں نے ان کے کلام کو استاد ذوق سے منسوب کیا ہے۔

    بہادر شاہ ظفر نے استاد ذوق سے بھی اصلاح لی اور اسی لیے یہ بات مشہور ہوئی۔ تاہم ادبی محققین اور بڑے نقّادوں نے اسے غلط قرار دیتے ہوئے ظفر کی شاعرانہ عظمت کو تسلیم کیا ہے۔ ان کی شاعری میں زندگی کے سارے رنگ نمایاں ہیں لیکن یاسیت اور جمالیات کے رنگوں کا درجہ سب سے بلند ہے۔

    معروف ادبی محقّق منشی امیر احمد علوی کے مطابق بہادر شاہ ظفر نے پانچ دیوان چھوڑے جن میں ایک ہنگاموں کی نذر ہوگیا اور چار دیوان کو لکھنؤ سے منشی نول کشور نے شایع کیا۔

    بہادر شاہ ظفر کی مسند نشینی سے جلاوطنی اور بعد کے واقعات پر مؤرخین کے علاوہ ادیبوں اور نقّادوں نے بھی ان کے فنِ شاعری پر کئی کتابیں لکھی ہیں۔