Tag:

  • بڑھاپا لانے والی ایک اور وجہ

    یوں تو عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ ہمارے جسم کا ہر حصہ کمزور ہوتا جاتا ہے، تاہم حال ہی میں ایک تحقیق سے علم ہوا کہ پہلے سے کمزور پٹھے بڑھاپے کے عمل کو تیز کردیتے ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق مشی گن یونیورسٹی کی حالیہ تحقیق کے مطابق پٹھوں کی کمزور گرفت حیاتیاتی عمر کو تیزی سے بڑھاتی ہے جو بڑھاپے کے ایک بنیادی محرک ہے۔

    محققین کے مطابق یہ پہلی تحقیق ہے جو پٹھوں کی کمزوری اور حیاتیاتی عمر میں تیزی کے درمیان تعلق کے ابتدائی ثبوت فراہم کرتی ہے، جبکہ پٹھوں کی طاقت کو برقرار رکھ کر جہاں آپ کئی امراض سے محفوظ رہ سکتے ہیں وہیں کئی امراض سے بچاؤ عمر کو بڑھانے میں معاون بھی ثابت ہوسکتا ہے۔

    تحقیق میں ماہرین نے دریافت کیا کہ گرفت کی طاقت، پٹھوں کی مجموعی طاقت کا ایک پیمانہ، اور اس طرح سے یہ حیاتیاتی عمر سے منسلک ہے۔ ماضی میں کی جانے والی تحقیق کے مطابق ایسے افراد جن میں گرفت کی طاقت کمزور ہوتی ہے ان کی حیاتیاتی عمر زیادہ ہوتی ہے۔

    مشی گن میڈیسن کے محققین نے ڈی این اے میتھیلیشن کو اپناتے ہوئے 12 سو 74 ادھیڑ عمر اور بوڑھے بالغوں کی حیاتیاتی عمر اور گرفت کی طاقت کے درمیان تعلق کو ماڈل بنایا، یہ ایک ایسا عمل ہے جو سالماتی بائیو مارکر اور عمر بڑھنے کی رفتار کا تخمینہ فراہم کرتا ہے۔

    نتائج کے مطابق بوڑھے مرد اورخواتین دونوں نے ڈی این اے میتھیلیشن گھڑیوں میں کم گرفت کی طاقت اور حیاتیاتی عمر میں تیزی کے درمیان تعلق کو ظاہر کیا۔

    اس تحقیق کے اہم مصنف مارک پیٹرسن، پی ایچ ڈی، ایم ایس جو کہ مشی گن یونیورسٹی میں فزیکل میڈیسن اور بحالی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں، کا کہنا ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ پٹھوں کی طاقت لمبی عمر اور کمزوری بیماریوں کا پش خیمہ ہے لیکن، پہلی بار، ہمیں پٹھوں کی کمزوری اور حیاتیاتی عمر میں تیزی کے درمیان تعلق کے مضبوط ثبوت ملے ہیں۔

    اس سے پتہ چلتا ہے کہ اگر آپ عمر بھر اپنے پٹھوں کی طاقت کو برقرار رکھتے ہیں، تو آپ بڑھتی عمر سے متعلق بہت سی عام بیماریوں سے محفوظ رہ سکتے ہیں کیونکہ پٹھوں کی کمزوری نئی سگریٹ نوشی کے مترادف ہے جو بڑھاپے کے عمل کو تیز کر دیتی ہے۔

    یہ تحقیق 10 برس کے مشاہدے پر مشتمل تھی جس میں گرفت کی کم طاقت نے ایک دہائی کے بعد تیز تر حیاتیاتی عمر بڑھنے کی پیش گوئی کی تھی۔

    ماہرین کا مزید کہنا ہے کہ پٹھوں کو مضبوط بنانے کے لیے صحت مند غذائی عادات اپنانا اور باقاعدگی سے ورزش کرنا نہایت ضروری ہے جو مضبوط گرفت کے ساتھ مجموعی صحت کو بہتر بنانے میں مدد فراہم کرے گی۔

  • ملکی زرمبادلہ میں خطرناک کمی، حکومت کی 165 لگژری گاڑیوں کی بکنگ

    ملکی زرمبادلہ میں خطرناک کمی، حکومت کی 165 لگژری گاڑیوں کی بکنگ

    اسلام آباد: ملکی زرمبادلہ ذخائر میں خطرناک حد تک کمی کے باوجود حکومت نے 165 لگژری گاڑیوں کی بکنگ اور ان کے لیے ایل سیز کھولنے کا فیصلہ کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق ملک کے زرمبادلہ ذخائر میں خطرناک حد تک کمی کے باوجود لگژری گاڑیوں کے لیے ایل سیز کی پابندی میں نرمی کا عندیہ دے دیا گیا ہے۔

    ذرائع وزرات صحت کا کہنا ہے کہ 165 لگژری گاڑیوں کے لیے ایل سیز کا گرین سگنل دے دیا گیا، لگژری گاڑیوں کی قیمت 5 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔

    ذرائع کے مطابق لگژری گاڑیوں کی بکنگ جنوری اور ڈلیوری مارچ میں ہوگی، پہلے مرحلے میں 65 اور دوسرے مرحلے میں 100 گاڑیوں کی بکنگ کی گئی ہے۔

    دوسری جانب مقامی کار مینو فیکچررز کو خام مال کی ایل سیز کھولنے میں مشکلات کا سامنا ہے، ملک میں تین بڑی کار مینو فیکچررز نے اپنی پیداوار بند کر رکھی ہے۔

    ایل سیز کے لیے پریشان مقامی کار مینو فیکچررز نے متعلقہ وزارتوں اور وزیر اعظم سے ایل سیز کھولنے کی اپیل کی ہے۔

  • ہارر سیریز ’وینزڈے‘ کے سیزن 2 کا اعلان

    امریکی اسٹریمنگ سروس نیٹ فلکس نے مقبول ترین ہارر کامیڈی ویب سیریز وینزڈے کے سیزن 2 کا اعلان کردیا۔

    معروف امریکی ٹی وی سیریز دی ایڈمز فیملی کی اسپن آف سیریز وینزڈے 23 نومبر کو نیٹ فلکس پر ریلیز کی گئی تھی جس نے مقبولیت کے ریکارڈز توڑ دیے۔

    وینزڈے کی کہانی ایڈمز جوڑے کی بیٹی وینزڈے ایڈمز کے گرد گھومتی ہے جو ایک قتل کا سراغ لگاتی ہے۔

    اس سیریز کے سیزن 2 کے بارے میں مختلف قیاس آرائیاں کی جارہی تھیں تاہم اب نیٹ فلکس کی جانب سے تصدیق کردی گئی ہے کہ سیریز کا دوسرا حصہ بھی پیش کیا جائے گا۔

    ٹم برٹن کی ہدایت کاری میں بننے والی اس سیریز نے مقبولیت میں اسٹرینجر تھنگز سیزن 4 کو بھی پیچھے چھوڑ دیا تھا، ریلیز کے پہلے ہی ہفتے میں وینزڈے کو ایک ارب گھنٹوں سے زائد بار دیکھا گیا۔

    سیریز کو اب تک 83 ممالک میں دیکھا جاچکا ہے۔

    اس سے پہلے نیٹ فلکس کی سیریز اسٹرینجر تھنگز سیزن 4 اور کورین سیریز اسکوئڈ گیمز نے مقبولیت کے ریکارڈز توڑے تھے۔

  • کراچی: قرض دیے جانے والے 85 کروڑ روپے کی ریکوری

    کراچی: صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے قرض کی مد میں دیے جانے والے نجی بینک کے 85 کروڑ روپے کی کامیاب ریکوری کرلی۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے کمرشل بینکنگ سرکل کراچی نے بڑی کارروائی کرتے ہوئے نجی بینک کے 85 کروڑ روپے کی کامیاب ریکوری کرلی۔

    ترجمان ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ مبینہ قرض دہندگان نے ستمبر میں رقم کی واپسی کے لیے معاہدہ کیا تھا۔

    ترجمان کا مزید کہنا ہے کہ نجی بینک کی جانب سے رقم قرض کی مد میں دی گئی تھی۔

  • روبی میئر: ٹیلیفون آپریٹر جو ‘سپنوں کی رانی‘ مشہور ہوئی!

    تقسیمِ سے قبل ہندوستان میں‌ کئی غیر ملکی خاندان اور یہودی آباد تھے جن کی نسلیں یہاں پروان چڑھیں‌ اور ہندوستانی تہذیب و ثقافت کو اپنایا۔ انہی میں سے بعض نے تھیٹر اور فلم کی دنیا میں قدم رکھا اور نام پیدا کیا۔ روبی میئر بھی ان میں‌ سے ایک تھی۔

    کلکتہ اور بمبئی اس زمانے میں فلم سازی کے بڑے مراکز تھے۔ پنجاب کا شہر لاہور بھی فلم ساز اداروں اور باصلاحیت فن کاروں‌ کی وجہ سے شہرت رکھتا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب عورتوں‌ کا فلموں‌ میں‌ کام کرنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ مسلمان، ہندو اور سکھ گھرانوں کی لڑکیوں کے لیے بھی فلم انڈسٹری سے وابستہ ہونا آسان نہیں‌ تھا۔ تھیٹر اور خاموش فلموں کے ابتدائی دور میں تو مرد فن کار ہی عورت کا کردار بھی نبھاتے تھے۔ اس وقت تھیٹر اور فلم ساز اداروں‌ نے غیرمقامی لڑکے اور لڑکیوں کو آزمایا اور اپنی فلموں‌ میں ہیروئن اور ہر قسم کے کردار آفر کیے۔

    روبی میئر بغداد کے ایک یہودی خاندان کی اولاد تھی جس نے پونے میں آنکھ کھولی، جو ان دنوں بمبئی پریزیڈنسی کا حصّہ ہوا کرتا تھا۔ روبی میئر کا سنہ پیدائش 1907ء تھا۔

    اس دور کے معروف فلم ساز ادارے کوہِ نور کے مالک نے نوجوان روبی میئر کو اپنی فلم میں ایک کردار آفر کیا۔ وہ اس یہودی لڑکی کی خوب صورتی سے متأثر ہوگئے تھے۔ اداکارہ بننے سے قبل یہودی نژاد روبی میئر ایک ادارے میں‌ ٹیلی فون آپریٹر کے طور پر کام کررہی تھی۔ فلم ساز ادارے کے مالک کا نام موہن بھاونانی تھا جنھیں اس لڑکی کو فلم کی آفر کرنے کے بعد انکار سننا پڑا۔ روبی میئر ایک ایسے خاندان کی فرد تھی جو اب ہندوستانی تھا۔ اسے یہاں کے ماحول اور لوگوں کے مزاج کا بخوبی علم تھا اور اسی لیے وہ جھجک رہی تھی۔ لیکن بھاونانی نے اسے سوچنے کی مہلت دی اور اپنی کوشش جاری رکھی۔ ان کا اصرار رنگ لایا اور روبی میئر نے اداکاری کے لیے ہامی بھر لی جب کہ وہ اس فن سے قطعی ناواقف تھی۔ اِسے سلوچنا کے نام سے خاموش فلم میں متعارف کروایا گیا۔ یہ تیس کی دہائی تھی اور بعد کے برسوں‌ میں‌ روبی میئر سب سے زیادہ معاوضہ لینے والی ہندوستانی اداکارہ بنی۔

    1925ء میں‌ فلم ویر بالا کی کام یابی کے ساتھ ہی روبی میئر کی شہرت اور مقبولیت بھی آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگی۔ پھر وہ ٹائپسٹ گرل، علی بابا چالیس چور، وائلڈ کیٹ آف بامبے، انار کلی اور متعدد فلموں میں نظر آئی اور بطور اداکارہ یہ دہائی اس کے کیریئر کا بامِ عروج ثابت ہوئی۔ اس زمانے میں ایک فلم بھی اسی اداکارہ کے فلمی نام سلوچنا پر بنائی گئی تھی۔ یہ سب خاموش فلمیں‌ تھیں‌ جو کام یاب ثابت ہوئیں۔

    ان فلموں نے روبی میئر کو ہندوستان بھر میں ‘رومانس کی ملکہ‘ اور ‘سپنوں کی رانی‘ کے نام سے مشہور کردیا۔ اداکارہ نے راتوں رات شہرت ہی نہیں‌ دولت بھی خوب سمیٹی۔ وہ اس دور میں‌ شیورلٹ کار کی مالک تھی اور اپنی کار خود چلایا کرتی تھی۔ قسمت کی دیوی نے اس اداکارہ سے منہ تو نہیں‌ موڑا، لیکن جب بولتی فلموں کا دور آیا تو روبی میئر کی ایک کم زوری اس کے کیریئر کی راہ میں‌ رکاوٹ بن گئی۔ وہ اچھی ہندی اور اردو نہیں بول سکتی تھی۔

    اداکارہ نے ایک برس کے لیے فلمی دنیا سے دوری اختیار کی اور اس عرصہ میں‌ زبان سیکھنے پر توجہ مرکوز کر دی۔ اس کے بعد وہ دوبارہ فلم نگری کی طرف لوٹی اور 1930ء کے وسط میں روبی پکس کے نام سے اپنا پروڈکشن ہاؤس بھی شروع کر دیا۔ اس کے تحت روبی میئر نے اپنی خاموش فلموں کو ناطق فلموں کا روپ دیا اور کام یاب رہی۔ اس دور کی کام یاب فلم تھی انار کلی جو تین بار بنائی گئی۔ پہلی بار غیرناطق فلم میں انار کلی کے روپ میں‌ روبی میئر ہی نے شان دار کام کیا تھا اور دوسری مرتبہ یہ بولتی فلم تھی جس میں اس نے پھر انارکلی کا کردار ادا کیا، لیکن آخری مرتبہ اس نے فلم انار کلی میں جودھا کا رول اپنے لیے منتخب کیا تھا۔ اس کی کام یابی کا سلسلہ جاری تھا، لیکن کئی نئے اور باصلاحیت چہرے فلم انڈسٹری میں قدم رکھ چکے تھے اور ان کی وجہ سے روبی میئر کی اہمیت کم ہوتی چلی گئی۔ اسے ناطق فلموں میں‌ سائیڈ رول آفر ہونے لگے۔

    روبی میئر کے زمانۂ عروج میں‌ چند افیئر بھی منظرِ عام پر آئے اور اداکارہ کی شاہ خرچیوں‌ کا بھی چرچا ہوا۔ معمولی تنخواہ پر ایک ٹیلیفون آپریٹر کی حیثیت سے کام کرنے والی اس یہودی لڑکی نے بھرپور زندگی گزاری اور خوب عیش کیے۔

    بھارتی حکومت نے روبی میئر المعروف سلوچنا کو 1973ء میں دادا صاحب پھالکے ایوارڈ دیا تھا۔ 1978ء میں‌ اداکارہ نے فلم کھٹّا میٹھا میں‌ اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے تھے۔ اس وقت تک سلوچنا ماضی کی ہیروئن بن چکی تھی۔

    10 اکتوبر 1983ء کو ممبئی میں‌ مقیم اس اداکارہ کی زندگی کا سفر تمام ہوگیا تھا۔

  • ’ویڈنزڈے‘ کے سیزن 2 کو نیٹ فلکس پر ریلیز نہ کرنے کا فیصلہ

    نیٹ فلکس کی سپر ہٹ سیریز ’ویڈنزڈے ایڈمز‘ کے سیزن 2 کو اب نیٹ فلکس پر ریلیز نہیں کیا جائے گا۔

    میڈیا رپورٹس کے مطابق نیٹ فلکس کی ہارر کامیڈی سیریز ویڈنزڈے ایڈمز کے سیزن 2 کو اب نیٹ فلکس پر نہیں بلکہ  ایمیزون کی اسٹریمنگ پلیٹ فارم ’ پرائم ویڈیو‘ پر نشر کیا جائے گا۔

    میڈیا رپورٹس کے مطابق ویڈنیزڈے ایڈمز کی زبردست کامیابی کے بعد ایمیزون نے 8.5 بلین ڈالرز میں ایک معاہدے کے تحت ایم جی ایم اسٹوڈیوز سے مذکورہ شو کر حقوق حاصل کر لئے ہیں۔

    سیریز کی کامیابی کے باوجود بھی سیریز کے دوسرے سیزن کے نیٹ فلکس پر نشر نہیں کیا جائے گا کیونکہ ویڈنزڈے کو میٹرو گولڈ وین میئر نے پروڈیوس کیا ہے، ان کا ایمیزون کے ساتھ معاہدہ ختم ہوگیا ہے، جس کی وجہ نشریاتی حقوق ایمیزون کے پاس آگئے ہیں۔

    ’ویڈنزڈے‘ نیٹ فلکس کی اوریجنل ویب سیریز ہے جس میں جینا اورٹیگا، کرسٹینا رِکی، کیتھرین زیٹا جونز اور لوئی گزمن نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔

  • ہانیہ عامر کی ساتھی اداکارہ کے ساتھ دلچسپ ویڈیو وائرل

    معروف پاکستانی اداکارہ ہانیہ عامر کی ساتھی اداکارہ رابعہ کلثوم کے ساتھ دلچسپ ویڈیو وائرل ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق معروف اداکارہ ہانیہ عامر نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ انسٹاگرام پر ساتھی اداکارہ رابعہ کلثوم کے ساتھ دلچسپ تصاویر اور ویڈیوز پوسٹ کیں۔

    تصاویر میں دونوں ڈرامے کے سیٹ پر موجود ہیں۔

    ویڈیو میں رابعہ ان کے لیے اے سی کا ٹمپریچر ایڈجسٹ کرتی دکھائی دیتی ہیں جبکہ اس دوران دونوں دلچسپ گفتگو بھی کرتی ہیں۔

    ہانیہ نے تصویر کے کیپشن میں لکھا کہ ہماری نیلو سے ملیں، نیلو، رابعہ کے کردار کا نام ہے۔

    ہانیہ عامر اس وقت ڈرامہ سیریل مجھے پیار ہوا تھا میں اداکاری کے جوہر دکھا رہی ہیں جو اے آر وائی ڈیجیٹل سے نشر کیا جارہا ہے۔

    ان کے ساتھ وہاج علی اور نعمان اعجاز کے بیٹے زاویار اعجاز بھی ڈرامے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

  • اقبال کے ‘نطشے قدم’ پر!

    یہ 1986ء کی بات ہے، جب ہمارے اندر علامہ اقبال کے خودی کے اسرار کچھ کھلنے لگے تھے۔ مستنصر حسین تارڑ کی کتاب ”نکلے تیری تلاش میں“ اور مختار مسعود کی کتاب ”سفر نصیب“ پڑھنے کے بعد ہم بھی نکل کھڑے ہوئے کسی کی تلاش میں۔

    بفضلِ تعالیٰ سفر نصیب ہوا اور ایک لمبی سیاحت حاصل کی۔ سفر کا پہلا پڑاؤ فرینکفرٹ (جرمنی) تھا۔ میرے میزبان بزلہ سنج اسلم صدیقی تھے، انھیں اقبالیات سے خاص لگاؤ تھا۔ ’پی آئی اے‘ میں کار گزاری نے انھیں ایک عالَم کی سیر کرائی تھی، ایک روز وہ مجھے فرینکفرٹ سے ہیڈلبرگ لے گئے۔ ایک پرسکون علاقے میں انھوں نے گاڑی روکی اور مجھے وہاں لے گئے، جو تمام عاشقانِ اقبال کے لیے ایک یادگاری مقام ہے۔

    کیا دیکھتا ہوں کہ لبِ ساحل ایک بورڈ آویزاں تھا، جس پر جلی حروف میں Iqbal Ufer لکھا ہوا تھا، یہی وہ جگہ تھی جہاں 1907ء میں ہیڈلبرگ کے مقام پر علّامہ اقبال زیرِ تعلیم رہے۔ اس بورڈ کے پاس کھڑے ہو کر ہماری سوچ کا دھارا علّامہ اقبال کی جانب ہو گیا، اسلم کہنے لگے کہ مغربی تنقید نگاروں کا خیال ہے کہ اقبال جرمن مفکر نطشے سے بہت متاثر تھے۔ اس نظریے کے ثبوت میں وہ اقبال کے ’مردِ مومن‘ کا نطشے کے ’سپرمین‘ سے موازنہ کرتے ہیں، جو بظاہر ایک دوسرے سے مماثل معلوم ہوتے ہیں۔ اس تصور نے خاص طور پر اس وقت جنم لیا، جب علّامہ اقبال کی ’اسرارِ خودی‘ کا انگریزی ترجمہ منظرِ عام پر آیا۔ مغربی تنقید نگاروں نے یہ ٹھپّا لگا دیا کہ اقبال نطشے کی ترجمانی کر رہے ہیں۔ اس سوچ کی تردید میں علّامہ اقبال نے خود ڈاکٹر نکسن کو اپنے ایک خط میں تحریر کیا کہ کچھ تنقید نگار میری تخلیق کو صحیح طور پر نہیں سمجھ سکے، یہی وجہ ہے کہ انھوں نے غلط بحث کر کے میرے ’مردِ مومن‘ اور جرمن مفکر نطشے کے ’فوق الانسان‘ کو ایک ہی تصور کر بیٹھے۔ میں نے اس سے پہلے انسانِ کامل کے معترفانہ عقیدے پر قلم اٹھایا تھا اور یہ وہ زمانہ ہے، جب کہ نہ تو نطشے کے عقائد کا غلغلہ میرے کانوں تک پہنچا تھا اور نہ ہی اس کی کتابیں میری نظر سے گزری تھیں۔ سوچ کی مماثلت کبھی بھی کہیں بھی اتفاقیہ ہو سکتی ہے۔

    علّامہ اقبال نے فارسی ادب اور ثقافت کا بہت گہرا اور وسیع مطالعہ کیا تھا۔ اس کا ثبوت ان کی فارسی شاعری ہے۔ اقبال کی مصر، فلسطین، ہسپانیہ، اطالیہ اور افغانستان جیسے ممالک کی سیاحت جن سے اسلامی عظمتیں وابستہ ہیں۔ ان کی طبیعت حرکتی عنصر کو اجاگر کرنے میں ان ممالک کی تاریخ اور سیر میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔ علّامہ اقبال کے کلام اور خیالات اور فلسفے کے بغور مطالعے سے یہ بات عیاں ہے کہ علامہ اقبال کا مردِ مومن کون ہے۔ الحمدللہ ہم صاحبِ ایمان کو اس کامل ہستی کو سمجھنے کے لیے کسی نطشے یا زرتشت کی ضرورت نہیں۔ ہمارے پیارے نبیﷺ سے بڑھ کر نہ کوئی کامل ہستی تھا، نہ ہوگا۔ ہیڈلبرگ سے واپسی کے بعد میں گویا اقبال کے ‘نطشے قدم’ پر اپنی سیاحت کرتا رہا۔ علامہ اقبال کا ایک شعر ہے:
    آب رواں کبیر تیرے کنارے کوئی
    دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب

    اس شعر نے مجھے اندلس کی فضاؤں میں پہنچا دیا، جہاں آج سے صدیوں پہلے طارق بن زیاد نے ساحل پر اپنی کشتیاں جلائی تھیں۔ جہاں کی وادیاں رشک گزار ہیں، جہاں غرناطہ اور قرطبہ ہیں، جہاں اشبیلیہ ہے۔ جہاں الحمرا اور مدینۃُ الزّہرہ ہیں۔ آہ! میری روح شاید ازل سے یہاں آنے کو بے چین تھی، یہاں ایک عظیم قوم کی عظمت کی داستان ہے اور پھر ناعاقبت اندیشی سے زوال کی شرم ناک کہانی ہے۔ یہاں غرناطہ کے عالی شان محلات ہیں۔ اب ان کے در ودیوار کھڑے درسِ عبرت دے رہے ہیں۔ وہ زمانہ خواب و خیال ہو گیا، جب یہاں پتھر پتھر خوشی کے ترانے سناتا تھا۔ اے الحمرا کہاں ہے تیری وہ رعنائی، کہاں گیا تیرا وہ بانکپن۔

    اندلس کی سرزمین پر کتنی دل فریب داستانیں پوشیدہ ہیں، عبدالحلیم شرر کے ناول ”فلورا فلورنڈا“ کو کون بھول سکتا ہے۔ کون جانے تاریخ پھر اپنے آپ کو دُہرائے اور مستقبل عظمتِ رفتہ کی واپسی کا پیمبر بن کر آئے۔ قرطبہ پہنچ کر کون ہے، جسے علاّمہ اقبال کی مشہور نظم مسجدِ قرطبہ یاد نہ آئے۔ علّامہ کی نظم مسجدِ قرطبہ کا یہ سلسلۂ روز و شب بہت طویل ہے۔ بس آپ کی خدمت میں پہلا اور آخری شعر پیش خدمت ہے؎

    سلسلۂ روز و شب نقش گرِ حادثات
    سلسلۂ روز و شب اصلِ حیات و ممات

    نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر
    نغمہ ہے سودائے خام خونِ جگر کے بغیر

    (ڈاکٹر فرید اللہ صدیقی کے مضمون سے منتخب پارہ)

  • سعودی عرب: اسکولوں کے اوقات تبدیل کرنے پر غور

    سعودی عرب: اسکولوں کے اوقات تبدیل کرنے پر غور

    ریاض: سعودی عرب میں ٹریفک جام کا مسئلہ حل کرنے کے لیے اسکولوں کے اوقات میں تبدیلی پر غور کیا جا رہا ہے۔

    اردو نیوز کے مطابق سعودی دارالحکومت ریاض میں محکمہ ٹریفک کے ترجمان کرنل منصور الشکرۃ کا کہنا ہے کہ ریاض میں ٹریفک اژدہام کا مسئلہ حل کرنے کے لیے اسکولوں کے اوقات میں تبدیلی اور بعض اداروں کے لیے آن لائن ڈیوٹی نظام اپنانے پر غور کیا جا رہا ہے۔

    کرنل منصور کا کہنا تھا کہ محکمہ ٹریفک ریاض میں اژدہام کے مسائل کے حل کے لیے خصوصی ورکشاپ کا انعقاد کرے گا۔

    ورکشاپ ریاض کی شاہراہوں پر ٹریفک سلامتی کا معیار بلند کرنے، ٹریفک کو رواں دواں کرنے اور رکھنے کے حوالے سے سفارشات پیش کرے گا۔

    محکمہ ٹریفک کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ماہرین نے تجویز دی ہے کہ ٹریفک اژدہام کا مسئلہ حل کرنے کے لیے اسکولوں کے اوقات تبدیل کیے جائیں، کالجوں اور جامعات میں تعلیم کے نئے نظام الاوقات جاری ہو جبکہ بعض کمپنیوں و اداروں اور سرکاری محکموں کو اس امر کا پابند بنایا جائے کہ وہ آن لائن ڈیوٹی سسٹم رائج کریں۔

    انہوں نے کہا کہ ریاض میٹرو پروجیکٹ کے تناظر میں شہر کی بعض شاہراہوں کی تنظیم نو ہونی چاہیئے۔

    ترجمان کا کہنا تھا کہ ورکشاپ میں وزارت بلدیات و دیہی و آباد کاری امور، کنگ سعود یونیورسٹی، امام محمد بن سعود اسلامی یونیورسٹی، امیر نائف یونیورسٹی برائے علوم سلامتی اور ریاض ڈیولپمنٹ رائل اتھارٹی کے نمائندے شریک ہوں گے۔

  • مصر: آثارِ قدیمہ میں کوئی شہر اس کی ہمسری نہیں کرسکتا

    مولانا شبلی نعمانی نے روم، مصر و شام كے سفر سے ہندوستان واپس آكر وہاں کے تمدن اور حسنِ معاشرت کو بیان کرنے کے علاوہ اپنے سفرنامے میں‌ قابلِ دید مقامات، اور قدیم عمارات کے بارے میں‌ بھی تفصیل رقم کی تھی جس میں مصر کی قدیم یادگاریں کے عنوان سے ایک باب بھی شامل ہے۔ اس میں اہرامِ مصر سے متعلق معلوماتی مضمون میں‌ وہ لکھتے ہیں:

    آثارِ قدیمہ کے لحاظ سے کوئی شہر اس شہر کی ہمسری نہیں کرسکتا۔ سچ یہ ہے کہ یہاں کی ایک ایک ٹھیکری قدامت کی تاریخ ہے۔

    سوادِ شہر کے ویرانوں میں اس وقت تک سیکڑوں خزف ریزے ملتے ہیں جن پر کئی کئی ہزار سال قبل کے حروف و نقوش کندہ ہیں۔ مجھ کو اتنا وقت بلکہ سچ ہے کہ اتنی ہمّت کہاں تھی کہ تمام قدیم یادگاروں کی سیر کرتا۔ البتہ چند مشہور مقامات دیکھے اور انہی کے حال کے لکھنے پر اکتفا کرتا ہوں۔

    اہرام، یہ وہ قدیم مینار ہیں جن کی نسبت عام روایت ہے کہ طوفاں نوحؑ سے پہلے موجود تھے۔ اور اس قدر تو قطعی طور سے ثابت ہے کہ یونان کی علمی ترقی سے ان کی عمر زیادہ ہے، کیوں کہ جالینوس نے اپنی تصنیف میں اس کا ذکر کیا ہے۔ یہ مینار نہایت کثرت سے تھے۔ یعنی دو دن کی مسافت میں پھیلے ہوئے تھے۔ صلاح الدین کے زمانہ میں اکثر ڈھا دیے گئے۔ ان میں سے جو باقی رہ گئے ہیں۔ اور جن پر خاص طور پر اہرام کا اطلاق ہوتا ہے۔ صرف تین ہیں، جو سب سے بڑا ہے۔ اس کی لمبائی چار سو اسّی فٹ یعنی قطب صاحب کی لاٹ سے دگنی ہے۔ نیچے کے چبوترہ کا ہر ضلع سات سو چونسٹھ فٹ ہے۔ مینار کا مکعب آٹھ کروڑ نوے لاکھ فٹ ہے۔ اور وزن اڑسٹھ لاکھ چالیس ہزار ٹن۔

    اس کی تعمیر میں ایک لاکھ آدمی بیس برس تک کام کرتے رہے۔ جڑ میں تیس تیس فٹ لمبی اور پانچ پانچ فٹ چوڑی پتھر کی چٹانیں ہیں اور چوٹی پر جو چھوٹی سے چھوٹی ہیں آٹھ فٹ کی ہیں۔

    اس کی شکل یہ ہے کہ ایک نہایت وسیع مربع چبوترہ ہے۔ اس پر ہر طرف سے کسی قدر سطح چھوڑ کر دوسرا چبوترہ ہے۔ اس طرح چوٹی تک اوپر تلے چبوترے ہیں۔ اور ان چبوتروں کے بتدریج چھوٹے ہوتے جانے سے زینوں کی شکل پیدا ہو گئی ہے۔ تعجب یہ ہے کہ پتھروں کو اس طرح وصل کیا ہے کہ جوڑ یا درز کا معلوم ہونا تو ایک طرف۔ چونا یا مسالے کا بھی اثر نہیں معلوم ہوتا۔ اس پر استحکام کا یہ حال ہے کہ کئی ہزار برس ہو چکے اور جوڑوں میں بال برابر فصل نہیں پیدا ہوا ہے۔

    ان میناروں کو دیکھ کر خوا مخواہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ جَرِّ ثَقِیل کا فن قدیم زمانہ میں موجود تھا۔ کیوں کہ اس قدر بڑے بڑے پتھر اتنی بلندی پر جَرِّ ثَقِیل کے بغیر چڑھائے نہیں جا سکتے۔ اور اگر اس ایجاد کو زمانۂ حال کے ساتھ مخصوص سمجھیں تو جرِّ ثقیل سے بھی بڑھ کر عجیب صنعت کا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔

    ان میناروں میں سے ایک جو سب سے چھوٹا ہے۔ کسی قدر خراب ہو گیا ہے جس کی کیفیت یہ ہے کہ 593 ہجری میں ملک العزیز (پسر سلطان صلاح الدّین) نے بعض احمقوں کی ترغیب سے اس کو ڈھانا چاہا۔ چنانچہ دربار کے چند معزز افسر اور بہت سے نقب زن اور سنگ تراش اور مزدور اس کام پر مامور ہوئے۔ آٹھ مہینے تک برابر کام جاری رہا اور نہایت سخت کوششیں عمل میں آئیں۔ ہزاروں لاکھوں روپے برباد کر دیے گئے۔ لیکن بجز اس کے کہ اوپر کی استر کاری خراب ہوئی۔ یا کہیں کہیں سے ایک آدھ پتھر اکھڑ گیا اور کچھ نتیجہ نہیں ہوا۔ مجبور ہو کر ملک العزیز نے یہ ارادہ چھوڑ دیا۔

    اہرام کے قریب ایک بہت بڑا بت ہے جس کو یہاں کے لوگ ابوالہول کہتے ہیں۔ اس کا سارا دھڑ زمین کے اندر ہے۔ گردن اور سَر اور دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں۔ چہرہ پر کسی قسم کا سرخ روغن ملا ہے۔ جس کی آب اِس وقت تک قائم ہے۔ ان اعضا کی مناسبت سے اندازہ کیا جاتا ہے کہ پورا قد ساٹھ ستّر گز سے کم نہ ہو گا۔ باوجود اس غیر معمولی درازی کے تمام اعضا ناک کان وغیرہ اس ترتیب اور مناسبت سے بنائے ہیں کہ اعضا کے باہمی تناسب میں بال برابر کا فرق نہیں۔

    عبداللّطیف بغدادی سے کسی شخص نے پوچھا تھا کہ آپ نے دنیا میں سب سے عجیب تر کیا چیز دیکھی؟ اس نے کہا کہ ابوالہول کے اعضا کا تناسب۔ کیوں کہ عالمِ قدرت میں جس چیز کا نمونہ موجود نہیں، اس میں ایسا تناسب قائم رکھنا آدمی کا کام نہیں۔