Tag:

  • بھارتی فلم پروڈیوسرز ایسوسی ایشن نے پاکستانی اداکاروں پر پابندی لگادی

    بھارتی فلم پروڈیوسرز ایسوسی ایشن نے پاکستانی اداکاروں پر پابندی لگادی

    ممبئی : بھارتی میڈیا کے مطابق بھارتی فلم پروڈیوسرز ایسوسی ایشن نے پاکستانی اداکاروں پرپابندی لگادی ۔

    بھارتی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ اب سے کچھ دیر قبل ممبئی میں پروڈیوسرز ایسوسی ایشن کا اجلاس ہوا جس میں پاکستانی فنکاروں پر بھارت میں کام کرنے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔

    ممبئی پروڈیوسرز ایسوسی ایشن بھی انتہاء پسندوں کی روش پر چل نکلی، بھارتی میڈیا کے مطابق، اب سے کچھ دیر قبل ممبئی میں پروڈیوسرز ایسوسی ایشن کا اجلاس ہوا جس میں پاکستانی فنکاروں پر بھارت میں کام کرنے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق پاکستانی فنکاروں کے ساتھ ساتھ پاکستانی پروڈکشن اسٹاف پر بھی بھارت میں کام کرنے پر پابندی لگا دی گئی ہے، بھارتی میڈیا کے مطابق، حالات ٹھیک ہونے تک پاکستانی فنکاروں کو کام نہ دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔

    واضح رہے کہ بھارتی انتہا پسندوں کی مسلسل دھمکیوں کے بعد پاکستانی فنکاروطن واپس لوٹنے لگے ہیں، بھارتی انتہا پسندوں نے پاکستانی فنکاروں کو 48 گھنٹوں میں بھارت چھوڑنے کا الٹی میٹم بھی دیا تھا۔

     

  • ٹرمپ اورہلری کلنٹن کے درمیان پہلا مباحثہ 26ستمبر کوہوگا

    ٹرمپ اورہلری کلنٹن کے درمیان پہلا مباحثہ 26ستمبر کوہوگا

    واشنگٹن : امریکہ میں صدارتی انتخابات میں صدارت کے امیدواروں کے مابین مباحث کا آغاز آئندہ پیر سے شروع ہو گا جس میں امیدوار اپنے اپنے انتخابی منشور اور اصلاحات کا دفاع کریں گے۔

    صدارتی امیدواروں کے درمیان مباحثوں کا انتظام کرنے والی تنظیم کے مطابق پہلا مباحثہ آئندہ پیر26 ستمبر کوریاست نیویارک کے شمال مشرقی شہر ہیمسٹڈ کی یونیورسٹی ہافسٹرا میں ہوگا جسے امریکہ کی تمام ریاستوں میں براہ راست نشرکیا جائے گا۔

    کمیشن آن پریذیڈنٹل ڈیبیٹ نے کہا ہے کہ گزشتہ ماہ کیے گئے سروے کے تحت ری پبلیکن امیدوار ڈونلڈٹرمپ اور ڈیموکریٹک امیدوار ہلری کلنٹن رائے عامہ کے لیے مقرر کردہ پانچ جائزوں میں مطلوبہ کم از کم 15فی صد اوسط حمایت حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔

    اس لیے 26 ستمبرکو ہونے والے پہلے مباحثے میں صرف دوبڑی سیاسی جماعتوں ری پبلیکن اور ڈیموکریٹک پارٹی کے نامزد امیدوارہی شرکت کر سکیں گے یوں امریکی عوام ہلری کلنٹن اور ڈونلڈ ٹرمپ کو اس مباحثے میں دو بدو حصہ لیتے ہوئے دیکھ سکیں گے۔

    واضح رہے کہ رائے عامہ کے حالیہ جائزوں میں کلنٹن کو اوسطاً 43 فی صد اور ٹرمپ کو اوسطاً 40 اعشاریہ 4 فی صد کی عوامی حمایت حاصل ہے۔

    اس کے علاوہ ری پبلیکن اور ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے نائب صدو انڈیانا کے گورنر مائک پنس اور ورجینیا کے گورنر ٹم بھی ریاست ورجینیا کے شہر فارم ول کی لانگ وڈ یونیورسٹی میں چار اکتوبرکو ہونے والے مباحثے میں حصہ لے سکیں گے۔

    اس طرح چار مباحثوں کے اس سلسلے کا تیسرا مباحثہ 9 اکتوبر کو سینٹ لوئیس اور چوتھا اور آخری 19 اکتوبر کو لاس ویگس میں ہوگا۔

  • ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ صحت مند قرار

    ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ صحت مند قرار

    واشنگٹن : امریکی ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے معالج نے ان کی جسمانی صحت کو زبردست قرار دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی صحت کے بارے میں حالیہ چیک اپ کے بعد اپنے معالج ڈاکٹر ہارولڈ این بورنسٹین کا خط جاری کیا ہے۔ جس میں ان کی جسمانی صحت کو زبردست قرار دیا ہے۔

    ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار 70 سالہ ٹرمپ کا قد چھ فٹ تین انچ ہے اور وزن 116 کلو ہے جو کہ ان کے قد کے مقابلے میں زیادہ ہے۔

    ٹرمپ نے اپنی مخالف امیدوار ہیلری کلنٹن کی بیماری اور صدارتی مہم کینسل ہونے کے بعد کہا تھا کہ وہ اپنی صحت کی رپورٹ جاری کریں گے۔

    خیال رہے کہ اس سے قبل ہیلری کلنٹن کی ڈاکٹر نے بتایا کہ وہ امریکی صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کے لیے ’صحت مند اور فِٹ ہیں۔‘

    ان کی انتخابی مہم نے ان کی طبی معلومات نشر کی تھیں جن کے مطابق ڈیموکریٹ پارٹی کی جانب سے امریکی صدارتی امیدوار کی صحت نمونیا کی تشخیص کے بعد بحال ہو رہی ہیں۔

    مزید پڑھیں: ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن نمونیا کا شکار ہوگئیں

    ہیلری کلنٹن کا کہنا ہے کہ وہ جمعرات سے دوبارہ اپنی مہم شروع کریں گی،وہ گذشتہ ہفتے اچانک بیمار پڑ گئی تھیں۔

    یاد رہے کہ ہیلری کلنٹن اور ڈونلڈ ٹرمپ دونوں کا شمار معمر ترین امریکی صدارتی امیدواروں میں ہوتا ہے، اور ان پر خاصا دباؤ تھا کہ وہ اپنی صحت کے بارے میں عوام کو آگاہ کریں۔

    ٹرمپ مسلسل کہتے آئے ہیں کہ کلنٹن کے پاس صدر بننے کے لیے درکار جسمانی اور ذہنی قوت نہیں ہےتاہم کلنٹن کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ان کے مخالفین ان کی صحت کے بارے میں ایک ’پاگلانہ سازشی نظریہ‘ پھیلا رہے ہیں۔

  • افغانستان نے معافی مانگ لی کل باب دوستی کھول دیا جائے گا

    افغانستان نے معافی مانگ لی کل باب دوستی کھول دیا جائے گا

    چمن : پاکستان اور افغانستان کی سیکیورٹی فورسز کے درمیان پانچویں فلیگ میٹنگ میں 18 اگست سے بند باب دوستی کھولنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پانچویں گلیگ میٹنگ کار گر ثابت ہوئی جس میں افغانستان کی سیکیورٹی فورسز نے پاکستان کے دو ٹوک موقف کے آگے گھٹنے ٹیکتے ہوئے باقاعدہ معافی مانگ لی جس کے بعد کل سے باب دوستی کھول دیا جائے گا۔

    ذرائع کے مطابق پاکستان اورافغانستان کی سکیورٹی فورسز کے درمیان ہونے والی پانچویں فلیگ میٹنگ میں افغان حکام کی جانب سے 18 اگست کو پیش آنے والے واقعے پر باقاعدہ طور پر تحریری معافی مانگی گئی۔

    اسی سے متعلق : مودی مخالف مظاہروں پر باب دوستی پراشتعال انگیزی، باب دوستی بند

    فلیگ میٹنگ کے دوران افغان وفد کے سربراہ لیفٹیننٹ کرنل محمد چنگیز نے کہا کہ 18 اگست کا واقعہ نا قابل برداشت ہے جس کی مذمت کرتے ہیں اوراس افسوسناک واقعے میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔

    افغانستان کے باقاعدہ معافی مانگنے کے بعد فلیگ میٹنگ میں فیصلہ کیا گیا کہ کل سے باب دوستی کو کھول دیا جائے گا اورآئندہ دونوں ملکوں کی فورسز کے اجلاس میں ہرماہ فلیگ میٹنگ کے انعقاد کو یقینی بنایا جائے گا جب کہ پاک افغان بارڈرپرہاٹ لائن بھی قائم کی جائے گی تاکہ آئندہ ایسا واقعہ پیش نہ آسکے۔

    یہ بھی پڑھیں :  پاک افغان بارڈر،باب دوستی 13ویں روز بھی بند

    واضح رہے کہ 18 اگست کو افغانستان کے شہریوں کی جانب سے اپنی حدود میں انڈیا کے حق میں پاکستان مخالف مظاہرہ کیا گیا تھا جس کا افغان فورسز نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔

    افغانستان کے شہریوں نے احتجاج کے دوران باب دوستی پر پتھراؤ بھی کیا اور پاکستانی پرچم کو نذر آتش بھی کیا جس کے بعد پاکستانی سکیورٹی فورسز نے باب دوستی بند کردیا تھا۔

    خیلا رہے کہ افسوسناک واقعہ پیش آنے پر وزیر اعظم نواز شریف نے حکم دیا تھا کہ جب تک افغانستان باقاعدہ طور پر معافی نہیں مانگ لیتا باب دوستی نہ کھولا جائے۔

     

  • آئندہ سالوں میں دنیا کی دس تیزی سے ترقی والی معیشتیں

    آئندہ سالوں میں دنیا کی دس تیزی سے ترقی والی معیشتیں

    لندن : برطانوی معاشی تحقیقی ادارے کی جانب سے دنیا کی10 ابھرتی معیشتوں کی فہرست جاری کی گئی ہے جو آئندہ دس سالوں میں عالمی مارکیٹ میں تیزی سے ابھرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں.

    تفصیلات کے مطابق برطانوی معاشی تحقیقی ادارے بی ایم آئی کے مطابق 2025تک دنیا کے دس ممالک کی جانب سے عالمی جی ڈی پی میں چار کھرب تیس ارب ڈالز کا اضافہ کریں گے، جو چابان کی موجودہ معیشت کے تقریباّ برابر ہے.

    عالمی مارکیٹ میں آئندہ دس سالوں کے دوران تیزی سےترقی کرنے والے دس ممالک میں پاکستان،بنگلادیش،مصر،ایتھوپیا،انڈونیشیا، کینیا،میانمار، نائجیریا،فلپائن اور ویت نام شامل ہیں.

    1- بنگلہ دیش

    برطانوی معاشی ادارے کی رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش گارمینٹس اور زراعت کے شعبے میں تیزی کے ساتھ ترقی کررہا ہے اور صرف دو شعبوں سے ملکی آمدنی میں پچاس فیصد تک اضافہ ہورہا ہے.

    2- مصر

    رپورٹ کے مطابق مصر میں قدرتی گیس کے ذخائر، تیل، پھل اور کاٹن اندسٹری ملکی معیشت میں اہم کررہی ہے،اس کے ساتھ آئندہ سالوں میں مصر کے شہری آبادی میں ہرسال دس لاکھ افراد کا اضافہ ہوگا.

    3-ایتھوپیا

    ایتھوپیا کی ملکی معیشت میں زراعت،سونا،سبزیاں اور کافی کے شعبے اہم کردار ادا کررہے ہیں، رپورٹ کے مطابق آئندہ سالوں میں ایتھوپیامیں تعمیراتی شعبے میں سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا جس سے ملکی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے.

    4-انڈونیشیا

    انڈونیشین معیشت میں زراعت کے شعبے کے ساتھ ساتھ مشینری پارٹس بنانے کی اندسٹری اہم کردار اداکرہی ہے اور ملک کے انفراسٹکچر میں مزید تبدیلیاں رونما ہوں گی.

    5- کینیا

    کینیا کی ملکی معیشت میں کافی چائے کے شعبے مرکزی کردار ادا کررہے ہیں، آئندہ آنے والے سالوں میں مالی خدمات اور تجارت کےشعبے میں مزید بہتری آئے گی

    6- میانمار

    ملکی معیشت میں قدرتی گیس اور لڑکی کی صنعت اور اس سے متعلق دیگر مصنوعات کا اہم کردارہےاور2010 کے بعد ملک میں ہونے والی اصلاحات اور ایک طویل عرصے بعد جمہوریت حکومت کی واپسی یہ تمام عوامل میانمار میں ہونے والی ترقی میں مددگار ثابت ہوں گے.

    7- نائیجیریا

    نائیجیریا میں تیل اور ناریل کے دو اہم شعبے جو ملکی آمدنی کا ذریعہ ہیں، آئندہ آنے والے سالوں میں ملک میں مالی خدمات کے شعبے کے ساتھ دیگرفرد کی مجموعی آمدنی میں بھی اضافہ ہوگا.

    8- پاکستان

    رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پیداواری اور تعمیراتی شعبے سب سے زیادہ ترقی کرتے نظر آرہے ہیں،پاکستان آئندہ برسوں میں پیداواری مرکز کے طور پر ابھرے گا.

    9-فلپائن

    ایشیائی ملک فلپائن کی معیشت میں تعمیراتی شعبے اور آٹوز اندسٹری اہم کردار ادا کررہے ہیں اور فلپائن میں چلنے والی کرپشن کی اصلاحات اور اس کے علاوہ معاشی اصلاحات کے باعث ملکی معیشت میں مزید بہتری کی توقع ہے.

    10- ویتنام
    ویتنام کی زاعت اور آئل ریفائننگ اندسٹری ملکی معیشت کی ترقی میں بنیادی کردار اداکررہے ہیں اور آئندہ آنے والے سالوں میں ملک میں بیرونی سرمایہ کاری صنعتی شعبےمیں بہتری سمیت دیگر شعبوں میں نمایاں بہتری ہوں گی.

    واضح رہے کہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پیداواری اور تعمیراتی شعبے سب سے زیادہ ترقی کرتے نظر آرہے ہیں،پاکستان آئندہ برسوں میں پیداواری مرکز کے طور پر ابھرے گا جبکہ ٹیکسٹائل اور کارسازی زیادہ تیزی سے ترقی کرتے نظرآرہی ہے.

  • میرے  ‘پیارے’  ہمسائے کے نام

    میرے ‘پیارے’ ہمسائے کے نام

    یہ بات ہے کچھ عرصہ پہلے کی، میں گھر سے باہر تھی۔ مجھے میری بہن کا”ایس-ایم-ایس” موصول ہوا۔ اُس انگریزی ایس-ایم-ایس کا اردو رترجمہ کرنے میںمجھے کافی دِقت محسوس ہو رہی ہے لہٰذا ‘اردو’ مفہوم ہی پیشِ خدمت کئے دیتی  ہوں”ہمارے محلے میں ایک نئی فیملی رہنے کے لیےتشریف فرما ہوئی ، فیملی میں دو بھائی ایسے تھے جنکو ‘اردو’ اور پنجابی لغت کے کچھ ایسے الفاظ پر مہارت حاصل تھی جو ہم اکثر اوقات گھروں میں ماؤں بہنوں کے سامنے بولتے حتٰی کہ سُنتے ہوئے بھی ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں”خیر میں نے اپنی بہن کے ایس-ایم-ایس پر کوئی خاص توجہ نہ دی۔ کافی عرصہ گزر گیا، ایک دن میرے کانوں کو کچھ ایسے الفاظ سُننے کو ملے جو معمول میںآج سے پہلے کبھی نا سنے تھے، اور اگر سُنے بھی ہونگے تو اس قسم کے’کمبینیشن’کے ساتھ تو ہرگز نہیں۔ مجھے اپنی کمر پر عجیب سے سرسراہٹ محسوس ہونےلگی۔ میں جو کہ ایک بہت ‘بولڈ’ شخصیت کی مالک ہوں فوراً یہاں وہاں دیکھنے لگی کے کمرے میں میرے علاوہ کوئی اور تو نہیں؟ شکر کا سانس لیا، یہ جان کر کہ میں اکیلی ہی بیٹھی اپنی پنجابی ‘لغت’ میں نت نئے فحش الفاظ کا اضافہ کر رہی ہوں۔ شرمندگی سے میرا منہ مجھے گرم ہوتا ہوا محسوس ہونے لگا اوردلکی دھڑکن اس خوف سے بڑھنے لگی کہ کہیں کوئی آ ہی نا جائے ،اس دوران میرے موبل فون پر بھی مسلسل کال آرہی تھی جسے میں اٹینڈ نہیں کر رہی تھی کیوں؟یہ تو آپ بھی باخوبی سمجھ گئے ہونگے۔۔۔۔جو الفاظ میں تنہائی میں بھی ہضم کرنے سے قاصر تھی بھلاکسی اور کے سامنے سُننے کی کیسے متحمل ہو سکتی تھی؟ کافی دیر تک دونوں بھائیوں کے درمیان اُن الفاظ تبادلہ ہوتا رہا جن میں اُنہی کی ماں بہن کے پوشیدہ حساس مقامات کا تفصیلی ذکر سننے میں آرہا تھا۔اتنا تو مجھے یقین ہو چکا تھا کہ میرے باقی گھر والے اور دیگر ہمسائے بھی یہی سب سن رہے ہیں مگر اردگرد کی خاموشی میری شرمندگی میں مسلسل اضافے کا باعث بنتی چلی جا رہی تھی۔ اتنے میں میرے کانوں کو کسی صنفِ نازک کی آواز سنائی دی۔ ماصوفہ نے جو الفاظ بولے وہ لکھنے کی بھی "یہ ناچیز "ہرگز جُرت نہیں کر سکتی۔ بس اتنا کہے دیتی ہوں کہ ان دونوں بھائیوں نے اپنی زبان کی روانگی کی بدولت گھر کی عورتوں کی بھی اچھی خاصی تربیت کر ڈالی ہوئی تھی۔ پنجابی میں کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ "ساریاں دے چاکے لتھ گئے ہوے سن”۔ چند گھنٹے تک ان جملوں کا تبادلہ ہوتا رہا جن میں کافی زیادہ الفاظ تہذیب کی لکیر سے نیچے بلکہ کافی زیادہ نیچے تھے۔ اس بات کوغالباً دو سے تین سال گزر گئے ہونگے۔ میری بھی پنجابی لغت میں اس دوران خاطر خواں اضافہ ہوا، بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ ابھی بھی ہو رہا ہے۔ دن میں تین سے چار راونڈ اسی قسم کی گفتوشنید پر مشتمل پورے محلے کے کانوں میں سے گزرتے ہیں۔ یہ صرف کسی ایک محلے یا کسی قصبے کی کہانی نہیں ہے بلکہ ہر دوسرے تیسرے گھر کا یہی حال ہے۔سڑکوں پر آتے جاتے ہم بے وجہ گالی گلوچ کو اپنی گفتگو کا حصہ بنائے پھر رہے ہوتے ہیں ، بنا یہ دیکھے کے آس پاس سے کوئی خاتون تو نہیں گزر رہی ، ہم دل کھول کر” آزادیِ رائے” کے حق کو کیش کروا رہے ہوتے ہیں ۔ ڈرتی ہوں کہ اگر یہی حال رہا تو گھر کی شریف عوتوں کی بھی ایک دن زبان ایسی ہی ہو جائے گی۔ یہ قوم اپنی تہذیب اپنا تمدن کھو دے گی پنجابی میں کہوں تو "ساریاں دے چاکے کھل جان گے”۔ شرم و حیا ناپید ہو جائے گی اور نبیؐ کی محبت کے دعوی ٰدار ذلیل و رسوا ہو کر رہ جائیں گے۔

    سوال میرا مختصر سا ہے، آخر اس کا حل کیا ہے؟ باحثیتِ قوم ہم کیا کر رہے ہیں؟ ہم جو اپنے آپ کو بہت بڑا عاشقِ رسول مانتے ہیں کیا یہ نہیں جانتے کہ ہمارے نبیؐ نے بےہودہ گفتاری کو کس قدر ناپسند فرمایا تھا؟ الفاظ کے چُناؤ میں ہم ہمیشہ ایسے الفاظ ہی کیوں چُنتے ہیں جن میں ہماری مائیں بہنیں بھی "چُنی”جاتی ہیں؟ کیا مہذب معاشروں کی یہ پہچان ہوتی ہے؟ اگر نہیں تو کس منہ سے ہم اپنے آپ کو مسلمان بلکہ عاشقِ رسول ﷺ کہتے ہیں؟قیامت کے روز کیا جواب دیں گے اپنے رب کو کہ آخر ” ہمارے نبیؐ کی زندگی سے ہم نے کیا سیکھا؟ زندگی اصلاح کے مواقعے بار بار نہیں دیتی، کب کہاں کیسے ” بُلاوا” آجائے،یہ نہ تو میں جانتی ہوں نہ ہی آپ، پھر کیوں نا آج سے ہی اپنے اصلاح کا آغاز کریں؟منہ سے عاشقِ رسولؐ ہونے کے دعوی چھوڑیں، عملاً ثابت کریں کہ "ہاں ہم عاشقِ رسولؐ ہیں دعا ہے کہ اللہ مجھے، آپ کو اور ہم سب کو سچ میں ایک ” سچا عاشقِ” رسولؐ بنائے۔
    آمین

  • کیوں؟

    یہ ان دنوں کی بات ہے جب "ریمنڈ ایلن ڈیوس” نامی شخص جو کے ایک سابق امریکی سپاہی بھی رہ چکاتھا اور سینٹرل انٹیلی جنٹ سروس (سی-آئی-اے)کے لیے بطورِ کنٹریکٹر اپنی خدمات سرانجام دے رہا تھا نے 27 جنوری 2011 میں دو پاکستانیوں کا دن دہاڑے گولیاں مار کے قتل کیا۔ ایک اور تیز رفتارگاڑی جو ڈیوس کو” بیک اپ” دے رہی تھی نے سڑک کی الٹی سمت میں جاتے ہوئے ایک تاجر کو بھی ٹھوک ڈالا جو غالباً موقعے پر ہی سر پر شدید چوٹ لگنے سے دم توڑ گیا تھا ۔ یہ تینوں افراد اس حادثے میں جاں بحق ہو گئے اور پورے ملک میں کہرام مچ گیا۔

    شروع شروع میں بہت شورشرابا برپا ہوا ، لواحقین کو کبھی دھمکیاں تو کبھی منہ بند کرنے کے لیے رشوتوں کی پیشکش کی جانے لگیں مگر وہ "خون کے بدلے خون” پر ڈتے رہے۔ پوری قوم شدید غم وغصے میں تھی۔ ہر کوئی لواحقین کے ساتھ کھڑا تھا۔ مگر اچانک گیم نے کلٹی بدلی،آنکھ جھپکتے ہی 16 مارچ 2011 کو ” دية”کے اسلامی قانون کے مطابق ورثا کو رقم کی ادائیگی کی جاتی ہے،ریمنڈ صاحب کو رہائی ملتی ہے اور دوسرے ہی لمحے حضرت مآب کو "بھاگم دوڑ” کر کے ائیر پورٹ لے جایا جاتا ہے جہاں ایک پرائیویٹ جہاز ان کا پہلے سےمنتظر تھا۔ محترم اس پرپوری شان و شوکت سے کسی ہالی وڈ کے فلمی ہیرو کی طرح سوار ہوتے ہیں، اور پوری پاکستانی قوم کو اّلو بلکہ ” الو کا پٹھا ” بنا کے نکل جاتے ہیں۔

    مجھے آج بھی یاد ہے کہ میں کیسے بے بسی اور لاچاری کے ساتھ وہ تمام رپورٹنگ ٹی-وی پر دیکھ اور سن رہی تھی۔ میرے غصے میں غم کی شدت کم اور بےبسی کی شدت کہیں زیادہ تھی۔مقتولین میں سے ایک کی بیوی جس کا نام شمائلہ کنول تھا اس نے 6 فروری کو خودکشی بھی کر لی تھی۔ وجہ؟ "اس کا ماننا تھا کہ اسے انصاف نہیں مل رہا اور نا ہی ملنے کی امید نظر آرہی ہے، شمائلہ کا کہنا تھا کہ وہ جانتی ہے کے ریمنڈ کو بنا کسی "ٹرئیل” ہی رہائی مل جائے گی” ، اور اُس کی یہ بات سچ بھی ثابت ہوئی۔ خیر ، کوئی لاکھ کہانیاں بنائے بلآخرہوا وہی جس کا شمائلہ کو ڈر تھا۔ کوئی کچھ بھی کہے، حقیقت یہی ہے ہے کہ لواحقین کا زبرداستی منہ بند کروادیا گیا تھا۔کیوں؟ یہ آپ جانتے ہی ہیں، کیسے؟ میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتی۔

    اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر” میں” چاہتی کیا ہوں؟ اتنے سالوں بعد یہ گڑھے مردے کیوں اُکھاڑ رہی ہوں؟ یقیناً اسکے پیچھے میرا کوئی مقصد ہو گا۔ بہت سے لوگ یہ بھی کہیں گے کہ یہ بی بی کسی "غیر ملکی ایجنڈے” پر کام کر رہی ہے، کچھ کہیں گے یہ اس عورت کے "سستی شہرت” کمانے کے گھٹیا ہتھکنڈے ہیں۔۔۔ پر ان سوالوں سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا، البتہ اس بات سے ضرور پڑتا ہے کہ آخر شمائلہ کی اس بہن کا کیا ہوا ، جو غالباً اس کی دیورانی بھی لگتی تھی۔
    مجھے یاد ہے اس کا وہ انٹرویو بھی، جو اس نے طلعت حسین کو دیا تھا۔ وہ بار بار یہی کہہ رہی تھی کہ اُس نے کسی کو معاف نہیں کیا۔ وہ اپنے سسرال سے بھی رابطے میں نہیں تھی۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ اس کے سسرالی اس سے رابطہ رکھنا ہی نہیں چاہ رہے تھے۔ وہ پریشان حال یہی سوچ رہی تھی کے آخر وہ اپنے بچے کو کیا بہانا بنا کے ٹالے گی کے اس کے باپ نے کیوں اس سے لاتعلقی اختیار کی ، آخر وہ اس سے رابطہ کرنے سے کیوں کترا رہا تھا؟ وہ کہاں گیا اور اب وہ لڑکی کہاں جائے گی؟ اور آج کا میرا سوال ، وہ لڑکی "اب”کہاں ہے؟ کیا وہ خیریت سے ہے؟ کسی نے دوبارہ اس کا حال دریافت کرنے کی کوشش کی؟
    یہ صرف ایک واقعہ ہے، ایسے کئی واقعات آئے دن اخباروں اور نیوز چینلز کی زینت بنتے ہیں ، پھر کوئی نئی نیوز اس کی جگہ لے لیتی ہے اور بس ایک کے بعد ایک معاملہ اللہ کے سپرد کر کے ہم چلتے چلے جاتے ہیں۔ آخر کیوں؟ ہماری حکومتیں، عدلیہ اور سول سوسائٹی نے اس سب کے لیے کیا کیا؟ کیا معاشرے میں ایسی عورتوں کے لیے کسی قسم کے تحفظ کی یقین دہانی کبھی کرائی گئی ؟ اگر نہیں تو کیوں؟