Tag: 8 اکتوبر وفات

  • دلرس بانو بیگم کا تذکرہ جو ہندوستان کے دوسرے تاج محل میں مدفون ہیں

    دلرس بانو بیگم کا تذکرہ جو ہندوستان کے دوسرے تاج محل میں مدفون ہیں

    دلرس بانو بیگم نے مختصر زندگی پائی۔ وہ ہندوستان کے مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کی تین بیویوں میں سے ایک تھیں۔ 1657ء میں آج ہی کے دن دلرس بانو بیگم وفات پاگئی تھیں۔

    مؤرخین نے دلرس بانو بیگم کا سنِ پیدائش 1622ء لکھا ہے۔ وہ ربیعہ الدّرانی کے نام سے بھی پکاری جاتی تھیں۔ اورنگزیب کی پہلی بیوی ہونے کے ناتے شاہی خاندان میں ان کی بڑی حیثیت اور اہمیت تھی۔

    اورنگزیب عالمگیر کی ماں ممتاز محل تھیں جن کی عظیم الشّان یادگار اور نشانی تاج محل دنیاک کے خوب صورت ترین مقابر اور عجائبِ روزگار عمارات میں شمار کیا جاتا ہے۔ بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کی شریکِ حیات دلرس بانو بیگم بھی اورنگ آباد میں ایسے ہی مقبرے میں آسودہ خاک ہوئیں جو تاج محل سے مماثلت رکھتا ہے۔ اسے بی بی کا مقبرہ کہا جاتا ہے۔

    مؤرخین نے دلرس بانو کو ایران کے مشہور صفوی خاندان کی شہزادی لکھا ہے۔ ان کی شادی 1637ء میں اورنگزیب سے ہوئی تھی اور ان کی پانچ اولادیں تھیں جن میں شہزادہ محمد اعظم کو اورنگزیب نے ولی عہد مقرر کیا تھا۔

    دلرس بیگم کی وفات اپنی پانچویں اولاد کی پیدائش کے ایک مہینے بعد زچگی کے دوران ہونے والی پیچیدگی کے سبب لاحق ہونے والے بخار کی وجہ سے ہوئی۔

    ہندوستان کے مغل شہنشاہ کو اپنی پیاری زوجہ کی موت کا شدید دکھ ہوا جب کہ اس کا سب سے بڑا بیٹا محمد اعظم اپنی ماں کی ناگہانی موت کے صدمے کے سبب اعصابی توازن کھو بیٹھا تھا۔

  • ژاک دریدا: وہ فلسفی جس کے افکار و نظریات نے علم و فنون پر گہرے اثرات مرتب کیے

    ژاک دریدا: وہ فلسفی جس کے افکار و نظریات نے علم و فنون پر گہرے اثرات مرتب کیے

    فرانس کے سب سے معروف فلسفی اور ردِ ساختیات (ڈی کنسٹرکشن) کے بانی ژاک دریدا 2004ء میں آج ہی کے دن سرطان کے مرض کے سبب زندگی کی جنگ ہار گئے تھے۔ وہ 74 سال جیے اور دنیا بھر میں اپنے فلسفے اور نظریات کی وجہ سے مشہور ہوئے۔

    ان کے نظریات کی ہمہ گیری نے علم و ادب کے تمام شعبوں پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ تاہم ان پر تنقید بھی کی گئی اور ان کے خیالات کو لایعنی اور بے معنیٰ بھی کہا گیا۔ اس کے باوجود دنیا انھیں علم و ادب، تنقید اور لسانیات کے ایک یگانہ روزگار اور دانش ور کی حیثیت سے پہچانتی ہے۔

    ان کے فلسفے نے ادب، فن، اخلاقیات اور روایتی مابعدالطبیعیات کو متاثر کیا۔

    ژاک دریدا الجزائر کے ایک یہودی خاندان میں 1930ء کو پیدا ہوئے۔ ان کے فلسفے پر توریت کے گہرے اثرات نظر آتے ہیں۔ وہ 1952ء میں فرانس منتقل ہوگئے اور ہاورڈ اور سوربون میں تدریس کا سلسلہ شروع کرنے کے ساتھ باقاعدہ لکھنے کا آغاز کیا۔ انھیں جرمن فلسفی مارٹن ہائیڈیگر، ایڈمنڈ ہسرل اور فرائڈ کے خیالات کی توسیع قرار دیا جاتا ہے۔

    انھیں کیمبرج نے 1992ء میں اعزازی ڈگری دی تھی۔ دریدا فرانس میں تارکینِ وطن کے حقوق اور چیکو سلواکیہ میں آزادی کی حمایت میں مہم چلاتے رہے۔ اس کے علاوہ وہ جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت کے مخالف رہے اور نیلسن منڈیلا کی حمایت میں بھی مہم چلائی۔

    2003ء میں دریدا کے نام ہی سے ان کی زندگی پر ایک فلم بنائی گئی تھی جس کا دورانیہ 84 منٹ تھا۔ اس فلم کے دوران دریدا کی کتابوں سے بھری ہوئی دیواروں کے قریب سے گزرتے ہوئے کوفمین نے ان سے پوچھا: کیا آپ نے یہ سب کتابیں پڑھی ہیں؟

    دریدا نے فوراً جواب دیا: نہیں، صرف ان میں سے چار پڑھی ہیں، لیکن میں نے انھیں انتہائی انتہائی غور سے پڑھا ہے۔

    کہا جاتا ہے کہ انھوں نے اپنے ذہن و ذکاوت کو بروئے کار لاتے ہوئے نہ صرف افکارِ تازہ کے وسیلے سے جہانِ تازہ تک رسائی کے امکانات کو یقینی بنایا بلکہ اپنے انقلابی تصورات سے فکر و نظر کو مالا مال کیا۔ ان کے متنوع افکار کے اثرات کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ یورپ میں ژاک دریدا کی حیات و خدمات اور فلسفیانہ تصوّرات پر پانچ سو سے زائد مفصل اور جامع تحقیقی مقالات لکھے گئے۔ ریسرچ اسکالرز نے چودہ ہزار سے زائد مقالات لکھ کر ان کے اسلوب کی تفہیم کی سعی کی اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔