Tag: 8 فروری برسی

  • ندا فاضلی: پاک و ہند کے مقبول شاعر کا تذکرہ

    ندا فاضلی: پاک و ہند کے مقبول شاعر کا تذکرہ

    ندا فاضلی نے اردو شاعری کو ایک نیا لہجہ اور اسلوب دیا جس نے ایک نسل کو متاثر کیا۔ ان کے اشعار کو نوجوانوں‌ نے اپنی بیاض‌ میں‌ شامل کیا، انھیں شوق سے پڑھا اور خوب سنا۔ وہ ایک مقبول شاعر تھے جن کے اشعار سادہ اور دل میں‌ اتر جاتے تھے۔ آج ندا فاضلی کی برسی ہے۔

    اردو کے اس شاعر اور نغمہ نگار کو ایک ادیب اور صحافی کی حیثیت سے بھی پہچان ملی۔ وہ بنیادی طور پر شاعر ہیں، لیکن ان کے نثری اسلوب نے بھی اپنی راہ بنائی۔ وہ 12 اکتوبر 1938ء کو دہلی میں پیدا ہوئے تھے، ان کا اصل نام مقتدیٰ حسن تھا۔ والد بھی شاعری کرتے تھے، اس لیے گھر میں شعر و شاعری کا چرچا تھا اور اسی ماحول میں‌ ندا فاضلی نے اپنے تخلیقی سفر کا آغاز کیا۔ ابتدائی تعلیم گوالیار میں ہوئی۔ جامعہ تک پہنچے تو اردو اور ہندی میں ایم ۔اے کی ڈگریاں حاصل کیں۔ تعلیم سے فراغت کے بعد انھوں نے کچھ دنوں تک دہلی اور دوسرے مقامات پر ملازمت کی تلاش میں ٹھوکریں کھائیں اور پھر 1964 میں بمبئی چلے گئے۔ بمبئی میں شروع میں انھیں خاصی جدو جہد کرنی پڑی۔ انھوں نے صحافت کی دنیا میں‌ قدم رکھا۔ اس کے ساتھ ہی ادبی حلقوں میں متعارف ہوئے۔ ان کی تخلیقات کتابی صورت میں‌ سامنے آئیں تو ان کی مقبولیت کا سفر شروع ہوگیا۔ وہ مشاعروں کے بھی مقبول شاعر بن گئے تھے۔

    فلم نگری سے ندا فاضلی نے کمال امروہی کی بدولت ناتا جوڑا۔ انھوں نے اپنی فلم رضیہ سلطان کے لیے ان سے دو گیت لکھوائے تھے۔ اس کے بعد وہ مکالمہ نویسی طرف متوجہ ہوئے اور معاش کی طرف سے بے فکری ہوئی۔ ندا فاضلی کے شعری مجموعے لفظوں کا پل کے بعد مور ناچ، آنکھ اور خواب کے درمیان، شہر تو میرے ساتھ چل، زندگی کی طرف، شہر میں گاؤں اور کھویا ہوا سا کچھ شائع ہوئے۔ انھوں‌ نے دو سوانحی ناول "دیواروں کے بیچ” اور "دیواروں کے باہر ” کے علاوہ مشہور شعرائے کرام کے خاکے بھی تحریر کیے۔ندا فاضلی کی شادی ان کی تنگدستی کے زمانہ میں عشرت نام کی اک ٹیچر سے ہوئی تھی لیکن نباہ نہیں ہو سکا ۔پھر مالتی جوشی ان کی رفیقۂ حیات بنیں۔ انھیں‌ ساہتیہ ایوارڈ کے علاوہ سرکاری اور فلمی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

    ندا فاضلی نے 8 فروری 2016ء کو ہمیشہ کے لیے آنکھیں‌ موند لی تھیں۔

    ان کا یہ شعر بہت مشہور ہے۔

    گھر سے مسجد ہے بہت دور چلو یوں کر لیں
    کسی روتے ہوئے بچے کو ہنسایا جائے

    ان کی غزلیں‌ جگجیت سنگھ کے علاوہ ہندوستان کے نام ور گلوکاروں‌ نے گائی ہیں۔ ان کا یہ کلام بھی بہت مشہور ہے۔

    ہوش والوں کو خبر کیا بے خودی کیا چیز ہے
    عشق کیجے پھر سمجھیے زندگی کیا چیز ہے

    دنیا جسے کہتے ہیں، جادو کا کھلونا ہے
    مل جائے تو مٹی ہے، کھو جائے تو سونا ہے

  • سورن لتا کا تذکرہ جنھیں‌ نذیر کی چاہت نے یکسر بدل کر رکھ دیا تھا

    سورن لتا کا تذکرہ جنھیں‌ نذیر کی چاہت نے یکسر بدل کر رکھ دیا تھا

    سورن لتا نے سکھ مذہب ترک کرکے اسلام قبول کیا تھا۔ دائرۂ اسلام میں داخل ہونے کے بعد ان کا نیا نام سعیدہ بانو رکھا گیا، لیکن اس وقت تک وہ فلم نگری میں سورن لتا کے نام سے جو پہچان بنا چکی تھیں، اسے کوئی فراموش نہیں کرسکا۔

    سعیدہ بانو المعروف سورن لتا نے 2008ء میں آج ہی کے دن وفات پائی۔ وہ برصغیر پاک و ہند میں اپنے وقت کی مقبول ہیروئن تھیں۔ فلم کے علاوہ تعلیمی شعبے میں اپنی خدمات کی وجہ سے سورن لتا نے بڑی پہچان بنائی۔ وہ خود بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور باشعور تھیں اور لڑکیوں کو پڑھانے کی بڑی حامی تھیں۔ انھوں نے لاہور میں جناح پبلک گرلز اسکول کی بنیاد رکھی اور آخر عمر تک شعبۂ تعلیم کے لیے خدمات انجام دیتی رہیں۔

    سورن لتا 20 دسمبر 1924ء کو راولپنڈی کے ایک سکھ گھرانے میں پیدا ہوئی تھیں۔ انھوں نے اپنے فنی کیریئر کا آغاز 1942ء میں رفیق رضوی کی فلم آواز کے ایک ثانوی کردار سے کیا تھا۔

    1943ء میں سورن لتا نے نجم نقوی کی فلم تصویر میں پہلی مرتبہ ہیروئن کے طور پر کام کیا، اس فلم کے ہیرو اداکار نذیر تھے۔ اگلی فلم لیلیٰ مجنوں تھی اور اس میں بھی وہ اداکار نذیر کے ساتھ نظر آئیں۔ یہ فلم سورن لتا کی زندگی میں ایک بڑی تبدیلی لائی اور انھوں نے اسلام قبول کرکے نذیر سے شادی کرلی۔ ان کی فلمی جوڑی بہت پسند کی جارہی تھی اور نذیر کام یاب ہیرو شمار کیے جاتے تھے۔ اداکار نذیر 1983ء میں وفات پاگئے تھے۔

    نذیر سے شادی کے بعد انھوں نے رونق، رتن، انصاف، اس پار اور وامق عذرا جیسی فلموں میں‌ اداکاری کے جوہر دکھائے۔ سورن لتا نے بعد میں اپنے شوہر اور اس وقت کے مقبول ہیرو نذیر کے ساتھ مل کر فلم سچّائی بنائی تھی۔ یہ دونوں اس فلم میں ہیرو اور ہیروئن کے روپ میں جلوہ گر ہوئے تھے۔ اسی سال پاکستان کی پہلی سلور جوبلی فلم پھیرے ریلیز ہوئی۔ اس کے فلم ساز، ہدایت کار اور ہیرو نذیر اور ہیروئن سورن لتا تھیں۔ پھیرے کو زبردست کام یابی ملی اور اس کے بعد اس جوڑے کی پنجابی فلم لارے اور اردو فلم انوکھی داستان ریلیز ہوئیں۔

    1952ء میں نذیر نے شریف نیّر کی ہدایت کاری میں فلم بھیگی پلکیں تیار کی جس میں سورن لتا نے الیاس کاشمیری کے ساتھ ہیروئن کا کردار ادا کیا تھا۔ فلم میں نذیر نے ولن کا کردار ادا کیا تھا۔ 1953ء میں اداکارہ کی چار مزید فلمیں شہری بابو، خاتون، نوکراور ہیر ریلیز ہوئیں۔ ایک کام یاب فلمی کیریئر کے بعد سورن لتا نے انڈسٹری سے کنارہ کش ہو جانے کا فیصلہ کیا اور اپنے قائم کردہ تعلیمی ادارے تک محدود ہوگئیں۔