Tag: 8 فروری وفات

  • سورن لتا کا تذکرہ جنھیں‌ نذیر کی چاہت نے یکسر بدل کر رکھ دیا تھا

    سورن لتا کا تذکرہ جنھیں‌ نذیر کی چاہت نے یکسر بدل کر رکھ دیا تھا

    سورن لتا نے سکھ مذہب ترک کرکے اسلام قبول کیا تھا۔ دائرۂ اسلام میں داخل ہونے کے بعد ان کا نیا نام سعیدہ بانو رکھا گیا، لیکن اس وقت تک وہ فلم نگری میں سورن لتا کے نام سے جو پہچان بنا چکی تھیں، اسے کوئی فراموش نہیں کرسکا۔

    سعیدہ بانو المعروف سورن لتا نے 2008ء میں آج ہی کے دن وفات پائی۔ وہ برصغیر پاک و ہند میں اپنے وقت کی مقبول ہیروئن تھیں۔ فلم کے علاوہ تعلیمی شعبے میں اپنی خدمات کی وجہ سے سورن لتا نے بڑی پہچان بنائی۔ وہ خود بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور باشعور تھیں اور لڑکیوں کو پڑھانے کی بڑی حامی تھیں۔ انھوں نے لاہور میں جناح پبلک گرلز اسکول کی بنیاد رکھی اور آخر عمر تک شعبۂ تعلیم کے لیے خدمات انجام دیتی رہیں۔

    سورن لتا 20 دسمبر 1924ء کو راولپنڈی کے ایک سکھ گھرانے میں پیدا ہوئی تھیں۔ انھوں نے اپنے فنی کیریئر کا آغاز 1942ء میں رفیق رضوی کی فلم آواز کے ایک ثانوی کردار سے کیا تھا۔

    1943ء میں سورن لتا نے نجم نقوی کی فلم تصویر میں پہلی مرتبہ ہیروئن کے طور پر کام کیا، اس فلم کے ہیرو اداکار نذیر تھے۔ اگلی فلم لیلیٰ مجنوں تھی اور اس میں بھی وہ اداکار نذیر کے ساتھ نظر آئیں۔ یہ فلم سورن لتا کی زندگی میں ایک بڑی تبدیلی لائی اور انھوں نے اسلام قبول کرکے نذیر سے شادی کرلی۔ ان کی فلمی جوڑی بہت پسند کی جارہی تھی اور نذیر کام یاب ہیرو شمار کیے جاتے تھے۔ اداکار نذیر 1983ء میں وفات پاگئے تھے۔

    نذیر سے شادی کے بعد انھوں نے رونق، رتن، انصاف، اس پار اور وامق عذرا جیسی فلموں میں‌ اداکاری کے جوہر دکھائے۔ سورن لتا نے بعد میں اپنے شوہر اور اس وقت کے مقبول ہیرو نذیر کے ساتھ مل کر فلم سچّائی بنائی تھی۔ یہ دونوں اس فلم میں ہیرو اور ہیروئن کے روپ میں جلوہ گر ہوئے تھے۔ اسی سال پاکستان کی پہلی سلور جوبلی فلم پھیرے ریلیز ہوئی۔ اس کے فلم ساز، ہدایت کار اور ہیرو نذیر اور ہیروئن سورن لتا تھیں۔ پھیرے کو زبردست کام یابی ملی اور اس کے بعد اس جوڑے کی پنجابی فلم لارے اور اردو فلم انوکھی داستان ریلیز ہوئیں۔

    1952ء میں نذیر نے شریف نیّر کی ہدایت کاری میں فلم بھیگی پلکیں تیار کی جس میں سورن لتا نے الیاس کاشمیری کے ساتھ ہیروئن کا کردار ادا کیا تھا۔ فلم میں نذیر نے ولن کا کردار ادا کیا تھا۔ 1953ء میں اداکارہ کی چار مزید فلمیں شہری بابو، خاتون، نوکراور ہیر ریلیز ہوئیں۔ ایک کام یاب فلمی کیریئر کے بعد سورن لتا نے انڈسٹری سے کنارہ کش ہو جانے کا فیصلہ کیا اور اپنے قائم کردہ تعلیمی ادارے تک محدود ہوگئیں۔

  • صدارتی ایوارڈ یافتہ اداکارہ بیگم خورشید مرزا کی برسی

    صدارتی ایوارڈ یافتہ اداکارہ بیگم خورشید مرزا کی برسی

    پاکستان ٹیلی ویژن کی معروف اداکارہ بیگم خورشید مرزا کی 8 فروری 1989ء کو وفات پاگئی تھیں۔ آج ان کی برسی ہے۔ تقسیم ہند سے قبل انھیں فلم انڈسٹری میں‌ رینوکا دیوی کے نام سے پہچان ملی تھی۔

    بیگم خورشید مرزا کا تعلق علی گڑھ کے ایک تعلیم یافتہ اور باشعور گھرانے سے تھا۔ ان کے والد اسلام قبول کرنے کے بعد شیخ عبداللہ کے نام سے جانے گئے جو ایک بیدار مغز اور سوسائٹی میں نہایت فعال اور متحرک تھے۔ یہی نہیں‌ بلکہ ان کی تمام اولادیں کسی نہ کسی صورت میں‌ علم و ادب اور فنونِ لطیفہ سے وابستہ رہیں۔ خود شیخ عبداللہ کا شمار ان شخصیات میں ہوتا ہے جنھوں نے علی گڑھ میں مسلم گرلز کالج کی بنیاد رکھی۔ شیخ عبداللہ نے 4 مارچ 1918ء کو پیدا ہونے والی اپنی بیٹی کا نام خورشید جہاں رکھا تھا۔ ان کی بڑی بیٹی کا نام ڈاکٹر رشید جہاں تھا اور وہ انجمن ترقی پسند مصنّفین کے بانیوں میں شامل تھیں۔ اسی طرح خورشید جہاں بھی فن اور ادب کی دنیا میں معروف ہوئیں۔ ان کے بھائی بھی فلم انڈسٹری سے وابستہ تھے۔

    بیگم خورشید مرزا 17 برس کی تھیں جب وہ اکبر حسین مرزا سے رشتۂ ازدواج میں‌ منسلک ہوگئیں جو پولیس افسر تھے۔ اسی نسبت وہ خورشید جہاں سے بیگم خورشید مرزا مشہور ہوئیں۔ ان کے بھائی محسن عبداللہ بھی متحدہ ہندوستان میں مشہور فلمی ادارے بمبئی ٹاکیز سے وابستہ تھے۔ انہی کے توسط سے خورشید جہاں کو فلم جیون پربھات، بھابی، نیا سنسار اور غلامی میں اداکاری کرنے کا موقع ملا اور قیامِ پاکستان کے بعد وہ یہاں‌ آئیں تو ریڈیو اور بعد میں ٹیلی وژن پر اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا۔

    انھوں نے متعدد مشہور ڈراموں میں اپنی اداکاری پر داد پائی اور ریڈیو کے لیے انھیں صدا کار کی حیثیت سے شہرت حاصل ہوئی۔ بیگم خورشید مرزا کے ٹی وی ڈراموں میں کرن کہانی، زیر زبر پیش، انکل عرفی، پرچھائیں، رومی، افشاں اور انا شامل ہیں جو اپنے وقت کے مقبول ترین کھیل تھے۔

    1984ء میں حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا گیا تھا۔بیگم خورشید مرزا کی سوانح عمری A Woman of Substance کے نام سے سامنے آئی تھی جو ان کی صاحبزادی کے زورِ قلم کا نتیجہ ہے۔ اپنے وقت کی اس سینئر اداکارہ کو لاہور کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • معروف موسیقار اور گلوکار نہال عبداللہ کی برسی

    معروف موسیقار اور گلوکار نہال عبداللہ کی برسی

    آج معروف موسیقار اور گلوکار نہال عبداللہ کی برسی ہے۔ وہ 8 فروری 1983ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔

    نہال عبداللہ کا تعلق ہندوستان کی ریاست جے پور سے تھا جہاں وہ 1924ء میں قصبہ چڑاوا میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا گھرانا سُر اور ساز کے حوالے مشہور تھا۔ نہال عبداللہ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد استاد اللہ دیا سارنگی نواز اور اپنے بھائی استاد جمال خان سارنگی نواز سے حاصل کی تھی۔

    اس فن کار کی وابستگی اور شہرت کا اہم میڈیم ریڈیو رہا۔ وہ‌ 1948ء میں ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوئے تھے۔ نہال عبداللہ نے 1951ء میں پاکستان کے قومی ترانے کی کمپوزنگ میں حصّہ لیا اور 1953ء میں جب یہ قومی ترانہ ریکارڈ ہوا تو اس میں ان کی آواز بھی شامل تھی۔

    نہال عبداللہ نے ایک فلم چراغ جلتا رہا کی موسیقی بھی ترتیب دی تھی جس کے ہدایت کار فضل احمد کریم فضلی تھے۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں انھوں نے نفیس فریدی کا لکھا ہوا گیت ’’پاکستانی بڑے لڑیا، جن کی سہی نہ جائے مار‘‘ گا کر بے حد شہرت حاصل کی تھی۔ معروف شاعر عزیز حامد مدنی کی ایک غزل ’’تازہ ہوا بہار کی دل کا ملال لے گئی‘‘ بھی ان کی کمپوزنگ میں بہت مشہور ہوئی۔ اسے مہدی حسن کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔

  • فلم، ریڈیو اور ٹی وی کی ممتاز اداکارہ بیگم خورشید مرزا کی برسی

    فلم، ریڈیو اور ٹی وی کی ممتاز اداکارہ بیگم خورشید مرزا کی برسی

    آج پاکستان ٹیلی ویژن کی معروف اداکارہ بیگم خورشید مرزا کی برسی ہے وہ 8 فروری 1989ء کو وفات پاگئی تھیں۔ بیگم خورشید مرزا کا تعلق علی گڑھ کے ایک تعلیم یافتہ اور باشعور گھرانے سے تھا۔

    4 مارچ 1918ء کو پیدا ہونے والی بیگم خورشید مرزا کا اصل نام خورشید جہاں تھا۔ان کے والد شیخ عبداللہ نے علی گڑھ میں مسلم گرلز کالج کی بنیاد رکھی تھی اور ان کی بڑی بہن ڈاکٹر رشید جہاں انجمن ترقی پسند مصنّفین کی بانیوں میں شامل تھیں۔ خورشید جہاں 17 برس کی عمر میں اکبر حسین مرزا سے رشتہ ازدواج میں‌ منسلک ہوئی تھیں‌ جو پولیس افسر تھے۔ خورشید جہاں کے بھائی محسن عبداللہ مشہور فلمی ادارے بمبئی ٹاکیز سے وابستہ تھے۔ انہی کے توسط سے خورشید جہاں نے ہندوستان میں فلم جیون پربھات، بھابی، نیا سنسار اور غلامی میں اداکاری کی۔

    قیامِ پاکستان کے بعد ریڈیو اور بعد میں ٹیلی وژن کے متعدد ڈراموں میں اداکاری کی اور ایک صدا کار کی حیثیت سے بھی شہرت حاصل کی۔ بیگم خورشید مرزا کے ٹی وی ڈراموں میں کرن کہانی، زیر زبر پیش، انکل عرفی، پرچھائیں، رومی، افشاں اور انا شامل ہیں جو اپنے وقت کے مقبول ترین کھیل تھے۔

    1984ء میں حکومتِ پاکستان نے بیگم خورشید مرزا کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔ ان کی سوانح عمری A Woman of Substance کے نام سے شایع ہوچکی ہے جو ان کی صاحبزادی کے زورِ قلم کا نتیجہ ہے۔

    بیگم خورشید مرزا لاہور کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • نام ور اداکارہ سورن لتا کا یومِ وفات

    نام ور اداکارہ سورن لتا کا یومِ وفات

    8 فروری 2008ء کو برصغیر پاک و ہند کی نام ور اداکارہ سورن لتا وفات پاگئی تھیں۔ وہ اپنے وقت کی مقبول ہیروئن تھیں۔ سورن لتا تعلیم یافتہ اور باشعور عورت تھیں جنھوں نے لاہور میں جناح پبلک گرلز اسکول کی بنیاد رکھی اور اس حوالے سے خدمات انجام دیتی رہیں۔

    سورن لتا 20 دسمبر 1924ء کو راولپنڈی کے ایک سکھ گھرانے میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کے فنی کیریئر کا آغاز 1942ء میں رفیق رضوی کی فلم آواز کے ایک ثانوی کردار سے ہوا تھا۔

    1943ء میں انھوں نے نجم نقوی کی فلم تصویر میں پہلی مرتبہ ہیروئن کے طور پر کام کیا، اس فلم کے ہیرو اداکار نذیر تھے۔ سورن لتا کی اگلی فلم لیلیٰ مجنوں تھی اور اس میں بھی نذیر کے ساتھ کام کیا تھا۔ یہ فلم سورن لتا کی زندگی میں ایک بڑی تبدیلی لائی اور شائقین نے سنا کہ سورن لتا نے اسلام قبول کرکے نذیر سے شادی کرلی ہے۔ ان کا اسلامی نام سعیدہ بانو رکھا گیا۔ تاہم فلم نگری میں وہ سورن لتا ہی کے نام سے پہچانی گئیں۔

    شادی کے بعد اداکارہ نے رونق، رتن، انصاف، اس پار اور وامق عذرا جیسی فلموں میں‌ اداکاری کے جوہر دکھائے۔ سورن لتا نے بعد میں اپنے شوہر نذیر کے ساتھ مل کر فلم سچّائی بنائی۔ اس فلم میں ہیرو اور ہیروئن کا کردار انہی دونوں نے ادا کیا۔ اسی سال پاکستان کی پہلی سلور جوبلی فلم پھیرے ریلیز ہوئی۔ اس کے فلم ساز، ہدایت کار اور ہیرو نذیر تھے اور ہیروئن سورن لتا تھیں۔ پھیرے کی زبردست کام یابی کے بعد نذیر اور سورن لتا کی پنجابی فلم لارے اور اردو فلم انوکھی داستان ریلیز ہوئیں۔

    1952ء میں نذیر نے شریف نیر کی ہدایت کاری میں فلم بھیگی پلکیں تیار کی جس میں سورن لتا نے الیاس کاشمیری کے ساتھ ہیروئن کا کردار ادا کیا۔ اس فلم میں نذیر ولن کا کردار ادا کیا تھا۔

    1953ء میں سورن لتا کی چار مزید فلمیں شہری بابو، خاتون، نوکراور ہیر ریلیز ہوئیں۔ چند مزید فلمیں کرنے کے بعد سورن لتا فلمی صنعت سے کنارہ کش ہوگئیں اور خود کو اپنے قائم کردہ تعلیمی ادارے تک محدود کرلیا۔ وہ آخر وقت تک اس کی سربراہ رہیں۔