Tag: 8 نومبر وفات

  • جان ملٹن: انگریزی ادب کا درخشاں ستارہ

    جان ملٹن: انگریزی ادب کا درخشاں ستارہ

    اگر دنیا کے بڑے شاعروں‌ میں سے صرف بارہ کا انتخاب کیا جائے اور اس میں ملٹن کو شامل نہ کیا جائے تو یہ فہرست نامکمل رہے گی۔ جہاں تک انگریزی شاعری کا تعلق ہے ملٹن اس کے عناصرِ اربعہ یعنی چار اوّلین اکابر میں سے ایک ہے۔

    ملٹن نے جس فضا میں پرورش پائی وہ علمی اور فنی شوق اور تہذیبی نفاستوں کی فضا تھی جو حق پرستی اور حریّت پسندی کے جذبے سے بھی معمور تھی۔

    اُس نے گھر میں ایک صحت مند ماحول پایا اور لوگ ملٹن کے باپ کو راست گو، دیانت دار اور باشعور مانتے تھے جب کہ اس کی ماں‌ کو ایک سخی اور دردمند عورت کے طور پر جانا جاتا تھا۔ اپنے علم و ادب اور شعور و آگاہی کے سفر کی بابت خود ملٹن کا کہنا ہے کہ یہ سب اس کے باپ کی بدولت ممکن ہوا جس نے اپنے بیٹے کے رجحان اور صلاحیتوں کو پہچان کر نہ صرف اس کی تعلیم و تربیت پر توجہ دی بلکہ اسے ہر سہولت بھی فراہم کی۔ ملٹن لکھتا ہے کہ مجھے علم کا ایسا ہوکا تھا کہ بارہ سال کی عمر ہی سے میں مشکل ہی سے کبھی آدھی رات سے پہلے پڑھنا چھوڑ کر بستر پر گیا ہوں گا۔

    جان ملٹن عمر کے ایک حصّے میں‌ اپنی بینائی سے محروم ہوگیا تھا۔ اس بابت وہ لکھتا ہے کہ شروع ہی سے میری آنکھیں‌ کم زور تھیں اور میں اکثر دردِ سَر میں‌ مبتلا رہتا تھا، لیکن اس کے باوجود میں نے ہرگز مطالعے کا شوق، تحقیق کی لگن اور غور و فکر کی عادت کو ترک نہیں کیا۔

    زمانۂ طالبِ علمی میں ملٹن اپنی علمی فضیلت، وسعتِ مطالعہ اور اچھوتے خیالات کی وجہ سے ہم جماعتوں‌ میں‌ نمایاں‌ رہا۔ کالج کے دور مین ملٹن کو خدا اور مذہب سے متعلق اپنے خیالات، عقائد اور بعض نظریات کی وجہ سے ناپسندیدگی کا بھی سامنا کرنا پڑا، لیکن اس نے اپنا سفر جاری رکھا اور ڈگری لینے میں کام یاب رہا۔ اس وقت تک وہ شاعری کا سلسلہ شروع کرچکا تھا جب کہ متعدد زبانوں پر بھی عبور حاصل کر لیا تھا۔

    اسے انگریزی زبان کا عظیم شاعر مانا گیا اور وہ انگلستان میں ادب کا روشن ستارہ بن کر ابھرا۔ 17 ویں صدی کے اس مشہور شاعر کی نظم "فردوسِ گم گشتہ” اور "فردوسِ باز یافتہ” دنیا بھر میں مقبول ہیں اور متعدد زبانوں میں ان کے تراجم کیے جاچکے ہیں۔

    اس کی یہ رزمیہ شاعری انگریزی ادب کی بہترین نظموں میں شمار ہوتی ہے۔اس نظم میں ملٹن انسان کی نافرمانی اور جنت سے نکالے جانے کا احوال بیان کرتا ہے۔ اس نظم میں اس نے خدا، انسان اور شیطان سے مکالمہ کیا ہے۔

    شاعرِ مشرق علامہ اقبال بھی ملٹن کی نظم فردوسِ گم گشتہ سے بے حد متاثر تھے اور انھوں نے اسی طرز پر رزمیہ نظم لکھنے کا ارادہ کیا تھا۔ اس بابت وہ اپنے ایک مکتوب بنام منشی سراج الدین میں لکھتے ہیں کہ:

    ‘‘ملٹن کی تقلید میں لکھنے کا ارادہ مدت سے ہے۔ اور اب وہ وقت قریب معلوم ہوتا ہے کیونکہ ان دنوں وقت کا کوئی لحظہ خالی نہیں جاتا جس میں اس کی فکر نہ ہو۔پانچ چھے سال سے اس آرزو کی دل میں پرورش کر رہا ہوں، مگر جتنی خوہش آج کل محسوس کر رہا ہوں اس قدر کبھی نہ ہوئی۔ مگر روزگار سے نجات ملتی ہے تو اس کام کو باقاعدہ شروع کروں گا۔’’

    جان ملٹن 9 دسمبر 1608ء کو لندن میں پیدا ہوا۔ وہ انگریزی اور لاطینی زبانوں کا ماہر تھا۔ ذخیرۂ الفاظ سے مالا مال جس کا شاعری میں مخصوص طرزِ بیان، جذبات اور اچھوتے خیالات کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ سترھویں صدی کی غنائیہ نظموں میں شاید ہی کسی نے ایسا انگریزی ادب تخلیق کیا ہو۔ اُس نے شیکسپیئر کی رومانی مثنوی، ڈرامائی عناصر اور طنز و مزاح کا گہرا مطالعہ کیا اور وہ ادبی ماحول پیدا کیا جو اسی سے منسوب ہے۔

    ملٹن کی 1646ء میں جب کتاب شائع ہوئی تو وہ 38 سال کا تھا۔ کئی جلدوں پر مشتمل اپنی رزمیہ شاعری میں ملٹن نے قدیم داستانوں، روایت اور مافوق الفطرت کے کارناموں کا جو تذکرہ ہے، اس میں مذہبی عقائد اور روزِ ازل سے متعلق تصورات کو اس نے موثر اور دل کش پیرائے میں بیان کیا ہے۔ ملٹن نے انگریزی کے علاوہ لاطینی زبان میں بھی نظمیں تخلیق کیں۔

    وہ ایک مصلح اور سیاست کار بھی تھا جس نے مختلف اصولوں، ضابطوں کو نام نہاد اور فرسودہ قرار دیتے ہوئے فرد کی آزادی کو سلب کرنے والے قوانین کے خلاف بھی لکھا۔ اس نے نثر میں بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا اور بیک وقت مذہبی اور سیاسی انقلابات پر لکھا۔

    جان ملٹن 8 نومبر 1674 کو ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے چلا گیا۔

  • مشہور مؤرخ بہاءُ الدّین کا تذکرہ جنھوں نے فاتح بیتُ المقدس کی سوانح عمری لکھی

    مشہور مؤرخ بہاءُ الدّین کا تذکرہ جنھوں نے فاتح بیتُ المقدس کی سوانح عمری لکھی

    بہاءُ الدّین یوسف ابنِ رفیع ابنِ شداد 12 ویں صدی عیسوی کے ایک فقیہ، عالم اور مؤرخ تھے جن کی علمیت اور مشہور تصنیف عالمِ اسلام کے عظیم حکم راں سلطان صلاح الدّین ایّوبی کی سوانح عمری ہے۔

    محققین نے بہاءُ الدّین کا سنِ پیدائش 1145 عیسوی لکھا ہے اور ان کا وطن قدیم عراق کا شہر موصل بتایا ہے تاریخی تذکروں‌ میں آیا ہے کہ بہاءُ الدّین نے موصل میں ہی ابتدائی تعلیم و تربیت مکمل کی اور پھر قرآن و حدیث کا درس لیا۔ اس کے بعد وہ بغداد چلے گئے جو اُس زمانے میں‌ اسلامی تعلیم کا مرکز سمجھا جاتا تھا اور علم و فنون سے وابستہ شخصیات کی قدر افزائی کے لیے مشہور تھا۔

    بہاءُ الدّین نے بغداد میں‌ مدرسہ نظامیہ میں مسلم قانون کا مطالعہ کیا اور بعد میں وہیں‌ درس و تدریس سے منسلک ہو گئے۔ 1173ء میں وہ اپنے آبائی شہر موصل لوٹ آئے۔

    سلطان صلاح الدّین ایّوبی کے دور میں ابنِ شداد کو حکومت کی جانب سے بڑا مقام اور دربار میں‌ زبردست پذیرائی حاصل ہوئی۔ اسلامی تاریخ کے محقّقین کے مطابق حج کے بعد 1188ء میں وطن واپسی پر بہاءُ الدّین کو سلطان ایّوبی کی جانب سے دربار میں‌ حاضر ہونے کا پیغام دیا گیا جہاں ان کی بڑی تکریم کی گئی۔ صلاح الدّین ایّوبی نے ان کی علمی کاوشوں کی تعریف کی اور بہاءُ الدّین کو مستقل طور فوج کا قاضی مقرر کردیا۔

    بہاءُ الدّین کی مشہور تصنیف سلطان صلاح الدّین ایّوبی کی سوانح عمری ہے، جس کا زیادہ تر حصّہ سوانح نگار کے ذاتی مشاہدات پر مبنی ہے۔ عربی زبان میں اس مصنّف نے متعدد مضامین سپردِ‌ قلم کیے تھے۔ تاہم ان کی یہ تصنیف سب سے زیادہ مشہور ہے۔

    ان کی متذکرہ بالا کاوش کو عالمِ اسلام کی نہایت معتبر ہستی سلطان صلاح الدّین کی شخصیت پر مستند اور قابلِ ذکر تصنیف کہا جاتا ہے۔ یہ اسلامی تاریخ کی ایک عظیم الشّان فتح کا وہ مستند حوالہ بھی ہے جس میں بیتُ‌ المقدس کے غیرمسلموں‌ کے ساتھ سلطان صلاح الدّین ایّوبی نے حسنِ خلق، درگزر اور بردباری کا مظاہرہ کیا تھا۔

    مستند تاریخی تذکروں میں‌ اس مسلمان عالم اور مؤرخ کا یومِ وفات 8 نومبر 1234ء درج ہے۔

  • پاکستانی فلموں کے کام یاب ہیرو اور خوبرو اداکار درپن کا یومِ وفات

    پاکستانی فلموں کے کام یاب ہیرو اور خوبرو اداکار درپن کا یومِ وفات

    آج پاکستان کی فلمی صنعت کے ایک خوبرو اداکار درپن کا یومِ وفات ہے۔ وہ 1980ء میں‌ جہانِ فانی سے کوچ کرجانے والے درپن نے بڑے پردے پر ہیرو کے طور پر کام یابیاں سمیٹنے کے بعد اپنے کیریئر کے دوران کیریکٹر اور سپورٹنگ رول بھی ادا کیے۔

    درپن 1928ء کو اترپردیش میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام عشرت عباس تھا اور فلم نگری میں انھوں نے درپن کے نام سے پہچان بنائی اور شہرت پائی۔ ان کے فلمی کریئر کا آغاز 1950ء میں فلم امانت سے ہوا۔ پاکستان میں چند فلموں میں کام کرنے کے بعد وہ ممبئی چلے گئے جہاں فلم عدلِ جہانگیری اور باراتی میں کام کیا، ممبئی میں قیام کے دوران بھارت کی اداکارہ نگار سلطانہ کے ساتھ ان کا افیئر بھی مشہور ہوا۔ پاکستان واپسی پر درپن نے کئی کام یاب فلموں میں کام کیا، جن میں ساتھی، رات کے راہی، سہیلی، گلفام، قیدی، آنچل، باجی، شکوہ، اک تیرا سہارا اور نائلہ وغیرہ شامل ہیں۔

    بطور ہیرو ان کی آخری کام یاب فلم پائل کی جھنکار تھی جو 1966ء میں بڑے پردے پر نمائش کے لیے پیش کی گئی۔ اداکار درپن نے مجموعی طور پر 67 فلموں میں کام کیا جن میں 57 فلمیں اردو، 8 فلمیں پنجابی اور دو فلمیں پشتو زبان میں بنائی گئی تھیں۔ انھوں نے اپنے وقت کی مقبول ہیروئن نیّر سلطانہ سے شادی کی تھی اور ان کا یہ تعلق زندگی کی آخری سانس تک قائم رہا۔

    درپن نے بہترین اداکار کے زمرے میں دو نگار ایوارڈ اپنے نام کیے۔ اداکاری کے علاوہ انھوں نے خود کو فلم ساز کے طور پر بھی آزمایا اور بالم، گلفام، تانگے والا، ایک مسافر ایک حسینہ کے نام سے فلمیں بنائیں۔

    وہ لاہور میں مسلم ٹاؤن کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

  • جون ایلیا:‌ اردو کا مقبول ترین شاعر جسے مغرور فلسفی، سرکش عاشق اور خود پسند کہا جاتا ہے

    جون ایلیا:‌ اردو کا مقبول ترین شاعر جسے مغرور فلسفی، سرکش عاشق اور خود پسند کہا جاتا ہے

    جون ایلیا کا مزاج عاشقانہ تھا۔ وہ اکثر ایک خیالی دنیا آباد کرلیتے اور اپنی محبوبہ سے گفتگو کرتے، حالِ دل بیان کرتے اور الفت و کلفت، روٹھنے منانے کا سلسلہ جاری رہتا۔ انھیں ایسا روایت شکن کہا جاتا ہے جس نے اردو شاعری کو وہ منفرد لب و لہجہ اور آہنگ دیا، جس پر اُن کی خود پسندی، انا، ہَٹ، بیزاری، آزار پسندی، رومانویت اور محبوب سے شکوے شکایات کا رنگ حاوی ہے۔

    جون ایلیا کی شخصیت پر ان کے دوست قمر رضی نے لکھا، "ایک زود رنج مگر بے حد مخلص دوست، اک شفیق اور بے تکلف استاد، اپنے خیالات میں ڈوبا ہوا راہ گیر، اک مرعوب کن شریکِ بحث، ایک مغرور فلسفی، اک فوراً رو دینے والا غم گسار، ناروا حد تک خود دار اور سرکش عاشق، ہر وقت تمباکو نوشی میں مبتلا رہنے والا خلوت پسند، انجمن ساز، بہت ہی ناتواں مگر ساری دنیا سے بیک وقت جھگڑا مول لے لینے کا خوگر، سارے زمانے کو اپنا محرم بنا لینے والا نامحرم، حد درجہ غیر ذمہ دار، بیمار، ایک شدید الحس نادرہ کار شاعر، یہ ہے وہ فن کار جسے جون ایلیا کہتے ہیں۔”

    آج اردو کے اس مقبول شاعر کا یومِ وفات ہے۔ وہ 2002ء میں اس دنیا سے کوچ کرگئے تھے۔ جون ایلیا ایک شاعر، فلسفی، نثر نگار اور زبان و بیان کے ماہر تھے۔انھوں نے اپنی شاعری میں عشق کی نئی جہات کا سراغ لگایا۔

    نام ور شاعر اور ادیب احمد ندیم قاسمی کے بقول "جون ایلیا اپنے معاصرین سے نہایت درجہ مختلف اور منفرد شاعر ہیں۔ ان کی شاعری پر یقینا اردو، فارسی عربی شاعری کی چھوٹ پڑ رہی ہے مگر وہ ان کی روایات کا استعمال بھی اتنے انوکھے اور رسیلے انداز میں کرتے ہیں کہ بیسویں صدی کے آخری نصف میں ہونے والی شاعری میں ان کی آواز نہایت آسانی سے الگ پہچانی جاتی ہے۔”

    روایت شکنی، اختلافِ رائے، مباحث اور کسی بھی بات کا ردّ شاید جون ایلیا کا محبوب مشغلہ تھا۔ وہ اس سے محظوظ ہوتے تھے، لیکن مجلس میں دلیل، منطق اور مثال دے کر اپنا مؤقف سب کے سامنے رکھتے۔

    وہ علم و ادب کے بڑے شائق، ایک وسیع المطالعہ شخص تھے اور یہی وجہ تھی کہ علمی مباحث کے دوران تاریخ، فلسفہ، منطق، مذاہبِ عالم، زبانوں، ثقافتوں کا تذکرہ اور مختلف ادوار کی نابغۂ روزگار شخصیات کے نظریات کو بیان کرتے ہوئے، مشہور اور قابلِ‌ ذکر سیاسی و سماجی تحریکوں کے حوالے دیتے چلے جاتے۔

    اس باغی اور روایت شکن شاعر نے امروہہ کے ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جہاں سبھی افراد علم و فن کے رسیا، زرخیز ذہن اور روشن فکر تھے۔ ان کے والد علّامہ شفیق حسن ایلیا اردو، فارسی، عربی اور عبرانی زبانوں کے عالم تھے جب کہ نام ور دانشور سید محمد تقی اور اردو کے معروف شاعر رئیس امروہوی ان کے بڑے بھائی تھے۔

    گھر میں آئے روز علمی و ادبی نشستیں، فکری مباحث منعقد ہوا کرتیں اور کم عمر جون ایلیا کو کائنات کے اسرار و رموز سے لے کر زندگی کے حسین اور بدنما پہلوؤں تک سبھی کچھ جاننے، سمجھنے کا موقع مل جاتا۔ اس ماحول کے پروردہ جون ایلیا نے جلد ہی شعر موزوں کرنا سیکھ لیا۔

    14 دسمبر 1931ء کو پیدا ہونے جون ایلیا نظم اور نثر دونوں میں باکمال ٹھہرے۔ وہ شاعر اور ایک انشا پرداز کی حیثیت سے اپنے ہم عصروں میں ممتاز نظر آتے ہیں۔ اپنی باغیانہ فکر کے ساتھ اپنے منفرد لب و لہجے سے انھوں نے نہ صرف دنیائے ادب میں بلند اور نمایاں مقام و مرتبہ حاصل کیا بلکہ ہر خاص و عام میں مقبول ہوئے۔

    جون ایلیا اردو، فارسی، عربی اور عبرانی زبانیں جانتے تھے۔ ان کی مطبوعہ نثری کتب میں حسن بن صباح اور جوہر صقلی کے نام شامل ہیں اور شعری مجموعے شاید، یعنی، لیکن، گمان اور گویا کے نام سے اشاعت پذیر ہوچکے ہیں۔

    حکومتِ پاکستان نے ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر 2000ء میں انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔