Tag: 9 جنوری وفات

  • خطروں سے کھیلنے والی میری این ایوانز کا تذکرہ جنھیں نادیہ کے نام سے شہرت ملی

    خطروں سے کھیلنے والی میری این ایوانز کا تذکرہ جنھیں نادیہ کے نام سے شہرت ملی

    میری این ایوانز المعروف نادیہ ہندوستانی فلم انڈسٹری کی وومن اسٹنٹ تھیں۔ انھیں بے خوف نادیہ بھی کہا جاتا ہے، کیوں کہ انھوں‌ نے ہندوستانی فلم انڈسٹری کے لیے کئی خطرناک مناظر عکس بند کروائے تھے۔

    وہ پہلی خاتون تھیں جنھوں نے ایسے اسٹنٹ کیے جنھیں بظاہر بہادر اور مضبوط اعصاب کے مالک مرد بھی شاید کرنے سے انکار کردیتے، لیکن نادیہ نے فلمی دنیا کے لیے حقیقی خطروں کا سامنا کیا اور خوب شہرت پائی۔ وہ 1930ء اور 1940ء کے عشرے میں ہندوستانی فلموں میں نظر آئیں‌۔

    نادیہ نے ہیروئن یا کسی دوسرے اہم کردار کی جگہ گھڑ سواری کی، پہاڑیوں پر جان بچانے کے لیے بھاگیں، کود کر باڑ عبور کی۔ اسی طرح تیز رفتار ٹرین میں فائٹنگ کے مناظر عکس بند کرواتی اور ندی یا دریا عبور کرکے پار پہنچنے کی کوشش کرتی دکھائی دیں۔ انھوں نے فلم کے سین کی ڈیمانڈ کے لیے خطرناک جانوروں کا سامنا کیا، گھوڑے کی پیٹھ سے چھلانگ لگائی، تلوار چلائی اور انھیں فضا میں ہوائی جہاز سے بھی لٹکتا ہوا دیکھا گیا۔ انھوں نے نہایت سنسنی خیز اور جان کو خطرے میں‌ ڈال دینے والے سین کیے جس پر انھیں ’اسنٹنٹ کوئن‘ کہا جانے لگا تھا۔

    نادیہ کا جنم آسٹریلیا کے شہر پرتھ میں سن 1908 میں ہوا تھا۔ ان کے والد برطانوی اور ماں یونان نسل کی تھیں۔ ان کے والد کا نام اسکاٹ مین ہربرٹ ایوانز تھا۔ وہ برطانوی فوج میں رضاکار تھے۔ میری 1913ء میں کم عمری ممبئی میں آئیں جب ان کے والد برطانوی فوجی کی حیثیت سے لڑ رہے تھے۔ 1915ء میں پہلی جنگِ عظیم میں محاذ پر بھیجے گئے اور وہاں‌ لڑائی کے دوران مارے گئے۔ تب نادیہ کی والدہ پشاور منتقل ہوگئیں۔ یہاں اپنے قیام کے دوران نادیہ نے گھڑ سواری اور رقص میں مہارت حاصل کی۔ وہ 1928ء میں ممبئی چلی گئیں‌ جہاں ابتدا میں سرکس میں کام کیا اور وہیں‌ انھیں نادیہ کا نام دیا گیا۔

    فلم ساز جمشید بومنا ہومی واڈیا (جے بی ایچ) نے انھیں بڑے پردے پر چھوٹا سا کردار دیا اور وہ 1933ء میں پہلی بار فلم ’دیش دیپک‘ میں نظر آئیں۔ نادیہ ایک مضبوط جسم کی مالک اور خاصی پھرتیلی تھیں جنھوں نے سرکس سے بہت کچھ سیکھ لیا تھا اور اسی بنیاد پر مسٹر واڈیا نے ان کی شخصیت کے مطابق ایک فلم ’ہنٹر والی‘ بنائی، اور نادیہ کو مرکزی کردار سونپا۔ اس فلم میں وہ ایک شہزادی بنی تھیں‌، جو اپنے والد کی سلطنت میں ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف لڑتی ہے۔ یہ فلم ہٹ ہوئی۔ نادیہ نے اپنے فلمی کیریئر کے دوران کل 38 فلموں میں کردار ادا کیے اور مختلف اسٹنٹ کیے۔

    دل چسپ بات یہ ہے کہ ان کے زیادہ تر کردار ناانصافی کے خلاف اور عورت کے حق کے لیے لڑائی والے تھے، جس نے نادیہ کو ہندوستانیوں‌ سے توجہ اور محبّت سمیٹنے کا موقع دیا اور وہ صرف اداکارہ ہی نہیں بلکہ ایک سیاسی اور سماجی کارکن کے طور پر بھی دیکھی گئیں۔

    نادیہ نے فلم ساز ہومی واڈیا سے شادی کی تھی۔ وہ 8 جنوری 1908ء کو پیدا ہوئی تھیں اور ممبئی میں 9 جنوری 1996ء کو وفات پائی۔

  • خالدہ ادیب خانم: ادب میں‌ معروف، سیاست اور سماج میں‌ اپنی جدوجہد کے لیے مشہور‌ خاتون کا تذکرہ

    خالدہ ادیب خانم: ادب میں‌ معروف، سیاست اور سماج میں‌ اپنی جدوجہد کے لیے مشہور‌ خاتون کا تذکرہ

    خالدہ ادیب خانم ترکی کی ادیب، قوم پرست اور بے باک صحافی تھیں۔ وہ اپنے سیکولر نظریات اور جدیدیت پسندی کے لیے مشہور تھیں۔

    ایک مصنّفہ، شاعرہ کی حیثیت سے خالدہ ادیب خانم جہاں‌ اپنے تخلیقی سفر کے لیے پہچانی جاتی ہیں، وہیں‌ ترکی میں‌ سیاسی اور سماجی کارکن کے طور پر بھی ان کی خدمات کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ انھوں نے ترکی کے عوام کی تحریکِ آزادی اور عظیم قربانیوں کو اپنی کہانیوں اور ناولوں میں پیش کیا اور ساتھ ہی ملک میں‌ اصلاح و تبدیلی کی غرض سے بھی کوششیں‌ کرتی رہیں۔ ڈاکٹر ایم اے انصاری نے انھیں‌ 1935ء میں ہندوستان آنے کی دعوت دی تھی اور یہاں‌ انھوں نے ”ہندوستان کے اندر‘‘ کے نام سے اپنی یادداشتیں لکھیں جسے بہت پذیرائی حاصل ہوئی۔

    خالدہ ادیب خانم 11 جون 1884ء کو پیدا ہوئیں۔ 1964ء میں‌ آج ہی کے دن ان کی زندگی کا سفر تمام ہوگیا تھا۔ ان کے والد کا نام عثمان ادیب پاشا تھا جو عثمانی سلطان عبد الحمید کے عہد میں‌ وزیرِ خزانہ تھے۔ خالدہ خانم نے ابتدائی تعلیم کے بعد 1910ء میں بی اے کا امتحان نہایت اعلیٰ نمبروں سے پاس کیا۔ انھوں نے لکھنے لکھانے کا سلسلہ شروع کیا تو 18 سال کی عمر میں پہلی کتاب ”ترکی پردے“ سامنے آئی اور بعد میں‌ وہ افسانہ نگاری کی طرف مائل ہوئیں۔ ان کے اسلوب نے بہت جلد انھیں‌ ترکی کی صفِ اوّل کی افسانہ نگاروں کی صف میں‌ لاکھڑا کیا۔ ان کی کہانیاں اور ناول بعد میں‌ یورپ کی کئی زبانوں‌ اور انگریزی اور عربی زبانوں میں بھی ترجمہ ہوئے۔

    جنگِ عظیم اور سلطنتِ عثمانیہ میں حکومت کی تبدیلی کے بعد خالدہ ادیب خانم کی کوششوں کی بدولت ملک میں‌ ترقیٔ نسواں‌ کے لیے کام شروع ہوا اور اس وقت کے مدبرین نے عورتوں کے مطالبات کی حمایت کی۔ انھوں نے وزارتِ تعلیم پر زور دیا کہ ترک عورتوں کو جدید تعلیم حاصل کرنے کی سہولیات بہم پہنچائے۔ ان سرگرمیوں کی بدولت انور پاشا اور طلعت پاشا نے خالدہ خانم کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے ان کو سیاسی آئین و ضوابط کی تشکیل میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اپنی فکر اور نظریات کا پرچار کرنے کے لیے خالدہ خانم نے ترکی کے اخبارات میں مضامین لکھے اور ذہن سازی کرتی رہیں‌ جب کہ ان کی تحریریں یورپ اور امریکا میں بھی شایع ہوئیں۔ وہ اگرچہ زمانۂ طالبِ علمی سے امریکی کالج کی طالبہ ہونے کے ناطے مغربی طرزِ زندگی کی عادی تھیں لیکن بعد میں انہوں نے ترکی لباس اور رہن سہن کو اپنا لیا۔

    وہ 1925ء میں‌ بحری سفر کرکے ہندوستان آئی تھیں‌ اور ان کا تین ماہ یہاں‌ قیام یادگار ثابت ہوا جس میں‌ انھیں‌ اردو داں طبقے اور سیاسی و سماجی شخصیات کے درمیان رہنے کا موقع ملا۔ انھوں نے ہندوستان میں ترکی کے ماضی، حال اور مستقبل پر اپنی تقاریر سے مختلف طبقات کو متاثر کیا۔