Tag: 9 دسمبر وفات

  • فیروز خان نون جو اپنے ‘خصوصی خطاب’ کے ایک ماہ بعد وزیرِاعظم نہیں‌ رہے

    فیروز خان نون جو اپنے ‘خصوصی خطاب’ کے ایک ماہ بعد وزیرِاعظم نہیں‌ رہے

    تقسیمِ ہند کے بعد ہی حکومتِ پاکستان نے اہم ساحلی علاقے گوادر کو سلطنتِ‌ عمان سے لینے کی کوشش شروع کردی تھی، لیکن اس معاملے میں کام یابی 1958ء میں اُس وقت ملی جب ملک فیروز خان نون ملک کے وزیرِ‌اعظم بنے۔

    یہ ستمبر کا مہینہ تھا جب وزیرِاعظم فیروز خان نون نے ریڈیو پر اپنے خصوصی خطاب میں عوام سے کہا کہ جذبۂ خیر سگالی کے تحت سلطنتِ عمان نے گوادر پاکستان کو دے دیا ہے، لیکن بعد میں یہ بات سامنے آئی کہ پاکستان نے اس کے لیے عرب سلطان کو رقم ادا کی تھی۔ وزیرِاعظم کے خطاب سے عوام پر یہ تأثر قائم ہوا تھا کہ گوادر کا علاقہ عرب مسلم سلطنت کا پاکستان کے لیے تحفہ ہے۔

    پاکستان کی تاریخ سے گوادر کے اس چند سطری تذکرے کے بعد اب ہم پنجاب کے معروف زمین دار گھرانے کے چشم و چراغ ملک فیروز خان نون کی بات کریں گے جنھوں نے 1970ء میں‌ آج ہی دن وفات پائی تھی۔ فیروز خان نون کو اکثر فادر آف گوادر بھی کہا اور لکھا جاتا ہے۔

    مناصب و عہدے، برطرفی اور مارشل لاء
    ملک فیروز خان نون پاکستان کے ساتویں‌ وزیرِاعظم رہے جن کی اس منصب سے برطرفی کے ساتھ ہی عوام نے ملک میں پہلا مارشل لاء دیکھا تھا۔ فیروز خان نون 1957ء میں وزیرِاعظم بنے تھے اور گوادر کی پاکستان کو حوالگی کے اگلے ہی ماہ اس وقت کے صدر پاکستان میجر جنرل سکندر مرزا نے اسمبلیاں توڑ کر انھیں برطرف کردیا تھا۔

    ملک فیروز خان نون ایک جاگیردار گھرانے کے فرد ہی نہیں بلکہ انگریز نواز سیاست داں بھی تھے۔ تقسیمِ‌ ہند سے قبل انگریز راج میں اور قیامِ پاکستان کے بعد ان کے پاس کئی عہدے رہے، وہ دفاع و اقتصادی امور، دولت مشترکہ، سرحدی علاقے، امورِ خارجہ برائے کشمیر اور قانون کے محکمے میں بااختیار ہوئے۔

    زندگی کی جھلک، تعلیم اور ملازمت کا سلسلہ
    7 مئی 1893ء کو ملک فیروز خان نون نے ضلع سرگودھا کی تحصیل بھلوال کے ایک گاؤں میں آنکھ کھولی تھی۔ ان کے والد سَر محمد حیات نون بھی ایک معروف شخصیت تھے۔ فیروز خان نے ابتدائی تعلیم سرگودھا سے حاصل کی اور 1905ء میں ایچی سن کالج لاہور میں داخلہ لیا۔ 1912ء میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے انگلستان گئے اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے ایم اے اور بعدازاں بیرسٹر ان لاء کی ڈگری بھی حاصل کی۔ وطن واپسی پر بطور وکیل اپنے ضلع میں پریکٹس شروع کر دی اور بعد میں لاہور ہائی کورٹ میں وکالت کرتے رہے۔

    1945ء میں ملک فیروز خان نون نے آسٹریلین نژاد خاتون سے دوسری شادی کی تھی جنھوں نے اسلام قبول کیا اور ہم انھیں بیگم وقارُ النساء نون کے نام سے پہچانتے ہیں۔

    سیاسی سفر اور حکومتی ذمہ داریاں
    ملک فیروز خان نون 1920ء میں سیاست کے میدان میں اترے تھے۔ اس زمانے کی یونینسٹ پارٹی کے پلیٹ فارم نے انھیں پنجاب قانون ساز اسمبلی کی رکنیت دلوائی۔ 1927ء سے 1936ء تک وہ پنجاب کابینہ کا حصّہ رہے اور 1930ء تک انگریز دور میں صوبائی وزیرِ بلدیات کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ بعد کے دور میں وزیرِ صحت اور وزیر تعلیم بنائے گئے۔ 1936ء میں فیروز خان نون لندن میں ہندوستان کے ہائی کمشنر مقرر کیے گئے۔ بعد میں وائسرائے ہند کی کابینہ کے رکن بنے اور 1942ء سے 1945ء تک ان کا نام برطانوی ہند میں وزیرِ دفاع کے طور پر لیا جاتا رہا جو اس عہدے پر پہلے ہندوستانی تھے۔ 1945ء میں انھوں نے آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔

    قیامِ پاکستان کے بعد سیاسی زندگی
    ملک فیروز خان نون 1947ء سے 1953ء تک پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے رکن رہے۔ بعد میں مشرقی پاکستان کے دوسرے گورنر بنے۔ 1955ء تک پنجاب کے تیسرے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے کام کیا۔ وزیراعظم پاکستان حسین شہید سہروردی کی کابینہ میں خارجہ امور اور دولت مشترکہ کے محکمے ان کے پاس رہے۔

    وزیر اعظم کے منصب سے اپنی برطرفی کے بعد فیروز خان نون نے باقی ماندہ عمر گوشۂ گمنامی میں گزار دی اور طویل علالت کے بعد لاہور میں وفات پائی۔ وہ متعدد کتابوں کے مصنّف بھی تھے۔

  • پاکستانی فلمی صنعت کے نگار ایوارڈ یافتہ مزاحیہ اداکار نرالا کی برسی

    پاکستانی فلمی صنعت کے نگار ایوارڈ یافتہ مزاحیہ اداکار نرالا کی برسی

    آج مزاحیہ اداکار نرالا کا یومِ وفات ہے جو ماضی میں‌ پاکستان کی فلم انڈسٹری کے ایک مشہور فن کار اور شائقین میں اپنی اداکاری کے سبب خاصے مقبول تھے۔ اس اداکار کو نگار ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔

    نرالا کا اصل نام سیّد مظفر حسین زیدی تھا۔ وہ 8 اگست 1937ء کو پیدا ہوئے۔ 1960ء میں انھوں نے ہدایت کار اے ایچ صدیقی کی فلم ’اور بھی غم ہیں‘ سے بڑے پردے پر بطور اداکار اپنا سفر شروع کیا۔ پاکستان کی پہلی اردو پلاٹنیم جوبلی فلم ’ارمان‘ میں نرالا نے اپنے مزاحیہ کردار کو اس طرح نبھایا کہ شائقین سے خوب داد اور ناقدین کی بھرپور توجہ حاصل کی۔ وہ اس فلم کے لیے بہترین مزاحیہ اداکار کے نگار ایوارڈ کے حق دار ٹھرے۔

    اداکار نرالا کی فلموں کی تعداد سو سے زائد ہے جن میں کئی فلمیں سپرہٹ ثابت ہوئیں اور ان کی اداکاری کو ناقابلِ فراموش اور یادگار قرار دیا گیا۔ نرالا نے فلم سپیرن، مسٹر ایکس، شرارت، چھوٹی بہن، ہیرا اور پتھر، ارمان، احسان، دوراہا، زمین کا چاند، انسان اور گدھا، جہاں تم وہاں ہم، نصیب اپنا اپنا جیسی کام یاب ترین فلموں میں اپنے مزاحیہ کردار نبھا کر شائقینِ سنیما کے دل جیت لیے۔ ان کی آخری فلم چوروں کا بادشاہ تھی۔

    پاکستان فلم انڈسٹری کے مشہور و معروف اداکار، نرالا نے 9 دسمبر 1990ء کو ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لی تھیں۔ انھیں‌ کراچی کے ایک قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • پاکستان کے باکمال مصوّر اور استاد حاجی محمد شریف کا تذکرہ

    پاکستان کے باکمال مصوّر اور استاد حاجی محمد شریف کا تذکرہ

    حاجی محمد شریف پاکستان کے نام وَر مصوّر تھے جنھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا تھا۔ ایک استاد کی حیثیت سے انھوں نے پاکستان میں فنِ‌ مصوّری کی تعلیم اور آرٹ کے فروغ کے لیے بھی خدمات انجام دیں اور اپنا تخلیقی سفر بھی جاری رکھا۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔

    9 دسمبر 1978ء کو حاجی محمد شریف لاہور میں انتقال کرگئے۔ وہ 1889ء میں ریاست پٹیالہ کے ایک گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے دادا اور والد دونوں ہی فنِ مصوّری میں‌ کمال رکھتے تھے اور پٹیالہ کے دربار سے منسلک فن کار تھے۔ یوں‌ محمد شریف کو شروع ہی سے رنگوں سے کھیلنے اور اس فن کو سمجھنے کا موقع ملا اور بڑے ہوئے تو باقاعدہ مصوّری سیکھی۔

    حاجی محمد شریف کو ان کے والد بشارت اللہ خان کے ایک شاگرد لالہ شاؤ رام اور استاد محمد حسین خان نے مصوّری سکھائی۔ 1906ء میں وہ بھی مہاراجہ پٹیالہ کے دربار سے وابستہ ہوگئے۔

    1924ء میں لندن میں‌ منی ایچر پینٹنگز کی نمائش منعقد ہوئی جس میں‌ حاجی محمد شریف کے فن پارے بھی شائقین و ناقدین کی نظر میں آئے اور ان کے کام کو بہت پزیرائی ملی۔ وہ پاکستان کے ان مصوّروں میں سے تھے جنھیں ممبر آف برٹش ایمپائر کا اعزاز دیا گیا۔

    1945ء میں تقسیمِ ہند سے قبل محمد شریف لاہور آگئے جہاں انھوں نے میو اسکول آف آرٹ میں مصوّری کی تعلیم دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ 1965ء میں وہ اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد پنجاب یونیورسٹی کے فائن آرٹس ڈپارٹمنٹ سے بطور وزیٹنگ پروفیسر منسلک ہوگئے اور طویل عرصے تک طلبا کو فنِ مصوّری کی تعلیم دیتے رہے۔ انھیں استاد حاجی محمد شریف بھی کہا جاتا ہے۔

    حاجی محمد شریف کے فن کا اتنا شہرہ ہوا کہ اس وقت صدر ایوب خان اور وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو بھی ان کے قدر دانوں‌ میں شامل ہوگئے تھے۔ انھیں وفات کے بعد لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔