Tag: 9 فروری وفات

  • نظریاتی جبر کا شکار نہ ہونے والے اردو کے سر بَر آوردہ نقاد آل احمد سرور

    نظریاتی جبر کا شکار نہ ہونے والے اردو کے سر بَر آوردہ نقاد آل احمد سرور

    آلِ احمد سرور نے ترقّی پسند تحریک، حلقۂ اربابِ ذوق اور جدیدیت تینوں ادوارِ ادب کو دیکھا اور ان کا اثر قبول کیا، لیکن کسی ایک تحریک سے بندھے نہیں۔ انھوں نے تنقید کے میدان اور شاعری میں‌ مقام بنایا اور قدیم و جدید ادب کو خوب کھنگالا، لیکن خود کسی ایک تحریک کے زیرِ اثر ادب تخلیق نہیں کیا۔ شاعری میں انھوں نے مشرقی کلاسکیت کو فوقیت دی۔ مغربی ادب کا مطالعہ بھی خوب کیا، لیکن اس سے متاثر ہو کر برصغیر کے عظیم شعرا میر، غالب اور اقبال کو رد نہیں کرسکے۔ آج آلِ احمد سرور کی برسی ہے۔

    ان کا تعلق بدایوں سے تھا۔ وہ 9 ستمبر 1911ء کو ایک ذی علم گھرانے میں پیدا ہوئے۔ 1928ء میں ہائی اسکول پاس کیا اور سینٹ جانس کالج آگرہ سے بی ایس سی کی سند لے کر 1932ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم اے انگریزی کیا۔ 1936 میں اسی جامعہ سے اردو میں ایم اے کیا۔ 1938ء میں شعبۂ اردو میں لیکچرر ہوگئے۔ 1946 سے 1955 تک لکھنؤ یونیورسٹی میں تدریس سے منسلک رہے اور پھر علی گڑھ میں شعبے کے صدر رہے۔

    لکھنؤ میں اپنے قیام کے دوران آل احمد سرور ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے اور انجمن کے جلسوں میں شرکت کی، لیکن کبھی نظریاتی جبر کا شکار نہیں ہوئے۔ ان کی ترقی پسند فکر ہمیشہ انسان دوستی کی علم بردار رہی۔ وہ سرمایہ داری اور رجعت پسندی کی مخالفت کرتے رہے لیکن ادب کے اس ہنگامی اور انقلابی تصور کے خلاف رہے جس کا پرچار اس وقت میں جوشیلے نوجوان کر رہے تھے۔

    سرور نے مغربی اور مشرقی ادب کا گہرا مطالعہ کیا تھا اور اسی مطالعے کے بعد تنقید کے میدان میں انھوں نے ایک الگ ہی انداز اپنایا۔ اس میں مغربی تنقیدی اصولوں سے استفادہ بھی ہے اور مشرقی اقدار کا رچاؤ بھی نظر آتا ہے۔

    تنقید نگاری کے ساتھ انھیں ایک شاعر کے طور پر دیکھا جائے تو ان کی غزلوں اور نظموں میں فکر انگیزی، کلاسیکی رچاؤ اور تازہ کاری ملتی ہے۔ ان کی شاعری میں‌ ہر عہد کی جھلک دیکھی جاسکتی ہے۔

    آل احمد سرور کی تنقیدی اور شعری کاوشیں کتابی شکل میں ’نئے اور پرانے نظریے‘، ’تنقید کیا ہے‘، ’ادب اور نظریہ‘، ’مسرت سے بصیرت تک‘ ،’اقبال کا نظریہ اور شاعری‘ ’ذوقِ جنوں‘ (شاعری) ’خواب باقی ہیں‘(خودنوشت) کے نام سے شایع ہوئیں۔

    اردو ادب کے اس معروف بھارتی نقّاد اور شاعر کا انتقال 9 فروری 2002ء کو ہوا تھا۔

  • ستارے جذب ہوئے گردِ راہ میں کیا کیا

    ستارے جذب ہوئے گردِ راہ میں کیا کیا

    آل احمد سرور بدایوں کے تھے، تعلیم مکمل کرنے کے بعد جامعات کے شعبۂ اردو میں تدریس کے فرائض انجام دینے لگے۔ سرور نے ادب کے مطالعے کے ساتھ قلم تھاما اور شاعری اور تنقید نگاری میں نام و مقام بنایا۔

    ان کی غزلوں اور نظموں میں فکر انگیزی، کلاسیکی رچاؤ کے ساتھ تازہ کاری ملتی ہے۔ اردو ادب کے اس نام وَر کی ایک غزل آپ کے حسنِ‌ مطالعہ کی نذر ہے۔

    وہ احتیاط کے موسم بدل گئے کیسے
    چراغ دل کے اندھیرے میں جل گئے کیسے

    بنا دیا تھا زمانے نے برف کے مانند
    ہم ایک شوخ کرن سے پگھل گئے کیسے

    امید جن سے تھی وضعِ جنوں نبھانے کی
    وہ لوگ وقت کے سانچے میں ڈھل گئے کیسے

    ستارے جذب ہوئے گردِ راہ میں کیا کیا
    خیال و خواب کے آئیں بدل گئے کیسے

    خزاں سے جن کو بچا لائے تھے جتن کر کے
    وہ نخل اب کے بہاروں میں جل گئے کیسے

    نہ جانے کیوں جنہیں سمجھے تھے ہم فرشتے ہیں
    قریب آئے تو چہرے بدل گئے کیسے

    ہر ایک سایۂ دیوار کی لپیٹ میں ہے
    سرورؔ آپ ہی بچ کر نکل گئے کیسے

  • ادب و صحافت میں‌ ممتاز، معروف قانون داں سَر شیخ عبدالقادر کی برسی

    ادب و صحافت میں‌ ممتاز، معروف قانون داں سَر شیخ عبدالقادر کی برسی

    9 فروری 1950ء کو اردو ادب اور صحافت میں ممتاز اور قانون کی دنیا میں معروف سَر شیخ عبدالقادر وفات پاگئے تھے۔ سر شیخ عبدالقادر ان نہایت قابل، باصلاحیت اور ذہین شخصیات میں‌ سے ایک ہیں‌ جنھیں علامّہ اقبال اور سرسیّد احمد خان جیسی عظیم شخصیات اور اکابرین نے سراہا اور ان کی خوبیوں کا اعتراف کیا۔

    سَر شیخ عبدالقادر ہی نے علامہ اقبالؔ کے اوّلین مجموعے ’’بانگِ درا‘‘ کا دیباچہ تحریر کیا تھا اور ان کی شاعرانہ عظمت نہایت موثّر انداز میں بیان کی۔ مُصلحِ قوم، سرسیّد احمد خان بھی ان کی ذہانت اور خوبیوں کے معترف تھے۔

    سَر شیخ عبدالقادر 15 مارچ 1874ء کو لدھیانہ میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ سَرسیّد احمد خان کی تحریک سے وابستہ نوجوانوں میں‌ آگے آگے اور نمایاں رہے۔ 1898ء میں پنجاب کے پہلے انگریزی اخبار آبزرور کی ادارت سنبھالی اور 1901ء میں اردو زبان میں ادبی جریدہ مخزن جاری کیا۔ دنیائے ادب میں مخزن کو یہ اختصاص حاصل ہوا کہ پہلی بار اس جریدے میں علامہ اقبال کی نظمیں شایع ہوئیں۔ 1904ء میں سَر شیخ عبدالقادر بیرسٹری کے لیے انگلستان روانہ ہوئے۔ 1907ء میں امتحان پاس کیا اور پہلے دہلی بعد میں لاہور میں وکالت کی۔

    وہ 1921ء میں ہائی کورٹ کے جج اور 1935ء میں پنجاب کے وزیرِ تعلیم بنے۔ 1939ء میں وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل کے رکن اور 1942ء میں بہاولپور کے چیف جج بنے۔ انھیں لاہور کے میانی صاحب کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔