Tag: 9 مئی انتقال

  • انقلابی نظموں کے خالق کیفی اعظمی کی برسی

    انقلابی نظموں کے خالق کیفی اعظمی کی برسی

    کیفی اعظمی ہندوستان کے نام وَر اور مقبول قوم پرست شاعر تھے جو 10 مئی 2002ء کو ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ کیفی اعظمی نے اپنی انقلابی نظموں اور آزادی کی امنگ و ترنگ سے بھرے ترانوں سے ہندوستان کے عوام میں جوش و ولولہ پیدا کیا اور ترقی پسند مصنفّین میں اپنے نظریات اور تخلیقات کے سبب ممتاز ہوئے۔

    انھوں نے ملکی اور غیر ملکی سیاسی واقعات پر پُراثر نظمیں لکھیں۔ ان کی شاعری میں عوام کے سکھ دکھ اور ان کی زندگی نمایاں ہوتی ہے۔ طبقاتی تصادم اور سماجی استحصال ان کی شاعری کا موضوع رہا۔ وہ انیس، حالی، شبلی، اقبال، اور جوش ملیح آبادی سے متاثر تھے۔ کیفی اعظمی فلمی دنیا کے ان گنے چنے قلم کاروں میں سے ایک ہیں جنھوں نے نغمہ نگاری کے ساتھ ساتھ فلموں کی کہانیاں، مکالمے اور منظر نامے لکھے۔

    کیفی اعظمی 1918ء میں اعظم گڑھ کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سید اطہر حسین رضوی تھا۔ انھوں نے عربی اور فارسی کی اسناد حاصل کیں اور مطالعے سے اپنے علم میں اضافہ کرتے رہے۔ کیفی اعظمی نے کم عمری میں‌ شاعری شروع کردی تھی، ابتدائی دور میں انھوں نے رومانوی نظمیں لکھیں، لیکن بعد میں ان کی شاعری پر انقلابی فکر غالب ہوگئی۔

    مطالعے کے شوق نے انھیں مارکسزم، کمیونزم اور دیگر نظریات کی طرف متوجہ کیا اور اپنے وقت کے مشہور اور نام ور ترقی پسند مصنّفین کا ساتھ نصیب ہوا تو وہ کمیونسٹ پارٹی کے ہمہ وقتی کارکن بن گئے۔ اب ان پر مزدوروں اور عوام کی حالت بدلنے اور سماج کی فرسودہ و کہنہ روایات کو ختم کرنے کی دھن سوار ہو گئی تھی جس کا اظہار قلم کے ذریعے کرنے لگے۔ کیفی اعظمی ممبئی منتقل ہوئے تو 1943ء میں ان کا پہلا مجموعہ کلام شائع ہوا۔ وہ ترقی پسند مصنفّین کے اجلاسوں میں شرکت کرتے رہے اور تخلیقی سفر بھی جاری رکھا۔

    اس زمانے میں عوام اور بالخصوص نوجوانوں میں انگریزوں کے خلاف غم و غصّہ اور آزادی کی خواہش زور پکڑ رہی تھی اور ایسے میں‌ جن ترقی پسند قلم کاروں کو مقبولیت مل رہی تھی، ان میں کیفی اعظمی بھی شامل تھے۔ ترقی پسندوں کے خلاف کارروائیاں شروع ہوئیں تو کیفی اعظمی کو بھی روپوشی اور مالی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ بعد کے برسوں میں انھوں نے فلمی گیت لکھے اور نام بنایا۔ اسی دوران مکالمے اور منظر نویسی کا بھی سلسلہ شروع ہو گیا اور وہ فلمی دنیا میں مصروف ہوگئے۔ کیفی اعظمی نے فلم نگری کے کئی اعزازات بھی اپنے نام کیے۔
    کیفی اعظمی ترقی پسند تحریک اور ترقی پسند شاعری میں ممتاز اور غیر معمولی اہمیت رکھتے ہیں۔ ان کی شاعری اور خاص طور پر نظمیں فکر و فن کے معیار کے اعتبار سے اردو شاعری میں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔

  • برصغیر کے نام وَر گلوکار طلعت محمود کی برسی

    برصغیر کے نام وَر گلوکار طلعت محمود کی برسی

    طلعت محمود کو بھارتی فلم انڈسٹری میں درجن سے زائد فلموں میں اداکاری کا موقع ملا، لیکن شائقین نے انھیں سندِ قبولیت نہ بخشی، تاہم سُر، ساز اور آواز کی دنیا میں‌ انھیں وہ شہرت اور پذیرائی حاصل ہوئی جو بہت کم گلوکاروں کو نصیب ہوتی ہے۔ آج بھی ان کی آواز میں فلمی نغمات بہت ذوق و شوق سے سنے جاتے ہیں۔ طلعت محمود کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 9 مئی 1998ء کو دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    طلعت محمود 24 فروری 1924ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد کی آواز بھی اچھی تھی اور وہ نعتیں پڑھا کرتے تھے۔ طلعت محمود نے بھی چھوٹی عمر میں نعتیں پڑھنا شروع کردی تھیں۔ 1940 میں طلعت محمود 16 برس کے تھے جب انھوں نے آل انڈیا ریڈیو، لکھنؤ پر اپنی آواز میں ایک گیت ریکارڈ کروایا تھا۔

    1944 میں ایک غیر فلمی گیت ‘تصویر تیری دل میرا بہلا نہ سکے گی’ سے ان کی شہرت پورے برصغیر میں پھیل گئی۔ وہ شکل و صورت کے اچھے تھے اور اسی لیے انھیں بطور ہیرو بھی فلموں میں سائن کیا گیا، لیکن ناکامی ہوئی۔ لالہ رخ، ایک گاؤں کی کہانی، دیوالی کی رات، وارث، سونے کی چڑیا، ٹھوکر وہ فلمیں ہیں جن میں طلعت محمود نے اپنے وقت کی مشہور ہیروئنوں کے ساتھ کام کیا۔ ان میں نوتن، مالا سنہا اور ثریا شامل ہیں۔

    بھارت میں فلم انڈسٹری میں بہ حیثیت گلوکار ان کی شہرت کا آغاز آرزو نامی فلم کے گیت ‘‘اے دل مجھے ایسی جگہ لے چل جہاں کوئی نہ ہو’’ سے ہوا۔ فلم داغ کے لیے انھوں نے ‘‘اے میرے دل کہیں اور چل’’ اور ‘‘ہم درد کے ماروں کا’’ جیسے گیت گائے اور اپنے فن کو منوایا۔

  • معروف اداکارہ طلعت صدیقی انتقال کر گئیں

    معروف اداکارہ طلعت صدیقی انتقال کر گئیں

    کراچی: پاکستان فلم انڈسٹری کی معروف اداکارہ طلعت صدیقی دُنیا سے رخصت ہوگئیں۔ انھیں فلمی صنعت کی ایک پُروقار شخصیت، دھیمے لب و لہجے اور مخصوص آواز کی مالک اداکارہ کے طور پر پہچانا جاتا تھا۔ طلعت صدیقی کے انتقال کی خبر ان کی بھانجی اور معروف گلوکارہ فریحہ پرویز نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر دی۔

    سینئر اداکارہ کی دو بیٹیاں عارفہ صدیقی اور ناہید صدیقی بھی فن اور شوبزنس کی دنیا سے وابستہ رہی ہیں، عارفہ صدیقی ماضی میں فلم اور ٹیلی ویژن پر اداکارہ اور گلوکارہ کی حیثیت سے کام کرچکی ہیں جب کہ ناہید صدیقی نام ور کتھک ڈانسر ہیں، طلعت صدیقی کی ایک بہن ریحانہ صدیقی بھی کئی فلموں میں معاون اداکارہ کے طور پر کام کرچکی ہیں۔

    فریحہ پرویز نے فیس بک پر طلعت صدیقی کے انتقال کی خبر دیتے ہوئے لکھاکہ ’’میری خالہ طلعت صدیقی صاحبہ آج خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔ اللہ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔‘‘

    اداکارہ طلعت صدیقی نے اپنے کیریئر کا آغاز ریڈیو پاکستان کراچی سے کیا تھا۔ ان کی پہلی فلم ’’ہمیں بھی جینے دو‘‘(1963) تھی جس میں وہ بطور گلوکارہ متعارف ہوئیں جب کہ بطور اداکارہ پہلی فلم ’’میخانہ‘‘(1964) تھی۔ طلعت صدیقی نے 70 کے قریب فلموں میں کام کیا لیکن انھوں نے اس دور کی روایتی ہیروئن کی طرح کوئی کردار نہیں نبھایا۔ طلعت صدیقی کی مشہور فلموں میں ’دل نشین‘، ’حیدر سلطان‘ اور ’کالیا‘ شامل ہیں۔