Tag: 9 نومبر برسی

  • چارلس ڈیگال: عظیم قوم پرست راہ نما اور سیاسی مدبّر

    چارلس ڈیگال: عظیم قوم پرست راہ نما اور سیاسی مدبّر

    اگست 1944ء میں پیرس کے عوام نازی تسلط کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ان کی قیادت فرانس کی آزادی کے متوالے راہ نما اور وہ مزاحمت کار کر رہے تھے جنھیں‌ پیرس کی عورتوں اور پادریوں کی حمایت اور ان کا ساتھ بھی حاصل تھا۔

    دوسری جنگِ عظیم کے دوران جرمنی اور اس کی اتحادی افواج نے فرانس پر قبضہ کرلیا تھا۔ پیرس میں بڑے پیمانے پر قید وبند کے سلسلے کے ساتھ قتل و غارت گری ہوئی، لیکن عظیم قوم پرست راہ نما چارلس ڈیگال کی قیادت میں‌ فرانسیسی عوام نے اپنی خود مختاری اور آزادی کی جنگ لڑی اور کام یاب ہوئے۔

    سٹی ہال کے باہر ڈیگال نے کہا تھا کہ ’پیرس مشتعل ہوا، پیرس ٹوٹا اور پیرس شہید ہو گیا، لیکن پیرس آزاد ہو گیا، خود ہی آزاد ہو گیا اور اس کے لوگوں نے اسے آزاد کیا۔‘

    چارلس ڈیگال نے روپوشی اختیار کی، جلا وطنی کاٹی اور وطن سے دور رہے، لیکن اپنے عوام اور فوج کو متحد و منظّم کرکے اس خواب کو پورا کر دکھایا جس کے لیے انھوں نے کئی قربانیاں‌ دی تھیں اور جب پیرس آزاد ہوا تب فرانسیسیوں کا یہ محبوب لیڈر وطن لوٹا جہاں ٹاؤن ہال کے سامنے اپنا مشہورِ زمانہ خطاب کیا۔ ڈیگال نے مزاحمت کاروں کی قیادت کرنے والے جرنیلوں اور دوسرے جاں‌ نثار فوجیوں کے ساتھ شہر کا گشت کیا جہاں لاکھوں لوگ ان کے استقبال کے لیے موجود تھے۔

    ڈیگال کو 1958ء میں ملک کا صدر منتخب کیا گیا اور وہ 1969ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔ انھوں نے 9 نومبر 1970ء کو وفات پائی۔ چارلس ڈیگال نے فرانس میں 22 نومبر 1890ء کو آنکھ کھولی تھی۔ ان کا تعلق ایک رومن کیتھولک خاندان سے تھا۔ ڈیگال کے والد تاریخ اور ادب کے پروفیسر تھے۔

    چارلس ڈیگال کا شمار ان قوم پرست قائدین میں ہوتا ہے جنھوں نے بیسویں صدی میں‌ دنیا سے اپنے عزم و استقلال کو منوایا۔ انھیں بہترین فرانسیسی جنرل اور قوم کے مدبّر کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔

    دوسری جنگِ عظیم کے دوران فرانس پر جرمنی کے تسلط کے بعد ڈیگال نے بڑی ذہانت اور حکمتِ‌ عملی سے کام لیا اور اپنی فوج اور عوام سے رابطہ برقرار رکھا، ان کے پیغامات فرانس کے عوام تک پہنچتے جن میں‌ وہ عوامی اتحاد کو سڑکوں پر نکلنے اور فرانسیسی فوج کا ساتھ دینے پر آمادہ کرتے رہے۔

    دوسری جنگِ عظیم کے دوران ڈیگال فرانس میں بریگیڈیئر جنرل کے عہدے پر فائز تھے۔ سیاسی افراتفری اور جنگ کے زمانے میں جب انتشار اور حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے غیر ملکی افواج نے فرانس پر اپنا تسلط جمانا چاہا اور وہاں‌ جرمن نواز حکومت قائم ہوگئی تو ڈیگال نے جنگ کا اعلان کردیا۔

    ابتدا میں انھیں اور مزاحمت کاروں کو شکست ہوئی لیکن ڈیگال کا اصرار تھا کہ فرانس کو ایک بڑی طاقت کے طور پر تسلیم کیا جائے اور اس کی آزاد اور خود مختاری ناگزیر ہے۔ وہ ایسے زبردست قوم پرست راہ نما تھے جنھوں نے قومی مفاد کے لیے کسی کی پروا نہ کی۔ اس زمانے میں ان کی برطانیہ اور امریکا سے محاذ آرائی بھی ہوئی، لیکن ڈیگال اپنے مؤقف سے پیچھے نہ ہٹے۔

    چارلس ڈیگال کا ایک اور کارنامہ آزادی کے بعد 1945ء میں فرانس کو اقوامِ متحدہ کی مستقل نشست پر براجمان کروانا تھا۔ جنگ کے بعد وہ فرانس کی عبوری حکومت میں‌ وزیرِ اعظم منتخب ہوئے، مگر سیاسی تنازعات کی وجہ سے 1946ء میں‌ مستعفی ہوگئے۔ تاہم 1947ء میں‌ انھوں نے اپنی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی اور سیاسی سفر کو آگے بڑھایا۔ بعد میں‌ یہ جماعت انتشار کا شکار ہو کر کم زور پڑگئی تھی، لیکن اپنی وفات تک ڈیگال فرانس کے عوام کی حمایت اور ان کی محبوبیت سے محروم نہیں ہوئے۔

    چارلس ڈیگال دیانت داری اور عزم و استقلال کا پیکر تھے جو دنیا بھر میں قوم پرستوں کے لیے مثالی راہ نما بن کر ابھرے۔ ان کی سیاسی بصیرت اور اصول پسندی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب فرانس کے مشہور فلسفی سارتر نے الجزائر کی جنگِ آزادی کی حمایت کی تو ڈیگال پر اس کی گرفتاری کے لیے دباؤ ڈالا جانے لگا، لیکن اس راہ نما نے کہا کہ فرانس سارتر ہے اور سارتر فرانس ہے، یہ نہیں‌ ہوسکتا کہ اسے گرفتار کیا جائے۔

    ڈیگال سمجھتے تھے کہ فرانس کی حکومت اور قوم کو کسی دوسرے ملک پر انحصار نہیں‌ کرنا چاہیے، کیوں‌ کہ وہ خود ایک بڑی طاقت ہیں۔ انھوں نے دوسری جنگِ عظیم کے بعد فرانس کی تعمیرِ نو میں‌ زبردست کردار ادا کیا۔ ہر سال آنجہانی چارلس ڈیگال کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے عوام کی بڑی تعداد پیرس میں ان کے مقبرے پر حاضری دیتی ہے۔

  • علم و ادب، فکر و عمل میں یگانہ محمد ابراہیم جویو کا تذکرہ

    علم و ادب، فکر و عمل میں یگانہ محمد ابراہیم جویو کا تذکرہ

    محمد ابراہیم جویو ایک مفکّر، دانش وَر، ادب اور تعلیم کے شعبوں‌ کی وہ ممتاز شخصیت ہیں‌ جو سیاست اور ادب سے وابستہ شخصیات کی نظر میں یکساں طور پر قابلِ‌ احترام تھے اور انھیں‌ بہت پذیرائی دی گئی۔

    وہ سندھی زبان کے ممتاز ادیب، مترجم، معلّم اور دانش وَر تھے جن کے فکر و فلسفے کا سندھ میں سیاسی، سماجی، علمی اور ادبی حلقوں سے وابستہ ہر خاص و عام متاثر ہوا۔ ابراہیم جویو 9 نومبر 2017ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    انھوں نے تقسیم سے قبل سندھ کے نوجوانوں کو انگریز راج اور قیامِ پاکستان کے بعد آمریت اور استحصال کے خلاف فکری اور سائنسی نظریاتی بنیادیں فراہم کیں۔ زندگی کی 102 بہاریں دیکھنے والے محمد ابراہیم جویو نے حیدرآباد میں وفات پائی۔

    سندھ سے والہانہ لگاؤ اور محبّت کے ساتھ محمد ابراہیم جویو نے زرخیز ذہن اور روشن فکر پائی تھی جس سے ان میں وہ سیاسی شعور اور ذہنی پختگی پیدا ہوئی کہ کم عمری ہی میں وہ سندھ کی ایک نمایاں شخصیت بن گئے۔ انھوں نے 1941ء میں جب ان کی عمر صرف 26 برس تھی، ایک مختصر کتاب "سیو سندھ، سیو دی کانٹینینٹ فرام فیوڈل لارڈز، کیپیٹلسٹس اینڈ دیئر کمیونل ازم” کے نام سے لکھی۔

    اس وقت انھیں سندھ مدرسۃُ الاسلام میں نوکری ملی تھی۔ اس کتاب نے اُس وقت کے حکم رانوں کو برہم کردیا اور وہ ملازمت سے نکالے گئے، لیکن جلد ہی ٹھٹھہ کے میونسپل ہائی اسکول میں ٹیچر کی ملازمت مل گئی۔

    محمد ابراہیم جویو کی مذکورہ کتاب سندھ کے دانش ور اور تعلیمی حلقوں میں ان کی وجہِ شہرت بنی۔ بعد کے برسوں میں انھوں نے سیکڑوں مضامین سپردِ‌ قلم کیے، ان کی کتابیں‌ شایع ہوئیں اور ادبی اور ثقافتی مقالے اور کتابچے جاری ہوئے۔ وہ سندھ اور پاکستان میں ترقی پسند ادبی تحریک کے بھی سرگرم کارکن تھے۔

    محمد ابراہیم جویو نے 1915ء میں‌ کوٹری کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں میں آنکھ کھولی تھی۔ ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاؤں کے علاوہ سن نامی چھوٹے سے قصبے میں حاصل کی اور کراچی کے سندھ مدرسۃُ الاسلام سے میٹرک کیا۔ 1938ء میں انھوں نے کراچی کے ڈی جے کالج سے بی اے کیا۔ بعد ازاں مزید تعلیم کے لیے بمبئی چلے گئے۔

    تقسیم کے بعد محمد ابراہیم جویو اسکول ٹیچنگ کے ساتھ سندھی ادبی بورڈ کے سیکریٹری رہے اور بعد میں سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کے چیئرمین بنائے گئے۔

    انھیں پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز کی جانب سے ادبی ایوارڈ سے نوازا گیا جب کہ متعدد جامعات کی جانب سے اعزازی ڈگریاں دی گئیں۔

    محمد ابراہیم جویو سندھ کی سیاسی تحریکوں میں پیش پیش رہے اور قوم پرست لیڈر جی ایم سیّد اور رسول بخش پلیجو کے علاوہ دیگر کے ساتھ مل کر سندھ کا مقدمہ لڑتے رہے اور ادبی محاذوں پر تحریکوں کی قیادت کی۔

    انھوں نے بے شمار مغربی مصنّفوں کا کام اور ان کی تخلیقات سندھی زبان میں ترجمہ کرکے ادب، فلسفے، سیاسیات اور سماجیات کو فروغ دینے میں اپنا حصّہ ڈالا۔ وہ پچاس سے زائد کتابوں کے مصنّف تھے جن میں‌ بین الاقوامی شہرت یافتہ ادیبوں اور مصنّفین کی کتب کے تراجم بھی شامل ہیں۔