Tag: 9 نومبر وفات

  • شہرۂ آفاق اردو ڈرامہ ’’تعلیمِ بالغاں‘‘ کے خالق خواجہ معین الدّین کی برسی

    شہرۂ آفاق اردو ڈرامہ ’’تعلیمِ بالغاں‘‘ کے خالق خواجہ معین الدّین کی برسی

    تعلیمِ بالغاں، مرزا غالب بندر روڈ پر اور لال قلعے سے لالوکھیت جیسے متعدد مقبول اور یادگار ڈراموں کے خالق خواجہ معین الدّین 1971ء میں آج ہی کے دن دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے تھے۔

    اردو‌ کے اس ممتاز ڈرامہ نویس اور تمثیل نگار نے اپنے فن و تخلیق کی بدولت بلاشبہ شہرت اور مقبولیت کے ہفت آسمان طے کیے جب کہ ان کے تحریر کردہ کھیل ملک بھر میں اسٹیج پر پیش کیے گئے اور نہایت کام یاب ثابت ہوئے۔

    خواجہ معین الدّین نے اپنے ڈراموں کے ذریعے معاشرے کی اصلاح کا کام لینے کی کوشش کی اور سیاسی و سماجی برائیوں کو کمال خوبی اور ظریفانہ انداز سے اس طرح لوگوں کے سامنے پیش کیا کہ ان کے ہر مکالمے اور منظر پر ہال قہقہوں سے گونج اُٹھا۔ کراچی میں مختلف مقامات پر ان کے ڈرامے اسٹیج ہوئے۔ ان کے کھیل اندرونِ ملک ہی نہیں بیرونِ ملک بھی اسٹیج کیے گئے۔

    تعلیمِ‌ بالغاں کی بات کی جائے تو اسے پاکستان کا پہلا کلاسک ڈرامہ قرار دیا گیا۔ یہ اپنے فنِ تحریر، موضوع اور اداکاری کے سبب ریکارڈ ساز ڈرامہ ثابت ہوا۔ خواجہ معین الدّین کا تعلق حیدر آباد دکن سے تھا، جو گہوارہ علم و ادب، آرٹ اور فنون کے لیے مشہور رہا ہے۔ 1924ء کو دکن کے متموّل گھرانے میں آنکھ کھولنے والے خواجہ معین الدین نے جامعہ عثمانیہ سے 1946ء میں بی اے کی سند حاصل کی اور تخلیقی سفر دکن ریڈیو سے شروع کیا۔ وہ شروع ہی سے ڈرامے اور خاکہ نویسی کی طرف مائل تھے۔ وہ زرخیز ذہن کے مالک تھے جنھیں طنز و مزاح کے ساتھ باریک بیں اور ایسا لکھاری کہا جاتا ہے جو سماج پر گہری نظر رکھتے تھے، انھوں نے تقسیم کے بعد کراچی ہجرت کی اور یہاں‌ بھی اپنے فن میں عروج و مقام حاصل کیا۔

    خواجہ معین الدّین جامعہ کراچی سے اُردو میں ایم اے کے بعد درس و تدریس میں مصروف ہوگئے۔ اسی زمانے میں ڈرامہ لکھنے کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا۔ 1951ء میں خواجہ معین الدین نے صدائے کشمیر لکھا۔ یہ پلے کشمیریوں کی آزادی کی جدوجہد کا ترجمان تھا۔ 1952ء میں ڈرامہ ’’لال قلعے سے لالو کھیت‘‘ لکھا۔ یہ کراچی کی سماجی، معاشرتی اور تہذیبی عروج و زوال کے پس منظر میں تھا۔ 1954ء میں ان کا شہرۂ آفاق ڈرامہ ’’تعلیمِ بالغاں‘‘ اسٹیج پر پیش ہوا اور اس نے اردو ادب اور تمثیل نگاری میں تاریخ رقم کی۔

    اردو کے اس ممتاز ڈرامہ نویس نے اپنے تجربات، مشاہدات اور مطالعے کو کہانی اور کرداروں کی مدد سے لاجواب بنا دیا۔ ان ڈراموں اپنے وقت کے باکمال اداکاروں نے اپنے فن کے جوہر دکھائے اور خواجہ صاحب کے ڈراموں کو لازوال و بے مثال بنا دیا۔

    حکومتِ پاکستان نے خواجہ معین الدّین کو صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

  • یومِ وفات: فلمی موسیقی کو نیا رنگ دینے والے ماسٹر غلام حیدر کا تذکرہ

    یومِ وفات: فلمی موسیقی کو نیا رنگ دینے والے ماسٹر غلام حیدر کا تذکرہ

    ماسٹر غلام حیدر کو رجحان ساز موسیقار تسلیم کیا جاتا ہے۔ وہ 9 نومبر 1953ء کو وفات پاگئے تھے۔ پاکستان کے اس مشہور موسیقار ہی نے پہلی بار پنجاب کی لوک دھنوں کو اپنے گیتوں کا حصّہ بنایا تھا۔

    ماسٹر غلام حیدر کا تعلق سندھ کے شہر حیدر آباد سے تھا۔ وہ 1906ء میں پیدا ہوئے۔ انھیں بچپن ہی سے ہارمونیم بجانے میں‌ دل چسپی تھی۔ اسی ساز کی بدولت وہ سُر تال اور موسیقی کی طرف راغب ہوئے اور یہ شوق انھیں لاہور لے گیا جہاں وہ ایک تھیٹر سے وابستہ ہوگئے۔ وہ اپنے وقت کے مشہور موسیقاروں اور ماہر سازندوں کے میل جول کے سبب موسیقی کے فن کی باریکیوں سے واقف ہوتے چلے گئے اور 1932ء میں ایک مشہور ریکارڈنگ کمپنی سے وابستگی کے بعد انھیں اپنے وقت کے باکمال اور ماہر موسیقاروں استاد جھنڈے خان، پنڈت امرناتھ اور جی اے چشتی کی رفاقت نصیب ہوئی جس نے ان کے فن و کمال کو نکھارنے میں مدد دی۔ ماسٹر غلام حیدر کچھ عرصہ استاد جھنڈے خان کے معاون بھی رہے۔

    ماسٹر غلام حیدر کو پرفارمنس کی غرض سے ہندوستان کے مختلف شہروں کا سفر کرنے اور کئی اہم موسیقاروں سے ملاقات کا موقع بھی ملا۔ 1933ء میں مشہور فلم ساز اے آر کاردار نے اپنی فلم سورگ کی سیڑھی کے لیے ماسٹر غلام حیدر کی خدمات حاصل کیں اور یوں اس ان کا فلمی سفر شروع ہوا جسے فلم گل بکاؤلی کی موسیقی نے شہرت سے ہم کنار کیا اور انھیں لاہور کے نگار خانوں میں‌ بھی کام ملا۔ ان کی موسیقی یملا جٹ، خزانچی، چوہدری اور خاندان جیسی فلموں میں شامل کی گئی۔

    1944ء میں ماسٹر غلام حیدر بمبئی منتقل ہوگئے جہاں ہمایوں، بیرم خان، جگ بیتی، شمع، مہندی، مجبور اور شہید جیسی فلموں کے لیے موسیقی ترتیب دی۔ قیام پاکستان کے بعد 1948ء میں واپس لاہور آگئے۔ اس زمانے میں انھوں نے فلم بے قرار، اکیلی، غلام اور گلنار سمیت مختلف فلموں کی موسیقی ترتیب دی۔

    ماسٹر غلام حیدر کو وفات کے بعد لاہور کے ایک قبرستان میں سپردِ‌ خاک کیا گیا۔

  • علم و ادب، فکر و عمل میں یگانہ محمد ابراہیم جویو کا تذکرہ

    علم و ادب، فکر و عمل میں یگانہ محمد ابراہیم جویو کا تذکرہ

    محمد ابراہیم جویو ایک مفکّر، دانش وَر، ادب اور تعلیم کے شعبوں‌ کی وہ ممتاز شخصیت ہیں‌ جو سیاست اور ادب سے وابستہ شخصیات کی نظر میں یکساں طور پر قابلِ‌ احترام تھے اور انھیں‌ بہت پذیرائی دی گئی۔

    وہ سندھی زبان کے ممتاز ادیب، مترجم، معلّم اور دانش وَر تھے جن کے فکر و فلسفے کا سندھ میں سیاسی، سماجی، علمی اور ادبی حلقوں سے وابستہ ہر خاص و عام متاثر ہوا۔ ابراہیم جویو 9 نومبر 2017ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    انھوں نے تقسیم سے قبل سندھ کے نوجوانوں کو انگریز راج اور قیامِ پاکستان کے بعد آمریت اور استحصال کے خلاف فکری اور سائنسی نظریاتی بنیادیں فراہم کیں۔ زندگی کی 102 بہاریں دیکھنے والے محمد ابراہیم جویو نے حیدرآباد میں وفات پائی۔

    سندھ سے والہانہ لگاؤ اور محبّت کے ساتھ محمد ابراہیم جویو نے زرخیز ذہن اور روشن فکر پائی تھی جس سے ان میں وہ سیاسی شعور اور ذہنی پختگی پیدا ہوئی کہ کم عمری ہی میں وہ سندھ کی ایک نمایاں شخصیت بن گئے۔ انھوں نے 1941ء میں جب ان کی عمر صرف 26 برس تھی، ایک مختصر کتاب "سیو سندھ، سیو دی کانٹینینٹ فرام فیوڈل لارڈز، کیپیٹلسٹس اینڈ دیئر کمیونل ازم” کے نام سے لکھی۔

    اس وقت انھیں سندھ مدرسۃُ الاسلام میں نوکری ملی تھی۔ اس کتاب نے اُس وقت کے حکم رانوں کو برہم کردیا اور وہ ملازمت سے نکالے گئے، لیکن جلد ہی ٹھٹھہ کے میونسپل ہائی اسکول میں ٹیچر کی ملازمت مل گئی۔

    محمد ابراہیم جویو کی مذکورہ کتاب سندھ کے دانش ور اور تعلیمی حلقوں میں ان کی وجہِ شہرت بنی۔ بعد کے برسوں میں انھوں نے سیکڑوں مضامین سپردِ‌ قلم کیے، ان کی کتابیں‌ شایع ہوئیں اور ادبی اور ثقافتی مقالے اور کتابچے جاری ہوئے۔ وہ سندھ اور پاکستان میں ترقی پسند ادبی تحریک کے بھی سرگرم کارکن تھے۔

    محمد ابراہیم جویو نے 1915ء میں‌ کوٹری کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں میں آنکھ کھولی تھی۔ ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاؤں کے علاوہ سن نامی چھوٹے سے قصبے میں حاصل کی اور کراچی کے سندھ مدرسۃُ الاسلام سے میٹرک کیا۔ 1938ء میں انھوں نے کراچی کے ڈی جے کالج سے بی اے کیا۔ بعد ازاں مزید تعلیم کے لیے بمبئی چلے گئے۔

    تقسیم کے بعد محمد ابراہیم جویو اسکول ٹیچنگ کے ساتھ سندھی ادبی بورڈ کے سیکریٹری رہے اور بعد میں سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کے چیئرمین بنائے گئے۔

    انھیں پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز کی جانب سے ادبی ایوارڈ سے نوازا گیا جب کہ متعدد جامعات کی جانب سے اعزازی ڈگریاں دی گئیں۔

    محمد ابراہیم جویو سندھ کی سیاسی تحریکوں میں پیش پیش رہے اور قوم پرست لیڈر جی ایم سیّد اور رسول بخش پلیجو کے علاوہ دیگر کے ساتھ مل کر سندھ کا مقدمہ لڑتے رہے اور ادبی محاذوں پر تحریکوں کی قیادت کی۔

    انھوں نے بے شمار مغربی مصنّفوں کا کام اور ان کی تخلیقات سندھی زبان میں ترجمہ کرکے ادب، فلسفے، سیاسیات اور سماجیات کو فروغ دینے میں اپنا حصّہ ڈالا۔ وہ پچاس سے زائد کتابوں کے مصنّف تھے جن میں‌ بین الاقوامی شہرت یافتہ ادیبوں اور مصنّفین کی کتب کے تراجم بھی شامل ہیں۔

  • اردو کے ممتاز شاعر محشر بدایونی کی برسی

    اردو کے ممتاز شاعر محشر بدایونی کی برسی

    اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
    جس دیے میں جان ہو گی وہ دِیا رہ جائے گا

    یہ شعر اکثر اثنائے گفتگو، تقریر اور تحریر میں اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کے لیے سنایا اور لکھا جاتا ہے۔ اس شعر کے خالق محشر بدایونی ہیں جن کا آج یومِ وفات ہے۔ اردو کے ممتاز شاعر محشر بدایونی نے 9 نومبر 1994ء دارِ فانی سے کوچ کیا تھا۔

    4 مئی 1922ء کو متحدہ ہندوستان کے شہر بدایوں میں آنکھ کھولنے والے محشر بدایونی کا اصل نام فاروق احمد تھا۔ شعر و سخن کی دنیا میں محشرؔ تخلّص کیا اور بدایوں کی نسبت کو اپنے اس تخلّص سے جوڑ کر محشر بدایونی کہلائے۔

    انھوں نے ابتدائی تعلیم بدایوں سے مکمل کی اور قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کر کے کراچی آگئے۔ علم و ادب سے وابستگی اور شعری سفر کا آغاز وہ بہت پہلے کرچکے تھے اور یہاں اپنے فن و شوق کو جاری رکھنے اور معاش کی ضرورت پوری کرنے کے لیے ریڈیو سے وابستہ ہوئے۔

    اس زمانے میں ریڈیو پاکستان کا جریدہ آہنگ شایع ہوا کرتا تھا۔ محشر بدایونی نے اس جریدے کے معاون مدیر کی حیثیت سے کام کیا اور بعد میں مدیر بنائے گئے۔ انھوں نے کراچی کی ادبی نشستوں اور مشاعروں میں شرکت کرنا شروع کیا تو جلد ہی شہر کے علمی و ادبی حلقوں میں اپنے کلام کے سبب پہچان بنالی۔

    محشر بدایونی بنیادی طور پر غزل کے شاعر تھے۔ ان کی کتابوں میں شہرِ نوا، غزل دریا، گردش کوزہ، فصلِ فردا، حرفِ ثنا اور شاعر نامہ، سائنس نامہ شامل ہیں۔

    انھوں نے کراچی میں‌ وفات پائی اور سخی حسن کے قبرستان میں سپردِ خاک کیے گئے۔

    محشر بدایونی کا ایک مشہور شعر ملاحظہ کیجیے

    کچھ ایسے بھی ہیں تہی دست و بے نوا جن سے
    ملائیں ہاتھ تو خوشبو نہ ہاتھ کی جائے