Tag: abbasi shaheed hospital

  • ناظم آباد پل، ایک تاریخی عہد تمام ہوا

    ناظم آباد پل، ایک تاریخی عہد تمام ہوا

    کراچی: ناظم آباد میٹرک بورڈ آفس کا قدیمی پُل منہدم کرنے کا آغاز کردیا گیا، پل منہدم ہوتے وقت علاقہ مکینوں سمیت عوام کی بڑی تعداد 1950 میں تعمیر کیے گئے پل سے وابستہ یادوں کو تازہ کرنے کے لیے اس مقام پر موجود تھی۔

    تفصیلات کے مطابق شہر قائد کے علاقے ناظم آباد میں میٹرک بورڈ آفس اور ناظم آباد پل کے نام مشہور پل کو گرین لائن بس پروجیکٹ کے ترقیاتی کام میں رکاوٹ کے باعث آج سے مہندم کرنے کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔

    اس پل کی تعمیر اُس وقت شروع کی گئی تھی جب ناظم آباد سے شمال کی طرف جانے والا راستہ گویا جنگل پار کرنے کے مترادف ہوتا تھا، حکومت پاکستان نے عوام کی مشکلات کو دور کرنے کےلیے 1950 میں اس منصوبے کے پہلے مرحلے کا سنگِ بنیاد رکھا، چونکہ اُس وقت ناظم آباد سے آگے آبادی کم تھی لہذا پُل کا ایک ہی حصہ تعمیر کیا گیا تھا۔

    4

    خیال رہے جس وقت اس کا ایک حصہ تعمیر کیا گیا تھا اُس وقت شہر قائد میں آبادی آج کے لحاظ سے بہت کم تھی اور نارتھ ناظم آباد سے آگے بستیاں موجود نہیں تھیں تاہم وقت نے کروٹ لی اور آبادی آہستہ آہستہ آگے کی جانب بڑھنا شروع ہوئی تو ناگن چورنگی اور پھر سرجانی ٹاؤن اور اب خدا کی بستی سے آگے تک کے علاقے آباد ہوگیے۔

    3

    گرین لائن اور اورنج لائن منصوبے پر جہاں عوام خوش ہیں وہیں اس پُل کے مسمار ہونے پر افسردہ بھی ہیں، عوام کا ماننا ہے کہ یہ بسوں کا ترقیاتی منصوبے کی تکمیل نہ جانے کب ہوگی مگر اُس وقت تک ٹریفک جام کے باعث اذیت سے دوچار ہونا پڑے گا۔2

    اس پل کی گولڈن جوبلی مکمل ہونے پر عوام جہاں خوش ہیں وہیں منہدم ہونے پر مایوسی کا شکار بھی ہیں، پُل کے ابتداء پر لگے ہوئے ایک فلاحی ادارے کے پوائنٹ پر بیٹھے رضا کار نے اس کے منہدم ہونے پر کہا کہ ’’ہماری کوشش ہوتی ہے کہ مریض کو بروقت اسپتال پہنچا کر اُس کی قیمتی جان کو محفوظ کر سکیں مگر ٹریفک جام کی وجہ سے کئی قیمتی جانیں بروقت اسپتال نہ پہنچنے پر ضائع ہوجاتی ہیں‘‘۔

    1

    انہوں نے عوام کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’اس منصوبے کی تکمیل تک اپنے عزیزواقارب (مریضوں) کو ایمرجنسی کی صورت میں عباسی شہید اسپتال لانے کا نہ سوچیں کیونکہ پل منہدم ہونے سے ٹریفک جام کی صورتحال بدتر ہوگی اور مریض اسپتال نہیں پہنچ سکے گا‘‘۔

    ایک اور بزرگ شہری نے پل گرنے پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’حکومت نے ہم سے ساری قدیمی چیزیں چھین لیں، پہلے اس پل کے نیچے ٹرام چلتی تھی اُس کی سہولت بند ہوئی اور پٹریاں غائب ہوگئیں، اب  آبادی بھی بڑھ گئی حکومت ہمارے لیے جو بھی اقدامات کرے مگر ہمیں تکلیف سے نجات دلانا بھی اُس ہی کی ذمہ داری ہے‘‘۔

    5

    ایک اور نوجوان نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ پل کالج آنے جانے میں کارآمد ثابت ہوتا تھا، بچپن سے نوجوانی تک اس پل پر سفر کیا پہلے والد کے ساتھ اور اب اکیلے، نوجوان کا کہنا ہے کہ ’’نہ جانے اس پل کے ختم ہونے سے ہمیں کیا فائدہ حاصل ہوگا، کیونکہ گرین بس کا منصوبہ صوبائی سطح پر پہلے بھی شروع کیا گیا مگر اُس کا کیا حال ہوا یہ سب جانتے ہیں‘‘۔

    جاوید نامی شخص کا کہنا تھا کہ ’’ہماری پرانی یادیں گرین لائن منصوبے کے لیے قربان کردی گئیں اور ایک اہم قدیمی تاریخ کو مٹایا جارہا ہے، امید ہے بس منصوبہ عوام کے لیے ہو، نہ ہی اس کا فائدہ کسی شخص کو کمیشن کی صورت میں ہو‘‘۔

    پل کے ساتھ بیٹھے پنکچر والے کا خیال ہے کہ’’ ترقیاتی منصوبوں میں امیروں نہیں بلکہ غربیوں کو نشانے پر رکھا جاتا ہے، آئندہ 6 ماہ سے زیادہ مجھ جیسے کئی لوگ بے روزگار رہیں گے، حکومت کو منصوبے سے قبل روزگار متاثر ہونے والے افراد کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے‘‘۔

    رکشہ ڈرائیور جو پل منہدم ہونے کا منظر دیکھ رہا تھا اس کا ماننا ہے کہ ترقیاتی کاموں کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے مگر لوگوں کو متبادل روٹ فراہم کرنا بھی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے، ہر کام سے قبل اچھی حکمت عملی مرتب کرنی چاہیے تاکہ عوام کو مشکلات پیش نہ آئیں، ناقص حکمت عملی کے باعث اب شہر میں ٹریفک جام کا مسئلہ سنگین نوعیت اختیار کرے گا کیونکہ گرومندر پر بھی کھدائی کا کام جاری ہے۔

    یاد رہے گرین لائن بس پروجیکٹ کا روٹ 19 کلومیٹر ہے، جو سرجانی ٹاؤن سے ٹاور تک محیط ہے، اس منصوبے کے تحت 100 بسیں چلائی جائیں گی اور روٹ پر 21 سے زائد اسٹیشنز تعمیر کیے جارہے ہیں۔

    اس منصوبے کی تکمیل کے بعد یومیہ 3 لاکھ افراد بسوں میں سفر کریں گے، ہر اسٹیشن پر گاڑی رکنے کا وقت ڈیڑھ منٹ مقرر کیا جائے گا اور پل پر مخصوص بسوں کے علاوہ کسی اور گاڑی کو چلنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

  • ہلاکتوں کی ذمہ دار وفاقی وزارت پانی و بجلی اور کے الیکٹرک ہیں

    ہلاکتوں کی ذمہ دار وفاقی وزارت پانی و بجلی اور کے الیکٹرک ہیں

    کراچی : وزیر اطلاعات و بلدیات سندھ شرجیل انعام میمن نے کہا ہے کہ قدرتی آفت پر سیاست چمکانا اس آفت سے جاں بحق ہونے والوں کے ساتھ ناانصافی کے مترادف ہے۔ اگر کراچی سمیت سندھ میں بجلی کا بحران نہ ہوتا تو 50 فیصد ہلاکتوں میں کمی ہوسکتی تھی۔

    حالیہ گرمی کی شدت کے باعث سندھ بھر اور بالخصوص کراچی میں ہلاکتوں کی ذمہ دار وفاقی وزارت پانی و بجلی اور کے الیکٹرک ہیں ۔

    کراچی میں گرمی کی شدت سے ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر تعداد ضیعف اور بڑی عمر کے مرد و خواتین کی ہے اور زیادہ تر اموات گھروں میں گھنٹوں بجلی کی بندش کے باعث ہوئی ہیں۔حکومت سندھ کی جانب سے تمام سرکاری اسپتالوں میں گرمی کے باعث آنے والے مریضوں کے لئے تمام تر انتظامات کئے گئے ہیں جبکہ تمام اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے اور عملے کی چھٹیاں بھی منسوخ کردی گئی ہیں۔

    سالانہ اربوں روپے منافع کمانے والی کے الیکٹرک انتظامیہ نے خود اس بات کو تسلیم کرلیا ہے کہ ان کے پاس ترسیلی نظام موثر نہیں ہے اور شدید گرمی میں ان کا نظام ناکارہ بن گیا تھا۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے عباسی شہید اسپتال کے اچانک دورے کے بعد وہاں موجود میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر ایڈمنسٹریٹر کراچی روشن شیخ، میونسپل کمشنر کراچی سمیع صدیقی، ڈی سی سینٹرل افضل زیدی اور دیگر بھی ان کے ہمراہ موجود تھے۔

    اس موقع پر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے شرجیل انعام میمن نے کہا کہ تمام سرکاری اسپتالوں میں سندھ حکومت کی جانب سے تمام تر سہولیات فراہم کردی گئی ہیں، سندھ کے مختلف اسپتالوں میں تمام سرکاری مشینری موجود ہے۔

    انہوں نے کہا کہ گذشتہ روز تحریک انصاف کی جانب سے اس سلسلے میں سندھ حکومت اور کے الیکٹرک کے خلاف مقدمات کے اندراج کا اعلان کیا گیا ہے۔ میں ان سے پوچھنا چاہتا ہو ں کہ جب پشاور میں شدید بارشوں سے ہلاکتیں ہورہی تھیں اور اس صوبے کے وزیر اعلیٰ اسلام آباد میں اسٹیج پر دھرنے میں رقص کررہے تھے۔

    اس وقت انہیں عوام کی کون سی مصیبت یاد آئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ عوام کے جاں بحق ہونے پرسیاست کرنا ان ہلاک شدگان اور ان کے لواحقین کے غموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔

  • گرمی سے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 445 تک جا پہنچی

    گرمی سے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 445 تک جا پہنچی

    کراچی: شہر قائد میں تین دن کے دوران گرمی اور لو لگنےسےجاں بحق افراد کی تعداد چار سو پینتالیس ہو گئی
    کراچی سمیت پورے صوبہ سندھ کو گرمی نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے.

    اس شدید موسم نے پیر کو 163 مزید جانیں لے لیں، جس کے بعد کراچی میں شدید گرمی اور لو لگنے کے باعث ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 445 سے زائد ہوگئی ہے۔

    عباسی شہید ہسپتال میں پیرکی صبح 7 افراد ہلاک ہوئے، اس سے قبل ہفتے اور اتوار کو عباسی شہید ہسپتال میں 30 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں 12 خواتین اور 2 بچے بھی شامل تھے۔

    دوسری جانب جناح اسپتال میں گزشتہ رات سے لے کر اب تک مزید 50 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ اس سے قبل جناح ہسپتال میں 85 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی تھی۔

    سول ہسپتال کراچی میں پیر کی صبح مزید 6 ہلاکتیں ہوئیں، جس کے بعد سول ہسپتال میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 35 تک جا پہنچی ہے۔

    کراچی کے پانچ اسپتالوں سے لئے گئے اعدادوشمار کے مطابق اب تک شہر میں کم از کم 445 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ گرمی اور حبس سے جاں بحق افراد میں سے 80 فیصد ہیٹ سٹروک کے باعث ہوئیں۔

    گرمی سے متاثرہ سب سے زیادہ افراد جناح ہسپتال لائے گئے جبکہ عباسی شہید ہسپتال، سول ہسپتال، لیاری جنرل ہسپتال اور سندھ گورنمنٹ ہسپتال نیو کراچی میں بھی بڑی تعداد میں گرمی سے جاں بحق افراد کی لاشیں لائی گئیں۔

    گرمی اور حبس سے مرنے والوں کی تعداد اتنی بڑھ گئی کہ ان کے لئے سٹریچرز بھی کم پڑ گئی۔ سرکاری ہسپتالوں میں گرمی کی شدت سے جاں بحق ہونے والے افراد میں زیادہ تعداد ساٹھ سے زائد عمر کے افراد تھے جن میں خواتین بھی شامل تھیں جنہیں مختلف علاقوں سے لایا گیا۔

  • اورنگی ٹاؤن میں دھماکہ: ایک شخص جاں بحق، بارہ زخمی

    اورنگی ٹاؤن میں دھماکہ: ایک شخص جاں بحق، بارہ زخمی

    کراچی: اورنگی ٹاؤن میں دھماکا،ایک شخص جاں بحق اور بارہ افراد زخمی،اب تک ملنے والی اطلاعات کےمطابق اورنگی ٹاؤن نمبر بارہ بروہی ہوٹل کے قریب زوداردھماکہ کے نتیجے میں ایک شخص جاں بحق اور نو افراد زخمی ہوگئے۔

    ہلاک اور زخمی ہونے والے افراد کو قطر اور عباسی شہید اسپتال منتقل کیا جا رہا ہے، واقعے کے بعد پولیس نے جائے وقوعہ کو گھیرے میں لے لیا، دھماکے کے بعد علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا۔

    دھماکے کی آواز دور دور تک سنی گئی،علاقے کی مارکیٹ کھلی ہوئی تھی، دھماکے سے قریب کھڑی ہوئی گاڑیوں کے شیشے بھی ٹوٹ گئے۔

    تازہ ترین اطلاعات کے مطابق دھماکہ خیز مواد ایک برگر کے ٹھیلے میں نصب کیا گیا تھا، اور خسشہ ہے کہ بم ڈیوائس کو ریموٹ کنٹرول کے ذریعے اڑایا گیا۔

    ہلاک ہونے والے شخص کی شناخت شکیل صدیقی کے نام سے کی گئی ہے،جبکہ زخمیوں میں سے چھ افراد کی حالت تشویشناک ہے۔

  • پاپوش میں فرقہ وارانہ کلنگ: آدھے گھنٹے میں دو ڈاکٹرقتل

    پاپوش میں فرقہ وارانہ کلنگ: آدھے گھنٹے میں دو ڈاکٹرقتل

    کراچی : شہر کے گنجان آباد علاقے پاپوش نگرمیں پندرہ منٹ میں فائرنگ کے دو واقعات پیش آئے جن کے نتیجے میں دو ڈاکٹرزجاں بحق ہوگئے۔

    تفصیلات کے مطابق پاپوش نگر کے علاقے انار کلی بازار میں واقع کلینک پرنامعلوم افراد نے فائرنگ کی جس کے نتیجے میں ڈاکٹر علی اکبراپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

    دوسری جانب پاپوش میں واقع قبرستان کے نزدیک چند منٹ کے وقفے سے ایک اور کلینک پر فائرنگ کا واقع پیش آیا جس میں ڈاکٹر سید یاور حسین جاں بحق ہوگئے۔

    عینی شاہدین کے مطابق حملہ آورموٹر سائیکلوں پرسوارتھے اورواردات کرتے ہی جائے وقوعہ سے فرارہونے میں کامیاب ہوگئے۔

    ذرائع کے مطابق واقعے کی نوعیت فرقہ وارانہ ہے

    مقتول ڈاکٹرعلی اکبر کی میت پوسٹ مارٹم کے لئے عباسی شہید اسپتال منتقل کی گئی ہے جہاں سے ضابطے کی کاروائی کے بعدمیت ورثہ کے حوالے کی جائے گی۔

  • کراچی میں جے یو آئی کے مقامی رہنما فائرنگ سے زخمی

    کراچی میں جے یو آئی کے مقامی رہنما فائرنگ سے زخمی

    کراچی : شہرمیں ٹارگٹ کلرز کی سرگرمیاں جاری ہیں۔آج صبح جمعیت علماء اسلام کے مقامی عہدیدار مولانا ملک زر قاتلانہ حملے میں شدید زخمی ہوگئے۔

    ڈاکٹرعارف مصطفیٰ کے قتل کے خلاف عباسی شہیداسپتال کے عملے نے احتجاج کیا،تفصیلات کے مطابق کراچی میں ٹارگٹ کلرز کی سرگرمیاں جاری ہیں ۔

    آج صبح جمیعت علماء اسلام ایم پی آر کالونی اورنگی ٹاؤن کے سیکریٹری جنرل مولانا ملک زر پر ان کے رہائش گاہ کے قریب قاتلانہ حملہ ہوا جس کے نتیجے میں وہ شدید زخمی ہوگئے۔

    نائب امیر جمعیت علماء اسلام سندھ قاری محمد عثمان نے واقعے کی شدید مذمت کر تے ہوئے کہا ہےکہ کراچی میں جنگل کا قانون نافذ ہے اور کوئی شہری محفوظ نہیں ہے۔

    کراچی میں حکومت نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہے۔ علاوہ ازیں گزشتہ روز فائرنگ سے جاں بحق ہو نے والے ڈاکٹرعارف مصطفیٰ کے قتل کے خلاف عباسی شہیداسپتال کے عملے نے احتجاج کیا ۔

    ڈاکٹرزاور پیرامیڈیکل اسٹاف نےاحتجاجاًاو پی ڈی سروس معطل کردی،مشتعل مظاہرین نے واقعے کے خلاف شدید نعرے بازی کرتے ہوئے حکومت سے قاتلوں کی درفتاری کا مطالبہ کیا۔