Tag: abdul-qadeer-khan.

  • ایم کیو ایم کا عبد القدیر خان کے نام پر کوئی شہر، ایئرپورٹ یا تاریخی عمارت منسوب کرنے کا مطالبہ

    ایم کیو ایم کا عبد القدیر خان کے نام پر کوئی شہر، ایئرپورٹ یا تاریخی عمارت منسوب کرنے کا مطالبہ

    اسلام آباد : وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں ایم کیو ایم نےعبدالقدیرخان کے نام پر کوئی شہر، ایئرپورٹ یا تاریخی عمارت منسوب کرنے کا مطالبہ کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا، اجلاس میں ملکی سیاسی اور معاشی صورت حال کا جائزہ لیا۔

    وزیراعظم اور کابینہ ارکان نے ڈاکٹرعبدالقدیر خان کیلئےفاتحہ خوانی کی ، اجلاس میں ایم کیو ایم نے مطالبہ کیا کہ عبدالقدیرخان کے نام پر کوئی شہر،ایئرپورٹ یا تاریخی عمارت منسوب کی جائے۔

    ایم کیو ایم نے انتخابی اصلاحات میں اعتماد میں نہ لینے کا شکوہ کیا ، وفاقی وزیر امین الحق نے کہا ہم اتحادی ہیں انتخابی اصلاحات میں ہمیں اعتماد پر لیں، جس پر وزیراعظم کا کہنا تھا کہ آپ کا شکوہ جائز ہے ایم کیو ایم کو اعتماد میں لیں گے۔

    اجلاس میں جی ڈی اے نے بھی انتخابی اصلاحات پر ایم کیو ایم کی حمایت کر دی۔

  • کلیات محسن بھوپالی کا اجرا، ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی خصوصی شرکت

    کلیات محسن بھوپالی کا اجرا، ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی خصوصی شرکت

    کراچی: نامور پاکستانی شاعر محسن بھوپالی کے کلیات کا اجرا کردیا گیا، تقریب میں محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔

    تفصیلات کے مطابق آرٹس کونسل کراچی میں کلیاتِ محسن بھوپالی کی تقریب اجرا کے حوالے سے تقریب منعقد ہوئی ، جس کی  صدارت پروفیسر سحر انصاری نے کی جبکہ دیگر معززین میں ڈاکٹر پیر زادہ قاسم، اردو لغت بورڈ کے سربراہ عقیل عباس جعفری اور شاہانہ جاوید سمیت دیگر شامل تھے۔

    معززین گرامی نے محسن بھوپالی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کتاب کی اہمیت اور افادیت کے حوالے سے شرکا کو آگاہ کیا جبکہ مہمان خصوصی ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بھی اظہار خیال کیا۔

    اس موقع پر ڈاکٹر عبد القدیر خان نے اردو کی اہمیت کو اجاگر کرنے میں دیگر قومیتوں کی خدمات پر روشنی ڈالی۔ محسن پاکستان کا کہنا تھا شہر قائد میں بسنے والے تمام ہی اکائیوں کے لوگ شائستہ لہجے میں اردو بولتے تھے۔

    انہوں نے بتایا کہ میں کئی ایسے سندھی رہنماؤں کو جانتا ہوں جو بہت اچھے طریقے سے اردو میں بول چال کرتے تھے علاوہ ازیں لیاری کے مکینوں پر بھی محسن پاکستان نے تبصرہ کیا۔

    ایٹمی سائنسدان نے اپنے بچن کا واقعہ سنایا کہ وہ ایک بار بس میں سفر کررہے تھے جس کا ڈرائیور اور کنڈیکٹر مکرانی (بلوچ) تھے، گاڑی اپنی مخصوص رفتار سے منزل کی جانب رواں دواں تھیں کہ اچانک ڈرائیور نے بریک مار دیا۔

    اُن کا کہنا تھا کہ ’گاڑی کو بریک لگنے کے بعد جب میں نیچے اترا تو دیکھا بس کے آگے ایک بلی کا بچہ ہے جسے کنڈیکٹر نے گود میں اٹھا کر اپنے مخصوص انداز میں کہا یہ باغ نہیں سڑک ہے اور پھر اُسے فٹ پاتھ پر رکھ دیا‘۔

    ڈاکٹر عبد القدیر خان کا مزید کہنا تھا کہ لیاری میں ایسے بھی لوگ بستے ہیں مگر آج انہیں گینگ وار کے نام کی شناخت دے دی گئی۔ اپنی تقریر کے آخر میں محسن پاکستان نے مدعو کرنے پر منتظمین کا شکریہ بھی ادا کیا۔

    محسن بھوپالی کون تھے؟

    محسن بھوپالی کی پیدائش 29 ستمبر 1932 کو بھارت کے علاقے بھوپال سے متصل ضلع ہوشنگ آباد کے قصبے سہاگپور میں ہوئی، آپ کا اصل نام عبد الرحمان جبکہ والد کا نام عبد الرزاق لاڑکانہ تھا۔

    آپ نے ابتدائی تعلیم بھوپال سے حاصل کی، قیام پاکستان کے بعد آپ کا خاندان نقل مکانی کرکے لاڑکانہ منتقل ہو ا اور پھر آپ کے اہل خانہ نے کچھ عرصے کے بعد حیدرآباد میں رہائش اختیار کی۔

    لاڑکانہ منتقلی کے بعد آپ نے 1951 میں ہائی اسکول لاڑکانہ سے میٹرک اور 1954 میں گورنمنٹ کالج سے انٹرمیڈیٹ پاس کیا، بعد ازاں 1957 میں این ای ڈی سے تین سالہ ڈپلومہ کی ڈگری حاصل کی اور پھر 1974 میں کراچی یونیورسٹی سے بی اے کی سند حاصل کی۔

    آپ نے سندھی زبان کا محکمہ جاتی امتحان پاس کیا بعد ازاں 1979 میں جامعہ کراچی سے ایم اے اردو اور 1987 میں اردو کالج سے صحافت میں ماسٹرز کیا۔

    آپ کو حکومت سندھ کے محکمہ تعمیرات میں 12 جون 1952 کو ملازمت ملی بعد ازاں آپ ترقی کی منازل طے کرتے رہے اور جب 1993 میں ریٹائر ہوئے تو آپ کے پاس ایگزیکٹو انجینئر کا عہدہ تھا۔

    محسن بھوپالی کو شاعری کی وجہ سے شہرت ملی، آپ نے اپنی زندگی میں 10 تصانیف لکھی، آپ کی شاعری کا پہلا مجموعہ ’شکست شب‘ 1961 میں منظر عام پر آیا بعد ازاں دیگر کتابیں بھی آئیں مگر ’گرد مصافت اور پھر ’جستہ جستہ‘، ’نظمانے اور ماجرہ قابل ذکر رہیں۔

    محسن بھوپالی 17 جنوری 2007 کو کراچی میں نمونیا کی بیماری سے لڑتے ہوئے دنیا سے کوچ کر گئے تھے۔ آپ کی شاعری میں ادب اور معاشرے کے گہرے مطالعے کا عکس آج بھی نظر آتا ہے۔

    بھوپالی کے شعری موضوعات معاشرتی اور سیاسی حالات ہوتے تھے البتہ آپ کے ایک قطعے کو بھی خوب شہرت حاصل ہوئی۔

    جاہل کو اگر جہل کا انعام دیا جائے

    اس حادثہ وقت کو کیا نام دیا جائے

    مے خانے کی توہین ہے رندوں کی ہتک ہے

    کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائے

    ہم مصلحت وقت کے قائل نہیں یارو

    الزام جو دینا ہو، سر عام دیا جائے

    آپ گلے کے سرطان جیسے موذی مرض میں مبتلا ہوئے جس کا 1988 میں کامیاب آپریشن ہوا مگر اس کے بعد آپ کو بولنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا تھا اس کے باوجود آپ نے معمولاتِ زندگی جاری رکھے اور مشاعروں میں شرکت کر کے اپنے اشعار ادبی لوگوں کی خدمت میں پیش کیے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • کراچی میں لوگوں کو تکالیف دینے والے اب کفارہ ادا کر رہے ہیں، ڈاکٹر عبد القدیر خان

    کراچی میں لوگوں کو تکالیف دینے والے اب کفارہ ادا کر رہے ہیں، ڈاکٹر عبد القدیر خان

    کراچی : معروف سائنسدان عبدلقدیر خان نے کہا ہے کہ میں اسلام آباد میں رہتا ہوں لیکن میرا دل کراچی دھڑکتا ہے، کراچی میں لوگوں کو تکالیف دینے والے اب کفارہ ادا کر رہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق ڈاوٴ اوجھا کیمپس میں حفیظ جالندھری اور غلام علی چھاگلہ کی یاد میں تقریب کا انعقاد کیا گیا، تقریب میں میں معروف سائنسدان عبدالقدیر خان نے شرکت کی، تقریب سے خطاب کرتے ہوئے معروف سائنسدان ڈاکٹر عبدلقدیر خان نے کہا کہ مجھے یہاں آکر بہت خوشی محسوس ہو رہی ہے یہاں میرا دوسرا وزٹ ہے، ڈاوٴ یونیورسٹی نے کافی ترقی کرلی ہے ،ابھی بھی لوگ کہتے ہیں کہ جو اچھا کام کیا وہ ڈاکٹر قدیر خان نے ہی کیا ہے۔

    ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہا کہ یہاں کے طالب علم ملک اور ملک سے باہر بھی ملک کا نام روشن کرسکتے ہیں، میرا اصول ہے جہاں بھی رہو اسی کو نمبر ون بنا دوں، مجھے امید ہے یہاں کے طالب علم اپنا اپنے والدین اپنے ملک اور اپنے ادارے کا نام روشن کریں گے، میرا اپنا آئی بی ایس انسٹی ٹیوٹ میں نے ڈاوٴ کو دے دیا ہے۔

    انھوں نے کہا میں اسلام آباد میں رہتا ہوں لیکن میرا دل کراچی دھڑکتا ہے، لوگ کہتے ہیں کہ آپ کی خدمات جو تھی، اچھی تھی آپ کی خدمات کے بعد جو ہوا اس ملک کے ساتھ برا ہی ہوا، ڈاؤ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے والے ملک میں نام روشن کرینگے، کراچی میں لوگوں کو تکالیف دینے والے اب کفارہ ادا کر رہے ہیں، کراچی کی ٹوٹی سڑکیں دیکھ کر میرا دل بھر آیا کراچی میں میرا دل لگا رہتا ہے، کراچی کے کھانے بہت یاد آتے ہیں، کراچی سے باہر جانے سے پہلے فلمیں دیکھنے کا بھی نہایت شوق تھا۔

    سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا مزید کہنا تھا کہ کراچی بدل بھی گیا ہے، کراچی کا امن و امان پہلے سے بہتر ہے، جامعہ کراچی میں انسٹیوٹ بنا کر میں نے کراچی ہونے کا حق ادا کردیا۔

    اس موقع پر سینیٹر عبدالحسیب نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان جیسا مالدار ملک دنیا میں کہیں نہیں، پاکستان قائداعظم نے بنایا اور اللہ نے قائداعظم کو چنا کہ پاکستان کو ایٹمی طاقت کے لیے اللہ نے عبدالقدیرخان کا انتخاب کیا۔