Tag: Abuse

  • امریکا : وہ ملک جہاں خواتین سے انتہائی درجے کی بدسلوکی کی جاتی

    امریکا : وہ ملک جہاں خواتین سے انتہائی درجے کی بدسلوکی کی جاتی

    مغربی معاشرے میں خواتین کو روزگار اور دیگر شعبوں میں زیادہ مواقع میسر ہیں، وہ چاہیں تو اپنی مرضی سے دن یا رات کی نوکری بھی کرسکتی ہیں اس لیے وہ ماضی کی نسبت موجودہ دور میں زیادہ آزاد ہیں۔

    ایسا نہیں کہ مغربی ممالک میں مکمل طور پر خواتین کو ہر قسم کی آزادی ملی ہوئی ہے، تاہم اس آزادی کے پیچھے بہت سے اندوہناک واقعات اور قربانیاں ہیں جن کی بدولت خواتین اپنی مرضی کی زندگی گزار رہی ہے۔

    ایک وقت وہ بھی تھا کہ جب انسانی حقوق کے علمبردار ملک امریکا میں خواتین سے ناروا سلوک روا رکھا جاتا تھا، ان کے کردار پر شک کرتے ہوئے حراست میں لیا جاتا، زبردستی طبی معائنہ کرکے انہیں قیدیوں کی طرح رکھا جاتا تھا۔

    امریکی ویب سائٹ ہسٹری ڈاٹ کام کے مطابق امریکی تاریخ میں خواتین پر زبردستی اور جبر کا یہ مخصوص دور نصف صدی سے زیادہ عرصے پر محیط تھا۔

    امریکی حکومت نے 1910 کی دہائی میں پہلی جنگ عظیم کے دوران ’امریکی پلان‘ متعارف کروایا تھا جس کے تحت ہزاروں کی تعداد میں خواتین کو حراست میں لیا گیا۔

    یہ منصوبہ کچھ ریاستوں میں 1950 کی دہائی تک نافذالعمل رہا جبکہ کچھ مقامات پر 1960 اور 1970 کی دہائی تک چلتا رہا۔  رپورٹ کے مطابق اس منصوبے کا مقصد خواتین کو گرفتار کرکے فوجیوں میں پھیلی ہوئی جنسی بیماریوں پر قابو پانا تھا۔

    سال 1917 میں وفاقی افسران حیران اور خوفزدہ ہو کر رہ گئے تھے جب انہیں معلوم ہوا کہ امریکی فوج میں اہلکاروں کی ایک بڑی تعداد جنسی تعلقات سے پھیلنے والی بیماریوں گونوریا یا سیفیلس سے متاثر ہیں۔ یہ بیماریاں نہ صرف فوجیوں کی صحت بلکہ قومی سلامتی کے لیے بھی ایک بڑا خطرہ تھیں۔

    اس مسئلے کا حل نکالنے کے لیے ایک قانون نافذ کیا گیا جس کے تحت ملک بھر میں قائم فوجی تربیتی کیمپوں کے اطراف میں پانچ میل تک جسم فروشی کو ممنوع قرار دیا گیا اور اس علاقے کو ’مورل‘ یعنی ’اخلاقی زون‘ قرار دیا گیا۔

    لیکن جب وفاقی عہدیداروں کو معلوم ہوا کہ اکثر فوجی اہلکار تو جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماریوں (ایس ٹی آئی) سے دوران چھٹی اپنے آبائی شہروں میں متاثر ہوئے تو انہوں نے قانون کا دائرہ کار پورے ملک تک بڑھا دیا۔

    اور جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ مردوں میں جراثیم پھیلانے والی اکثر خواتین پیشہ وارانہ طور پر جسم فروش نہیں ہیں تو انہوں نے امریکی منصوبے کا دائرہ کار مزید وسیع کردیا۔

    امریکی پلان کہلانے والے اس قانون کے تحت سال 1919 میں ریاست کیلی فورنیا کے شہر سیکرامینٹو میں ایک دن میں درجنوں خواتین کو حراست میں لیا گیا تھا۔

    مارگریٹ ہینسے اِن خواتین میں سے ایک تھیں جنہیں 25 فروری کی صبح کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ اپنی بہن کے ساتھ پیدل گوشت خریدنے جا رہی تھیں۔

    جیسے ہی یہ خواتین مارکیٹ کے قریب پہنچیں تو رائن نامی پولیس افسر اور ’مارل‘ یعنی ’اخلاقی اسکواڈ‘ کے ممبران ان کے پاس آئے اور انہیں کہا کہ ’مشتبہ‘ ہونے کی بنیاد پر انہیں گرفتار کیا جا رہا ہے۔

    ’مارل اسکواڈ‘ کے نام سے ایک یونٹ اِسی صبح قائم کیا گیا تھا جس کا مقصد شہر کو برائی اور غیر اخلاقی کاموں سے پاک کرنا تھا۔

    مارگریٹ ہینسے نے ان پولیس افسران کو بتانے کی کوشش کی کہ وہ شادی شدہ ہیں اور ان کا چھ سال کا بیٹا کونوینٹ اسکول میں تعلیم حاصل کرتا ہے اور اگر انہیں گرفتار کر لیا تو بیٹے کی کون دیکھ بھال کرے گا۔

    مارگریٹ نے بعد میں پریس کو بتایا تھا کہ پولیس افسران بغیر بات سنے انہیں اور ان کی بہن کو ہسپتال لے گئے تھے۔ وہاں ڈاکٹر نے ممکنہ جنسی بیماری سے متاثر ہونے پر ان خواتین کا زبردستی معائنہ کیا لیکن منفی ٹیسٹ رپورٹ نے پولیس کے شکوک و شہبات کو غلط ثابت کر دیا تھا۔

    مارگریٹ کا کہنا تھا کہ زندگی میں کبھی بھی انہیں اس قدر شرمندہ نہیں کیا گیا اور وہ اپنی ساکھ کے تحفظ کی لڑائی لڑیں گی۔

    اگر کسی خاتون کا جنسی بیماریوں کے لیے کیا گیا ٹیسٹ مثبت آتا تو انہیں بغیر قانونی کارروائی کیے کئی دن یا کئی ماہ تک قید میں رکھا جاتا تھا۔

    دوران قید ان خواتین کو مرکری کا انجیکشن لگایا جاتا یا پھر آرزینک کی ادویات زبردستی دی جاتیں جو اس وقت سیفیلس کا عام علاج سمجھا جاتا تھا۔ مزاحمت کی صورت میں ان خواتین کو مارا پیٹا جاتا، ان پر ٹھنڈا پانی پھینکا جاتا، قید تنہائی میں رکھا جاتا، یہاں تک کہ ان کی نس بندی کی جاتی۔

    اکثر خواتین نے یہ بھی شکایت کی کہ پولیس افسران کے ساتھ جنسی عمل سے انکار پر بھی انہیں حراست میں لیا جاتا۔ بالخصوص تارکین وطن اور سیاہ فام خواتین کے ساتھ دوران حراست اعلیٰ درجے کی بدسلوکی کی جاتی۔

    امریکی پلان کو اعلیٰ عہدیداروں کی بھی حمایت حاصل تھی، ریاست نیویارک کے میئر فیوریلو گارڈیا پلان کے حق میں تعریفی تقاریر کرتے تھے، اسی طرح سے کیلی فورنیا کے گورنر ارل وارن نے ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے اس کو نافذ کروایا۔

    سال 1918 میں اٹارنی جنرل نے ذاتی حیثیت میں ہر امریکی اٹارنی کو خط لکھ کر یقین دہانی کروائی کہ اس قانون کو آئینی حیثیت حاصل ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے ہر امریکی ڈسٹرکٹ جج کو بھی خط لکھا کہ اس قانون کے نفاذ میں دخل اندازی نہ کی جائے۔

    بالآخر امریکہ میں شہری حقوق اور خواتین کے حقوق کی تحاریک کے آغاز کے بعد 1970 کی دہائی میں امریکی پلان اپنے منتقی انجام کو پہنچا اور اس کے تحت ہونے والا خواتین کا استحصال بند ہوا۔

  • اوکاڑہ : نویں کلاس کی طالبہ اغواء : چھ ملزمان کی اجتماعی ذیادتی

    اوکاڑہ : نویں کلاس کی طالبہ اغواء : چھ ملزمان کی اجتماعی ذیادتی

    اوکاڑہ : نواحی علاقے میں نویں کلاس کی طالبہ سے اغواء کے بعد زیادتی کا واقعہ پیش آیا ہے، مغویہ کو چھ ملزمان کئی روز تک زیادتی کا نشانہ بناتے رہے۔

    اس حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ ملزم ریحان نے6 ساتھیوں سمیت گن پوائنٹ پر طالبہ کو20دن پہلےاغواء کیا تھا، سفاک اور بااثر ملزمان نے اسے اپنی ہوس کا نشانہ بھی بنایا۔

    زیادتی کا نشانہ بننے والی 13سالہ طالبہ 6دن بعد موقع پاکر وہاں سے فرار ہوکر گھر پہنچ گئی تھی، ذرائع کے مطابق طالبہ کے ساتھ میڈیکل رپورٹ میں زیادتی کے شواہد پائے گئے ہیں۔

    لڑکی کی والدہ کا کہنا ہے کہ تفتیشی افسر اور ملزمان میں گٹھ جوڑ ہے، ہمیں صلح کیلئے دباؤ ڈالا جارہا ہے،
    متاثرہ طالبہ کی والدہ نے وزیراعلیٰ پنجاب سے واقعے کے نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

  • مدرسہ طالب علم سے زیادتی کا مقدمہ درج، پولیس کو ملزمان کی تلاش

    مدرسہ طالب علم سے زیادتی کا مقدمہ درج، پولیس کو ملزمان کی تلاش

    لاہور: صوبائی دارالحکومت میں مدرسے طالب علم سے زیادتی کا مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق مقدمہ تھانہ شمالی چھاؤنی میں زیادتی کا شکار مدرسے طالب علم کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے۔

    مقدمے میں زیادتی اور جان سے مارنے کی دھمکیوں کی دفعات شامل کی گئیں ہیں، مقدمے میں پانچ ملزمان کو نامزد کیا گیا ہے، ملزمان پر الزام ہے کہ انہوں نے مدرسہ طالب علم کو اغوا کرنے اور جان سے ماردینے کی دھمکیاں دی ہیں۔

    مقدمے کے اندراج کے بعد پولیس نے ملزمان کی گرفتاری کے خلاف چھاپے مار کارروائی کا آغاز کردیا ہے۔

    مدرسے طالب علم سے زیادتی کی خبر سوشل میڈیا پر جنگل میں آگ کی طرح پھیلی ہے اور صارفین کی جانب سے شدید ردعمل کا اظہار کیا جارہا ہے۔

  • برطانوی پولیس نے جنسی زیادتی کے الزام میں‌ 44 افراد کو گرفتار کرلیا

    برطانوی پولیس نے جنسی زیادتی کے الزام میں‌ 44 افراد کو گرفتار کرلیا

    لندن : برطانوی پولیس تحقیقاتی اسپکٹر نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ بچوں کا تحفظ پولیس کی اولین ترجیح ہے ،امید ہے گرفتاریوں سے ہماری مقامی برادری میں اعتماد پیدا ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کی ریاست شمالی انگلینڈ کی پولیس نے کہا ہے کہ انہوں نے 1995 سے 2002 کے درمیان بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی میں ملوث 44 افراد کو گرفتار کرلیا۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا تھا کہ مغربی یارک شائر کی پولیس نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ 2 ہفتوں کے دوران کرکلیز، بریڈ فورڈ اور لیڈز سمیت دیگر علاقوں سے 3 خواتین سمیت 39 افراد گرفتار کیے گئے۔

    انہوں نے کہاکہ دیگر 5 افراد کو اس ہی کیس کی تحقیقات کے لیے گزشتہ سال کے آخر میں گرفتار کیا گیا تھا۔

    پولیس کا کہنا تھا کہ کرکلیز کے ڈیوز بری اور بیٹلے کے علاقوں میں 4 خواتین کی جانب سے شکایت درج کرائی گئی تھی کہ جب وہ کم عمر تھیں تو انہیں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا،ا

    برطانوی پولیس کا کہنا تھا کہ تمام افراد سے پوچھ گچھ کی گئی ہے،تحقیقات کی سربراہی کرنے والے انسپکٹر روبن سن کا کہنا ہے کہ بچوں کا تحفظ پولیس کی اولین ترجیح ہے اور امید ہے کہ گرفتاریوں سے ہماری مقامی برادری میں اعتماد پیدا ہوگا۔

  • شارع فیصل اور مختلف شاہراہوں پر نوجوانوں کی بدمعاشیاں

    شارع فیصل اور مختلف شاہراہوں پر نوجوانوں کی بدمعاشیاں

    کراچی : عید کے موقع پر اوباش نوجوانوں نے شارع فیصل اور مختلف شاہراہوں پر بدمعاشیاں شروع کردی۔

    تفصیلات کے مطابق شہر قائد کے علاقے سی ویو، شاہراہ فیصل سمیت مختلف علاقوں میں اوباش نوجوانوں نے فیملز اور خواتین کو ہراساں کرنا شروع کردیا۔

    نمائندہ اے آر وائی کا کہنا تھا کہ نوجوانوں کی بدتمیزیوں سے سی ویو سمیت دیگر تفریحی مقامات پر جانے والی فیملیز بھی تنگ آگئیں۔

    نمائندہ اے آر وائی نے بتایا کہ شارع فیصل پر خاتون کو چھیڑنے والے تین موٹر سائیکل سواروں کی فیملز سے تلخ کلامی بھی ہوئی، ہر سڑک پر اسی طرح کے نوجوان نظر آرہے ہیں جو فیملیز کو تنگ کررہے ہیں۔

    ایس ایس پی اظفر مہیسر کا کہنا ہے کہ ایسے نوجوانوں کو گھرمیں تربیت ہی ایسی دی جاتی ہے، فیملیز کے ساتھ بدتمیزی کرنیوالوں کے خلاف کریک ڈاؤن کریں گے

    ایس ایس پی اظفر مہیسر کا مزید کہنا تھا کہ اوباش نوجوانوں کے خلاف کریک ڈاؤن کریں گے تو پتہ چل جائے گا کہ حوالات بھرگئے ہیں۔

  • برطانیہ کو منظم جرائم کی وجہ سے شدید نوعیت کے خطرات لاحق ہیں، این سی اے

    برطانیہ کو منظم جرائم کی وجہ سے شدید نوعیت کے خطرات لاحق ہیں، این سی اے

    لندن : نیشنل کرائم ایجنسی نے دل دہلا دینے والا انکشاف کیا کہ برطانیہ میں ایک لاکھ 44 ہزار لوگ ڈارک ویب پر بچوں کی فحش فلمیں دیکھ رہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ملک میں ایک لاکھ 44 ہزار لوگ ڈارک ویب کے ذریعے بچوں کی فحش فلمیں دیکھ رہے ہیں۔

    برطانیہ کے ٹاپ تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ ملک کے ایک لاکھ 44 ہزار لوگ ڈارک ویب پر جانے کیلئے گمنامی کی ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہیں جس کے ذریعے ان کو پکڑنا لگ بھگ ناممکن ہوجاتا ہے۔

    نیشنل کرائم ایجنسی کی ڈائریکٹر جنرل لیان اوینز نے کہا ہے کہ برطانیہ کو منظم جرائم کی وجہ سے شدید نوعیت کے خطرات لاحق ہیں۔

    انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ منظم جرائم سے نمٹنے اور بچوں کی ہراسانی کے واقعات کو روکنے کیلئے 2 اعشاریہ 7 ارب پاﺅنڈ کا بجٹ فراہم کیا جائے۔

    این سی اے حکام کا کہنا ہے کہ ہماری صلاحیتوں کو بڑھانا قومی سلامتی کیلئے انتہائی ضروری ہے، اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو نہ صرف برطانیہ کے قانون نافذ کرنے والے ادارے بلکہ عوام کو بھی اس کے نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ آج کے جرائم پیشہ افراد یہ نہیں دیکھتے کہ وہ کیا جرم کر رہے ہیں بلکہ ہر وہ کام کرتے ہیں جس سے پیسہ کمایا جاسکے۔

    ان کا کہنا تھا کہ یہ منظم جرائم پیشہ گروہ بچوں اور بزرگوں کو اپنا نشانہ بنارہے ہیں کیونکہ یہ دونوں طبقے خود کا دفاع کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔

    نیشنل کرائم ایجنسی نے اپنی سالانہ رپورٹ میں انکشاف کیا کہ بچوں کی فحش ویڈیوز سے متعلق زیادہ تر مواد عام ویب سائٹوں پر دستیاب ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر سے مجموعی طور پر 29 لاکھ لوگ ڈارک ویب کا استعمال کر رہے ہیں، گزشتہ کچھ عرصے کے دوران بچوں کے خلاف آن لائن جرائم میں700 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

    نیشنل کرائم ایجنسی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ برطانیہ میں ایک لاکھ 81 ہزار لوگ ڈارک ویب کے ذریعے یا تو کسی منظم جرائم پیشہ گروہ سے منسلک ہیں یا پھر وہ بچوں کی فحش فلمیں دیکھ رہے ہیں۔

  • گاڑی میں خاتون کو ہراساں کرنے والے ملزم کو گرفتار کیا جائے، سعودی استغاثہ

    گاڑی میں خاتون کو ہراساں کرنے والے ملزم کو گرفتار کیا جائے، سعودی استغاثہ

    ریاض : سعودی پراسیکیوٹر جنرل نے خواتین کو ہراساں کرنے والے افراد کی گرفتاری کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمومی آداب کی خلاف ورزیاں کرنے والوں کے شر سے معاشرے کو محفوظ بنایا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی عرب کے پراسیکیوٹر جنرل الشیخ سعود بن عبداللہ المعجب نے ایک گاڑی میں موجود سعودی دوشیزہ کو ہراساں کرنے والے ملزم کی فوری گرفتاری کی ہدایت کی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ پراسیکیوشن کے مانیٹرنگ یونٹ نے گردش کرنے والے ایک ویڈیو کلپ میں دیکھا کہ گاڑی میں موجود سعودی دوشیزہ کو ایک اوباش نوجوان ہراساں کر رہا ہے۔

    ویڈیو کلپ کے حقیقی ہونے کی تصدیق کے بعد پراسیکیوٹر جنرل نے ہدایت کی ملک میں ہراسیت کے جرم کے خاتمہ کے لئے رائج سسٹم کو بروکار لاتے ہوئے ہراساں کرنے والے ملزم کی فوری گرفتار کا حکم دیا ہے۔

    عرب خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ استغاثہ کے جاری بیان میں کہا گیا کہ محکمہ ملکی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کو جلد سے جلد کیفر کردار تک پہنچانے کا مصمم ارادہ رکھتا ہے تاکہ عمومی آداب کی خلاف ورزیاں کرنے والوں کے شر سے معاشرے کو محفوظ بنایا جا سکے۔

  • کرائسٹ چرچ میں مسجد کے باہر مسلمانوں کو مغلظات بکنے والا ٹرمپ کا حامی گرفتار

    کرائسٹ چرچ میں مسجد کے باہر مسلمانوں کو مغلظات بکنے والا ٹرمپ کا حامی گرفتار

    ولنگٹن : نیوزی لینڈ پولیس نے کرائسٹ چرچ میں مسجد کے باہر عبادت گزاروں کو زبانی ہراساں کرنے والے امریکی صدر ٹرمپ کے حامی کو گرفتار کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں پولیس نے جمعرات کے روز ایک شخص کو گرفتار کیا ہے کہ جو مسجد کے باہر کھڑا ہوکر عبادت گزاروں کو زبانی ہراساں (مغلضات بک رہا تھا) کررہا تھا جہاں گزشتہ ماہ درجنوں افراد بے گناہ قتل ہوئے تھے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ اسلام مخالف نظریات کے حامل شخص نے ڈونلڈ ٹرمپ کی تصویر والی ٹی شرٹ بھی زیب تن کی ہوئی تھی۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ 33 سالہ شخص نے گزشتہ بدھ کو بھی النور مسجد سے نکلنے سے مسلمانوں کو مغلضات بک کر گہرا صدمہ پہنچایا تھا۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ ہماری کمیونٹی ان لوگوں کے لئے روادار نہیں ہے جو دوسروں کو ان کی شناخت کی وجہ سے نشانہ بناتے ہیں اور نہ ہی پولیس ہے۔

    مزید پڑھیں : سانحہ کرائسٹ چرچ، نیوزی لینڈ میں‌ جدید اسلحہ رکھنے پر پابندی کا بل منظور

    مزیدپڑھیں :کرائسٹ چرچ میں مساجد پر حملوں کی تحقیقاتی رپورٹ دسمبر تک موصول ہوگی، جیسنڈا آرڈرن

    یاد رہے کہ 15 مارچ کو نیوزی لینڈ کے علاقے کرائسٹ چرچ میں واقع دو مساجد میں دہشت گرد حملے ہوئے تھے جس کے نتیجے میں خواتین وبچوں سمیت 50 نمازی شہید اور 20 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔

    اس واقعے کے نیوزی لینڈ کی حکومت اور عوام کی جانب سے شدید ردعمل آیا اور واقعے کو دہشت گردی قرار دیا تھا.

  • دبئی میں بچوں سے بدسلوکی اور گھریلو تشدد کی اصل وجہ والدین ہیں، رپورٹ

    دبئی میں بچوں سے بدسلوکی اور گھریلو تشدد کی اصل وجہ والدین ہیں، رپورٹ

    دبئی : خواتین و بچوں کے حقوق کےلیے کام کرنے والی تنظیم نے انکشاف کیا ہے کہ 98 فیصد بچوں کے ساتھ بدسلوکی کے ذمہ دار خود والدین ہوتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق متحدہ عرب امارات میں بچوں و خواتین کےلیے حقوق کےلیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم دبئی فاؤنڈیشن (ڈی ایف ڈبلیو اے سی) نے بچوں اور خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ متاثرین کے ساتھ بدسلوکی میں اکثر ان کے والدین ملوث ہوتے ہیں۔

    دبئی فاؤنڈیشن نے سنہ 2018 میں موصول ہونے والے بدسلوکی کے کیسز کی رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈی ایف ڈبلیو اے سی کو گزشتہ برس 52 بچوں سمیت 1027 افراد کے ساتھبدسلوکی کے کیسز موصول ہوئے تھے۔

    ڈی ایف ڈبلیو اے سی کی ڈائریکٹر گنیما حسن البحری کا کہنا تھا کہ ’ہم 33 بچوں کو شیلٹر فراہم کررہے ہیں جس میں 54 فیصد کا تعلق امارات سے ہے اور بدسلوکی کا شکار بننے والے بچوں میں 83 فیصد متاثرین کے ساتھ ان کے والد اور 15 فیصد بچوں کے ساتھ والدہ نے بدسلوکی کی۔

    ان کا کہنا تھا کہ بچوں کے ساتھ بدسلوکی کی سب سے معمولی اقسام والدین کے ہاتھوں، جسمانی، زبانی اور احساساتی زیادتیاں بشمول مالیاتی اور جنسی بدسلوکی بھی شامل ہیں۔

    گنیما حسن البحری کا کہنا تھا کہ ہمیں والدین کی جانب سے بچوں کو بے عزتی، جسمانی تشدد اور جلاؤ گھیراؤ کے ذریعے بدسلوکی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

    گنیما حسن البحری نے رپورٹ میں بتایا کہ گزشتہ برس فاؤنڈیشن کو آٹھ کیسز انسانی اسمگلنگ کے وصول ہوئے تھے جس میں پانچ لڑکیاں تھیں جن کی عمریں 13، 14، 15 برس تھی۔

    اماراتی خبر رساں ادارے کے مطابق فاؤندیشن نے بتایا کہ 2017 میں 1200 بدسلوکی کے کیشز وصول ہوئے تھے جبکہ گزشتہ برس 133 کیسز کی کمی آئی تھی۔

  • برطانیہ میں نابالغ لڑکیوں سے جنسی زیادتی میں ملوث 20 رکنی گروہ کو سزا

    برطانیہ میں نابالغ لڑکیوں سے جنسی زیادتی میں ملوث 20 رکنی گروہ کو سزا

    لندن : برطانوی عدالت نے کم عمر لڑکیوں کو نشے کا عادی کا بناکر جنسی عمل کر اکسانے اور جنسی ہوس کا نشانہ بنانے کے جرم میں 20 رکنی گروہ کو 220 برس قید کی سزا سنادی۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی عدالت نے کم عمر بچیوں کو نشے کا عادی بنانے اور ان کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے کے جرم میں ایشیائی ممالک سے تعلق رکھنے والے گروہ کو تاریخی سزا سنائی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ ہڈرزفیلڈ گرومنگ نامی گروہ سنہ 2004 سے 2011 تک 120 مرتبہ 15 دوشیزاؤں کو نشے کا عادی بناکر انہیں اپنی حوس کا نشانہ بنا چکے ہیں۔

    مقامی میڈیا کا کہنا تھا کہ ہڈرز فیلڈ گرومنگ نامی گروہ کا سربراہ ایک امیر سنگ ڈھالی ہے جو کئی برسوں سے لاتعداد نابالغ لڑکیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرچکا ہے جبکہ دیگر 54 جرائم کا ارتکاب الگ کیا ہے۔

    برطانیہ کی لیڈز کراؤن کورٹ نے بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی، منشیات کا عادی بنانا اور بلیک میل کرنے کے جرم میں گروہ کے 35 سالہ سربراہ کو عمر قید کی سزا سنائی جو کم از کم 18 برس بنتی ہے جبکہ گروہ کو مجموعی طور پر 220 برس قید کی سزا سنائی ہے۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ برطانوی تاریخ کم عمر بچیوں کو جنسی عمل پر اکسانے کا اس سے قبل کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا، کیس کی سماعت کرنے والے جج جیفری مارسن نے کہا کہ شدید نوعیت اور سنگ دلی کا یہ واقعہ میرے سامنے آیا ہے جس میں مجرم مسلسل مکروہ فعل انجام دیتے رہے۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ گروہ کا ایک شخص ضمانت پر رہا ہوا اور موقع پاکر پاکستان فرار ہوگیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق متاثرہ لڑکیوں میں کچھ بچیوں کا کہنا تھا کہ انہیں ایک وقت کئی افراد نے اپنی حوس اور تشدد کا نشانہ بنایا۔

    برطانوی میڈیا کا کہنا تھا کہ نابالغ لڑکیوں کو جنسی فعل پر اکسانے، شراب نوشی اور منشیات کا عادی بنانے والے 20 رکنی گروہ میں عبدالرحمان کو 16 برس، محمد عظیم 18، نیہمان محمد 15 برس، زاہد حسن کو عمر قید، منظور حسن کو 5، محمد قمر 16 برس، عرفان احمد کو 8 برس کو 16 سال کی قید ہوئی ہے۔

    عدالتی دستاویزات کے مطابق فیصل ندیم کو 12، راجہ سنگھ بسران کو 17 برس، وقاص احمد کو 15 برس، نصرت حسین کو 17 برس، ساجد حسین کو 17، محمد افراز کو 6، محمد رضوان اسلم کو 15، منصور اختر کو 8 برس قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ مذکورہ مجرمان محمد عمران ابرار، محمد اکرم، نیاز احمد، آصف بشیر کا ٹرائل جاری ہے جنہیں مستقبل قریب میں سزائیں سنائی جائیں گی۔،

    ان تمام مجرمان کو مجموعی طور پر 220 سال سے زائد کی سزا سنائی گئی ہے جب کہ ایک مجرم پاکستان فرار ہونے میں کامیاب ہوچکا ہے۔

    گروہ کے اراکین ایک دوسرے کو ڈریکولا، کڈ، بیسٹی، نرس اور فِش وغیرہ کے خفیہ ناموں سے بلاتے تھے، سماعت کے دوران تمام گواہوں اور متاثرہ بچیوں نے ملزمان کو شناخت کیا اور اپنی شہادتیں قلمبند کرائیں۔