Tag: Abuse

  • انٹرنیٹ کا غلط لیٹریچر بچوں کی جنسی بے راہ روی کا باعث ہے، ساجد جاوید

    انٹرنیٹ کا غلط لیٹریچر بچوں کی جنسی بے راہ روی کا باعث ہے، ساجد جاوید

    لندن : برطانوی وزیر داخلہ ساجد جاوید نے کہا ہے کہ برطانیہ کی سطح پر 80 ہزار ویب سایٹ اور افراد بچوں کی آن لائن جنسی ہراسگی میں ملوث ہیں، انٹرنیٹ پر غیر مناسب مواد بچوں کی جنسی بے راہ روی کا باعث بن رہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کے وزیر داخلہ ساجد جاوید نے سماجی رابطوں کی ویب سایٹس پر موجود نامناسب مواد کو بچوں کے لیے انتہائی خطرناک قرار دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ انٹر نیٹ پر موجود غلط قسم کا مواد بچوں کو جنسی بے راہ روی پر گامزن کررہا ہے۔

    برطانوی وزیر داخلہ نے انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والے اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ ’مذکورہ ادارے ایسی ویب سایٹس پر پابندی لگائیں جو بچوں تک فحش مواد پہنچا رہے ہیں‘۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ساجد جاوید کا کہنا تھا کہ چند ویب سایٹس ایسی ہیں جو بچوں کو آن لائن ہراساں کرنے کے معاملات کو سنجیدگی سے نہیں لیتے، بچوں کی براہ راست ہراسگی ملک کا بڑھتا ہوا مسئلہ ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ فیس بُک، گوگل اور میکروسافٹ نے بچوں تک نامناسب مواد کی فراہمی کی روک تھام کے لیے کام کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔

    ساجد جاوید نےبچوں کی حفاظت سے متعلق کام کرنے والی تنظیم کے زیر اہتمام معنقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’میں ذاتی طور پر گوگل، فیس بک مائیکرو سافٹ، ٹوئٹر اور ایپل کی انتظامیہ سے بچوں کی غلط مواد کی رسائی کی روک تھام کے لیے رابطہ کیا تھا۔

    برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ گذشتہ ہفتے برطانیہ کی وفاقی کابینہ کے رکن جیریمی ہنٹ نے مذکورہ مسئلے پر برطانیہ کے ساتھ تعاون نہ کرنے پر گوگل کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

    برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کے مطابق گذشتہ 5 برس کے دوران بچوں کے جسی استحصال اور ہراسگی کے معاملات میں 700 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ نئے اعداد و شمار کے مطابق 80 ہزار کے قریب ویب سایٹس اور افراد بچوں کی آن لائن ہراسگی میں ملوث ہیں۔

  • خواتین سے جنسی زیادتی کا الزام، ہالی ووڈ پروڈیوسر ہاروی وائن اسٹائن پر فرد جرم عائد

    خواتین سے جنسی زیادتی کا الزام، ہالی ووڈ پروڈیوسر ہاروی وائن اسٹائن پر فرد جرم عائد

    واشنگٹن: ہالی ووڈ کے پروڈیوسر ہاروی وائن اسٹائن پر دو خواتین سے جنسی زیادتی کے الزامات پر فرد جرم عائد کردی گئی، ان کے خلاف مقدمہ فوجداری عدالت میں چلایا جارہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پروڈیوسر ہاروی وائن اسٹائن سے متعلق اسکینڈل پانچ اکتوبر دو ہزار سترہ کو نیویارک ٹائمز نے منظرعام پر لاکر تہلکہ مچایا تھا جبکہ ہاروی وائن اسٹائن نے جمعہ کی صبح خود کو نیویارک پولیس کے سپرد کیا، تاہم اب ان پر فرد جرم عائد کی جاچکی ہے۔

    نیویارک پولیس کا کہنا ہے کہ ہاروی وائن اسٹائن کو آج حراست میں لے لیا گیا، ان پر دو مختلف خواتین نے ریپ اور غیر اخلاقی حرکتوں کا الزام لگایا گیا ہے۔

    دوسری جانب امریکی میڈیا کا کہنا تھا کہ ہاروے پر لگے بعض الزامات کا تعلق اداکارہ لوسیا ایونز سے ہے، اسی ماہ ایک خاتون پروڈیوسر الیگزینڈرا کینوسا نے نیویارک کی عدالت میں دستاویزات جمع کروائیں جن میں الزام لگایا گیا کہ انہیں وائن اسٹائن نے ریپ کیا ہے۔


    بھارت:لڑکی کے ریپ اور قتل میں ملوث 14 افراد گرفتار


    وائن اسٹائن پر مین ہیٹن کی فوجداری عدالت میں مقدمہ چلایا جارہا ہے، ہالی وڈ پروڈیوسر ہاروی وائن سٹائن پر متعدد اداکارائیں جنسی حملوں اور ریپ کے الزامات لگا چکی ہیں۔

    جن اداکاراؤں نے ان پر جنسی حملوں کا الزام لگایا ہے ان میں ہالی ووڈ اداکارہ کیٹ بیکنسیل، لائسیٹ انتھونی اور گوائنتھ پالٹرو جیسے نام شامل ہیں، دریں اثنا ایشلے جوڈ کہتی ہیں کہ پروڈیوسر کے ہراساں کرنے کے سبب ان کے کیرئیر کو نقصان پہنچا ہے۔


    چین میں خواتین سے زیادتی و قتل کے مرتکب سیریل کلر کو سزائے موت


    خیال رہے کہ وائن اسٹائن کے خلاف فوجداری عدالت میں مقدمہ چلایا جارہا ہے، 5 اکتوبر2017 کو نیویارک ٹائمز نے ایک اسکینڈل شائع کرکے تہلکہ مچایا تھا جس کے بعد کئی خواتین نے انکشافات کیے کہ انہیں بھی حراساں کیا گیا ہے اور می ٹو مہم کا آغاز ہوا، ہالی ووڈ پروڈیوسر پر 80 سے زائدخواتین سے ریپ کے الزامات ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • جرمنی میں’یہودی ٹوپی‘ پہنا شخص تشدد کا نشانہ بن گیا

    جرمنی میں’یہودی ٹوپی‘ پہنا شخص تشدد کا نشانہ بن گیا

    برلن : جرمنی میں ایک عرب شخص نے دو شہریوں کو تشدد کو نشانہ بنا ڈالا، سوشل میڈیا پر اس واقعے کی ویڈیو وائرل ہوگئی جس مسلمانوں کے خلاف نفرت میں اضافہ ممکن ہے۔

    تفصیلات کے مطابق گذشتہ روز سماجی رابطے کے ویب سائیٹ فیس بک پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک عربی شخص برلن میں ایک شہری کو نفرت آمیز الفاظ استعمال کرتے ہوئےبیلٹ سے تشدد کا نشانہ بنارہا ہے۔

     سوشل میڈیا پروائرل ہونے والی ویڈیو میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ جرمنی کے علاقے پرنز لویا برگ میں عرب حملہ آور کپّہ(یہودی ٹوپی) پہنے ہوئے ایک شخص پر بیلٹ سے تشدد کررہا ہے۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق متاثرہ افراد میں سے ایڈم نامی 21 سالہ اسرائیلی شہری کا کہنا تھا کہ ’حملہ آور نے عربی میں ’یہودی‘ چیختے ہوئے تشدد شروع کردیا تھا۔ اس موقع پر  قریب موجود ایک شخص نے مجھے بچایا اورحملہ آور کو مجھ سے دور کیا۔

    اسرائیلی شہری ایڈم کا کا کہنا تھا کہ ’واقعے کے بعد میں اس عربی شخص کا پیچھا کررہا تھا کہ اچانک اس نے شیشے کی بوتل میری جانب پھینکی جس کے بعد میں نے اس کا پیچھا کرنا چھوڑ دیا‘۔

    متاثرہ اسرائیلی کا کہنا تھا کہ ’مجھے اس حملے پر بہت حیرانگی ہوئی ہے اور میں ابھی تک صدمے میں ہوں، یہ واقعہ میرے گھر کے بالکل سامنے پیش آیا ہے۔

    متاثرہ اسرائیلی کا کہنا تھا کہ ’حملہ کرنے والے شخص کے ساتھ دو لوگ اور تھے جنہوں نے ہہلے میری بے عزتی کی اور غصّے میں رکنے کے لیے کہا‘۔

    اسرائیلی شہری کا مزید کہنا تھا کہ ’ان میں سے ایک شخص بھاگتا ہوا میری جانب بڑھا تو مجھے محسوس ہوا کہ واقعے کی ویڈیو بنانی چاہیے کہ  پولیس کی مدد کے بغیر میں ان لوگوں سے نمٹنے سے قاصر تھا‘۔

    مذکورہ ویڈیو کو یہودیوں کے گروپ ’یہودی فورم برائے ڈیموکریسی اور یہودی مخالفین کی مخالفت‘ نے سوشل میڈیا پر وائرل کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’یہ حملہ ہرگز ناقابل برداشت ہے‘۔

    یہودی ڈیموکریسی فورم کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ’میں ہمیشہ اپنے دوستوں اور جاننے والوں سے کہتا ہوں کہ کپّہ پہن کر اپنی شناخت یہاں ظاہر نہیں کیا کرو‘۔

    ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے اس حادثے کے بعد سے اپنا مؤقف بدل دیا ہے ، اب ہم اپنے حق کے لیے لڑیں گے اور عوام میں نظر آئیں گے‘۔

    دوسری جانب متاثرہ شخص نے جرمن میڈیا  سے گفتگو کرتے ہوئے یہ انکشاف کرکے سب کو حیرت میں ڈال دیا کہ وہ یہودی نہیں ہے تاہم وہ اسرائیل میں مقیم ایک عرب گھرانے میں پلا بڑھا ہے۔

    یاد رہے کہ ہٹلر کے دور میں یہودیوں کی کثیر تعداد جرمنی چھوڑ گئی تھی اور سنہ 1989 سے پہلے محض 30 ہزار کی تعداد میں یہودی جرمنی میں آباد تھے، تاہم  دیوارِ برلن  گرنے کےبعد سے جرمنی میں یہودیوں کی آبادی میں اضافہ دیکھا گیا ہے جن میں زیادہ تر روس سے یہاں آکر آباد ہوئے ہیں، اور ان کی تعداد دو لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • غیر قانونی ٹیکسیاں طالب علموں کے لیے خطرہ ہیں

    غیر قانونی ٹیکسیاں طالب علموں کے لیے خطرہ ہیں

    خلیفہ سٹی: ابوظہبی کے اسکول نے غیر قانونی ٹیکسیوں کو طلبہ کی سیکیورٹی کے لیے خطرہ قراردیتے ہوئے  ان سے اجتناب اور حکومت کو ان کے خلاف سخت کارروائی کا مشورہ دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق متحدہ عرب امارات کے شہر ابو ظہبی کے علاقے خلیفہ سٹی کے نجی اسکول نے طالب علموں کی حفاظت کے پیش نظر والدین اور ابوظہی کی حکومت کو اعلامیہ جاری کیا ہے۔ یہ اعلامیہ غیر رجسٹرڈ ٹیکسی کے ڈرائیور کی خاتون طلبہ کو ورغلا کر گاڑی میں بٹھانے کی کوشش کے بعد جاری کیا گیا ہے۔

    الیاسمینہ اسکول کے پرنسپل ڈاکٹر ٹم ہاگیس نے خبر رساں ادارے کو بتایا کہ ہم نے 11 مارچ کو شام 5 بجے اسکول کے سامنے سفید رنگ کی نسان کارکھڑی دیکھی جس کا ڈرائیوراسکول سے جانے والے بچوں کو ٹیکسی سروس فراہم کرنے کہہ رہا تھا۔

    لیکن وہ رجسٹرڈ ٹیکسی نہیں تھی، جس کے بعد اسکول کے سیکیورٹی عملے نے فوری طور پر مقامی پولیس کو متنبہ کیا اور مشتبہ گاڑی کی معلومات پولیس حکام کو فراہم کی۔

    اسکول پرنسپل نے بتایا کہ اسکول نے طلباء کے والدین کو بھی آگاہ کردیا گیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ بچوں کو اسکول چھوڑتے اور چھٹی کے وقت حفاظت کے مزید بہتر اقدامات کریں اور اپنی کمیونٹی میں بھی بچوں کی نگرانی کرنے کی یاد دہانی کروائیں۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ ’کمیونٹی کے وسیع تر مفاد کی خاطر ہم نے شہر کے دیگر اسکولوں سے بھی رابطہ کرکے اس حادثے کے بارے میں آگاہی دی ہے، اور طالب علموں کو بھی متنبہ کیا کہ اسکول آتے وقت کسی بھی اجنبی شخص کی جانب سے دی جانے والی لفٹ نہ لیں اورصرف رجسٹرڈ ٹیکسیوں کا ہی استعمال کریں‘۔

    اسکول کے کچھ سینئر طلباء نے خبر رساں ادارے کو بتایا کہ ’اکثر اسکول کے باہر شام کے اوقات میں غیر رجسٹرڈ ٹیکسیاں موجود ہوتی ہیں۔

    ایم اے کے طلبا نے بتایا کہ کچھ طالب علم شام کے اوقات میں ہونے والی سرگرمیوں میں حصّہ لینے کے لیے اسکول میں رکتے ہیں اور اسکول کی جانب سے طلباء کے لیے ٹراسپورٹ بھی فراہم کی گئی ہے لیکن کچھ اسٹوڈنٹس پیسے بچانے کی غرض سے غیررجسٹرڈ ٹیکسیوں کا استعمال کرتے ہیں۔

    الیاسمینہ اسکول میں زیر تعلیم بچوں کے والدین نے خبر رساں ادارے کو بتایا کہ بچوں کی حفاظت کرنا کمیونٹی کے افراد کی مشترکہ ذمہ داری ہے، ہمیں بچوں کو نقصان پہنچانے والے عناصر پر نظر رکھنی ہوگی، والدین کا کہنا تھا کہ ہمیں خوشی ہے کہ اسکول انتظامیہ والدین کو معاملے پر پوری اطلاع دی ہے۔

    ابوظہبی پولیس کی جانب سے متعدد غیر قانونی ٹیکسی ڈرائیوروں کے خلاف کارروائی کی گئی ہے پھر بھی شہر میں غیر قانونی ٹیکسی سروس جاری ہے۔

    ابوظہبی پولیس کا کہنا تھا کہ گذشتہ سال اکتوبر میں پولیس نے نجی گاڑیوں کو غیرقانونی ٹیکسی کے طور پر چلائے جانے کے 659 کیسز درج کیے تھے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • خواتین پر تشدد معمول کی بات، مگر کیا کبھی متاثرہ خواتین کے بارے میں سوچا گیا؟

    خواتین پر تشدد معمول کی بات، مگر کیا کبھی متاثرہ خواتین کے بارے میں سوچا گیا؟

    دنیا بھر میں آج خواتین پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں 80 فیصد خواتین اور دنیا بھر میں ہر 3 میں سے 1 خاتون زندگی بھر میں کسی نہ کسی قسم کے تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔

    اقوام متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں تشدد کا نشانہ بننے والی ہر 3 میں سے ایک عورت کو اپنی زندگی میں جسمانی، جنسی یا ذہنی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو صرف صنف کی بنیاد پر اس سے روا رکھا جاتا ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق خواتین کو ذہنی طور پر ٹارچر کرنا، ان پر جسمانی تشدد کرنا، جنسی زیادتی کا نشانہ بنانا، جنسی طور پر ہراساں کرنا، بدکلامی کرنا، اور ایسا رویہ اختیار کرنا جو صنفی تفریق کو ظاہر کرے تشدد کی اقسام ہیں اور یہ نہ صرف خواتین بلکہ انسانی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہیں۔

    اگر پاکستان کی بات کی جائے تو اس میں چند مزید اقسام، جیسے غیرت کے نام پر قتل، تیزاب گردی، (جس کے واقعات ملک بھر میں عام ہیں) اور خواتین کو تعلیم کے بنیادی حقوق سے محروم کرنے کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔

    مزید پڑھیں: ہراسمنٹ کے بارے میں پاکستانی خواتین کیا کہتی ہیں

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں سالانہ سینکڑوں خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کردیا جاتا ہے لیکن ایسے واقعات بہت کم منظر عام پر آ پاتے ہیں۔

    خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم عورت فاونڈیشن کے مطابق سنہ 2013 میں ملک بھر سے خواتین کے خلاف تشدد کے رپورٹ ہونے والے کیسز کی تعداد 7 ہزار 8 سو 52 ہے۔

    پاکستان کے کمیشن برائے انسانی حقوق کے مطابق سنہ 2014 میں 39 فیصد شادی شدہ خواتین جن کی عمریں 15 سے 39 برس کے درمیان تھی، گھریلو تشدد کا شکار ہوئیں۔

    کمیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق سال 2015 میں 1 ہزار سے زائد خواتین قتل ریکارڈ پر آئے جو غیرت کے نام پر کیے گئے۔

    دوسری جانب ایدھی سینٹر کے ترجمان کے مطابق صرف سنہ 2015 میں گزشتہ 5 برسوں کے مقابلے میں تشدد کا شکار ہوکر یا اس سے بچ کر پناہ لینے کے لیے آنے والی خواتین میں 30 فیصد اضافہ ہوا۔

    تشدد کا شکار خواتین کی حالت زار

    ہر سال کی طرح اس سال بھی اقوام متحدہ کے تحت آج کے روز سے 16 روزہ مہم کا آغاز کردیا گیا ہے جس کے دوران خواتین پر تشدد کے خلاف عالمی طور پر آگاہی و شعور اجاگر کیا جائے گا۔

    اقوام متحدہ کی جانب سے سامنے آنے والی رپورٹ کے مطابق خواتین پر تشدد ان میں جسمانی، دماغی اور نفسیاتی بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔ مستقل تشدد کا سامنا کرنے والی خواتین کئی نفسیاتی عارضوں و پیچیدگیوں کا شکار ہوجاتی ہیں۔

    تشدد ان کی جسمانی صحت کے لیے بھی تباہ کن ثابت ہوتا ہے اور وہ بلڈ پریشر اور امراض قلب سے لے کر ایڈز جیسے جان لیوا امراض تک کا آسان ہدف بن جاتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: گھریلو تشدد کے خلاف آگاہی کے لیے بنگلہ دیشی اشتہار

    دوسری جانب ذہنی و جسمانی تشدد خواتین کی شخصیت اور صلاحیتوں کو بھی متاثر کرتا ہے اور انہیں ہمہ وقت خوف، احساس کمتری اور کم اعتمادی کا شکار بنا دیتا ہے جبکہ ان کی فیصلہ کرنے کی صلاحیت کو بھی ختم کردیتا ہے۔

    اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ سب سے زیادہ خطرے کی زد میں وہ خواتین ہیں جو تنازعوں اور جنگ زدہ ممالک میں رہائش پذیر ہیں۔

    ماہرین کے مطابق ان تنازعوں اور جنگوں کے خواتین پر ناقابل تلافی نقصانات پہنچتے ہیں اور وہ مردوں یا بچوں سے کہیں زیادہ جنسی و جسمانی تشدد اور زیادتیوں کا نشانہ بنتی ہیں۔

    تشدد واقعی ایک معمولی مسئلہ؟

    تشدد کا شکار ہونے والی خواتین پر ہونے والے مندرجہ بالا ہولناک اثرات دیکھتے ہوئے یہ ہرگز نہیں کہا جاسکتا کہ یہ ایک معمولی یا عام مسئلہ ہے۔ مگر بدقسمتی سے نصف سے زائد دنیا میں اسے واقعی عام مسئلہ سمجھا جاتا ہے اور اقوام متحدہ کے مطابق یہ سوچ تشدد سے زیادہ خطرناک ہے۔

    اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ترقی پذیر اور کم تعلیم یافتہ ممالک، شہروں اور معاشروں میں گھریلو تشدد ایک نہایت عام بات اور ہر دوسرے گھر کا مسئلہ سمجھی جاتی ہے جسے نظر انداز کردیا جاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: صدیوں سے صنف نازک کا مقسوم قرار دی گئی مشقت

    خود خواتین بھی اس کو اپنی زندگی اور قسمت کا ایک حصہ سمجھ کر قبول کرلیتی ہیں اور اسی کے ساتھ اپنی ساری زندگی بسر کرتی ہیں۔

    مزید یہ کہ انہیں یہ احساس بھی نہیں ہو پاتا کہ انہیں لاحق کئی بیماریوں، نفسیاتی پیچیدگیوں اور شخصیت میں موجود خامیوں کا ذمہ دار یہی تشدد ہے جو عموماً ان کے شوہر، باپ یا بھائی کی جانب سے ان پر کیا جاتا ہے۔

    تشدد سے کیسے بچا جائے؟

    اقوام متحدہ کے مطابق خواتین پر تشدد کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات کی ضرورت ہے۔

    تشدد ہونے سے پہلے اسے روکا جائے۔

    ایک بار تشدد ہونے کے بعد اسے دوبارہ ہونے سے روکا جائے۔

    قوانین، پالیسیوں، دیکھ بھال اور مدد کے ذریعے خواتین کو اس مسئلے سے تحفظ دلایا جائے۔