Tag: afghan-peace-process

  • افغان جنگ: امریکا اورطالبان، پہلے تھکن کا شکارکون ہوا؟

    افغان جنگ: امریکا اورطالبان، پہلے تھکن کا شکارکون ہوا؟

    افغانستان اس وقت اپنی تاریخ کے اہم ترین دور سے گزر رہا ہے ، 17 سال یہاں جنگ لڑنے کے بعد بالاخر امریکی افواج نے اپنا سازو سامان  لپیٹنے کی تیاری شروع کردی ہے یعنی جنگ اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہی ہے لیکن اس موقع پر دو سوال سب سے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ ایک یہ کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خطے سے نکل جانے کے بعد یہاں کے معاملات کون سنبھالے گا اوردوسرا یہ کہ کیا امریکا کے نکل جانے کے بعد افغانستان میں امن قائم ہوگا یا ملک خانہ جنگی کی لپیٹ میں آجائے گا، یاد رہے کہ افغانستان کے ماضی میں ایسی مثال موجود رہی ہے۔

    افغان امن عمل میں اب تک مذاکرات دو مرکزی فریقین یعنی امریکا اور افغان طالبان کے درمیان ہورہے تھے، دور وز قبل اس معاملے پر ایک انتہائی اہم پیش رفت ہوئی۔ روس میں افغان تارکین وطن نے ایک اہم ڈائیلاگ کا انعقاد کروایا ،جس میں افغان اپوزیشن کے 40 سے زائد افراد پر مبنی ایک گروہ نے سابق افغان صدر حامد کرزئی کی قیادت میں طالبان کے ساتھ ملاقات کی ۔ افغان وفد 10 ارکان پر مشتمل تھاا ور اس کی قیادت شیر محمد ستنک زئی کررہے تھے۔ عالمی میڈیا کا ماننا ہے کہ اس ڈائیلاگ کو روسی حکومت کی بھرپور حمایت حاصل تھی ، تاہم روس کی جانب سے ایسی کسی بھی حمایت کا انکار کیا جاتا رہا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ افغان اپوزیشن کے وفد میں کئی اہم سیاستدانوں کے علاوہ قابلِ ذکر وارلارڈز کے ساتھ ساتھ خواتین کے حقوق کے لیے متحرک شخصیات بھی شامل رہیں۔

    کابل میں برسرِ اقتدار افغان صدر اشرف غنی اور ان کی حکومت نے اس ملاقات پرشدید تنقید کی ہے اور اسے قبل از وقت ، لاحاصل اور افغانستان کی آئینی حکومت کے خلاف سازش قرار دیا ہے۔ ان کہنا تھا کہ جب تک حکومت کے طالبان کے ساتھ معاملات طے نہیں ہوجاتے ، ایسی کوئی بھی مشق سود مند نہیں رہے گی۔ افغان حکومت نے سابق صدر کرزئی کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا کہ وہ ماضی میں خود صدر رہے ہیں اور اب موجودہ حکومت کے آئینی حق کو تسلیم کرنے کےبجائے براہ راست طالبان سے مذاکرات کررہے ہیں۔

    موسمِ سرما اورافغانستان میں امیدِ بہار

    دیکھا جائے تو یہ سارا کھیل اب انتہائی موڑ پر پہنچ چکا ہے ۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کہا گیا کہ ہم دونوں یعنی امریکا اور طالبان اس طویل جنگ سے تھک چکے ہیں لیکن اگر صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو سامنے آتا ہے کہ تھکن صرف امریکا کے حصے میں آئی ہے ، افغان طالبان کے کیمپ میں ایسا کوئی معاملہ نہیں ۔ اور ایسا کیوں نہ ہو، طویل جنگیں امریکی معیشت کے لیے تباہ کن ثابت ہورہی ہیں اور اپنی بے پناہ معیشت اور فوجی طاقت کے علاوہ امریکا ہے کیا، کچھ بھی تو نہیں، سو امریکا کسی بھی صورت اپنی معیشت کو برباد نہیں ہونے دے گا۔ دوسری جانب طالبان کے پاس نقصان کے لیے ایسا کچھ نہیں ہے ، ان کے لیے واحد مسئلہ یہ جنگ لڑنے کے لیے افرادی قوت ہے جو بہر حال انہیں کہیں نہ کہیں سے مل ہی رہی ہے ، ان کے زیر اہتمام علاقوں میں معیشت کی بہتری کوئی مانوس لفظ نہیں، سو وہ شاید مزید کچھ عرصے تک اس جنگ کو لڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

    سارے عمل میں اب تک افغان حکومت وہ فریق ہے جسے بری طرح نظر انداز کیا گیا ہے ، طالبان کا موقف ہے کہ وہ غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد مقامی حکومت سے براہ راست مذاکرات کریں گے۔افغانستان کی آئینی حکومت جو کہ امریکی افواج کی موجودگی کے سبب اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے ، اس کے لیے یہ صورتحال انتہائی تشویش ناک ہے کہ ابتدائی طور پر امریکا نے طالبان کا یہ مطالبہ مان کر نہ صرف ان سے مذاکرات شروع کیے بلکہ انخلا کا وقت بھی مقرر کردیا ہے۔

    غنی حکومت کا خیال ہے کہ امریکا کے خطے سے نکلتے ہی کابل اور افغان حکومت طالبان کے لیے آسان ہدف بن جائے گے۔ یہی سبب ہے کہ وہ خطے سے امریکی افواج کے فی الفور انخلا کے حق میں نہیں ہیں ، کم از کم جب تک کابل اور طالبان کے درمیان کسی قسم کا کوئی معاملہ طے نہ پا جائے۔ ایسے ماحول میں طالبان نے اپوزیشن رہنماؤں سے ملاقات کرکے اپنے پلڑے کو مزید بھاری کرلیا ہے اور اب جب بھی مستقبل میں طالبان ، کابل کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھیں گے، نہ صرف یہ کہ انہیں امریکی بلکہ مقامی قیادت کی مدد بھی حاصل ہوگی۔ یہاں قابلِ ذکر بات افغانستا ن میں 20 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات بھی ہیں۔ اشرف غنی کی حکومت بس اب چند ہی مہینوں کی مہمان ہے اور یقیناً طالبان کسی بھی جاتی ہوئی حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنا پسند نہیں کریں گے ، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے مقامی حکومت سے مذاکرات کو امریکی انخلا سے مشروط کیا ہے اور حیرت انگیز طور پر انہیں اس موقف پر امریکا کے ساتھ اپوزیشن کی حمایت بھی حاصل ہوگئی ہے۔

    اس سارے منظر نامے میں 20 جولائی کا دن افغانستان کے لیے انتہائی اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ نئی آنے والی حکومت چاہے موجودہ حکومت کا تسلسل ہو یا آج کی حزبِ اختلاف حکومت قائم کرے، اس کے سامنے سب سے بڑا چیلنج افغان طالبان کو ملک کے مرکزی دھارے میں شامل کرنا ہوگا۔ اگر یہ مذاکراتی عمل امریکا کی موجودگی میں شروع ہوجاتا ہے تو کابل کی حکومت نسبتاً بہتر
    پوزیشن میں ہوگی ،لیکن اگر ایسا نہیں ہوتا اور مذاکرات کا عمل انخلا کے بعد ہی شروع ہوتا ہے، تب چاہے حکومت میں اشرف غنی ہوں یا کوئی۔ اس کے لیے طالبان کے ساتھ اپنی شرائط پر جنگ بندی کرانا ایک ناممکن ٹاسک ہوگا۔

    سب سے دلچسپ پہلو اس معاملے کا امریکی سینیٹ میں آنے والی قرار داد ہے، ڈونلڈ ٹرمپ جلد از جلد افغانستان چھوڑنا چاہتے ہیں ، یقینا ان کی خواہش ہوگی کہ آئندہ الیکشن سے پہلے یہ مرحلہ طے ہوجائے تاکہ وہ امریکا کو افغانستان کی دلدل سےنکالے جانے کا کریڈٹ لے سکیں لیکن امریکی سینٹ میں افغانستان سے مکمل انخلا کے خلاف قرارداد بھاری اکثریت سےمنظور ہوگئی ہے ، یعنی امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی ایک اندرونی محاذ کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس محاذ سے منظوری کےبغیر انخلا کا عمل شروع نہیں ہوسکے گا۔

    پاکستان اس وقت خاموشی سےساری صورتحال کا جائزہ لے رہا ہے اور پاکستان کی حکومت اور ملٹری قیادت کئی بار یہ بات باور کراچکے ہیں کہ افغانستان میں دیرپا اور پائیدار امن ہی خطے کی ترقی کی ضمانت ہے ۔ا ب دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں اسلام آباد جو فی الوقت امریکا اور طالبان کے درمیان مصالحت کار کا کردار ادا کررہا ہے ، مستقبل میں اس معاملے کو کس طرح سے لے کر چلے گا۔ پاکستان کے لیے سب سے بڑی آزمائش اس سارے معاملے میں اعتدال برقراررکھنا ہے کہ اس تنازعے کے تمام فریقوں سےپاکستان کے کسی نہ کسی نوعیت پر مضبوط تعلقات موجود ہیں۔

  • افغان طالبان آئندہ ہفتے روس میں افغان اپوزیشن پارٹیزسے ملاقات کریں گے

    افغان طالبان آئندہ ہفتے روس میں افغان اپوزیشن پارٹیزسے ملاقات کریں گے

    کابل: افغان طالبان مفاہمتی عمل کو آگے بڑھاتے ہوئے آنے والے دنوں میں افغان اپوزیشن لیڈرز سے روس میں ملاقات کریں گے، افغان حکومت ان مذاکرات کا حصہ نہیں ہوگی۔

    [bs-quote quote=”یہ ملاقات آئندہ ہفتے منگل اور بدھ کو ہونے جارہی ہے” style=”style-7″ align=”left”][/bs-quote]

    تفصیلات کے مطابق امریکی خبر رساں ادارے نیو یارک ٹائمز نے دعویٰ کیا ہے کہ روس کے پریزیڈنٹ ہوٹل میں یہ ملاقات ہونے جارہی ہے ، جس میں شرکت کے لیے طالبان قیادت کے علاوہ افغانستان کی تمام اپوزیشن جماعتوں کو دعوت نامے بھیجے گئے ہیں۔

    خیال رہے کہ افغان صدراشرف غنی کو تاحال افغانستان میں جاری سترہ سالہ جنگ کے خاتمے کے لیے ہونے والے مذاکرات کا حصہ نہیں بنایا گیا ہے ۔ اس سے قبل قطر میں امریکا اور طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات کا ایک طویل دور ہوچکا ہے جس کے بعد امریکا نے افغانستان سے انخلا کا اعلان کیا تھا۔

    بتایا جارہا ہے کہ روس میں ہونے والی ملاقات کا اہتمام افغان تارکینِ وطن کے ایک گروپ نے کیا ہے ، لیکن انتظامات سے پتا چلتا ہے کہ یہ گروپ روسی حکومت کے ساتھ مل کرکام کررہا ہے۔ روس نے فی الحال افغان مفاہمتی عمل میں فریق نہ بننے کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔ روس کی حکومتی ترجمان نے اپنی ہفتہ وار پریس کانفرنس میں بھی اس ملاقات کا کوئی تذکرہ نہیں کیا ہے۔

    دوسری جانب افغان صدر اشرف غنی نے اس ساری صورتحال پر انتہائی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ’’امریکا کا اس طرح عجلت میں افغانستان سے نکل جانا تباہ کن ثابت ہوگا ، اس سے خطے میں کسی بھی صورت قیام امن کی راہ نہیں نکلے گی‘‘۔

    افغان وزارتِ داخلہ کے ترجمان صبغت احمدی کا کہنا تھا کہ ’’ اس موقع پر ایسی کسی ملاقات کی کوئی ضرورت نہیں تھی ۔ یہ صرف ایک سیاسی ڈراما ہے جس سے افغان امن عمل کو نقصان پہنچے گا‘‘۔

    یاد رہے کہ قطر میں افغان طالبان سے مذاکرات کے بعد امریکی نمائندہ خصوصی برائےافغانستان نے کہا تھا کہ مذاکرات کا حالیہ دور گزشتہ ادوار سے بہت اچھا رہا، بات چیت کا تسلسل جاری رکھتے ہوئے جلد مذاکرات کا آغاز کریں گے۔ زلمے خلیل زاد نے یہ بھی کہا  تھا کہ ابھی مکمل اتفاق نہیں ہوا، کچھ معاملات باقی ہیں، جب تک سب باتوں پر اتفاق نہیں ہو جاتا کچھ بھی منظورنہیں ہوگا۔

    یاد رہے کہ طالبان اور امریکا کے درمیان دوحہ میں ہونے والے مذاکرات میں17 سال سے جاری افغان جنگ کے خاتمے پر بنیادی معاہدہ طے پا گیا ہے، فریقین افغانستان سے غیر ملکی افواج کے پرامن انخلاء پر متفق ہوگئے ہیں۔

  • موسمِ سرما اورافغانستان میں امیدِ بہار

    موسمِ سرما اورافغانستان میں امیدِ بہار

    ماضی کی طرح اس سال بھی افغانستان میں قیام امن کے لیے مذاکرات کا دورشروع ہوچکا ہے، فی الحال یہ عمل طالبان کی جانب سے معطلی کا شکار ہے لیکن امید کی جارہی ہے کہ مذاکرات جلد بحال ہوں گے۔ افغانستان کے جغرافیائی محل و وقوع کے سبب یہاں موسمِ سرما میں انتہائی محدود سرگرمیاں ہوتی ہیں، اسی لیے جنگ بھی تعطل کا شکار ہے ۔

    علاقائی سیاست اور دہشت گردی کے خلا ف اس جنگ پر نظر رکھنے والے تجزیہ نگار اچھی طبرح جانتے ہیں کہ طالبان موسمِ سرما میں ہمیشہ سے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کرتے چلے آئے ہیں اور موسمِ بہار کی آمد کے ساتھ ہی وہ جنگ چھیڑدینے کا اعلان کرتے ہیں۔ امریکی حکومت، افغان حکومت اور طالبان قیادت ، تینوں فریقین کی جانب سے مسئلے کی اصل جڑ کو نظرانداز کرنے کے سبب یہ جنگ امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ کا رخ اختیا ر کرچکی ہے اور امریکا، جو ویت نام کی دلدلوں سے بحفاظت باہر نکل آیا تھا ، آج تک یہاں سے نکلنے میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔

    ماضی سے حال تک


    اب ذرا نظر ڈالتے ہیں ماضی کے ان حالات پر جن سے گزر کر افغانستان اور امریکا اس نہج پر پہنچے ہیں کہ نہ جائے رفتن ، نہ پائے ماندن والی صورتحال پید ا ہوچکی ہے۔ نہ تو امریکا ، افغانستان میں اپنے اہداف حاصل کرسکا ہے، نہ ہی اس کی مدد سے تشکیل پانے والی افغان حکومت ملک پر اپنا کنٹرول قائم کرسکی ہے ، دوسری جانب طالبان جو آج بھی افغانستان کے ایک بڑے خطے پر قابض ہیں ، تاحال رائے عامہ کو اکثریتی طور پر اپنے حق میں ہموار نہیں کرپائے ہیں جس کے سبب انہیں بھی ملک کا بلا شرکت غیرے مالک تسلیم نہیں کیا جاسکتا ۔

    افغانستان کی حالیہ جنگ کا منظر نامہ نائن الیون کے بعد ترتیب پانا شروع ہوتا ہے لیکن اس کی جڑیں ماضی میں ہیں ، جب سویت یونین شکست کے بعد اپنا جنگی سازو سامان افغانستان کی سنگلاخ پہاڑیوں پر پھینک کر بھاگ کھڑا ہوا، اور اس کی شکست کے پیچھے واضح طور پر امریکا اور پاکستان کا اشتراک تھا، روس کی گرم پانیوں تک رسائی کی دیرینہ خواہش کے سبب پاکستان پرلازم تھا کہ وہ اس سیلِ رواں کے سامنے افغانستان میں ہی بند باندھ دے جو کہ افغانستان کے رستے ہماری جانب بڑھ رہا تھا۔روس کے انخلاء کے فوراً بعد ہی امریکا بھی اس خطے سے ہاتھ جھاڑ کرچل پڑا جس کے نتائج بعد میں پورے خطے نے بھگتے۔

    نائن الیون کے بعد امریکا ایک نئے کردار کے ساتھ اس خطے میں واپس آیا، کل تک جو طالبان امریکا کے اتحادی تھے ، آج وہ ان کا مخالف تھا، ایجنڈا یہ تھا کہ طالبان سے ان کے اس مسکن کو چھین لیا جائے جہاں بیٹھ کر وہ بقول شخصے پوری دنیا کا من سبوتاژ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ افغانستان کے ساتھ انتہائی طویل سرحد اور صدیوں پر مشتمل رشتوں کے سبب امریکا کے پاس پاکستان کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا کہ لہذا پاکستان کو بطور فرنٹ لائن اتحادی اس جنگ میں شامل کیا گیا۔

    میدانِ جنگ پاکستان تک پھیل گیا


    جنگ شروع ہوئی تو یہ پاکستان کے قبائلی علاقوں اور پھر اگلے مرحلے میں داخل ہوتے ہوئے یہاں کے گلیوں اور بازاروں میں در آئی ۔ اس موقع پر بھارت کا تذکرہ بے محل نہیں ہوگا کہ جس نے پاکستان سے اپنی روایتی مخالفت کے سبب اپنے پیسے کو استعمال کرتے ہوئے افغانستان میں سفارت خانوں کی شکل میں اپنا پورا نیٹ ورک ترتیب دیا اور بقول پاکستانی فوج کی ہائی کمان کے، پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے وہاں سے بیٹھ کر بھرپور وسائل استعمال کیے۔ بالاخرمنظرنامہ تبدیل ہوا، اور سوات میں صوفی محمد کے ساتھ معاہدے کی ناکامی کے بعد پاک فوج نے ایکشن کے ذریعے ایک ایک کرکے پاکستان میں موجود تحریکِ طالبان کے ٹھکانے ختم کرنا شروع کیے اورسرحد پرباڑھ لگانے کا کام بھی شروع کیا، جس کے اثرات بھی نظرآئے اور پاکستان جو کہ روز بم دھماکوں کا نشانہ بنتا تھا ، اب یہ واقعات پہلے کی نسبت انتہائی کم ہوچکے ہیں۔

    اس ساری صورتحال سے افغانستان میں ایک ڈرامائی تبدیلی آئی اورامریکا جو ابتدا میں وہاں فتح یاب دکھائی دے رہا تھا ،بالاخر اسی دلدل میں پھنس گیا جس میں اس سے قبل سفید ریچھ یعنی روس پھنس چکا تھا۔

    امریکی انخلاء


    سابق امریکی صدر اوبامہ کے دور سے امریکا چاہ رہا ہے کہ کسی طرح اپنا ساز وسامان سمیٹ کر افغانستان سے نکل جائے کہ یہ جنگ اب نہ صرف اس کی معیشت پر اثر انداز ہوکر اپنے اثرات دکھا رہی ہے بلکہ اس کے فوجی بھی اس بے مقصد کی جنگ سے عاجز آچکے ہیں، لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ افغانستان سے جائے تو جائے کیسے کہ امریکا تو کمبل کو چھوڑ رہا ہے لیکن کمبل امریکا کو نہیں چھوڑ رہا۔ امریکا جانتا ہے کہ اگر وہ ایک دم سے اس خطے سے نکل جاتا ہے تو اپنے سابقہ تجربے کی بنا پر پاکستان افغانستان کے امور پر حاوی ہوجائے گا کہ جو کہ امریکا کے لیے کسی بھی طور قابلِ قبول نہیں۔ یاد رہے کہ پاکستان جو کہ خود بھی انتہائی اہم محل و وقوع کا حامل ہے ، افغانستان جیسے علاقے میں بھی اپنا اثرورسوخ قائم کرلے۔ امریکا کی اس تشویش کو بڑھاوا دینے میں اس کے دیرینہ دوست بھارت کا بھی ہاتھ ہے جو اسے مسلسل ڈرا رہا ہے کہ امریکا کے انخلا کی صورت میں چین، پاکستان اور افغانستان کے راستے سنٹرل ایشین منڈیوں تک آسان رسائی حاصل کرلے گا اورایک بار امریکا یہاں سے گیا تو پھر دوبارہ اس خطے میں اپنا اثر ورسوخ استعمال نہیں کرسکے گا۔

    پاکستان کا کردار


    پاکستان اور چین کے درمیان ہونے والا سی پیک معاہدہ بھی امریکا کی پریشانی کی ایک اہم وجہ ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے اپنے دور کی شروعات میں پاکستان کو نظر انداز کرکے بھارت کے ذریعے افغانستان میں امن عمل کو آگے بڑھانے کی کوشش کی تھی جس میں اسے ایک جانب تو بری طرح ناکامی ہوئی، دوسری جانب پاکستان جو کہ اس کا فرنٹ لائن اتحادی تھا ، اس نے بھی امریکا سے اپنا رویہ یکسر تبدیل کرکے علاقائی سطح پرچین اور روس کے تعاون سے افغانستان میں قیام ِ امن کے عمل کو تیز کرنے کی کوشش شروع کردی۔

    اس ساری صورتحال نے امریکا کو مجبور کردیا کہ وہ ایک بار پھر پاکستان سے رجوع کرے اور یوں امریکی صدر اپنے 33 بلین ڈالرز، جن کا وہ پاکستان سے حساب مانگا کرتے تھے، بھول کر نئی پاکستانی حکومت سے رابطہ کرنے پر مجبور ہوئے کہ افغان امن عمل میں پاکستان ایک بار پھر موثر طور پر اپنا کردار ادا کرے۔

    دیکھا جائے تو پاکستان اس وقت عالمی بساط پر اپنے مہرے بہت احتیاط سے چل رہا ہے ، سی پیک کی صورت میں پاکستان اور چین ایک دوسرے کے انتہائی قریب آچکے ہیں ، جس کے سبب پاکستان کا امریکا پر انحصار کم ہورہا ہے، دوسری جانب پاکستان روس سے بھی اپنے تعلقات بڑھا رہا ہے، گزشتہ کچھ عرصے میں ہونے والےسفارتی اوردفاعی روابط اس بات کے گواہ ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ پاکستان نے مشرقِ وسطیٰ کے ساتھ بھی اپنے تعلقات کی از سرِ نو تشکیل کی ہے اور یمن کے معاملے میں غیر جانب دار رہ کر اپنا نیا کردار دنیا کے سامنے منوایا ہے۔

    طالبان امریکا مذاکرات


    پاکستان کی کوششوں سے امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان امور زلمے خلیل زا د نے دسمبر میں پاکستان کی اعلیٰ قیادت اور افغانستان میں افغان طالبا ن کی قیادت سے ملاقاتیں کیں جس کے بعد طالبان اور امریکا کے قطر میں مذکرات کی میز پر بیٹھنے کے آثار پیدا ہوئے، لیکن اس کے بعد صورتحال نے ایک نیا رخ اختیار کیا اور طالبان نے امریکا پر الزام عائد کیا کہ وہ مذاکرات کے ا یجنڈے سے پیچھے سے ہٹ رہا ہے ، یہ کہہ کر افغانستان کی جانب سے مذاکرات معطل کردیے گئے۔ بتایا گیا ہے کہ دونوں فریقین نے مذاکرات باہمی رضا مندی سے کچھ وقت کے لیے ملتوی کیے ہیں اور کچھ اختلافی امورکو طے کرنے کے بعد مذاکرات کا نئے سرے سے آغاز کیا جائے گا۔ پاکستانی دفترِ خارجہ نے بھی امید ظاہر کی ہے کہ مذاکرات کا باقاعدہ آغاز جلد ہوگا۔

    مذاکرات کی معطلی کے بعد امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد ایک بار پھر افغانستان پہنچے ، جہاں انتہائی مصروف شیڈول گزارنے کے بعد انہوں نے پاکستان کا رخ کیا اوراب وہ سول اورعسکری اعلیٰ سطحی قیادت سے ملاقاتیں کررہے ہیں۔ انہوں نے امریکی حکومت کی جانب سے طالبان اورامریکا کے درمیان مصالحت کاری کے فرائض انجام دینے پرپاکستان کا شکریہ بھی ادا
    کیا۔ امریکی وفدمیں افغان امریکی مشن کےسربراہ جنرل آسٹن،امریکی صدرکی نائب معاون لیزاکرٹس اورامریکی ناظم الاموربھی شامل ہیں۔ جی ایچ کیو میں پاکستانی آرمی چیف جنرل قمر باجوہ سے ہونے والی ملاقات میں زلمے خلیل زاد نے افغانستان کے حالیہ دورے میں ہونے والی پیش رفت سے آرمی چیف کو آگاہ کیا اور آئندہ کے لائحہ عمل پر گفتگو کی۔

    اس سارے معاملے میں پاکستان اور امریکا دونوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ بھارت پر خصوصی نظر رکھے جس نے محض پاکستان میں انتشار پیدا کرنے کے لیے افغانستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے ، اور اگر افغان طالبان اور امریکا کسی معاہدے پر پہنچ جاتے ہیں تو نہ صرف افغانستان میں کی گئی بھارتی سرمایہ کاری ڈوب جائے گی بلکہ پاکستان مستقبل میں اہم پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گا جس سے بھارت کا خطے کا چودھری بننے کا خواب ادھورا رہ جائے گا۔

    آثاردیکھ کر ایسا لگ رہا ہے کہ اب کی بار طالبان اور امریکا کے مذاکرات کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے میں کامیاب رہیں گے لیکن ماضی بتاتا ہے کہ موسمِ سرما میں کی جانے والی ایسی کوششیں ماضی میں کبھی کامیاب نہیں ہوئی ہیں۔ موسمِ سرما گزار کر افغان طالبان ہمیشہ ہی کابل کی افغان حکومت اور افغانستان میں موجود امریکی اور اتحادی فوجیوں پر حملے شروع کردیتے ہیں اور سرما میں مذاکرات کا مقصد تاحال ان کے لیے گرمیوں میں لڑی جانے والی جنگ کی یکسوئی سے تیاری کرنا ہے۔ پاکستان، افغانستان اور امریکی عوام پر امید ہیں کہ فریقین کے مذاکرات کامیابی سے ہمکنار ہوں اور خطے میں اب کی بار ’قیام امن کی ضرورت‘ اصل گیم چینجر ثابت ہو۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ امن کی بہار کی یہ خواہش کب پوری ہوتی ہے؟۔،

  • امریکا نے افغان امن عمل میں پاکستان سے مدد مانگ لی

    امریکا نے افغان امن عمل میں پاکستان سے مدد مانگ لی

    واشنگٹن : امریکا نے افغان امن عمل میں پاکستان سے مدد مانگ لی، امریکی صدرکی نائب معاون لیزا کرٹس کا کہنا ہے کہ امن مذاکرات میں پاکستان کا تعاون ضروری ہے۔

    تفیصلات کے مطابق امریکا نے خطے میں پاکستان کی اہمیت ایک بار پھر تسلیم کرلی اور افغانستان میں امن مذاکرات کے لیے پاکستان سے مدد مانگ لی۔

    امریکی صدر کی نائب معاون لیزا کرٹس نے کہا کہ طالبان سے مذاکرات کیلئے تیار ہیں لیکن ایسا پاکستان کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں، امن عمل میں پاکستان کے مفادات کا خیال رکھنا ہوگا۔

    لیزا کرٹس کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امن کے لئے پاکستان کے خدشات پرتوجہ دینا ہوگی، امریکا مذاکرات میں شامل ہوگا لیکن افغان حکومت کی نمائندگی نہیں کرے گا، افغانستان میں امن کی بحالی کے لئے کوششوں کو آگے بڑھا رہے ہیں۔

    خیال رہے کہ رواں سال  4 اپریل کو امریکی سفارت خانے کی جانب سے نائب سیکریٹری خارجہ ایلس ویلز کے دورہ پاکستان سے متعلق اعلامیے میں‌ کہا گیا تھا کہ پاکستان اور امریکہ مشترکہ تعاون کے ساتھ ہی افغانستان کے پرامن مسئلے کا حل تلاش کرسکتے ہیں

    اس سے قبل  یکم مارچ کو امریکا کی معاون نائب وزیرخارجہ ایلس ویلز کا کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال میں یہ نہ سمجھا جائے کہ پاکستان سے تعلقات ختم کرنے کا سوچ رہے ہیں، انتہا پسند تنظیموں کےخلاف پاکستان سے مل کر کام کرنا چاہتے ہیں۔

    واضح  رہے کہ نئے سال کے آغاز پرامریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ 15 سالوں میں 33 ارب ڈالر امداد دینے کے باوجود پاکستان نے امریکہ کو سوائے جھوٹ اور دھوکے کے کچھ نہیں دیا۔