Tag: Afghan presidential palace

  • اشرف غنی کی پاکستان کے کیخلاف سازشیں،  صدارتی محل سے برآمد دستاویز میں اہم انکشافات

    اشرف غنی کی پاکستان کے کیخلاف سازشیں، صدارتی محل سے برآمد دستاویز میں اہم انکشافات

    کابل: سابق افغان صدر اشرف غنی کے فرار کے بعد صدارتی محل سے برآمد ہونے والی دستاویز میں پاکستان مخالف پروپیگنڈا کیلئے سوشل میڈیا ٹیم کا انکشاف سامنے آیا ہے ، یہ ٹیم اشرف غنی،حمداللہ،محب اللہ صالح نے بنا رکھی تھی۔

    تفصیلات کے مطابق اشرف غنی کے فرار کے بعد صدارتی محل سے برآمد دستاویز میں اہم انکشافات سامنے آئے ، ذرائع کا کہنا ہے کہ اشرف غنی،حمداللہ،محب اللہ صالح نے 170لوگوں کی سوشل میڈیاٹیم بنا رکھی تھی، سوشل میڈیا کی ٹیم کامقصدپاکستان مخالف پروپیگنڈاکرنا تھا۔

    گذشتہ روز طالبان کے کابل میں داخل ہوتے ہی اشرف غنی ملکی صدارت کا عہدہ چھوڑ کر افغانستان سے فرار ہوگئے تھے، ابتدائی میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا جارہا تھا کہ وہ تاجکستان میں موجود ہیں لیکن اب وہاں سے تردید آچکی ہے۔

    ذرایع کے مطابق سابق افغان صدر اشرف غنی اس وقت ازبکستان میں موجود ہیں، انہوں نے مغربی ممالک میں پناہ کی درخواست دینے کی کوششیں کیں تاہم اشرف غنی کی امریکا سے پناہ حاصل کرنے کی درخواست ترجیح ہے۔

    خیال رہے افغان طالبان افغان دارالحکومت کابل اور بعد ازاں صدارتی محل کا کنٹرول حاصل کرچکے ہیں، افغانستان میں عبوری حکومت کے قیام کا اعلان ہوچکا ہے، طالبان کا کہنا تھا کہ کابل میں کوئی عبوری حکومت قائم نہیں ہوگی بلکہ فوری اورمکمل طور پر ‏انتقال اقتدارچاہتےہیں۔

  • نماز عیدالاضحیٰ کے دوران افغان صدارتی محل کے قریب راکٹ حملے

    نماز عیدالاضحیٰ کے دوران افغان صدارتی محل کے قریب راکٹ حملے

    کابل: نماز عیدالاضحیٰ کے موقع پر افغان صدراتی محل راکٹ حملوں سے گونج اٹھا۔

    افغان میڈیا کے مطابق آج افغان صدارتی محل کے قریب متعدد راکٹ حملے کئے گئے، جو کہ صدراتی محل کے قریب گرے۔

    راکٹ حملے عین اسوقت کئے گئے جب افغان صدارتی محل میں نماز عیدالاضحیٰ ادا کی جارہی تھی، جس میں افغان صدر اشرف غنی سمیت متعدد اعلیٰ اور عسکری حکام شریک تھے۔

    افغان میڈیا نے تصدیق کی ہے کہ راکٹ حملے ضلع پروان کے علاقے سے فائر کئے گئے ہیں جوکہ باغی علی مردان اور چمنِ ہزوری کے علاقوں میں گرے ،یہ علاقے صدارتی محل کے قریب واقع ہیں، فوری طور پر کسی گروہ نے راکٹ حملوں کی ذمے داری قبول نہیں کی ہے۔

    راکٹ حملوں کے بعد کابل اور اس کے اطراف سیکیورٹی فورسز کا گشت مزید بڑھادیا گیا ہے اور لوگوں کی نقل وحمل کو محدود کردیا گیا ہے۔

    گذشتہ روز افغان طالبان کے سربراہ ہیبت اللہ اخونزادہ نے افغانستان میں اپنی حکومت کا خاکہ پیش کیا تھا، ایجنڈے میں کہا گیا کہ طالبان انخلا کے بعد امریکا سمیت دنیا بھر سے سفارتی و معاشی تعلقات کے خواہاں ہیں۔

    طالبان افغان سرزمین کسی کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، اسی طرح ہمارے داخلی امور میں بھی دخل اندازی سے گریز کیا جائے۔

    یہ بھی پڑھیں: افغان طالبان کے سربراہ نے اپنی حکومت کا خاکہ پیش کر دیا

    ہیبت اللہ اخونزادہ کا کہنا تھا کہ غیر ملکی سفارت کاروں، سفارت خانوں اور سرمایہ کاروں کو ہر ممکن تحفظ دیں گے، افغانستان ہم سب کا گھر ہے، تمام ملکی فریقوں کے لیے بھی ہمارے دروازے کھلے ہیں، لیکن طالبان حقیقی اسلامی نظام چاہتے ہیں اس لیے ملکی فریق بھی اسے تسلیم کریں۔

    ایجنڈے میں یہ بھی کہا گیا کہ طالبان کی صفوں میں شامل ہونے والے سرکاری اہل کاروں اور فوجیوں سے وعدے پورے کیے جائیں گے، حکومت کے قیام اور ملک کی ترقی میں افغان اقوام کا بڑا کردار ہوگا۔

    ایجنڈے کے مطابق طالبان کے زیر اثر علاقوں میں مدارس، اسکول، کالجز اور یونیورسٹیاں کھلی رہیں گی۔