Tag: afghan taliban

  • لڑکیوں کو اسکول اور یونیورسٹی جانے جبکہ خواتین کو ملازمت کی اجازت ہوگی، افغان طالبان رہنما

    لڑکیوں کو اسکول اور یونیورسٹی جانے جبکہ خواتین کو ملازمت کی اجازت ہوگی، افغان طالبان رہنما

    ماسکو: افغان طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ عباس ستنکزئی نے کہا ہے کہ طالبان بزورِ طاقت پورے ملک پر قابض ہونا نہیں چاہتے کیونکہ اس کی وجہ سے امن قائم ہونا ممکن نہیں، غیر ملکی افواج کے مکمل انخلا تک جنگ بندی نہیں ہوگی۔

    روس کے دارالحکومت ماسکو میں برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے افغان طالبان رہنما کا کہنا تھا کہ جنگ سے زیادہ امن قائم کرنا مشکل ہے، مذاکرات کا عمل تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ افغان تنازع جلد ختم ہوجائے گا۔

    اُن کا کہنا تھا کہ طالبان نے افغانستان پر بزوزِ طاقت کبھی قبضے کی خواہش نہیں رکھی کیونکہ ایسے عمل کی وجہ سے ہمارے ملک میں امن نہیں آئے گا، مذاکراتی عمل اپنی جگہ مگر طالبان اُس وقت تک جنگ بندی نہیں کریں گے جب تک غیر ملکی افواج ہماری سرزمین سے چلی نہیں جاتیں۔

    مزید پڑھیں: افغانستان سے ایک ماہ میں داعش کا خاتمہ کردیں گے، افغان طالبان

    عباس ستانکزئی کا کہنا تھا کہ سنہ 1990 کی دہائی میں طالبان کے پاس اقتدار تھا مگر اُس وقت مخالف افغان گروپ مسلح مخالفت کرتے تھے جس پر انہیں بیٹھا کر سمجھایا اس طرح ملک میں امن قائم نہیں ہوگا بلکہ ہر چیز کا حل مذاکرات کے ذریعے ہی نکالا جاسکتا ہے۔

    افغان طالبان رہنما کا کہنا تھا کہ امریکی حکومت کے نمائندے زلمے خلیل زاد سے گزشتہ کچھ ماہ میں سلسلہ وار ملاقاتیں ہوئیں، جس اس بات کی نشاندہی ہیں کہ اب افغان جنگ کا تنازع ختم ہوجائے گا۔

    عباس ستانکزئی کا کہنا تھا کہ ’طالبان اقتدار حاصل کر کے اجارہ داری قائم کرنا نہیں چاہتے بلکہ ہم افغانستان کا وہ آئین ختم کردیں گے جو مغرب کی طرف سے مسلط کیا گیا، اسی طرح کی چیزیں امن کی راہ میں رخنہ ہیں‘۔

    مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ’طالبان کے بڑھتے اثرات سے خواتین کو بالکل خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ہم انہیں شریعت اور افغان ثقافت کے مطابق سارے حقوق اور تحفظ فراہم کریں گے، لڑکیاں اسکول ، یونیورسٹی جاسکیں گی اور خواتین ملازمت کی بھی اجازت ہوگی’۔

    یہ بھی پڑھیں: افغان طالبان آئندہ ہفتے روس میں افغان اپوزیشن پارٹیزسے ملاقات کریں 

    عباس ستانکزئی کا کہنا تھا کہ طالبان کے ایک رکن اس بات کی وضاحت بھی کرچکے کہ خواتین ملک کی صدر تو نہیں ہوسکتیں مگر سرکاری اور سیاسی دفاتر میں امور انجام دے سکیں گی۔

    یاد رہے کہ عباس ستانکزئی گزشتہ کافی عرصے سے قطر میں کھولے جانے والے طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ تھے اب انہیں افغان طالبان نے مذاکراتی کمیٹی کی سربراہی دی۔

  • افغانستان سے ایک ماہ میں داعش کا خاتمہ کردیں گے، افغان طالبان

    افغانستان سے ایک ماہ میں داعش کا خاتمہ کردیں گے، افغان طالبان

    دوحا : برطانوی نشریاتی ادارے کا کہنا ہے کہ افغان طالبان نے افغانستان سےداعش کاایک ماہ میں ختم کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم بھی افغانستان میں پائیدار امن چاہتے ہیں، داعش کاخاتمہ کررہے تھے افغان حکومت اورامریکانے پھر زندہ کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق افغان طالبان کے قطردفترکے ترجمان سہیل شاہین نے برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو میں افغانستان سے داعش کا ایک ماہ میں ختم کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا امریکا کے افغانستان سے جانے کے بعد داعش بڑا مسئلہ نہیں۔

    [bs-quote quote=”داعش کاخاتمہ کررہے تھے لیکن افغان حکومت اورامریکانے ان کوایک بارپھرزندہ کردیا” style=”style-7″ align=”left” author_name=”ترجمان افغان طالبان”][/bs-quote]

    ترجمان طالبان کا کہنا تھا کہ ہم بھی افغانستان میں پائیدار امن چاہتے ہیں، افغانستان میں داعش کبھی بھی کوئی بڑی قوت نہیں رہی ہے، داعش کاخاتمہ کررہے تھے لیکن افغان  حکومت اور امریکا انہیں دوسری جگہوں پرلے آئے اور ان کوایک بار پھر زندہ کردیا۔

    امریکا سے مذاکرات کے حوالے سے افغان طالبان کے ترجمان نے کہا کہ امریکا سے مذاکرات میں افغانستان سے انخلا اور افغان سرزمین کوکسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ کرنے پراصولی اتفاق ہوا ہے، امریکا سے مذاکرات کامیاب ہوئے تو دوسرے مرحلے  میں افغان حکومت سے بات چیت کرسکتے ہیں۔

    افغان حکومت سے بات چیت سے متعلق سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ ابھی امریکہ سے مذاکرات جاری ہے ، جب یہ کامیاب ہوں گے تو دوسرے مرحلے میں افغان حکومت سے بات چیت ہوسکتی ہے، فی الحال حالیہ مذاکرات میں ہم نے افغان حکومتی اداروں کو بحثیت ایک فریق تسلیم نہیں کیا ہے۔

    مزید پڑھیں : افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان طویل عرصے بعد جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا

    ترجمان نے مزید کہا کہ طالبان کی خواہش ہے کہ افغانستان میں ایک ایسی مضبوط حکومت قائم ہو جس سے خطے میں مکمل امن اور خوشحالی آئے اور عوام سکون کی زندگی گزارسکیں۔

    یادرہے 26 جنوری کو دوحہ میں ہونے والے امریکا اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات میں17سال سے جاری افغان جنگ کے خاتمے پر معاہدہ ہوا جبکہ فریقین میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کے پرامن انخلاء پر بھی اتفاق کیا گیا تھا۔

    غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کا کہنا تھا کہ جنگ بندی کے حوالے سے آئندہ چند روز ميں شيڈول طے کرليا جائے گا اور جنگ بندی کے بعد طالبان افغان حکومت سے براہ راست بات کریں گے۔

  • امریکا افغان طالبان مذاکرات، مثبت پیش رفت ہوئی ہے، مگر مکمل اتفاق نہیں‌ ہوا: زلمے خلیل زاد

    امریکا افغان طالبان مذاکرات، مثبت پیش رفت ہوئی ہے، مگر مکمل اتفاق نہیں‌ ہوا: زلمے خلیل زاد

    دوحہ: امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان نے کہا ہے کہ امریکا اور طالبان کے مابین ہونے والے مذاکرات میں مثبت پیش رفت ہوئی ہے، مگر مکمل اتفاق نہیں‌ ہوا.

    ان خیالات کا اظہار انھوں نے مذاکرات کا دور ختم ہونے کے بعد اپنے ٹویٹ میں کیا. زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ مذاکرات کے بعد بات چیت کے لئے افغانستان جا رہا ہوں.

    زلمے خلیل زاد نے لکھا کہ دوحہ میں طالبان سے ملاقاتیں مفید رہیں، اہم ایشوزپرمثبت پیش رفت ہوئی ہے.

    امریکی نمائندہ خصوصی برائےافغانستان نے کہا کہ مذاکرات کا حالیہ دور گزشتہ ادوار سے بہت اچھا رہا، بات چیت کا تسلسل جاری رکھتے ہوئے جلد مذاکرات کا آغاز کریں گے.

    زلمے خلیل زاد نے کہا کہ ابھی مکمل اتفاق نہیں ہوا، کچھ معاملات باقی ہیں، جب تک سب باتوں پر اتفاق نہیں ہو جاتا کچھ بھی منظورنہیں ہوگا.

    مزید پڑھیں: افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان طویل عرصے بعد جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا

    انھوں نے لکھا کہ سب باتوں پراتفاق میں افغانوں کے مابین مذاکرات اور جامع جنگ بندی شامل ہے، مذاکرات کرانے کے لئے قطرحکومت کے شکرگزار ہیں.

    زلمے خلیل زاد نے اس موقع پر خصوصی طورپر قطر کے نائب وزیراعظم، وزیر خارجہ کی شمولیت پر شکریہ ادا کیا.

    یاد رہے کہ طالبان اور امریکا کے درمیان دوحہ میں ہونے والے مذاکرات میں17 سال سے جاری افغان جنگ کے خاتمے پر بنیادی معاہدہ طے پا گیا ہے، فریقین افغانستان سے غیر ملکی افواج کے پرامن انخلاء پر متفق ہوگئے ہیں.

  • افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان طویل عرصے بعد جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا

    افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان طویل عرصے بعد جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا

    دوحہ : طالبان اور امریکا کے درمیان دوحہ میں ہونے والے مذاکرات میں17سال سے جاری افغان جنگ کے خاتمے پر معاہدہ ہوگیا ہے،  فریقین افغانستان سے غیر ملکی افواج کے پرامن  انخلاء پر متفق ہوگئے۔

    تفصیلات کے مطابق دوحہ میں امریکا اور افغان طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات ختم ہوگئے، مذکرات میں اس بات پر اتفاق کیا گیا ہے کہ افغانستان سے غیرملکی افواج18ماہ کے اندر واپس چلے جائیں گی۔

    جنگ بندی کے حوالے سے آئندہ چند روز ميں شيڈول طے کرليا جائے گا، غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق جنگ بندی کے بعد طالبان افغان حکومت سے براہ راست بات کریں گے۔

    مذاکرات کے بعد امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مصالحتی عمل زلمے خلیل زاد قطر سے افغانستان کیلئے روانہ ہوگئے ہیں، زلمے خلیل افغان صدر اشرف غنی کو طالبان سے مذاکرات کی تفصیلات سے آگاہ کریں گے۔

    واضح رہے کہ امریکی حکام اور افغان طالبان کے درمیان گزشتہ ایک ہفتے سے قطر میں مذاکرات کا سلسلہ جاری تھا جس میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلاء اور جنگ بندی پر غور کیا جارہا تھا۔

    مزید پڑھیں: افغانستان سے اچانک انخلاء یا حکمت عملی میں تبدیلی نقصان دہ ہوگی، امریکہ کا اعتراف

    یاد رہے کہ چند روز قبل طالبان نے امریکا کے ساتھ ہونے والے یہ مذاکرات ملتوی کردیے تھے ، جس کے بعد امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے پہلے افغانستان اور پھر پاکستان کا دورہ کیا تھا۔

    افغانستان میں انتہائی مصروف شیڈول گزارنے کے بعد انہوں نے پاکستان کی اعلیٰ ترین سول اور عسکری قیادت سے ملاقاتیں کی تھیں ۔ ان کے دورے کے بعد دفترِ خارجہ کی جانب سے اعلامیہ جاری کیا گیا تھا کہ پاکستان خطے میں دیرپا امن کا خواہش مند ہے اور امید ہے کہ مذاکرات کا عمل جلد بحال ہو۔

  • افغان طالبان اورامریکا میں مذاکرات کا اگلا دور کل سے شروع ہوگا

    افغان طالبان اورامریکا میں مذاکرات کا اگلا دور کل سے شروع ہوگا

    دوحا : افغان طالبان اورامریکامیں مذاکرات کا اگلا دورکل سےقطرمیں شروع ہوگا ، طالبان نے مذاکرات کی تصدیق کر تے ہوئے کہا ہے کہ مذاکرات میں طالبان اور امریکا کے علاوہ کوئی دوسرا ملک شرکت نہیں کرے گا۔

    تفصیلات کے مطابق افغان میڈیا نے طالبان رہنما کے حوالے سے بتایا کہ افغان طالبان اورامریکی حکام کے درمیان مذاکرات کا اگلا دوربدھ سے قطرمیں ہوگا، امریکی نمائندوں اورطالبان کے درمیان دوحا میں مذاکرات دو دن جاری رہیں گے۔

    طالبان کا مذاکرات کی تصدیق کر تے ہوئے کہنا ہے کہ قطر مذاکرات میں افغان حکومت کے نمائندے کو شرکت کی اجازت نہیں دی، کابل حکومت کٹھ پتلی حکومت ہے ، مذاکرات میں طالبان اورامریکا کے علاوہ کوئی دوسرا ملک شرکت نہیں کرے گا۔

    یاد رہے دسمبر میں متحدہ عرب امارات میں افغان امن مذاکرات میں طالبان اور امریکا کے ساتھ پاکستان ، سعودی عرب اور یو اے ای کے نمائندوں نے بھی شرکت کی تھی، جس میں افغانستان میں ممکنہ جنگ بندی اور غیر ملکی افواج کے انخلا کے بارے میں بات چیت کی گئی۔

    مزید پڑھیں : طالبان سے مذاکرات کے بعد امریکا کے خصوصی مندوب افغانستان پہنچ گئے

    طالبان کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا تھا کہ انہوں نے خصوصی امریکی مندوب زلمے خلیل زاد کے ساتھ ملاقات اور ابتدائی بات چیت کی ہے اور یہ کہ مذاکرات کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔

    خیال رہے افغانستان میں امن کی بحالی کے لئے امریکا اور طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں پاکستان نے اہم کردار ادا کیا تھا۔

    وزیرِ اعظم نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ "ہم امید کرتے ہیں کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان شروع ہونے والے مذاکرات سے افغانستان میں امن کی راہ ہموار ہوگی اور تین دہائیوں سے جاری جنگ کے باعث افغانیوں کی مشکلات ختم ہوں گی۔”

    واضح رہے کہ رواں ماہ کے آغاز میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وزیراعظم عمران خان کو خط ارسال کیا تھا، خط میں امریکی صدر نے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے پاکستان سے مدد مانگ تھی۔

  • افغان طالبان کے کمانڈر ملا برادر کی رہائی، سفارتخانے کے ترجمان کی تصدیق

    افغان طالبان کے کمانڈر ملا برادر کی رہائی، سفارتخانے کے ترجمان کی تصدیق

    کابل: افغانستان میں تعینات پاکستانی سفارت خانے کے ترجمان نے پاکستان کی طرف سے افغان طالبان کے ڈپٹی چیف ملا عبد الغنی برادر  اور ملا عبدالصمد کی رہائی کی تصدیق کردی۔

    کابل میں موجود پاکستانی سفارت خانے کے ترجمان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’پاکستان نےافغان طالبان کےڈپٹی چیف ملاعبدالغنی برادر اور  ملا عبدالصمد ثانی کو رہا کردیا‘۔

    ذرائع کے مطابق ملابرادرکی رہائی افغان امریکی مفاہمتی عمل کو ممکن بنانےکے لیے عمل میں لائی گئی، امریکا کے نمائندہ خصوصی نے پاکستان سے رہائی کی درخواست کی تھی۔

    ذرائع کا کہنا تھا کہ امریکی نمائندہ خصوصی  افغان مفاہمتی عمل نےرہائی کی درخواست کی تھی، دونوں افراد کی رہائی سے افغانستان میں موجود طالبان کو مثبت پیغام دیا جائے گا جس کے بعد انہیں مفاہمتی عمل میں باضابطہ حصہ بنانے کی کوشش بھی کی جائے گی۔

    یاد رہے کہ ملاعبدالغنی برادرکو 2010میں کراچی سےگرفتارکیا گیا تھا، اُن پر مختلف نوعیت کے سنگین مقدمات کا الزام تھا۔

  • طالبان شہریوں کی زندگیوں کوغیرمحفوظ بنارہے ہیں، امریکی سیکریٹری خارجہ

    طالبان شہریوں کی زندگیوں کوغیرمحفوظ بنارہے ہیں، امریکی سیکریٹری خارجہ

    واشنگٹن : امریکا کے قائم مقام سیکریٹری خارجہ جان سلیوان افغان طالبان کو پیغام دیتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان کی جانب سے نئے حملوں کے اعلان کا کوئی جواز نہیں بنتا، طالبان معصوم شہریوں کی زندگیوں کو غیر محفوظ بنارہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق امریکا کے سیکریٹری خارجہ جان سلیوان نے افغانستان میں طالبان کی جانب سے حالیہ دنوں ہونے والے حملوں کے پیغام دیا ہے کہ ’طالبان پناہ گاہوں سے باہر نکل کر ملک کی تعمیر نو کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔

    جان سیلوان کا کہنا تھا کہ افغان طالبان کی جانب سے نئے حملوں کی دھمکی دینا معصوم زندگیوں کو غیر محفوظ بنارہا ہے۔

    امریکی سیکریٹری خارجہ نے کہا ہے کہ امریکا ہر مشکل وقت میں افغانستان کی عوام کے ساتھ کھڑا ہے، افغان صدر کہہ چکے کہ طالبان گولیوں، بموں کو ووٹ میں تبدیل کردیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کے صدر اشرف غنی نے طالبان کو امن کی تاریخی پیش کش کی ہے، اس سے بہتر کوئی اور حل نہیں ہوسکتا۔

    قائم مقام سیکریٹری خارجہ کا کہنا تھا کہ طالبان کی جانب سے نئے حملوں کے اعلان کا کوئی جواز نہیں بنتا، حملوں میں ہمیشہ معصوم شہریوں کی جانیں ضائع ہوئی ہیں۔ امریکا کے سابق سیکریٹری خارجہ ریکس ٹلرسن کی بر طر فی کے بعد جان سلیوان کو قائم مقام سیکریٹری خارجہ منتخب کیا گیا تھا۔

     یاد رہے کہ افغانستان کے صدر اشرف غنی نے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کا منصوبہ پیش کیا تھا، جس میں بالآخرطالبان کو ایک سیاسی جماعت کے طور پر تسلیم کیا گیا تھا۔

    افغان صدراشرف غنی نے کابل میں ایک علاقائی کانفرنس کے دوران امن مذاکرات کا طریقۂ کار بتایا تھا۔ جو ان کے بقول ملک میں امن لانے کا بہترین طریقہ ہے۔

    انہوں نے کانفرنس کے دوران فورسز اور طالبان کے درمیان جنگ بندی کا مطالبہ کیا تھا جس کے بعد طالبان ایک سیاسی جماعت بن کر انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں۔

    خیال رہے کہ افغانستان میں برسرِ پیکار طالبان ملک میں اسلامی حکومت کا قیام چاہتے ہیں، جیسے سنہ 2001 میں ملک پر امریکی حملے سے قبل تھا۔

    واضح رہے کہ طالبان نے امریکہ کو تو براہِ راست مذاکرات کی پیشکش کی تھی، لیکن وہ کابل کے ساتھ مذاکرات کو تاحال مسترد کرتے آئے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • پاکستان میں امن وامان کی صورت حال بہترہوئی ہے‘ چینی سفیر

    پاکستان میں امن وامان کی صورت حال بہترہوئی ہے‘ چینی سفیر

    اسلام آباد : پاکستان میں چین کےسفیریاؤژنگ کا کہنا ہے چین پاکستان اور افغانستان کے درمیان اچھے تعلقات کا خواہاں ہے اور افغانستان میں مفاہمتی عمل کے لیے کوشاں ہے۔

    تفصیلات کےمطابق برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے چینی سفیریاؤژنگ نے کہا کہ پاکستان میں امن وامان کی صورت حال کافی بہترہوئی ہے۔

    یاؤژنگ نے کہا کہ گوادر بندرگاہ بین الاقوامی تجارتی مرکز بننے کے قریب ہے، سی پیک منصوبے پرپاکستان میں 10 ہزار چینی باشندے جبکہ 60 ہزار کے قریب پاکستانی کام کررہے ہیں۔

    چینی سفیر نے کہا کہ سی پیک پہلے مرحلے میں ہے اور اب تک 21 منصوبوں پرکام جاری ہے جبکہ 20 مزید منصوبے پائپ لائن میں ہیں۔

    انہوں نے انٹرویو میں کہا کہ پاکستان میں امن اومان کی صورت حال کافی بہترہوئی ہے، چینی باشندوں کے تحفظ کے لیے پاکستان کے اقدامات سے مطمئن ہیں۔

    چینی سفیر یاؤژنگ نے کہا کہ سی پیک ہمسایہ ملک افغانستان سمیت خطے کے دوسرے ممالک تک پھیلایا جائے گا۔

    انہوں نے بتایا کہ چین کا افغان طالبان پراثرورسوخ نہیں ہے تاہم قطر میں طالبان دفتر سے رابطے ہیں۔


    سی پیک کھلی کتاب ہے‘ چینی سفیر


    یاد رہے کہ گزشتہ برس 9 دسمبر کو پاکستان میں چین کے سفیریاؤژنگ کا کہنا تھا کہ سی پیک کے پیچھے کوئی خفیہ ایجنڈا نہیں، یہ ایک کھلی کتاب کی طرح ہے، تحفظات رکھنے والے ممالک پاکستان آئیں اور سی پیک کو سمجھیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔

  • افغان طالبان قیادت کوئٹہ اورپشاورمیں پناہ گزین ہے، امریکی کمانڈرکی ہرزہ سرائی

    افغان طالبان قیادت کوئٹہ اورپشاورمیں پناہ گزین ہے، امریکی کمانڈرکی ہرزہ سرائی

    کابل : امریکی صدر کے بعد امریکی فوجی کمانڈر نے بھی پاکستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کا الزام عائد کردیا، انہوں نے کہا کہ کوئٹہ شورٰی اورپشاور شورٰی حقیقت ہیں۔

    ان خیالات کا اظہار افغانستان میں تعینات امریکی فوج کے کمانڈر جنرل جان نکلسن نے افغان ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا، اس موقع پر افغان ٹی وی چینل طلوع کا میزبان امریکی کمانڈرکو پاکستان میں حملے کےلیےاکساتا رہا۔

    ٹی وی کا اینکرجنرل نکلسن کو بار بار یہ کہتا رہا کہ کیا آپ افغان سرحد کی دوسری طرف بھی پناہ گاہوں پر حملہ کریں گے؟ جس کا انہوں نے کوئی خاص جواب نہ دیا۔

    جنرل نکلسن نے کہا کہ کوئٹہ شورٰی اورپشاور شورٰی حقیقت ہیں، افغان طالبان کی قیادت پاکستان کے شہروں کوئٹہ اور پشاور میں رہتی ہے اور وہ اس سے باخبر ہیں۔

    جنرل نکلسن نےانٹرویو میں یہ بھی کہا کہ وہ دہشت گردی کیخلاف پاکستان کی قربانیوں اورپاکستانی فوج کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کااحترام کرتے ہیں۔


    مزید پڑھیں: پاکستان نے دہشتگردوں کی پناہ گاہیں ختم کردیں، آرمی چیف


    جنرل نکلسن نے مزید کہا کہ دہشت گردوں اور باغیوں کی حمایت کو بھی روکنا ہو گا اور ان کی مالی امداد روکنے کے لئے بھی اقدامات کرنا ہوں گے، افغانستان کے باہر دہشت گردوں کی پناہ گاہیں سنگین مسئلہ ہے اور اسے حل کرنا ہو گا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔

  • امریکی محکمہ خارجہ کی افغان طالبان کودہشتگردقراردینے سے معذرت

    امریکی محکمہ خارجہ کی افغان طالبان کودہشتگردقراردینے سے معذرت

    واشنگٹن : امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان نے افغان طالبان کودہشت گرد قرار دینے سے معذرت کرلی۔

    امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ہیتھر ناؤوٹ نے پریس بریفنگ کے دوران اے آروائی نیوز کے نمائندے کے سوال پر افغان طالبان کودہشتگردقراردینے سے معذرت کرلی۔

    امریکی ترجمان نے جواب میں کہا کہ نئی افغان پالیسی تشکیل کے مراحل میں ہے، نئی پالیسی کا انتظارکریں، نئی افغان پالیسی سے پہلے افغانستان کے معاملات پرکوئی تبصرہ نہیں کرسکتی۔

    ہیدرنوئیرٹ نے کہا کہ جموں کشمیر میں دہشت گرد حملوں پر تشویش ہے، مذہبی رسومات ادا کرنے والوں پر حملہ ناقابل قبول ہے، ہمیں نہیں معلوم کہ ان حملوں کا ذمہ دارکون ہے۔

    یاد رہے اس سے قبل امریکہ نے افغانستان میں امن کو سیاسی مفاہمت سے مشروط کرتے ہوئے پاکستان پر زور دیا تھا کہ وہ اپنے ہمسایہ ملک میں امن عمل میں حصہ لینے کے لیے طالبان کو قائل کرے ۔

    امریکی محکمہ خارجہ نے کہا کہ مریکہ افغانستان میں امن بحال کرنے کے لیے سیاسی حل کی جانب ہی دیکھتا ہے کیونکہ فوجی حل کے ذریعے افغانستان میں امن بحال کرنا مشکل ہوجائے گا۔

    انہوں نے کہا کہ وہاں لوگ کافی عرصے سے حالت جنگ میں ہیں اور امریکہ نے افغان حکومت کی مدد جاری رکھی ہوئی ہے ۔

    امریکی تھنک ٹینک میں موجود افغان ماہرین کا خیال ہے کہ افغانستان کے مسائل کے حوالے سے اپنے خیالات کو عوامی سطح پر شیئر کرنے سے امریکی پالیسی سازی کے عمل پر اثر انداز ہونے کا یہ اچھا موقع ہے ۔


    اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئر کریں۔