Tag: AFGHAN WAR

  • افغان جنگ میں‌ کتنے امریکی مارے گئے، تمام تفصیلات جاری

    افغان جنگ میں‌ کتنے امریکی مارے گئے، تمام تفصیلات جاری

    واشنگٹن: افغانستان میں امریکی جنگ کے 20 برسوں میں کیا کھویا اور کیا پایا، غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کی جانب سے ایک تفصیلی تحقیقی رپورٹ جاری کی گئی ہے۔

    رپورٹ کے مطابق افغان جنگ پر 22 کھرب ڈالر سے زائد اخراجات کیے گئے، جب کہ 20 برسوں میں 2 لاکھ 41 ہزار افراد ہلاک ہوئے، ان اموات میں امریکی بھی شامل ہیں۔

    افغان جنگ میں 71 ہزار 344 عام شہری ہلاک ہوئے، 2 ہزار 442 امریکی فوجی اہل کار ہلاک ہوئے، دیگر ہلاک اتحادی فوجیوں کی تعداد 1,144 ہے، نیٹو میں امریکا کے بعد سب سے زیادہ نقصان برطانیہ کا ہوا، برطانیہ کے 455 فوجی اس جنگ میں ہلاک ہوئے۔

    کابل ایئرپورٹ چھوڑتے ہوئے امریکی فوج کی عجیب و غریب حرکت

    رپورٹ کے مطابق افغان جنگ میں 3 ہزار 846 امریکی کنٹریکٹر بھی ہلاک ہوئے، ہلاک افغان سیکیورٹی اہل کاروں کی تعداد 78 ہزار 314 ہے، 444 امدادی کارکن اور 72 صحافی بھی مارے گئے، افغان جنگ میں 84 ہزار 191 مخالفین کی ہلاکتیں بھی شامل ہیں۔

    خبر ایجنسی کے مطابق جنگ پر امریکا کے 22 کھرب 60 ارب ڈالرز خرچ ہوئے، جنگ کی ابتدا میں افغانستان میں 98 ہزار امریکی فوجی تعینات تھے، فروری 2020 تک افغانستان میں 14 ہزار امریکی فوجی رہ گئے تھے، یکم مئی 2021 امن معاہدے کے بعد افغانستان میں نیٹو کے 9500 فوجی تھے، ان میں سب سے زیادہ امریکی فوجیوں کی تعداد 2500 تھی۔

    رپورٹ کے مطابق صرف 20-2009 کے دوران 38 ہزار شہری ہلاک ہوئے، 20-2009 کے دوران 70 ہزار افراد زخمی ہوئے، سب سے زیادہ شہریوں کی ہلاکتیں 2018 میں ریکارڈ ہوئیں۔

    افغان وزارت کے مطابق گزشتہ 3 سال 3 لاکھ 95 ہزار سے زائد افراد نے ملک سے نقل مکانی کی۔

  • امریکا کی افغان جنگ میں ناکامی ؟ کب کیا ہوا؟ جانیے !!

    امریکا کی افغان جنگ میں ناکامی ؟ کب کیا ہوا؟ جانیے !!

    گزشتہ 21 سال سے جاری افغان جنگ کے خاتمے کے بعد اب امریکا نے اپنی ناکامی کا مبینہ اعتراف کرتے ہوئے بالآخر واپسی کا فیصلہ کر ہی لیا، یہ جنگ امریکا کے گلے میں پھنسی ایسی ہڈی بن گئی تھی جسے وہ نہ نگل سکتا تھا اور نہ ہی اُگل سکتا تھا۔

    امریکی صدر جو بائیڈن نے اعلان کیا تھا کہ رواں سال 11 ستمبر تک تمام امریکی فوجی دستے افغانستان سے واپس بلالیے جائیں گے۔

    افغانستان میں سب سے بڑا فوجی اڈہ بند کرنے کے ساتھ ہی گویا امریکا نے جنگِ افغانستان کے خاتمے کا باقاعدہ اعلان کردیا ہے جس کا فیصلہ گزشتہ سال طالبان کے ساتھ کیے گئے معاہدے میں کیا گیا تھا۔

    کابل سے تقریباً 60 کلومیٹرز کے فاصلے پر موجود بگرام ایئر بیس سے امریکی افواج کی وطن واپسی افغانستان میں امریکی مداخلت کا خاتمہ ہے کیونکہ مسلح افواج اسی ایئر بیس سے ہی یہاں کی اپنی تمام تر کارروائیاں کرتی تھی۔

    جنگ سے آغاز سے اختتام تک گزشتہ 21سال میں کون سے اہم واقعات پیش آئے؟ جن میں سے کچھ اہم واقعات پر ہم قارئین کو آگاہ کریں گے۔

    ‏11 ستمبر 2001ء – افغانستان میں امریکی آمد کا سبب دراصل نائن الیون کے حملے تھے کہ جن کی ذمہ داری القاعدہ نے قبول کی، جس کے سربراہ اسامہ بن لادن اس وقت افغانستان میں طالبان کے سائے تلے موجود تھے۔

    ‏7 اکتوبر 2001ء – امریکی فوج نے طالبان اور القاعدہ پر فضائی حملوں کا آغاز کیا۔ بمباری مہم کی رہنمائی اور طالبان مخالف مقامی دھڑوں کو منظم کرنے کے لیے امریکا کی اسپیشل فورسز اور سی آئی اے ایجنٹ افغانستان میں داخل ہوئے۔

    ‏13 نومبر 2001ء – امریکا کے حمایت یافتہ شمالی اتحاد کی فوجیں کابل میں داخل ہو گئیں اور طالبان جنوب کی طرف پسپا ہو گئے۔ یعنی تقریباً ایک مہینے کی کار روائی نے طالبان رہنماؤں کو فرار پر مجبور کر دیا۔

    ‏2 مئی 2003ء – امریکی حکام نے افغانستان میں اہم جنگی آپریشنز کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔ صدر جارج ڈبلیو بش کی زیر قیادت اب امریکا کی توجہ عراق پر حملے کے لیے تیاریوں پر تھی۔ جس کے لیے امریکی فوجیوں اور جنگی ساز و سامان بڑے پیمانے پر منتقل کیا گیا۔ یوں طالبان کو دوبارہ منظم ہونے کا موقع ملا، جس نے ملک کے جنوبی اور مشرقی علاقوں میں اپنے قدم مضبوط کر لیے۔

    ‏17 فروری 2009ء – صدر براک اوباما نے کمانڈر اِن چیف کی حیثیت سے اپنا پہلا فوجی فیصلہ کیا اور مزید 17 ہزار فوجی افغانستان بھیجنے کا حکم دیا تاکہ وہ بڑھتی ہوئی شورش کو روک سکیں۔ یہ دستے ان 38 ہزار امریکی اور 32 ہزار نیٹو فوجیوں کے ساتھ مل گئے، جو پہلے سے ہی افغانستان میں موجود تھے۔

    یکم مئی 2011ء – امریکا نے پاکستان میں داخل ہو کر ایک کار روائی میں اسامہ بن لادن کو قتل کر دیا۔ یہ وہی وقت تھا جب افغانستان میں امریکی فوج کی تعداد تاریخ کی بلند ترین سطح پر تھی، یعنی ایک لاکھ سے بھی زیادہ ۔ جبکہ افغانستان اور پاکستان میں طالبان اور دیگر دھڑوں کے خلاف سی آئی اے کے ڈرون حملے بھی بڑھ رہے تھے۔

    دسمبر 2011ء – امریکی حکام نے کہا کہ امریکی سفارت کاروں نے گزشتہ 10 ماہ کے دوران جرمنی اور قطر میں افغان طالبان رہنماؤں کے ساتھ نصف درجن سے زیادہ ملاقاتیں کی ہیں۔

    ‏27 مئی 2014ء – صدر اوباما نے سال کے اختتام تک 9,800 فوجیوں کو چھوڑ کر باقی تمام امریکی دستوں کو افغانستان سے نکالنے اور 2016ء کے اختتام تک باقی ماندہ کے بھی انخلا کا منصوبہ بنایا۔

    ‏28 دسمبر 2014ء – زیادہ تر جنگی دستوں کے انخلا اور جنگ کی قیادت افغانستان کو منتقل کر کے امریکی جنگی مشن کی با ضابطہ تکمیل کر دی گئی۔ تقریباً 10 ہزار امریکی فوجی بدستور افغانستان میں موجود تھے، جن کی توجہ افغان فوج کو تربیت دینے اور دہشت گردی کے خاتمے پر رہی۔

    ‏21 اگست 2017ء – صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان کو کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات پر مجبور کرنے کے لیے لا محدود امریکی فوج اتارنے کا اعلان کیا۔

    ‏4 ستمبر 2018ء – طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے افغانستان میں پیدا ہونے والے سفارت کار زلمی خلیل زاد کو امریکا کا نمائندہ خصوصی مقرر کیا گیا۔

    ‏29 فروری 2020ء – امریکا نے دوحہ میں طالبان کے ساتھ فوج کے انخلا کا معاہدہ کر لیا جس کے مطابق افغان حکومت اور طالبان آپس میں امن مذاکرات کریں گے۔

    ‏12 ستمبر 2020ء – افغان حکومت اور طالبان مذاکرات کاروں نے کئی ماہ کی تاخیر کے بعد بالآخر دوحہ میں امن مذاکرات کا آغاز کر دیا۔

    ‏2 دسمبر 2020ء – افغان حکومت اور طالبان امن مذاکرات کے طریق کار پر اپنے ابتدائی معاہدے تک پہنچ گئے، یہ 19 سال کی جنگ کے بعد پہلا تحریری معاہدہ تھا۔

    ‏14 اپریل 2021ء – امریکی صدر جو بائیڈن اعلان کیا کہ امریکی افواج طالبان کے ساتھ معاہدے کے تحت مئی تک فوجی انخلا نہیں کر سکتیں، البتہ 11 ستمبر سے پہلے غیر مشروط انخلا مکمل ہو جائے گا۔

    ‏26 جون 2021ء – جو بائیڈن نے وائٹ ہاؤس میں افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کی اور مطالبہ کیا کہ افغان اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کریں جبکہ سکیورٹی حوالوں سے امداد جاری رکھنے کا عہد بھی کیا۔

    ‏2 جولائی 2021ء – امریکا نے کابل کے نواح میں واقع اپنا سب سے بڑا فوجی اڈہ بگرام خالی کر دیا، ایک ایسے وقت میں ملک کے طول و عرض میں پر تشدد کار روائیاں عروج پر نظر آ رہی ہیں۔

  • افغانستان کے مسئلے کا واحد حل پرامن مذاکرات ہیں، کوئی فوجی حل نہیں،شاہ محمود قریشی

    افغانستان کے مسئلے کا واحد حل پرامن مذاکرات ہیں، کوئی فوجی حل نہیں،شاہ محمود قریشی

    اسلام آباد: وزیرخارجہ شاہ محمودقریشی کا کہنا ہے کہ افغانستان کے مسئلے کا واحد حل پرامن مذاکرات ہیں، مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں، تمام فریقین کو  افغانستان میں امن کے عمل کےلئے کوششیں کرنی چاہیئے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیرخارجہ شاہ محمودقریشی نے امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کے افغان عمل سے متعلق بیان پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ افغانستان کے مسئلے کا واحد حل پرامن مذاکرات ہیں، مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں۔

    شاہ محمودقریشی کا کہنا تھا افغان مسئلے پر مزاکراتی حل کے ذریعے ہی آگے بڑھا جا سکتا ہے، پاکستان یقین رکھتاہےپرامن مذاکرات افغان مسئلےکاحل ہے، تمام فریقین کو افغانستان میں امن کے عمل کےلئے پرعزم ہونا چاہیے۔

    وزیرخارجہ نے کہاکہ پاکستان نے تمام امن کوششوں کی بھرپور حمایت کی ہے، پاکستان افغان امن عمل میں تمام افغانوں کی شرکت کا حامی ہے۔

    مزید پڑھیں : پاکستان افغان امن عمل کے لیے اپنا کردار ادا کرتا رہے گا: شاہ محمود قریشی

    چند روز قبل وزیرخارجہ کا کہنا تھا پاکستان پرامن ملک ہے،ہمسائیوں سےاچھےتعلقات چاہتےہیں، ہم دوسرےممالک سےبھی ذمہ دارانہ رویےکی توقع رکھتےہیں، پاکستان ذمہ دارملک ہے، ایٹمی عدم پھیلاؤ پر یقین رکھتے ہیں، خطےمیں توازن کیلئےمیزائل ٹیکنالوجی اور جوہری اسلحہ پر ذمہ داری کامظاہرہ کرناہوگا، خطے میں پائیدارامن کیلئے مسئلہ کشمیر کا حل ناگزیر ہے۔

    اس سے قبل امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد کے ٹویٹ کے جواب شاہ محمودقریشی کا کہنا تھا افغان امن عمل کے لیے پاکستان سہولت فراہم کرتا رہے گا، ہمارا یقین ہے کہ افغانیوں پر مشتمل مفاہمتی عمل ہی سے پائیدار امن کا حصول ممکن ہے۔

  • آئی ایس آئی کے سابق سربراہ حمید گل انتقال کرگئے

    آئی ایس آئی کے سابق سربراہ حمید گل انتقال کرگئے

    کراچی: آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) حمید گل برین ہیمرج کے سبب 79 سال کی عمر میں انتقال کرگئے ہیں ۔

    لیفٹیننٹ جنرل حمید گل ناسازیِ طبع کی بنا پر مری میں موجود تھے جہاں  فشارِخون کے سبب ان کو مری کے کمبائنڈ ملٹری اسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ خالق حقیقی سے جا ملے۔


    جنرل (ر) حمید گل کامسئلہ کشمیر پریادگار انٹرویودیکھنے کے لئے نیچے اسکرول کریں


    Hameed gul

      ذرائع کے مطابق حمید گل اہل خانہ کے ہمراہ مری میں تھے کہ اسی دوران انہیں برین ہیمرج ہوا،  ڈاکٹروں مطابق حمید گل کو برین ہیمرج ہوا  تھا اوران کا بلڈ پریشر انتہائی کم تھا جس کی وجہ سے انہیں کسی دوسرے اسپتال منتقل نہیں کیا جا سکا اورکچھ دیر بعد ہی وہ سی ایم ایچ مری میں انتقال کرگئے۔

    ابتدائی زندگی


    حمید گل کے خاندان کا تعلق سوات سے ہے، آپ معروف قبیلے یوسفزئی سے تعلق رکھتے ہیں۔آپ کے دادا فیض خان جمعیت المجاہدین کے رکن تھے،شاہ اسماعیل شہید جب سوات سے گزرے تو ان کے ساتھ مل گئے اور پھر شاہ اسماعیل کی شہادت کے بعد لاہور آگئے،کچھ سال کے بعد سرگودھا میں زمین ملی تو وہاں آباد ہوگئے۔

    فوج میں شمولیت


    20نومبر 1936 کو سرگودھا میں پیدا ہونے والے حمید گل نے اکتوبر 1956 میں فوج میں کمیشن حاصل کیا۔وہ 1965 کی جنگ میں چونڈہ کے محاذ پر ٹینک کمانڈر رہے۔

    Hameed gul

    سن 1968-69 میں کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کوئٹہ میں تربیت حاصل کرنے کے بعد 76-1972 تک بٹالین کمانڈر رہے اور1978 میں انہیں ترقی دے کربریگیڈئیربنایا گیا۔

    اس کے بعد وہ بتدریج ترقی کرکے بہاولپورکے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اورملتان کے کورکمانڈر رہے۔

    افغان جنگ


    حمید گل 89-1987 تک آئی ایس آئی کے سربراہ رہے، اس دوران سوویت یونین کی افغانستان میں جارحیت کے حوالے سے ان کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل رہا۔

     اسلامک ڈیموکریٹک الائنس کی تشکیل میں بھی جنرل (ر) حمید گل نے اہم کردارادا کیا تھا۔

    خدمات کااعتراف


    سن 1992 میں فوج سے ریٹائر ہونے والے حمید گل کو ان کی خدمات پر ہلال امتیاز (ملٹری) اور ستارہ بسالت سے نوازا گیا۔

    تعزیت


    آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے حمید گل کے انتقال پر تعزیت کااظہارکیاہے۔

    صدر ممنون حسین ، وزیر اعظم نواز شریف، پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان، ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین، جے یو آئی (ایف ) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اور دیگر سیاسی رہنماؤں نے بھی جنرل (ر)حمید گل کے انتقال پراظہار افسوس کیاہے۔

    آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کے انتقال پر پاکستان میں ان کے نام کا ٹرینڈ سب سے اوپر گردش کررہاہے جہاں عوام افغان جنگ میں ان کے کردار کے سبب متفرق کمنٹس کررہے ہیں۔

    hameed gul


    #HamidGul