Tag: Afghan women

  • افغان خواتین کی تعلیم پر پابندی کو ایک ہزار دن مکمل

    افغان خواتین کی تعلیم پر پابندی کو ایک ہزار دن مکمل

    طالبان نے 2021 میں اقتدار سنبھالتے ہی بچیوں کی تعلیم پر نام نہاد عارضی پابندی لگائی لیکن 8 جون 2024 کو اس عارضی پابندی کو ایک ہزار دن مکمل ہو چکے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق طالبان نے عورتوں پر نہ صرف رسمی تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے پر پابندی لگائی بلکہ گھروں میں غیر رسمی اسکولوں کو بھی زور زبردستی سے بند کروا دیا۔

    طالبان کے قبضے سے پہلے افغان شہری خصوصاً خواتین جو امریکی، یورپی یا دیگر ممالک کے ساتھ کام کر رہے تھے ان کو بھی خصوصی طور پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا، افغانستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں عورتوں کو تعلیم تک رسائی حاصل نہیں۔

    اقوام متحدہ کی جانب سے بھی طالبان کو بارہا وارننگز جاری کی جاچکی ہیں اور 18 جون 2024 کو اقوام متحدہ میں خصوصی رپورٹ بھی پیش کی جائے گی۔

    افغانستان میں انسانی حقوق پر اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے رچرڈ بینیٹ کی خصوصی رپورٹ میں طالبان کی عورتوں کیخلاف غیر انسانی اور مجرمانہ کاروائیوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

    رپورٹ میں طالبان کے امتیازی سلوک، انسانی حقوق کی پامالی اور خواتین کو خارج کرنے کے منظم اور باضابطہ نظام کیخلاف آواز اٹھائی گئی ہے، افغانستان میں عورتوں کے حقوق کی پامالی سب سے سنگین مسئلہ ہے جو کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید بدتر ہوتا جا رہا ہے۔

    مارچ 2024 میں طالبان کی جانب سے افغان خواتین کے خلاف پتھر اور کوڑے مار کر قتل کرنے کی سزائیں بھی سنائی گئیں، افغان خواتین میں خودکشی کی شرح بھی سنگین حد تک بڑھ چکی ہے۔

    اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے نے اپنی رپورٹ میں جن اقدامات کا مطالبہ کیا ہے ان میں مندرجہ ذیل شامل ہیں، بین الاقوامی قانون کے تحت صنفی نسل پرستی کو ایک جرم کے طور پر تسلیم کیا جائے، خواتین کے خلاف ہر قسم کے امتیازی سلوک کے خاتمے کے کنونشن کی خلاف ورزیوں پر طالبان کیخلاف بین الاقوامی عدالت میں مقدمہ دائر کیا جائے۔

    اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے نے مطالبہ کیا کہ بین الاقوامی عدالت میں طالبان کے جرائم کی تحقیقات کی جائیں، تمام ممالک طالبان کی قانونی حیثیت کو کالعدم قرار دیں جب تک افغانستان میں انسانی حقوق کے تقاضے پورے نہ ہوں اور خصوصاً خواتین کیلئے بہتری کا مظاہرہ نہ کیا جائے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا طالبان اس مرتبہ اقوام متحدہ کے مطالبات پر کان دھریں گے یا اس بار بھی افغان خواتین اپنے حقوق سے محروم رہیں گی؟۔

  • اپنے خاندان سے بچھڑنے والی 2 افغان خواتین کو برسوں بعد وطن روانہ کر دیا گیا

    اپنے خاندان سے بچھڑنے والی 2 افغان خواتین کو برسوں بعد وطن روانہ کر دیا گیا

    کراچی: اپنے خاندان سے بچھڑنے والی 2 افغان خواتین کو ایدھی کی کوششوں سے برسوں بعد وطن روانہ کر دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق چند برس قبل گھر والوں سے بچھڑ کر دربدر ہوتے ہوئے پاکستان پہنچنے والی دو افغان خواتین ایدھی فاؤنڈیشن کی کوششوں سے اپنے وطن روانہ ہو گئیں، ضابطے کی کارروائی کے بعد انھیں افغان حکام کے حوالے کر دیا گیا۔

    نرگس اور راحیلہ کو ایدھی شیلٹر ہوم میں افغان حکام کے حوالے کیا گیا، مشکل حالات میں پناہ دینے اور گھر والوں کو تلاش کرنے پر دونوں افغان خواتین نے ایدھی فاؤنڈیشن کی کاوشوں کو سراہا۔ خواتین نے بتایا کہ انھوں نے مختلف وجوہ کے سبب اپنے گھروں کو چھوڑا تھا، تاہم اب گھر واپس جانے پر انھیں خوشی ہے۔

    افغان حکام دونوں خواتین کو افغانستان میں ان کے اہل خانہ کے حوالے کریں گے۔

    صبا فیصل ایدھی نے اس حوالے سے بتایا کہ دونوں خواتین کچھ سال قبل افغانستان سے براستہ کوئٹہ پاکستان اور پھر کراچی پہنچی تھیں، ایک خاتون اپنے گھر والوں سے لڑ کر کراچی آئی تھی اور دوسری علاج کے لیے آئی تھی، پولیس نے ان دونوں کو پکڑ کر ہمارے حوالے کر دیا تھا۔

    صبا فیصل ایدھی کے مطابق دونوں خواتین کو ایدھی شیلٹر ہوم میں رکھا گیا، فیصل ایدھی کی خصوصی ہدایت پر افغانستان کے جنرل قونصلر سے رابطہ کیا گیا، جس پر آج ان دونوں خواتین کو افغان حکام کے حوالے کر دیا گیا۔

  • 11 سال سے زائد افغان لڑکیاں تعلیم سے محروم ہیں، دی گارڈین کی رپورٹ

    11 سال سے زائد افغان لڑکیاں تعلیم سے محروم ہیں، دی گارڈین کی رپورٹ

    دی گارڈین کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خواتین پر تعلیمی پابندیوں کے حوالے سے افغانستان دنیا کا واحد ملک بن گیا ہے جہاں 11 سال سے زائد افغان لڑکیاں تعلیم سے محروم ہیں۔

    طالبان کے حکومت میں آنے کے بعد افغان خواتین پر اپنی ہی سرزمین تنگ کر دی گئی۔ طالبان حکومت نے خواتین کے بنیادی حقوق سلب کرتے ہوئے ان پر تعلیم حاصل کرنے سے لے کر زندگی کے مختلف امور پر پابندی عائد کی ہوئی ہے۔

    اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اسکول جانے کی عمر میں 80 فی صد افغان لڑکیاں تعلیم سے محروم ہیں، خواتین کی تعلیم پر پابندی سے 10 لاکھ سے زائد افغان لڑکیاں متاثر ہوئی ہیں، سال 2022 میں افغان طالبان کی جانب سے خواتین کی یونیورسٹیوں پر پابندی عائد کی گئی۔

    افغانستان کے شہر قندھار میں 10 سال سے زائد عمر کی لڑکیوں کو تعلیم سے روک دیا گیا جو کہ سراسر ظلم ہے، لڑکیوں کو سیکنڈری تعلیم سے محروم رکھنے سے افغان معیشت کو گزشتہ 12 ماہ میں 5 سو ملین سے زائد امریکی ڈالر کا نقصان ہوا، افغانستان کا تعلیمی سال شروع ہو رہا ہے، لیکن طالبان کی طرف سے اب بھی 10 لاکھ سے زیادہ لڑکیاں تعلیم سے محروم ہیں۔

    ایک افغان طالبہ نے کہا ہمارا خواب ہے کہ ہم اچھی تعلیم حاصل کریں لیکن طالبان ہمیں تعلیم سے محروم کر گئے ہیں، ہم روز چھپ کر اسکول آتے ہیں کہ کہیں طالبان ہمیں دیکھ کر روک نہ لیں، میں ڈاکٹر بننا چاہتی تھی لیکن طالبان نے یونیورسٹیز پر پابندی عائد کر دی ہے۔

    حال ہی میں افغان طالبان کی جانب سے تعلیمی مراکز میں ششم جماعت سے اوپر کی لڑکیوں پر پابندی کی اطلاع سنگین خطرے کی گھنٹی ہے، تعلیم کے علاوہ طالبان کے قبضے کے بعد افغان خواتین بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم ہیں۔

  • افغان خواتین پر تعلیم کے دروازے بند: پاکستان کا اظہار مایوسی

    افغان خواتین پر تعلیم کے دروازے بند: پاکستان کا اظہار مایوسی

    اسلام آباد: پاکستان نے افغان طالبان کی جانب سے خواتین کے لیے یونیورسٹی اور اعلیٰ تعلیم معطل کرنے کے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہر مرد و عورت کو اسلامی احکامات کے مطابق تعلیم حاصل کرنے کا فطری حق حاصل ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ترجمان دفتر خارجہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ افغان حکام طالبات کے لیے یونیورسٹی اور اعلیٰ تعلیم معطل کرنے کے فیصلے پر نظر ثانی کریں۔

    دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ افغانستان میں طالبات کے لیے یونیورسٹی اور علیٰ تعلیم کی معطلی کے فیصلے سے مایوسی ہے، اس معاملے پر پاکستان کا مؤقف واضح اور مستقل رہا ہے۔

    ترجمان کے مطابق ہر مرد و عورت کو اسلامی احکامات کے مطابق تعلیم حاصل کرنے کا فطری حق حاصل ہے، ہم افغان حکام پر زور دیتے ہیں کہ وہ اس فیصلے پر نظر ثانی کریں۔

    خیال رہے کہ افغان طالبان نے ملک کی یونیورسٹیوں میں خواتین کے لیے تعلیم پر پابندی عائد کر دی ہے، افغانستان میں پہلے ہی خواتین کو اکثر سیکنڈری اسکولوں میں جانے سے روک دیا گیا ہے۔

    3 ماہ قبل افغانستان بھر میں ہزاروں لڑکیوں اور خواتین نے یونیورسٹی میں داخلے کا امتحان دیا تھا، مگر طالبان نے مضامین کے انتخاب کے حوالے سے ان پر پابندیاں لگائی تھیں۔

    خواتین پر عائد کردہ پابندی کے تحت وہ وٹنری سائنس، انجینیئرنگ، اکنامکس اور زراعت میں تعلیم حاصل نہیں کر سکتیں جبکہ صحافت میں بھی ان کا جانا مشکل ہوگیا تھا۔

  • افغان خاتون پیمانہ اسد دوسری کوشش میں برطانوی کونسلر کا انتخاب جیت گئیں

    افغان خاتون پیمانہ اسد دوسری کوشش میں برطانوی کونسلر کا انتخاب جیت گئیں

    لندن: افغان خاتون پیمانہ اسد اللہ نے دوسری کوشش میں برطانوی کونسلر کا انتخاب جیت لیا، وہ روزیتھ کے علاقے سے کونسلر منتخب ہوئی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق تین مئی 2018 کے ہارو الیکشن میں سات امیدواروں کے درمیان تین سیٹوں کے لیے مقابلہ تھا جن میں لیبر پارٹی کی طرف سے پیمانہ اسد بائیس فیصد ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر آئیں۔

    2014 کے انتخابات میں انھوں نے نو فیصد ووٹ حاصل کیے تھے اور ناکام رہی تھیں۔ پیمانہ کا کہنا تھا کہ یہ کام یابی میرے لیے ایک اہم سنگ میل ہے۔

    نو منتخب برطانوی کونسلر نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ان سے قبل افغانستان سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی فرد برطانیہ کے کسی پبلک آفس کا عہدے دار نہیں بنا۔ خیال رہے کہ پیمانہ اسد افغانستان کے سب سے بڑے شہر اور دارالحکومت کابل میں پیدا ہوئیں، اور برطانیہ کے سب سے بڑے شہر لندن میں پرورش پائی۔

    کنگز کالج لندن سے آرٹس میں ماسٹر کرنے والی افغان تارک وطن خاتون کا کہنا ہے کہ ان کا بہترین دوست خدا ہے جس کے ساتھ وہ خیالوں میں باتیں کرتی رہتی ہیں اور اپنے ملک افغانستان کے ساتھ انھیں عشق ہے۔

    پیمانہ اسد نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ان کے انتخاب سے ثابت ہوگیا ہے کہ برطانیہ میں مقیم افغان کمیونٹی بھی یہاں کی سیاست میں سرگرم ہو سکتی ہے، اس سے برطانیہ میں جمہوری اقدار کا مستحکم ہونا بھی ثابت ہوتا ہے۔

    غیر قانونی قید خانوں میں افغان خواتین کی دردناک حالت زار


    غیر ملکیوں سے برطانوی باشندوں کی دن بہ دن بڑھتی نفرت کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ انتہائی دائیں بازو کے نظریات برطانیہ کی مرکزی سیاست کا حصہ بن رہے ہیں لیکن سول سوسائٹی، سیاستدانوں اور ٹریڈ یونینز میں نفرت کے اس بیانیے کے خلاف مزاحمت بھی پائی جاتی ہے۔

    انھوں نے بتایا کہ وہ چھ زبانیں بول سکتی ہیں جن میں دری، پشتو، اردو، ہندی، فارسی اور انگریزی شامل ہیں۔ اردو کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اس میں انھیں زیادہ مہارت حاصل نہیں ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • افغان خواتین کوبیرون ملک بھجوانے کا معاملہ، رپورٹ وزارت داخلہ کو ارسال

    افغان خواتین کوبیرون ملک بھجوانے کا معاملہ، رپورٹ وزارت داخلہ کو ارسال

    اسلام آباد : جعلی دستاویزات پرافغان خواتین کوبیرون ملک بھجوانے کی کوشش اور انسانی اسمگلنگ میں کون کون ملوث ہے، ڈیل کہاں ہوئی؟ اس حوالے سے ایف آئی اے نےخصوصی رپورٹ وزارت داخلہ کو بھجوا دی۔

    تفصیلات کے مطابق تین افغان خواتین کو بیرون ملک بھیجنے کے معاملہ پر ایف آئی اے نےاپنی رپورٹ وزارت داخلہ بھجوادی ہے۔ وزارت داخلہ کوبھیجی گئی ایف آئی اے کی رپورٹ کےمطابق کیس میں ملوث چار اہم ملزمان بیرون ملک فرارہوگئے ہیں۔

    دوملزمان ایف آئی اے کی آنکھوں میں دھول جھونک گئے،دونوں پی کے785کےذریعےپاکستان سےفرارہوئے رپورٹ کے مطابق اس کیس میں اب تک صرف تین افغان خواتین اوردو پی آئی اے افسران ہی گرفتار ہوپائےہیں، تینوں افغان خواتین کےپاس افغان پاسپورٹ تھے۔

    تفتیش میں انکشاف ہوا ہے کہ تینوں افغان خواتین کے پاس جعلی برٹش پاسپورٹس بھی ہیں، رپورٹ کے مطابق خواتین کی بورڈنگ امجد حسین،سارہ انس اور مروہ کے نام سے ہوئی، خواتین کوبیرون ملک بھجوانے کےلیےایک فرد کےتین مختلف نام استعمال ہوئے۔

    افسرنعیم نے انکشاف کیا کہ بورڈنگ پاسز ٹاسک فورس افسرکی ہدایت پرجاری کئے گئے، رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ افغان خواتین نےتفتیش میں بتایا کہ کلیئر کرنےکی ڈیل کابل میں ہوئی۔

    ساٹھ ہزار ڈالرمیں خواتین کو سوئیڈن یا برطانیہ فرارکرانے کی ڈیل ہوئی تھی، محمد اشرف عرف حاجی نے فی خاتون بیس ہزارڈالر وصول کیے کیس میں امیگریشن حکام کےکردارسے متعلق تحقیقات کی جا رہی ہیں۔