Tag: Afghanistan

  • پاکستان کئی محاذوں پر ایک اہم شراکت دار ہے، امریکی محکمہ خارجہ

    پاکستان کئی محاذوں پر ایک اہم شراکت دار ہے، امریکی محکمہ خارجہ

    واشنگٹن : ترجمان امریکی محکمہ خارجہ نیڈ پرائس نے کہا ہے کہ پاکستان کئی محاذوں پر ایک اہم شراکت دار ہے، افغانستان میں پاکستان اور امریکا کے مشترکہ مفادات ہیں۔

    ترجمان امریکی محکمہ خارجہ نیڈ پرائس نے پریس بریفنگ کرتے ہوئے بتایا کہ افغانستان میں پاکستان کی تعمیری شراکت داری کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ افغانستان کی امن و سلامتی کیلئے پاکستان امریکا مشترکہ کوششیں کر رہے ہیں، حال ہی میں پاکستان کئی معاملات میں مدد گار رہا۔

    نیڈ پرائس کا کہنا تھا کہ ایران میں طالبان کی ملاقاتوں کے احوال سے آگاہ ہیں، افغانستان کے ہمسایہ ممالک بھی مستقبل کے حصہ دار ہیں،
    ہمسایہ ممالک کو اثر و رسوخ مثبت انداز میں استعمال کرنا ہوگا۔

    ترجمان نے کہا کہ افغانستان میں امن کیلئے علاقائی اتفاق رائے، تعاون اہم ہے، دوحہ میں جاری امن کوششوں کی ابھی بھی حمایت کر رہے ہین، افغان امن کیلئے ترکی، قطر کے کردار کے شکر گزار ہیں۔

    ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا تھا افغانستان میں امن کیلئے ہمسایہ ممالک کو تعمیری کردار ادا کرنا ہوگا، ایران کا کردار بھی تعمیری ہوسکتا ہے۔

  • افغانستان میں قائم وہ فوجی اڈہ جہاں آج سناٹے کا راج ہے

    افغانستان میں قائم وہ فوجی اڈہ جہاں آج سناٹے کا راج ہے

    کابل: افغانستان میں ایک ایسا فوجی اڈہ موجود ہے جہاں کبھی 600 جہاز روزانہ اترتے اور روانہ ہوتے تھے، لیکن آج یہاں دھول اڑتی ہے اور سناٹے کا راج قائم ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکا نے ابھی چند روز پہلے افغانستان میں اپنا سب سے بڑا فوجی اڈہ بگرام ایئر بیس خالی کیا ہے، یوں ملک سے امریکی فوج کے انخلا کی جانب ایک اہم قدم اٹھ چکا ہے اور اندازہ ہے کہ 11 ستمبر کی ڈیڈ لائن سے کہیں پہلے امریکی اور اتحادی افواج افغانستان سے نکل جائیں گی۔

    بگرام سے تقریباً 600 کلومیٹرز دور ایک ایسا فوجی اڈہ بھی تھا جو دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ کی بیرونِ ملک سب سے بڑی فوجی چھاؤنی بنا اور 34 ہزار فوجیوں کے لیے بنائے گئے اس اڈے اس پر ایک ارب ڈالرز سے بھی زیادہ لاگت آئی تھی لیکن خالی ہونے کے 7 سال بعد آج یہاں کے بیشتر حصے پر ان کا نام و نشان تک باقی نہیں۔

    یہ افغان صوبہ ہلمند کے شہر لشکر گاہ کے قریب صحرا میں واقع کیمپ باسشن تھا جو 2005 سے 2014 تک افغانستان میں برطانوی فوج کا مرکز رہا۔ دور دراز ویران علاقے میں بنائے گئے اس فوجی اڈے میں تمام جدید ترین سہولیات دستیاب تھیں۔ یہ ایک پورا شہر تھا، جس کے تین نمایاں حصے تھے۔ ایک برطانوی فوجیوں کا کیمپ باسشن، دوسرا امریکا کا کیمپ لیدر نیک، جہاں برطانیہ سے بھی دو گنا زیادہ سپاہی تھے۔ جبکہ ایک افغان فوجیوں کا کیمپ خوارو تھا۔

    اس فوجی اڈے کا محض ایئرپورٹ ہی لندن کے مرکزی ایئرپورٹ گیٹ وِک کے حجم کا تھا۔ اس کے رن وے پر سی 17 گلوب ماسٹر جیسے طیارے بھی لینڈ کر سکتے تھے۔

    سنہ 2011 میں جب افغانستان میں امریکی و اتحادی افواج کی سرگرمیاں اپنے عروج پر تھیں تو اس اڈے پر روزانہ 600 ہوائی جہاز اور ہیلی کاپٹرز اترتے یا یہاں سے پرواز کرتے تھے۔ اس اڈے کے گرد موجود باڑھ ہی 24 کلومیٹرز کی تھی، جس کی حفاظت کا کام 36 واچ ٹاورز سے کیا جاتا تھا۔

    اڈے پر موجود برطانوی فوجیوں کے لیے خدمات انجام دینے والے 4 ہزار سے زیادہ کانٹریکٹرز بھی تھے۔ یہاں 3 ہزار سے زیادہ فوجی گاڑیاں اور ہیوی مشینری، 50 ہوائی جہاز، 1200 سے زیادہ خیمے، ایک جدید ہسپتال، ایک واٹر بوٹلنگ پلانٹ اور فاسٹ فوڈ ریستوران بھی تھا۔ اس اڈے کے لیے کھانے پینے کی تمام اشیا بیرون ملک سے آتی تھیں کیونکہ خطرہ تھا کہ مقامی ذرائع سے حاصل کردہ خوراک میں زہر نہ ملا دیا جائے۔

    اس کھانے کی فوجیوں کو فراہمی کے لیے تین بہت بڑی کینٹین بھی موجود تھے جہاں سے ایک دن 34 ہزار کھانے فراہم کیے جاتے تھے۔

    برطانیہ نے سنہ 2014 میں اس اڈے کی بندش کا فیصلہ کیا اور یہ کوئی معمولی فیصلہ نہیں تھا کیونکہ اس کے مطابق تمام تر اہم نوعیت کا ساز و سامان واپس برطانیہ بھیجا جانا تھا۔ یوں اس پورے شہر کو اس طرح ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا کہ اس کا تمام تر سامان کہیں اور استعمال کیا جا سکے۔ مثلاً بوٹلنگ پلانٹ ہی کو لے لیں، جسے بند کر کے پرزوں میں تقسیم کر کے واپس برطانیہ بھیجا گیا۔ اس پلانٹ کو بنانے، چلانے اور کھول کر برطانیہ لے جانے پر 19.5 ملین پونڈز لاگت آئی۔

    لیکن سارا سامان ایسا نہیں تھا کہ جسے لے جایا جا سکتا ہو یا جسے لے جانے کا کوئی فائدہ ہو لہٰذا باقی ہر چیز کو ضائع کرنے یا اسے تلف کر کے کباڑ میں بیچنے کا فیصلہ کیا گیا۔ پھر بھی جو چیزیں ایسی تھیں جو نہ لے جائی جا سکتی تھیں اور نہ کباڑ میں بیچی جا سکتی تھیں، انہیں دھماکا خیز مواد سے تباہ کر دیا گیا۔ صرف ایسے سامان کی مقدار ہی 60 ٹن تھی اور مالیت 4 لاکھ برطانوی پاؤنڈز سے زیادہ تھی۔

    برطانیہ نے 26 اکتوبر 2014 کو یہ کیمپ خالی کر کے اسے افغان فوج کے حوالے کر دیا لیکن اس سے پہلے یہاں سے ہر ممکنہ سہولت کا خاتمہ کر دیا گیا۔ یہاں تک کہ کیمپ کا جدید ترین اسپتال تک ختم کر دیا گیا۔

    کیمپ باسشن بنانے پر برطانیہ کے 50 ملین پونڈز خرچ ہوئے، لیکن اسے ختم کرنے اور یہاں کے سامان کو منتقل کرنے پر 300 ملین پونڈز کی لاگت آئی۔

    کیمپ باسشن کو ختم ہونے تقریباً سات سال ہونے والے ہیں اور اب اس کی محض دو یادگاریں ہی بچی ہیں، ایک رِنگ روڈ اور دوسرے واچ ٹاورز۔ اس رن وے پر جہاں روزانہ 600 جہاز اترتے اور پرواز کرتے تھے، اس کا نام و نشان بھی باقی نہیں۔

    دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ کی سب سے بڑی جنگی مہم پر برطانیہ کی کل لاگت 37 ارب ڈالرز رہی اور اس دوران 453 برطانویوں کی جانیں گئیں۔

  • افغانستان سے واپسی کا عمل تقریباً 90 فیصد مکمل ہوچکا ، پنٹاگون کا دعویٰ

    افغانستان سے واپسی کا عمل تقریباً 90 فیصد مکمل ہوچکا ، پنٹاگون کا دعویٰ

    واشنگٹن : امریکی محکمہ دفاع پنٹاگون کے ترجمان نے کہا ہے کہ افغانستان سےواپسی کاعمل تقریباً90فیصدمکمل ہوچکاہے ، افغانستان سے انخلا کے بعد بھی فضائی صلاحیت برقرار رکھیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی محکمہ دفاع پنٹاگون کی جانب سے افغانستان سے انخلا کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ مستحکم،محفوظ افغانستان کیلئےہماراعزم تبدیل نہیں ہوا، افغانستان سے انخلا کے بعد بھی فضائی صلاحیت برقرار رکھیں گے۔.

    ترجمان پنٹاگون جان کربی کا کہنا تھا کہ ہمارےکنٹریکٹرزافغان سیکورٹی فورس،فضائیہ کی معاونت کررہےہیں، مشرق وسطیٰ میں اسٹرائیک گروپ افغانستان کیلئے کارآمد ہوسکتا ہے۔

    جان کربی نے کہا افغانستان سےواپسی کاعمل تقریباً90فیصدمکمل ہوچکاہے، بگرام اڈے سے انخلا پر افغان حکومت،سیکیورٹی فورسز سے ہم آہنگی رہی، بگرام آخری اڈہ ہے جس کو افغان سیکیورٹی فورسز کے حوالے کیاگیا۔

    ،ترجمان پنٹاگون کا مزید کہنا تھا کہ امریکی فوج کی کچھ تعداد سفارت کاروں کی حفاظت کیلئے موجود رہے گی۔

    یاد رہے امریکی انخلا کے بعد افغانستان میں افغان فوج اورطالبان کے درمیان شدید جھڑپوں کی اطلاعات بھی ہیں، افغان طالبان نے ملک کے مزید گیارہ اضلاع پر قبضہ کرلیا۔

    افغان فورسز نے جھڑپوں میں 261 طالبان کو مارنے کا دعویٰ کیا جبکہ افغان طالبان کے ترجمان ذبیح ﷲ مجاہد کا کہنا تھا کہ میدان جنگ میں مضبوط پوزیشن کےباوجود مذاکرات کے لیے سنجیدہ ہیں، آئندہ ماہ مذاکرات میں تحریری امن منصوبہ افغان حکومت کو پیش کریں گے‘۔

  • افغانستان میں متحارب گروپوں میں گھمسان کی جنگ، طالبان کا بڑا دعویٰ

    افغانستان میں متحارب گروپوں میں گھمسان کی جنگ، طالبان کا بڑا دعویٰ

    کابل: افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد سے طالبان اور افغان فورسز کے درمیان گھمسان کی لڑائی جاری ہے۔

    افغان میڈیا کے مطابق گذشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران طالبان نے تیرہ اضلاع پر قبضہ کیا، جن میں قندھار اور پکتیا کے مختلف اضلاع بھی شامل ہیں۔

    میڈیا رپورٹس کے مطابق اب تک افغان دارالحکومت کابل اور 34 صوبائی دارالحکومتوں کے علاوہ کل 372 اضلاع میں سے 110 پر طالبان قابض ہوچکے ہیں۔

    افغان میڈیا کا کہنا ہے کہ گذشتہ چوبیس گھنٹوں میں افغان فورسز نے نو صوبوں میں طالبان کیخلاف آپریشن کئے، آپریشن کے دوران 224 طالبان کئے گئے۔

    یہ بھی پڑھیں: امریکی افواج کا بگرام ایئربیس سے انخلا، طالبان کا ردعمل آگیا

    یہ بھی اطلاعات زیر گردش ہیں کہ افغانستان میں طالبان نے امریکی فورسز کے چھوڑے گئے ساز و سامان اور گولہ بارود پر قبضہ کرلیا ہے، سوشل میڈیا پر افغان طالبان کی کچھ تصاویر سامنے آنے کے بعد کی جانے والی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ طالبان نے گزشتہ ماہ جون میں 700 فوجی گاڑیوں کو قبضے میں لیا ہے جنہیں اب طالبان اپنی کارروائیوں کے لیے استعمال کریں گے۔

    یاد رہے کہ امریکی اور اتحادی افواج کے انخلا کے نتیجے میں چند روز قبل امریکی فوج نے بگرام ائیربیس کو بسی سال بعد خالی کیا ہے جو اب باضابطہ افغان حکومت کے حوالے کردیا گیا ہے۔

  • کیا امریکی فوج ڈیڈ لائن سے قبل افغانستان سے نکل جائے گی؟

    کیا امریکی فوج ڈیڈ لائن سے قبل افغانستان سے نکل جائے گی؟

    واشنگٹن: امریکی حکام نے کہا ہے کہ امریکی فوج، صدر جو بائیڈن کی طرف سے افغانستان سے 11 ستمبر کو دی گئی ڈیڈ لائن سے قبل، آئندہ چند دنوں میں انخلا کرنے والی ہے۔

    برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق منگل کو امریکی حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ امریکی فوج ڈیڈ لائن سے پہلے ہی چند دنوں میں افغانستان سے انخلا کرنے والی ہے۔

    امریکی فوج نے جون کے آغاز میں افغانستان سے پچاس فی صد فوجیوں کے انخلا کے بعد انخلا کی رفتار کے حوالے سے تفصیلات دینا بند کر دی ہیں، دوسری طرف امریکی فوج کے انخلا میں تیزی ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب ملک میں طالبان کے حملے بڑھ رہے ہیں۔

    حکام کا کہنا ہے کہ اس انخلا میں افغانستان میں امریکی سفارت کاروں کی حفاظت اور ممکنہ طور پر کابل ایئر پورٹ کی حفاظت میں معاونت کرنے والے فوجی اہل کار شامل نہیں ہیں، افغانستان میں 650 کے قریب فوجی سفارت خانے پر تعینات ہوں گے۔

    منگل کو پینٹاگون نے کہا تھا کہ امریکی فوج کے انخلا کا یہ مطلب نہیں ہے کہ نیٹو کا ’ریزولیوٹ سپورٹ مشن‘ بھی ختم ہو جائے گا، لیکن نیٹو فورسز کے انخلا سے افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہونے سے متعلق تشویش بھی پائی جا رہی ہے۔

    یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ القاعدہ کو دوبارہ امریکا اور دیگر اہداف پر نئے حملوں کی منصوبہ بندی کرنے کا موقع مل سکتا ہے، اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ افغانستان میں القاعدہ کے 500 جنگ جو ہیں اور طالبان کے ان کے ساتھ گہرے روابط ہیں، جن کہ پینٹاگون کے مطابق طالبان نے افغانستان کے 419 میں سے 81 اضلاع پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔

  • افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا، افغان مترجمین کا کیا ہوگا؟

    افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا، افغان مترجمین کا کیا ہوگا؟

    واشنگٹن: افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے تناظر میں وہاں موجود امریکا کے لیے مترجم کا کردار ادا کرنے والے افغانوں کی حفاظت کا مسئلہ سامنے آ گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق بائیڈن انتظامیہ نے افغانستان سے فوجی انخلا سے قبل امریکی فوج کے ساتھ کام کرنے والے کچھ افغان مترجمین اور دیگر افراد کو نکالنے کا منصوبہ بنا لیا ہے۔

    نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں امریکی حکام کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ کچھ افغان باشندوں کو محفوظ مقامات پر بھیج دیا جائے گا، کیوں کہ وہ اپنی امریکی ویزا درخواستوں پر کارروائی کا انتظار کر رہے ہیں۔

    تاہم امریکی عہدے داروں نے یہ بتانے سے انکار کر دیا ہے کہ مذکورہ افغان شہری کہاں انتظار کریں گے، اور یہ بات بھی واضح نہیں ہے کہ آیا کسی تیسرے ملک نے انھیں قبول کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے، یا نہیں۔

    واضح رہے کہ امریکی حکومت کے لیے کام کرنے کی وجہ سے ہزاروں افغانوں کو دھمکیوں کا سامنا ہے، ان افغان شہریوں نے خصوصی نقل مکانی ویزا کے لیے درخواستیں جمع کروائیں ہیں۔

    سابق افغان مترجمین اکھٹے ہو کر کابل میں نیٹو اور امریکی حکومت کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں (فوٹو اے پی)

    ایک سینئر امریکی ریپبلکن قانون ساز نے خبر ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ خطرے سے دوچار افغانوں کے انخلا میں ان کے کنبوں کے افراد بھی شامل ہوں گے، جن کی مجموعی تعداد 50 ہزار تک ہے۔

    روئٹرز کا کہنا ہے کہ صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کا یہ فیصلہ افغانستان میں بحران کے احساس کو تیز کرنے کا سبب بن سکتا ہے، کیوں کہ ابھی ایک دن قبل ہی (جمعے کو) بائیڈن نے واشنگٹن میں افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کی ہے، جس کا مقصد فوجی انخلا کے باوجود افغانستان کے ساتھ پارٹنر شپ کے احساس کو اجاگر کرنا تھا۔

    خیال رہے کہ قانون سازوں کے ایک گروپ نے بائیڈن انتظامیہ پر زور دیا تھا، کہ وہ ان افغانوں کا تحفظ یقینی بنائیں جنھوں نے امریکا کے لیے ترجمانی کے فرائض انجام دیے، کیوں کہ ملک میں سیکیورٹی کی صورت حال بگڑگئی ہے۔

    وائٹ ہاؤس میں تقریر کے بعد سوالات کا جواب دیتے ہوئے بائیڈن نے واضح کیا تھا کہ افغانستان میں جنھوں نے ہماری مدد کی تھی انھیں ہم پیچھے نہیں چھوڑیں گے، انھیں بھی ان لوگوں کی طرح خوش آمدید کہا جائے گا جنھوں نے اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر ہماری مدد کی۔

    امریکی نمائندے مائیک مک کال نے روئٹرز کو بتایا کہ انخلا کرنے والوں میں تقریباً 9 ہزار ترجمان شامل ہیں، جنھوں نے خصوصی امیگریشن ویزے کے لیے اہل خانہ سمیت درخواستیں دی ہیں، اور جو ممالک انھیں وصول کریں گے ان میں ممکنہ طور پر متحدہ عرب امارات، بحرین، قطر اور کویت شامل ہیں۔

    واضح رہے کہ حالیہ ہفتوں کے دوران امریکی حمایت یافتہ افغان افواج اور طالبان کے مابین لڑائی میں شدت آ چکی ہے، طالبان علاقوں پر پھر سے کنٹرول حاصل کرنے لگے ہیں، پینٹاگون کے مطابق افغانستان کے 419 ضلعی مراکز میں طالبان کا کنٹرول 81 پر ہے۔

  • امریکا نے افغانستان سے فوجی انخلا کا عمل سست کرنے کا عندیہ دے دیا

    امریکا نے افغانستان سے فوجی انخلا کا عمل سست کرنے کا عندیہ دے دیا

    واشنگٹن: طالبان کے حملوں کے تناظر میں امریکا نے افغانستان سے فوجی انخلا کا عمل سست کرنے کا عندیہ دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق پینٹاگون کے ترجمان جان کربی نے کہا ہے کہ طالبان کی کارروائیوں اور انھیں حاصل ہونے والے فوائد کے باعث افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کا عمل سست کیا جا سکتا ہے۔

    پیر کے روز جان کربی نے کہا کہ صدر جو بائیڈن کی جانب سے دی جانے والی ڈیڈ لائن برقرار رہے گی، تاہم انخلا کے عمل کو صورت حال کی مناسبت سے ترتیب دیا جائے گا، کیوں کہ طالبان کی جانب سے اضلاع پر حملوں اور پُر تشدد کارروائیوں کے بعد صورت حال تبدیل ہو رہی ہے۔

    ترجمان نے کہا ہم ہر ایک دن کا مسلسل بغور جائزہ لے رہے ہیں، کہ صورت حال کیا ہے، ہمارے پاس کیا کچھ ہے اور ہم کیا کر سکتے ہیں، ہمیں مزید کن ذرائع کی ضرورت ہے اور ہم نے افغانستان سے نکلنے کے لیے کیا رفتار رکھنی ہے، یہ تمام فیصلے مطلوبہ وقت پر کیے جائیں گے۔

    امریکی افواج کا انخلا: افغان اہلکاروں کو ہتھیار ڈالنے پر قائل کرنے والے درجنوں عمائدین گرفتار

    واضح رہے کہ افغانستان میں 20 سال تک القاعدہ کے خلاف لڑنے اور حکومت کو طالبان سے لڑائی میں مدد کے بعد صدر جو بائیڈن نے فوجیوں کے انخلا کا حکم دیا ہے، جو تقریباً آدھا مکمل ہو چکا ہے۔

    پینٹاگون افغانستان میں اپنے کئی اہم اڈے حکومتی افواج کے حوالے کر چکا ہے، اور مختلف ساز و سامان سے لدے سیکڑوں کارگو جہاز بھی ہٹا چکا ہے، تاہم جان کربی کے مطابق امریکی افواج طالبان سے لڑائی میں افغان فوجیوں کی مدد کرتی رہیں گی۔

    جان کربی نے واضح کیا کہ جوں جوں واپسی کا عمل تکمیل کے قریب پہنچے گا، افغان فورسز کی مدد کا یہ سلسلہ کم ہوتا جائے گا اور اس کے بعد دستیاب نہیں ہوگا۔

  • راولپنڈی کے شہری کو افغانستان سے دھمکی آمیز کال،  بھتے کا مطالبہ

    راولپنڈی کے شہری کو افغانستان سے دھمکی آمیز کال، بھتے کا مطالبہ

    راولپنڈی : مقامی شہری کو افغانستان سے دھمکی آمیز کال موصول ہوئی ، جس میں بھتے کا مطالبہ کیا گیا، جس پر شہری نے نامعلوم ملزمان کے خلاف بھتہ خوری اور دھمکیاں دینے کی ایف آئی آر درج کرادی۔

    تفصیلات کے مطابق راولپنڈی میں افغانستان کےنمبرز سے کال کر کے مقامی شہری سے بھتہ ادائیگی کا مطالبہ کیا گیا، مقامی شہری نے نامعلوم ملزمان کے خلاف بھتہ خوری اور دھمکیاں دینے کی ایف آئی آر درج کرادی ہے۔

    ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ افغانستان کے لینڈ نمبرسےکال کرکےفیملی تفصیلات بتائیں گئیں، ملزم نےتعارف کالعدم دہشت گردتنظیم کے کارندے کے طور پر کرایا۔

    ایف آئی آر کے متن میں کہا ہے کہ بذریعہ واٹس ایپ میسج اوروائس 10لاکھ روپےبھتہ اداکرنےکاکہاگیا، بھتہ کی رقم ادانہ کرنے پرکارخانہ نذرآتش کرنے اور خاندان کونقصان پہنچانےکی بھی دھمکی دی گئی۔

    شہری نے بتایا کہ نمبرکو بلاک کیا تو دوسرے نمبر سے دھمکیاں دی جارہی ہیں۔

  • پاکستان کا افغانستان کے لیے کرونا سے متعلقہ آلات اور سامان کا تحفہ

    پاکستان کا افغانستان کے لیے کرونا سے متعلقہ آلات اور سامان کا تحفہ

    اسلام آباد: پاکستان نے پڑوسی ملک افغانستان کے لیے کرونا سے متعلقہ آلات اور سامان کا تحفہ دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے دفتر میں بدھ کو پاکستان کی جانب سے افغانستان کے لیے کرونا وبا سے متعلقہ آلات اور سامان حوالگی کی تقریب منعقد ہوئی، جس میں ڈاکٹر فیصل سلطان، افغان سفیر نجیب اللہ علی خیل، وزیر اعظم کے نمائندہ خصوصی افغانستان محمد صادق شریک ہوئے۔

    معاون خصوصی صحت ڈاکٹر فیصل سلطان نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا یہ امدادی سامان افغان قوم کے لیے پاکستانی قوم کا تحفہ ہے، امدادی سامان میں پی پی ایز اور آکسیجن گیس سلنڈرز شامل ہیں۔

    انھوں نے کہا پاکستان اس مشکل گھڑی میں افغانستان سے تعاون جاری رکھے گا، کرونا وبا نے مختلف خطوں کے ممالک کو آپس میں جوڑ دیا ہے، پاکستان افغانستان کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کو اہمیت دیتا ہے۔

    افغانستان کے سفیر نجیب اللہ علی خیل نے تقریب سے خطاب میں کہا ہم کرونا کے خلاف تعاون پر حکومت پاکستان اور قوم کے مشکور ہیں، کرونا وبا اس خطے سمیت دنیا بھر کے لیے بڑا چیلنج ہے، وبا نے دنیا بھر کے نظام صحت اور معیشتوں کو شدید متاثر کیا۔

    افغان سفیر نے کہا کرونا کے خلاف افغانستان کو شدید مشکلات کا سامنا ہے، افغانستان میں کرونا مریضوں کے لیے آکسیجن سلنڈرز، گیس، اور طبی آلات کی کمی ہے، اس لیے ہم پاکستان کی جانب سے اس تعاون پر شکریہ ادا کرتے ہیں۔

  • افغانستان : پولیو ٹیم پر حملہ، چار کارکن ہلاک

    افغانستان : پولیو ٹیم پر حملہ، چار کارکن ہلاک

    جلال آباد : افغانستان میں پولیو کے حفاظتی قطرے پلانے والی ٹیم پر مسلح افراد نے حملہ کر کے کم از کم چار ارکان کو ہلاک کر دیا۔ جلال آباد میں منگل کو کیے گئے اس حملے کی ذمہ داری فوری طور سے کسی نے قبول نہیں کی۔

    افغانستان کے مشرقی حصے میں انسداد پولیو کے لیے جاری ویکسینیشن مہم کے معاون کار ڈاکٹر جان محمد کے مطابق اس حملے میں پولیو ٹیم کے چار اراکین ہلاک اور کم از کم تین دیگر زخمی ہو گئے۔

    گزشتہ برس افریقی ملک نائجیریا کو بھی جسے پولیو سے پاک قرار دے دیا گیا تھا جس کے بعد جنوبی ایشیا کی دو پڑوسی ریاستیں افغانستان اور پاکستان دنیا کے صرف دو ایسے ممالک ہیں، جہاں اب بھی پولیو کا مرض پایا جاتا ہے۔

    رواں سال مارچ میں داعش نے کہا تھا کہ اس نے افغان صوبے ننگرہار کے دارالحکومت جلال آباد میں پولیو ٹیم کی رکن تین خواتین کو گولیوں کا نشانہ بنا کر ہلاک کر دیا تھا۔

    خیال کیا جاتا ہے کہ طالبان اور حکومتی دستوں کے مابین حالیہ جھڑپوں اور طالبان کے خلاف حکومت کی حالیہ کارروائیوں کے بعد سے ایسے عسکریت پسند گروپوں کی تعداد افغانسان میں کم ہوتی جا رہی ہے۔ آئی ایس کے عسکریت پسندوں نے حالیہ دنوں میں مخالفین پر حملوں میں بھی اضافہ کر دیا ہے۔