Tag: Africa

  • افریقہ میں رنگ گورا کرنے والی کریموں سے اسکن کینسر پھیلنے لگا

    افریقہ میں رنگ گورا کرنے والی کریموں سے اسکن کینسر پھیلنے لگا

    دنیا بھر میں رنگ گورا کرنے والی کریمز خواتین میں بے حد مقبول ہیں تاہم وقتاً فوقتاً ان کریمز کے نقصانات سامنے آتے رہتے ہیں، حال ہی میں کئی افریقی ممالک میں ایسی کریمز کے استعمال سے جلد کے کینسر کے کیسز سامنے آئے ہیں۔

    اپنے چہرے کو سورج کی تیز شعاعوں سے بچانے کے لیے بڑے ہیٹ کا استعمال کرنے والی افریقی ملک کیمرون کی 63 سالہ جین اب جلد کے کینسر کی تشخیص کے بعد جلد کو گورا کرنے والی مصنوعات استعمال کرنے پر پچھتا رہی ہیں۔

    جین کیمرون کی ان خواتین میں سے ای ہیں جنہوں نے ایسی متنازع مصنوعات کا استعمال کیا جن پر سوشل میڈیا پر تنقید کے بعد پابندی لگ چکی ہے۔

    دارالحکومت یاؤندے میں اس طرح کی مصنوعات فروخت کرنے والی ایک خاتون دکان دار کا کہنا ہے کہ جب لوگ میری طرف دیکھتے ہیں تو مجھے شرمندگی ہوتی ہے۔

    دوسری جانب 5 مہینوں میں چہرے پر ایک زخم کے بڑھنے کے بعد جین ایک ڈاکٹر کے پاس گئیں، جس نے ان میں کینسر کی تشخیص کی، ڈاکٹروں نے انہیں بتایا کہ انہیں کینسر 40 برس سے جلد کو گورا والی مصنوعات کے استعمال سے ہوا ہے۔

    جین جیسے کروڑوں افراد اس دنیا میں ہیں جو رنگت گورا کرنے والی مصنوعات کا استعمال کرتے ہیں۔

    کیمرون ڈرمٹالوجی سوسائٹی کے مطابق سنہ 2019 میں اقتصادی دارالحکومت ڈوالا کے تقریباً 30 فیصد رہائشیوں اور اسکول کی ایک چوتھائی لڑکیوں نے رنگ گورا کرنے والی مصنوعات کا استعمال کیا۔

    20 سالہ طالب علم اینیٹ جیسے کچھ افراد کے لیے ایسی مصنوعات کے اثرات کافی نقصان دہ ہوتے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ ان کے چہرے پر سرخ دھبے پڑ گئے ہیں، جلد چھیل رہی ہے اور جل رہی ہے۔ سورج کی تیز روشنی میں میرا چہرہ گرم ہو جاتا ہے اور مجھے رکنا پڑتا ہے۔

    وائٹ ناؤ اور سپر وائٹ جیسے ناموں والی مصنوعات کو فوری طور پر دکان کی شیلفوں پر ان کی پیکجنگ پر آویزاں صاف رنگت کی خواتین کی تصویروں سے پہچانا جا سکتا ہے۔

    یہ ہنگامہ موسم گرما میں اس وقت شروع ہوا جب سوشل میڈیا صارفین نے حزب اختلاف کی رکن پارلیمنٹ نورین فوٹسنگ کی رنگ گورا کرنے والی مصنوعات فروخت کرنے والی کمپنی پر تنقید کی۔

    عموماً بہت ساری مصنوعات کا سائنسی طور پر کبھی تجزبہ نہیں کیا گیا، ان میں خطرناک سطح کے کیمیکل ہوتے ہیں جو میلانین کی پیداوار کو روکتے ہیں، یہ مادہ سورج کی گرمی سے جسم میں پیدا ہوتا ہے۔

    ان کیمیکلز میں سے ایک ہائیڈروکوئنون ہے، جس پر یورپی یونین نے سنہ 2001 میں کینسر اور جینیاتی تغیرات کے خطرے کی وجہ سے پابندی عائد کی تھی۔

    کیمرون کی وزارت صحت نے رواں برس 19 اگست کو کاسمیٹک اور ذاتی حفظان صحت سے متعلق ایسی مصنوعات کی درآمد، پیداوار اور تقسیم پر پابندی عائد کر دی تھی، جن میں ہائیڈروکوئنون اور مرکری جیسے خطرناک مادے ہوتے ہیں۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق رنگ گورا کرنے والی مصنوعات عام طور پر بہت سے افریقی، ایشیائی اور کیریبیئن ممالک میں خواتین اور مرد دونوں ہی استعمال کرتے ہیں۔ یورپ اور شمالی امریکا میں سیاہ رنگت والے افراد بھی ایسی مصنوعات استعمال کرتے ہیں۔

    خوفناک نتائج کے باوجود مرد اور خواتین اس بات پر یقین کرتے ہیں کہ ان مصنوعات کے استعمال کے بعد وہ مزید خوبصورت ہو جائیں گے۔

  • پام آئل کے بحران نے افریقہ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا

    پام آئل کے بحران نے افریقہ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا

    عابد جان : آئیوری کوسٹ میں ایک سڑک کے کنارے پر پکوڑوں کا اسٹال لگانے والے نوجوان کا کہنا ہے کہ تیل کی قیمیت میں اضافے سے ہمارا کاروبار بھی بند ہوسکتا ہے۔

    اس نوجوان کا کہنا ہے کہ میں مزید کام کرنا نہیں چاہتا تھا کیونکہ میں نے سوچتا ہوں اگر تیل کی قیمت اتنی بڑھ گئی ہے تو میں کیا کماؤں گا؟۔

    روس اور یوکرین پام آئل پیدا نہیں کرتے ہیں کیونکہ یہ گرم علاقوں میں پیدا ہونے والی اجناس ہے لیکن روس کے حملے نے آج کی پیچیدہ طور پر باہم جڑی ہوئی عالمی معیشت پر دستک کے اثرات کو جنم دیا ہے۔

    روس یوکرین تنازعہ پام آئل کی قیمتوں میں اضافے کا بڑا سبب ہے، معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس تنازعہ سے خوراک کی قیمت کا بحران مزید گہرا ہوگا جس کا خمیازہ غریب افراد کوبھگتنا پڑے گا۔

    عالمی حالات کے اس تناظر میں پام آئل کے سب سے بڑے برآمد کنندہ ملک انڈونیشیا کو حالیہ دنوں میں کچھ برآمدات پر پابندی لگانے پر مجبور کردیا تاکہ قیمتوں پرقابو رکھا جا سکے۔

    زرعی اجناس کی کنسلٹنسی ایل ایم سی انٹرنیشنل کے بانی جیمز فرائی نے کہا ہے کہ ہم نے واقعی اس قسم کی صورتحال کا کبھی سامنا نہیں کیا، یہ افریقہ کے بڑے ممالک ہیں جنہیں یقینی طور پر اس کا نقصان اٹھانا پڑے گا۔

    انہوں نے کہا کہ جیسے جیسے پورے ریجن میں پیٹرول اور تیل کی قیمتیں تیزی سے بڑھ رہی ہیں اور ساتھ ہی لاکھوں افریقی وبائی امراض میں مبتلا ہورہے ہیں اس کی وجہ سے لوگ انتہائی غربت زندگی گزار رہے ہیں۔ پام آئل کی قیمتوں میں اضافہ بہت سے لوگوں کو سخت فیصلہ کرنے پر مجبور کردے گا۔

    اس کے علاوہ کینیا کے دارالحکومت نیروبی میں بیوٹی انڈسٹری کی ایک کنسلٹنٹ لوسی کمانجا نے کہا کہ پام پر مبنی کوکنگ آئل میں 90 فیصد اضافے کا مطلب ہے کہ انہیں پھلوں اور گھریلو ضروریات میں کمی کرنا پڑ رہی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ میں بہت پریشان ہوں، مجھے نہیں معلوم کہ ہم کہاں جا رہے ہیں کیونکہ کھانے کی قیمت تقریباً دوگنی ہوگئی ہے، انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ عام لوگ کیسے زندہ رہیں گے۔

    یوکرین میں لڑائی شروع ہونے سے پہلے ہی مہنگائی عالمی سطح پر باعث تشویش بن چکی تھی، اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (ایف اے او) کے مطابق گزشتہ سال اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں 23 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا جو کہ ایک دہائی سے زائد عرصے میں سب سے زیادہ ہے۔

    رواں سال مارچ میں گوشت، ڈیری، چینی اور تیل کی عالمی قیمتوں کا اعشاریہ فروری سے 12.6فیصد کی "بڑی چھلانگ” کے بعد1990 کے بعد سے بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔ کھانا پکانے کے تیل سب سے زیادہ متاثر ہونے والی مصنوعات میں شامل ہیں۔

    خشک سالی نے ارجنٹائن سے سویا بین تیل کی برآمدات اور کینیڈا میں ریپ سیڈ کی پیداوار کو تباہ کردیا۔ انڈونیشیا میں خراب موسم اور ملائیشیا میں کوویڈ سے متعلقہ امیگریشن پابندیوں نے پام آئل کی پیداوار کو روکا جو باغات میں کام کرنے والے مزدوروں کی کمی کا باعث بنا۔

    رواں سال مارچ میں پہلی بار پام آئل ہندوستان کے چار بڑے خوردنی تیلوں میں عارضی طور پر سب سے مہنگا ہو گیا جو اس بات کا اشارہ ہے کہ افریقہ کا تیل قابل اعتماد طور پر سب سے سستا تھا ختم ہوسکتا ہے۔

    جیروم کانگا جو آئیورین قصبے اڈیکے کے قریب دو ہیکٹر پر کھیتی باڑی کرتے ہیں نے کہا کہ وہ تین سال قبل پیداوار شروع کرنے کے بعد ملنے والی قیمتوں سے مایوس ہیں لیکن یہ بات خوش آئند ہے کہ دسمبر سے اور خاص طور پر فروری اور مارچ میں قیمتوں میں تقریباً 20 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

    این اوبانیہ جو لاگوس نائیجیریا میں کھانے کی ایک چھوٹی سی دکان چلاتی ہیں نے کہا کہ وہ جو ریفائنڈ ریڈ پام آئل خریدتی ہیں، اس کی قیمت صرف پچھلے مہینے میں تقریباً 20 فیصد بڑھ گئی ہے، چھ بچوں کی ماں نے مزید کہا کہ مجھے پام آئل کے بغیر کھانا پکانا نہیں آتا۔

  • تمام افریقی ممالک اپنی کرنسی چھاپنے سے قاصر، پھر ان کی کرنسی کہاں چھپتی ہے؟

    تمام افریقی ممالک اپنی کرنسی چھاپنے سے قاصر، پھر ان کی کرنسی کہاں چھپتی ہے؟

    کسی ملک کی کرنسی اس قوم کی شناخت کا ایک علامتی عنصر ہوتی ہے، لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ اس وقت براعظم افریقہ کے تمام ممالک اپنی کرنسی چھاپنے سے قاصر ہیں اور اس کے لیے دیگر ممالک کی خدمات لیتے ہیں؟

    گزشتہ برس جولائی میں گیمبیا کے ایک وفد نے ہمسایہ ملک نائجیریا کے مرکزی بینک کا دورہ کیا اور درخواست کی کہ وہ انہیں اپنے پاس موجود گیمبیا کی کرنسی دلاسی فراہم کریں تاکہ ملک میں نوٹوں کی کمی کو پورا کیا جا سکے۔

    مسئلہ یہ تھا کہ گیمبیا اپنی ملکی کرنسی خود پرنٹ نہیں کرتا بلکہ اس نے ملکی لیکوئیڈ کرنسی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے برطانیہ کو آرڈر کر رکھا تھا اور اس آرڈر میں ابھی تاخیر تھی۔

    اس ملک میں پیدا ہونے والی نوٹوں کی کمی کا یہ معاملہ ملک کی معیشت کے ایک دلچسپ پہلو کو نمایاں کرتا ہے۔ گیمبیا ایک خود مختار ملک ہے لیکن کرنسی کی پیداوار کے حوالے سے اس کا انحصار کسی دوسرے ملک پر ہے۔

    تاہم گیمبیا اس معاملے میں تنہا نہیں ہے، براعظم افریقہ کے 54 ممالک میں سے دو تہائی سے زیادہ ملک اس وقت اپنے نوٹ بیرون ملک چھاپتے ہیں، بنیادی طور پر یورپی اور شمالی امریکی ممالک میں۔

    برطانوی کرنسی پرنٹنگ کمپنی ڈی لا رو، سویڈن کی کرین اے بی اور جرمنی کی گیزیکے پلس ڈیورینٹ ایسی ٹاپ نجی کمپنیوں میں شامل ہیں، جنہوں نے افریقی ممالک کی قومی کرنسیاں پرنٹ کرنے کی معاہدے کر رکھے ہیں۔

    یہ بات بہت سے لوگوں کو حیران کر سکتی ہے کہ تقریباً تمام افریقی ممالک اپنی کرنسیاں درآمد کرتے ہیں اور بہت سے لوگوں کے لیے یہ حقیقت قومی فخر اور قومی سلامتی پر سوالات اٹھاتی ہے۔

    کئی افریقی ماہرین کا کہنا ہے کہ جو ممالک اپنی کرنسیاں خود پرنٹ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ بدعنوان افسران کا شکار ہو سکتے ہیں یا پھر ہیکروں کا، جو کرنسی کو تبدیل کر سکتے ہیں۔ ان ماہرین کی رائے میں بہت سے معاملات میں آؤٹ سورسنگ یا غیر ملکی کمپنیوں سے پیسہ پرنٹ کروانا زیادہ محفوظ ہے۔

    لیکن نوٹ درآمد کرنے کے حوالے سے بھی کئی چیلنجز کا سامنا رہتا ہے۔ سنہ 2018 میں سویڈن سے بھیجے گئے لائبیرین ڈالر کے کنٹینرز غائب ہو گئے تھے لیکن بعد ازاں اس کی ذمہ داری حکومت پر ہی عائد کی گئی تھی۔

    اسی طرح نوٹ منتقل کرنے کے لیے خصوصی جہاز بک کیے جاتے ہیں اور اس پر بھی کافی رقم خرچ ہوتی ہے۔

    اس کے باوجود ڈی لا رو جیسی کمپنیاں سینکڑوں برسوں سے موجود ہیں اور دنیا بھر کے مرکزی بینکوں کے لیے بڑے پیمانے پر نوٹ چھاپتی ہیں، ان کے پاس پولیمر جیسی کرنسی کی اختراعات کے لیے ٹولز اور تجربہ ہے۔

    یہ فرمز اضافی طور پر قومی پاسپورٹ اور دیگر شناختی دستاویزات بھی تیار کرتی ہیں اور ان کمپنیوں کی سیکیورٹی سخت ہوتی ہے تاکہ ہیکرز وغیرہ سے محفوظ رہ سکیں۔

    علاوہ ازیں ان کے مقامات بھی نامعلوم ہوتے ہیں کہ نوٹ کس جگہ پرنٹ کیے جاتے ہیں۔ واٹر مارکس، تصاویر اور دیگر مشکل نقاشی، جو بینک نوٹوں میں عام طور پر ہوتے ہیں، کا مرحلہ انتہائی پیچیدہ اور مہنگا ہوتا ہے۔

    اس کے علاوہ جیسے جیسے دنیا نئی کیش لیس ٹیکنالوجیز کی طرف بڑھ رہی ہے، ویسے ہی متعدد ممالک کے لیے پیداواری لاگت اٹھانا بے معنی ہوتا جا رہا ہے۔ نئے بینک نوٹوں کی طلب میں کمی نے ڈنمارک کو بھی سنہ 2014 میں آؤٹ سورسنگ پر جانے پر مجبور کر دیا تھا اور اب یہ یورپی ملک بھی ایک دوسرے ملک میں نوٹ چھپواتا ہے۔

    لیکن کسی دوسرے ملک میں نوٹ پرنٹ کروانے کے نقصانات بھی ہیں، کچھ حکومتیں دوسرے ممالک پر پابندیاں عائد کرنے کے لیے اسے بطور ہتھیار استعمال کر سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر اقوام متحدہ کی طرف سے لیبیا کے سابق حکمران معمر قذافی پر پابندیوں کے بعد برطانیہ نے ڈی لا رو کو لیبیائی دینار پرنٹ کرنے سے روک دیا تھا۔

    کئی افریقی ممالک اس منصوبے پر بھی کام کر رہے ہیں کہ افریقی ممالک کی کرنسی اسی براعظم میں پرنٹ کی جائے لیکن افریقی ممالک آپس میں ایک دوسرے پر اس حوالے سے کم ہی اعتبار کرتے ہیں۔ ان ممالک کو بیرون ملک بیٹھی کمپنیوں پر اعتبار زیادہ ہے۔

  • افریقہ میں 23 سال بعد پولیو کیس رپورٹ

    افریقہ میں 23 سال بعد پولیو کیس رپورٹ

    للنگوے: افریقی ملک ملاوی میں 23 سال بعد پولیو کیس رپورٹ کیا گیا ہے، فی الوقت دنیا کے صرف 2 ممالک پاکستان اور افغانستان میں پولیو وائرس موجود ہے، ملاوی کو 23 سال قبل پولیو سے پاک ملک کا درجہ دیا جاچکا ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق افریقی ملک ملاوی میں 23 سال بعد 3 سالہ بچی میں پولیو وائرس کی تشخیص نے عالمی ادارہ برائے صحت کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔

    عالمی ادارہ برائے صحت کا کہنا ہے کہ ملاوی کو 23 سال قبل پولیو سے پاک ملک کا درجہ دے دیا گیا تھا، تاہم اب وہاں ایک 3 سالہ بچی میں اس وائرس کی موجودگی پائی گئی ہے۔

    ڈبلیو ایچ او کے مطابق ملاوی میں پولیو کا آخری کیس 1999 اور براعظم افریقہ میں 2016 میں سامنے آیا تھا۔

    ڈبلیو ایچ او افریقہ کے علاقائی ڈائریکٹر ڈاکٹر متشیدیو موئتی کا اس بارے میں کہنا ہے کہ لیباریٹری میں کی گئی جانچ سے پتہ چلا کہ اس وائرس کا تعلق پاکستان میں ابھی تک گردش کرنے والی قسم سے ہے۔

    انہوں نے کہا کہ دارالحکومت للنگوے میں رپورٹ ہونے والے اس کیس میں مذکورہ بچی کی ایک ٹانگ متاثر ہوگئی ہے۔

    ڈائریکٹر کا مزید کہنا تھا کہ پولیو کے تدارک کے لیے کیے گئے سخت اقدامات کی وجہ سے فوراً اس بچی میں وائرس کی شناخت کر لی گئی ہے، اوراس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے ضروری اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

    خیال رہے کہ اس وقت دنیا کے صرف 2 ممالک پاکستان اور افغانستان میں پولیو وائرس موجود ہے۔

  • پاکستان سفارتی حوالے سے انگیج افریقہ کی پالیسی پر گامزن ہے: وزیر خارجہ

    پاکستان سفارتی حوالے سے انگیج افریقہ کی پالیسی پر گامزن ہے: وزیر خارجہ

    اسلام آباد: وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے جمہوریہ کانگو کے مسلح افواج کے کمانڈر ان چیف سے ملاقات کے دوران کہا کہ پاکستان سفارتی حوالے سے انگیج افریقہ کی پالیسی پر گامزن ہے۔

    تفصیلات کے مطابق جمہوریہ کانگو کے مسلح افواج کے کمانڈر ان چیف کی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ملاقات ہوئی، ملاقات میں سفارتی، اقتصادی، علاقائی اور سلامتی سے متعلقہ امور پر تبادلہ خیال ہوا۔

    وزیر خارجہ نے معزز مہمان کو پاکستان آمد پر خوش آمدید کہا۔

    وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ افریقہ میں جمہوریہ کانگو کو ایک کلیدی ملک کی حیثیت حاصل ہے، انہوں نے کانگو میں پرامن جمہوری حکومت کی منتقلی پر مبارک باد بھی دی۔

    شاہ محمود قریشی نے جمہوریہ کانگو کے وزیر خارجہ کے لیے دورہ پاکستان کی دعوت کا پیغام بھی دیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان سفارتی حوالے سے انگیج افریقہ کی پالیسی پر گامزن ہے۔

    فریقین کے درمیان دفاع، تربیت اور دو طرفہ تعاون کے فروغ پر بھی گفتگو ہوئی، شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان علاقائی امن کے حوالے سے کانگو کے کردار کا معترف ہے، جمہوریہ کانگو میں قیام امن کے لیے کردار جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہیں۔

    جمہوریہ کانگو کے مسلح افواج کے کمانڈر ان چیف نے بھی پاکستانی فورسز کی خدمات کو سراہا۔

  • نائیجیریا میں دوسری پاک افریقہ کانفرنس اور سنگل کنٹری نمائش

    نائیجیریا میں دوسری پاک افریقہ کانفرنس اور سنگل کنٹری نمائش

    اسلام آباد: مشیر تجارت عبد الرزاق داؤد نائیجیریا کے دورے پر روانہ ہوگئے جہاں وہ دوسری پاک افریقہ کانفرنس اور سنگل کنٹری نمائش میں شریک ہوں گے۔

    تفصیلات کے مطابق وزارت تجارت کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ مشیر تجارت عبد الرزاق داؤد نائیجیریا کے دورے پر روانہ ہوگئے ہیں۔

    دورے کے دوران مشیر تجارت نائیجیریا میں دوسری پاک افریقہ کانفرنس اور سنگل کنٹری نمائش میں شریک ہوں گے۔ کانفرنس اور نمائش میں پاکستان سے 115 کاروباری وفود شرکت کریں گے۔

    وزارت تجارت کے مطابق کانفرنس اور نمائش میں ٹیکسٹائل، فارما سیوٹیکل، انجینیئرنگ، خوراک اور سبزیوں کی کمپنیاں شریک ہوں گی۔

    علاوہ ازیں آئی ٹی سے تعلق رکھنے والی پاکستانی کمپنیاں بھی اپنی مصنوعات نمائش میں پیش کریں گی۔ کانفرنس اور نمائش کا اہتمام وزارت تجارت کی طرف سے لک افریقہ پالیسی کے تحت کیا جاتا ہے۔

  • دوسری پاکستان افریقہ تجارتی کانفرنس نائیجیریا میں ہوگی: مشیر تجارت

    دوسری پاکستان افریقہ تجارتی کانفرنس نائیجیریا میں ہوگی: مشیر تجارت

    اسلام آباد: مشیر تجارت عبد الرزاق داؤد کا کہنا ہے کہ دوسری پاکستان افریقہ تجارتی کانفرنس نائیجیریا میں ہوگی، وزارت تجارت متنوع اور جیوگرافک برآمدات کے لیے کوشاں ہے۔

    تفصیلات کے مطابق مشیر تجارت عبد الرزاق داؤد کا کہنا ہے کہ دوسری پاکستان افریقہ تجارتی کانفرنس نائیجیریا میں ہوگی، تجارتی کانفرنس 23 نومبر سے 25 نومبر تک لے گوس میں ہوگی۔

    مشیر تجارت کا کہنا ہے کہ پاکستان سے 100 سے زائد کمپنیاں تجارتی کانفرنس میں شرکت کریں گی، یہ کانفرنس کینیا میں ہونے والی پہلی کانفرنس کا تسلسل ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ وزارت تجارت متنوع اور جیوگرافک برآمدات کے لیے کوشاں ہے۔

  • دنیا بھر میں شادی کی عجیب و غریب رسومات

    دنیا بھر میں شادی کی عجیب و غریب رسومات

    دنیا بھر میں زندگی کے ہر موقعے کے لیے عجیب و غریب رسمیں موجود ہیں، شادی بھی ایسا ہی موقع ہے جب ہر ملک میں مختلف رسموں کی ادائیگی کی جاتی ہے۔

    براعظم افریقہ رسومات کے حوالے سے نہایت منفرد اور انوکھا ہے۔ افریقہ کے ایک علاقے میں شادی والے دن ساس اپنے داماد کو مرغا بنا کر اس کے ٹخنوں پر ڈنڈے مارتی ہے۔

    اسی طرح ایک قبیلہ شادی کے قابل ہوجانے والے نوجوانوں کے ساتھ ایک تکلیف دہ رسم منعقد کرتا ہے، ان نوجوانوں کے ہاتھ ایک ایسے بیگ یا لفافے میں بند کردیے جاتے ہیں جس میں سرخ چیونٹیاں ہوتی ہیں۔

    ان چیونٹیوں کا ڈنک نہایت خطرناک ہوتا ہے اور نوجوانوں کو اسے برداشت کرنا ہوتا ہے، جو نوجوان تڑپ کر لفافے سے ہاتھ نکال لے اسے شادی کے قابل نہیں سمجھا جاتا۔

    اسی طرح ایک قبیلے میں لڑکے کے لیے لازمی ہے کہ وہ شادی سے قبل 12 سے 15 گائیں پالے، اور پھر ایک دن ان پر گوبر مل کر ایک ساتھ چھلانگ مارے۔ اگر اس دوران وہ گر پڑا تو اس کی شادی کا پروگرام منسوخ کردیا جاتا ہے۔

    ایسی ہی کچھ رسومات خواتین کے لیے بھی ہیں۔ ایک قبیلے کی خواتین کے لیے لازمی ہے کہ شادی سے قبل وہ اپنے دانتوں کو کلہاڑے سے نوکیلے کروائیں۔ اس کے بغیر ان کی شادی ہونا ناممکن ہے۔

  • وبا سے افریقی ممالک میں مشکلات، سعودی عرب کا اربوں ریال مدد کا اعلان

    وبا سے افریقی ممالک میں مشکلات، سعودی عرب کا اربوں ریال مدد کا اعلان

    ریاض: سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے براعظم افریقہ کے ممالک کی مدد کے لیے منعقدہ پیرس سربراہی کانفرنس سے آن لائن خطاب کیا اور کہا کہ سعودی عرب افریقی ممالک میں 3 ارب ریال سے زائد مالیت کے پروگرام شروع کرے گا۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا ہے کہ سعودی ترقیاتی فنڈ افریقہ کے ساحلی ممالک کے ترقیاتی منصوبوں میں ایک ارب ریال کے لگ بھگ سرمایہ لگائے گا اور یہ کام فرانس کی ترقیاتی ایجنسی کے تعاون سے کیا جائے گا۔

    ولی عہد کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کا ترقیاتی فنڈ افریقہ کے ترقی پذیر ممالک میں 3 ارب ریال سے زائد مالیت کے پروگرام مستقبل میں نافذ کرے گا، یہ رقمیں قرضوں، عطیات اور منصوبہ جات کی شکل میں خرچ کی جائیں گی۔

    انہوں نے کہا کہ سعودی عرب نے 50 ارب سے زائد درختوں کی شجر کاری کے لیے گرین مشرق وسطیٰ پروجیکٹ کا اعلان کیا ہے، اس سے افریقی ممالک بھی فائدہ اٹھائیں گے۔

    شہزادہ محمد بن سلمان نے افریقی ممالک کی مدد سے متعلق عالمی کانفرنس منعقد کرنے پر فرانسیسی صدر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ سربراہ کانفرنس براعظم افریقہ، اس کے ممالک اور اقوام کے مستقبل سے دلچسپی کا بھرپور اظہار ہے۔ خصوصا کرونا وبا کے زمانے میں براعظم افریقہ کے لیے یہ ضروری ہے۔

    انہوں نے کہا کہ یہ وبا سرحدیں نہیں جانتی، اس نے دنیا کے مختلف علاقوں میں انسانوں کی روزمرہ کی زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا ۔خصوصا صحت اور معیشت پر بہت برا اثر ڈالا ہے۔

    ولی عہد کا کہنا تھا کہ کرونا وبا سے کم آمدنی والے افریقی ممالک بہت زیادہ متاثر ہوئے، اس وبا نے پائیدار ترقی کے اہداف حاصل کرنے کے لیے درکار فنڈنگ کی خلیج بڑھا دی۔ سعودی عرب نے براعظم افریقہ میں ترقیاتی عمل کو آگے بڑھانے میں کلیدی کردارادا کیا ہے جبکہ سعودی پبلک انویسٹمنٹ فنڈ افریقی ممالک کے لیے متعدد منصوبے اور اسکیمیں تیار کیے ہوئے ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ سعودی عرب افریقی ممالک میں انتہا پسندانہ اور دہشتگردانہ تنظیموں کے خلاف کارروائی میں بین الاقوامی کوششوں کی حمایت کررہا ہے اور کرتا رہے گا، دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھے گا اور افریقی ممالک کے سیکیورٹی اداروں کی استعداد بہتر بنانے کی کوششوں میں حصہ لیتا رہے گا۔

    ولی عہد کا کہنا تھا کہ اس وقت کا اہم مسئلہ یہ ہے کہ کم آمدنی والے افریقی ممالک میں ویکسین کی منصفانہ تقسیم ہو اور یہ کام تیزی سے انجام پائے، دیگر ممالک کو بھی یہ سہولت حاصل ہو۔

    انہوں نے کہا کہ سعودی عرب نے سنہ 2020 کے دوران جی 20 کی قیادت کرتے ہوئے افریقہ سمیت دنیا کے تمام کم آمدنی والے ممالک کی مدد کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ سعودی عرب کی جانب سے کم آمدنی والے ممالک کو ہنگامی امداد فراہم کی گئی۔ جی 20 نے 73 ممالک کو فوری نقد مدد مہیا کی، ان میں سے 38 کا تعلق افریقہ سے تھا۔ جی 20 نے 5 ارب ڈالر سے زیادہ کی امداد دی ہے۔

  • کرونا وائرس ویکسین کے حوالے سے عالمی ادارہ صحت کی اہم وضاحت

    کرونا وائرس ویکسین کے حوالے سے عالمی ادارہ صحت کی اہم وضاحت

    جنیوا: عالمی ادارہ صحت نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ کرونا وائرس کے لیے تیار کی جانے والی کسی بھی ویکسین کا کوئی تجربہ افریقہ میں نہیں کیا جائے گا۔

    عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈ روس ایڈہنم نے یہ وضاحت فرانسیسی ڈاکٹروں کے اس بیان کے تناظر میں دی ہے جس میں ڈاکٹرز نے کہا کہ کووڈ 19 کی ویکسین کا تجربہ افریقہ میں کیا جاسکتا ہے۔

    اس بارے میں دریافت کرنے پر ڈائریکٹر نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ سوچ نسل پرستانہ، شرمناک اور نو آبادیاتی دور کی باقیات ہے۔

    ان فرانسیسی ڈاکٹرز نے ایک ٹی وی پروگرام کے دوران کہا تھا کہ کوویڈ 19 کی ویکسین کا تجربہ افریقہ میں کیا جانا چاہیئے۔ ڈاکٹرز کے اس بیان پر سخت تنقید کی گئی جس کے بعد ایک ڈاکٹر نے اپنے الفاظ پر معافی بھی مانگی۔

    اسی بارے میں ٹیڈ روس کا کہنا ہے کہ تقریباً 20 انسٹی ٹیوٹس اور کمپنیاں ویکسین کی تیاری میں مصروف ہیں، لیکن ادویات اور ویکسین کی تیاری پر عالمی ادارہ صحت تمام ممالک اور انسانوں میں اس کی مساوی تقسیم کو یقینی بنانا چاہتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ فرانسیسی ڈاکٹرز کے بیانات دہشت زدہ کردینے والے ہیں، ایک ایسے وقت میں جب دنیا کو باہمی اتحاد کی ضرورت ہے، اس نوعیت کے نسل پرستانہ بیانات اس اتحاد کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

    ٹیڈ روس کا مزید کہنا تھا کہ افریقہ نہ تو کسی ویکسین کی تجربہ گاہ ہے اور نہ ہی کبھی ہوگا۔ ہم کووڈ 19 ویکسین کے ٹیسٹ کے لیے افریقہ اور یورپ کی تفریق کیے بغیر مساوی پروٹوکول پر عمل کریں گے۔

    انہوں نے کہا کہ عالمی ادارہ صحت ایسی کسی چیز کی اجازت نہیں دے گا، اکیسویں صدی میں سائنس دانوں سے ایسے بیانات سننا شرمناک ہی نہیں خوفناک بھی ہے۔ میں ان بیانات کی سختی سے مذمت کرتا ہوں۔