Tag: Africa

  • چھ سو سے زائد تارکین وطن سرحدی باڑ کاٹ کر اسپین میں داخل ہوگئے

    چھ سو سے زائد تارکین وطن سرحدی باڑ کاٹ کر اسپین میں داخل ہوگئے

    میڈرڈ: افریقہ کے چھ سو سے زائد تارکین وطن براستہ مراکش اسپین کی سرحد پر پہنچے اور باڑ کاٹ کر زبردستی اسپین کے علاقوں میں داخل ہوگئے۔

    تفصیلات کے مطابق سینکڑوں افریقی تارکین وطن ہسپانوی علاقے سبتہ ميں مراکش کے راستے داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے ہیں، اس دوران مہاجرین مراکش اور سبتہ کی مضبوط سرحدی باڑ کو آریوں اور قینچیوں سے کاٹا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق اسپین کی وزارت داخلہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ صبح کے وقت قریب چھ سو سے زائد مہاجرین نے سرحدی باڑ کاٹ کر اسپین کی سرحد میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئے۔

    بیان میں کہا گیا ہے کہ اس دوران بارڈر پولیس اور مہاجرین کے درمیان مزاحمت بھی ہوئی، تارکین وطن نے سرحد پار کرنے کے لیے بدنظمی پیدا کرنے کی کوشش بھی کی۔


    اسپین میں تارکین وطن کےحق میں مظاہرے


    قبل ازیں رواں برس جون میں ایک این جی او کے بحری جہاز پر موجود چھ سو تارکین وطن کو اس وقت اسپین میں داخلے کی اجازت دی تھی جب مالٹا اور اٹلی کی حکومتوں نے ان مہاجرین کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

    دوسری جانب اسپین کی امدادی تنظیموں کا کہنا ہے کہ مہاجرین کی آمد میں حالیہ اضافے کی وجہ سے ان کے لیے رہائش کا بندوبست اور پناہ کے عمل پر کارروائی مشکل ہوتی جا رہی ہے۔

    خیال رہے کہ اسپین میں غیر قانونی مہاجرت میں گزشتہ ایک برس میں مسلسل اضافہ ہوا ہے اور حالیہ چند ہفتوں میں گرم موسم کی آمد کے ساتھ ہی سمندر کے راستے اسپین پہنچنے والے پناہ گزینوں کی تعداد بھی بڑھ گئی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • چاڈ جھیل کے سُکڑنے سے افریقی ممالک میں قحط سالی کا خدشہ

    چاڈ جھیل کے سُکڑنے سے افریقی ممالک میں قحط سالی کا خدشہ

    چاڈ:افریقہ کے جنوبی حصّے میں کروڑوں نفوس پر مشتمل آبادی کو سیراب کرنے والی چاڈ جھیل ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث مسلسل سُکڑرہی ہے، جس کے باعث جھیل کے اطراف میں قحط سالی کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق براعظم افریقہ جنوبی حصے میں بہنے والی چاڈ جھیل اقتصادی طور پر خصوصی اہمیت کی حامل ہے، اس کے گرد چار ممالک چاڈ، کیمرون، نائجر اور نائجیریا آباد ہیں، جن کی مجموعی آبادی تقریباً 3 کروڑ ہے۔

    چاڈ جھیل کے کنارے آباد 3 کروڑ آبادی اس سے سیراب ہوتی ہے

    ایک زمانے میں جھیل چاڈ 26 ہزار مربع کلو میٹر تک پھیلی ہوئی تھی جو دنیا کی بڑی جھیلوں میں سے ایک تھی، لیکن بعد میں موسمیاتی تبدیلیوں اور گذشتہ 40 سال کے دوران بڑھتی طلب کے باعث اس کے حجم میں تیزی سے کمی واقع ہونے لگی۔

     

    ایک حالیہ تحقیق کے مطابق جھیل کے سکڑنے کا ایک بڑا سبب افریقہ میں بارشوں میں واضح کمی اور جھیل کے پانی نہری نظام میں بڑھتا ہوا استعمال ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ اگر فوری اقدامات نہیں کیے گئے، تو مستقبل میں یہ جھیئل مزید سکڑے گی۔


    صحرائے اعظم کا غیرفطری پھیلاؤ، خشک سالی اور گرمی میں شدید اضافے کا خدشہ


    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ 3 کروڑ عوام کو سیراب کرنے والی افریقہ کی  سب سے بڑی جھیل چاڈ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے سن 1980 اور 1984 میں بھی خشک گئی تھی۔

    سن 1973 سے 2017 تک چاڈ جھیل میں ہونے والی تبدیلی

    مملکت چاڈ کے سرکاری حکام نے غیر ملکی خبر رساں ادارے کو بتایا کہ حکومت جھیل کا رقبہ دوبارہ بڑھانے کے لیے جدید نہری نظام کی تشکیل کے لیے کوششیں کررہی ہے، البتہ مالی وسائل میں کمی کے باعث مشکلات کا سامنا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • صحرائے اعظم کا غیرفطری پھیلاؤ، خشک سالی اور گرمی میں اضافے کا خدشہ

    صحرائے اعظم کا غیرفطری پھیلاؤ، خشک سالی اور گرمی میں اضافے کا خدشہ

    بر اعظم افریقا کے شمال میں واقع صحرائے اعظم کے مسلسل پھیلاؤ کی وجہ سے خطے میں خشک سالی اور گرمی میں شدید اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق صحارا دنیا کا سب سے بڑا صحرا ہے۔ جِس کا کل رقبہ 92 لاکھ کلومیٹر ہے، جو امریکا کے رقبے سے زیادہ  ہے۔ البتہ اب یہ صحارا غیر فطری پھلاؤ کی وجہ سے انسانی سرگرمیوں کو مسلسل متاثر کررہا ہے۔

    صحارا کی کل آبادی تقریباً 25 لاکھ افراد پر مشتمل ہے، جن میں اکثریت مصر، ماریطانیہ، مراکش، اور الجزائر کے افراد کی ہے، صحارا میں آباد باشندوں کی زیادہ تر تعداد بَربَر نَسل سے تعلق رکھتی ہے۔

    صحارا میں آباد باشندوں کے رہنے کا انداز

    ایک تازہ ترین تحقیق کے مطابق صحارا کا رقبہ مزید پھیلتا ہی جارہا ہے اور گذشتہ ایک سو سال میں اس کے رقبے میں دس فیصد اضافہ ہوچکا ہے.

    تحقیقی رپورٹ کے مطابق صحرا جنوب کی جانب حرکت کرتے ہوئے سوڈان اور چاڈ کی حدود میں داخل ہورہا ہے، جس کے باعث دونوں ملکوں کے سرسبز علاقے خشک ہورہے ہیں اور فصل اُگانے والی زمینیں بھی بنجر ہوتی جارہی ہیں۔

    صحارا کے رقبے میں اضافے سے کاشت کاری زمینیں بنجر ہورہی ہیں

    دنیا کی آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ صِحراؤں کے کناروں پر رہنے والوں باشندوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے، تو دوسری طرف صِحراؤں کے پھیلنے کی وجہ سے ان کی زرعی زمین بھی صِحرا میں بدلتی جارہی ہیں۔

    جنرل آف کلائمیٹ میں شائع ہونے والی تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گذشتہ ایک صدی کے دوران صَحارا کے رقبے میں ہونے والا اضافہ پاکستان کے رقبے سے بھی زیادہ ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ صِحرائے اَعظم میں اِضافے کی بڑی وجہ ماحولیاتی تبدیلیاں ہیں۔

    ایک نئی تحقیق میں سائنس دانوں نے 1920 کے بعد سے براعظم افریقہ میں ہونے والی برسات کا جائزہ لیا تو اندازہ ہوتا ہے کہ انسانی سرگرمیوں کے باعث ماحول میں آنے والی تبدیلی بھی صحرا میں اضافے کی ایک اہم وجہ ہے۔

    سائنس دانوں نے تحقیق میں انکشاف کیا ہے کہ مستقبل میں صحارا کے رقبے میں اضافے کا عمل جاری رہے گا، یہ عمل صرف صِحرائے اَعظم تک محدود نہیں ہے، بلکہ دنیا کے دیگر کَئی صِحراؤں میں اضافہ ہورہا ہے۔

    صحارا

    تحقیق میں شامل پروفیسر سمنت نگم کا کہنا تھا کہ ’یہ نتائج صحارا سے مخصوص ہیں، البتہ ان کے اثرات دنیا کے دوسرے صحرائی علاقوں میں بھی نظر آئیں گے۔

    ایک اور تحقیق کار ڈاکٹر منگ کائی کا کہنا تھا کہ ’ماحول میں گرین ہاؤس گیسوں کی بڑھتی مقدار کے باعث برِ اَعظم اَفریقا میں موسمِ گرما گرم تَر ہوتا جا رہا ہے، جبکہ بارشُوں میں واضح کِمی آرہی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • افریقہ کے گاؤں میں مٹی کے خوبصورت منقش گھر

    افریقہ کے گاؤں میں مٹی کے خوبصورت منقش گھر

    مغربی افریقی ملک برکینا فاسو کے ایک گاؤں طیبیل میں یوں تو لوگ عام سے مٹی سے بنے ہوئے گھروں میں رہتے ہیں، لیکن ان گھروں کی دیواروں پر نہایت دیدہ زیب اور انوکھی نقش نگاری کر کے انہیں نہایت خوبصورت بنا دیا گیا ہے۔

    برکینا فاسو کا یہ گاؤں دنیا بھر میں اپنے ان خوبصورت منقش گھروں کی وجہ سے مشہور ہے۔ اس گاؤں کو 15 صدی عیسوی میں بسایا گیا تھا۔

    یہاں کے لوگ گھر کی دیواروں پر نقش نگاری کے لیے مٹی اور چونے میں مختلف رنگوں کی آمیزش کردیتے ہیں۔ مردوں کو دفن کرنے کے لیے مخصوص مقام بھی اسی طرح کی نقش و نگاری سے آراستہ ہے۔

    دیواروں پر بنائے جانے والے یہ نقش، اشکال اور پیٹرنز قدیم افریقی ثقافت و مصوری کا حصہ ہیں۔ یہاں موجود افراد کے مطابق گھروں کی بیرونی دیواروں کو اس طرح رنگوں سے آراستہ کرنے کی روایت کا آغاز 16 صدی عیسوی سے ہوا۔

    ان گھروں کی ایک اور خاص بات ان کے چھوٹے دروازے ہیں۔ گھروں کا داخلی دروازہ نہایت مختصر سا ہوتا ہے جو دراصل دشمنوں سے بچنے کے مقصد کے پیش نظر رکھا جاتا ہے۔

    یہاں ایک اور روایت ہے کہ کسی گھر کے مکمل ہونے کے بعد گھر کا مالک رہائش اختیار کرنے سے قبل 2 دن تک انتظار کرتا ہے۔ اگر ان 2 دنوں میں گھر میں کوئی چھپکلی نظر آئے تو ایسے گھر کو قابل رہائش سمجھا جاتا ہے۔

    لیکن اگر گھر میں کوئی چھپکلی نہ دکھے تو اسے بدشگونی قرار دے گھر کو ڈھا دیا جاتا ہے۔

    اس گاؤں کے ثقافتی ورثے اور روایات کو دیکھتے ہوئے اسے سیاحتی مقام کا درجہ دینے پر غور کیا جارہا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • افریقی ملک ملاوی میں آدم خوروں کی موجودگی

    افریقی ملک ملاوی میں آدم خوروں کی موجودگی

    مشرقی افریقہ کے ملک ملاوی میں 5 مبینہ آدم خوروں کو ہجوم نے تشدد کر کے ہلاک کردیا۔ تشدد کو بڑھنے سے روکنے کے لیے حکومت نے جنوبی علاقوں میں رات کا کرفیو نافذ کردیا۔

    بین الاقوامی رپورٹس کے مطابق افریقہ کا ملک ملاوی اس وقت آدم خوروں (انسانوں کو کھانے یا ان کا خون پینے والے) کی دہشت کی لپیٹ میں آگیا جب کچھ افراد نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے کچھ لوگوں کو دوسرے انسانوں کا خون پیتے دیکھا ہے۔

    اس افواہ کی تصدیق تو نہ ہوسکی تاہم یہ افواہ جنگل کی آگ کی طرح پورے ملک میں پھیل گئی اور لوگوں نے اپنے گھروں کے گرد حفاظتی باڑھ تعمیر کرلی جبکہ کچھ آدم خوروں کو مارنے کے لیے ان کی تلاش میں نکل گئے۔

    بعض اطلاعات کے مطابق یہ آدم خور پڑوسی ملک موزمبیق سے یہاں آئے۔

    گزشتہ روز ملاوی کے جنوبی علاقے میں ہجوم نے 5 مبینہ آدم خوروں کو ہلاک کردیا جس کے بعد ملک بھر میں مزید خوف و ہراس پھیل گیا۔

    تشدد کو بڑھنے سے روکنے کے لیے حکومت نے متاثرہ علاقوں میں رات کا کرفیو لگا دیا۔ ملاوی کے صدرکا کہنا ہے واقعہ کی مکمل تحقیقات کی جائیں گی۔

    دوسری جانب اقوام متحدہ نے بھی ملاوی کے 2 اضلاع سے اپنے عملے کو محفوظ مقام پر منتقل ہونے کی ہدایت کردی ہے جبکہ موزمبیق میں فی الحال اپنی تمام امدادی کارروائیاں معطل کردی ہیں۔

    یاد رہے کہ ملاوی کا شمار دنیا کے غریب ترین ممالک میں ہوتا ہے جہاں جادو ٹونے کا رواج نہایت عام ہے۔

    اس سے قبل سنہ 2002 میں بھی یہاں آدم خوروں کی موجودگی کی اطلاعات سامنے آئی تھیں جب کچھ بچوں اور خواتین نے دعویٰ کیا کہ ایک شخص نے ان پر حملہ کر کے ان کا خون پینے کی کوشش کی۔

    بعد ازاں اس مبینہ آدم خور کو بھی ہجوم نے تشدد کر کے ہلاک کردیا تھا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • افریقہ کی عظیم سبز دیوار

    افریقہ کی عظیم سبز دیوار

    براعظم افریقہ میں دیوار چین کی طرز پر ایک اور عظیم دیوار بنائی جارہی ہے۔ مگر اس دیوار کی منفرد بات یہ ہے کہ یہ دیوار درختوں پر مشتمل بالکل سبز ہوگی۔

    افریقہ میں جنگلات کی بے دریغ کٹائی اور بے روزگار افراد کی بڑی تعداد کو دیکھتے ہوئے اس منصوبے پر کام شروع کیا گیا جس سے ایک طرف تو افریقہ میں لوگوں کو ملازمتیں ملیں، تو دوسری جانب یہاں جنگلات میں بھی اضافہ ہوگا۔

    یہ دیوار مغرب میں افریقی ملک سینیگال سے لے کر مشرق میں صومالیہ تک بنائی جارہی ہے جو 15 کلو میٹر چوڑی ہوگی۔

    اس عظیم منصوبے کا آغاز سنہ 2007 سے کیا گیا تھا اور سینیگال میں اس کا کام تقریباً مکمل ہوچکا ہے۔ گو کہ یہ منصوبہ سینیگال کو 2 ارب ڈالرز کے قریب پڑا، تاہم اس سے ملک کی زرخیزی اور زراعت میں اضافہ ہوا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ دیوار پایہ تکمیل تک پہنچ جاتی ہے تو یہ دنیا کا سانس لیتا سب سے بڑا تعمیراتی شاہکار ہوگا۔

    مزید پڑھیں: افریقی خانہ جنگیوں سے گوریلا بھی غیر محفوظ

    تو اگر آپ کو موقع ملے، عظیم دیوار چین، اور عظیم دیوار افریقہ کی سیر کرنے کا، تو آپ کون سی دیوار کو منتخب کرنا چاہیں گے؟


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • پارلیمنٹ میں خواتین کی نمائندگی: پاکستان افریقی ممالک سے بھی بدتر پوزیشن پر

    پارلیمنٹ میں خواتین کی نمائندگی: پاکستان افریقی ممالک سے بھی بدتر پوزیشن پر

    جیسے جیسے زمانہ آگے کی جانب بڑھ رہا ہے، ویسے ویسے پرانے ادوار کے خیالات و عقائد اور تصورات میں بھی تبدیلی آتی جارہی ہے۔

    ایک وقت تھا کہ گھروں سے باہر نکل کر کام کرنے والی خواتین کو حیرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ تاہم اب وقت بدل گیا ہے۔ اب خواتین ہر شعبہ زندگی میں مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہو کر ملک و قوم کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔

    ایسا ہی کچھ حال سیاست کا بھی ہے۔

    اگر آپ پرانے ادوار میں چلنے والی سیاسی تحریکوں کی تصاویر دیکھیں تو ان میں خال ہی کوئی خاتون نظر آئے گی، تاہم خواتین اب سیاست میں بھی فعال کردار ادا کر رہی ہیں اور فی الحال دنیا کے کئی ممالک کی سربراہی خاتون صدر یا وزیر اعظم کے ہاتھ میں ہی ہے۔

    مزید پڑھیں: دنیا پر حکمرانی کی دوڑ میں خواتین مردوں سے آگے

    سیاست میں خواتین کے اسی کردار کی جانچ کے لیے عالمی اقتصادی فورم نے ایک فہرست مرتب کی جس میں جائزہ لیا گیا ہے کہ کس ملک کی پارلیمنٹ میں خواتین کی کتنی تعداد موجود ہے۔

    فہرست میں حیرت انگیز طور پر امریکا، برطانیہ یا کسی دوسرے یورپی ملک کے مقابلے میں افریقی ممالک کے ایوانوں میں خواتین نمائندگان کی زیادہ تعداد دیکھنے میں آئی۔

    اس فہرست میں افریقی ملک روانڈا سرفہرست رہا جس کی پارلیمنٹ میں خواتین ارکان اسمبلی کی شرح 63.8 فیصد ہے۔

    بدقسمتی سے عالمی اقتصادی فورم کی مذکورہ فہرست میں صف اول کے 10 ممالک میں کوئی ایشیائی ملک شامل نہیں۔

    اس بارے میں دنیا بھر کی پارلیمان اور ایوانوں کا ریکارڈ مرتب کرنے والے ادارے انٹر پارلیمنٹری یونین کی ویب سائٹ کا جائزہ لیا گیا تو پارلیمنٹ میں خواتین کی تعداد کے حوالے سے موجود فہرست میں پاکستان 89 ویں نمبر پر نظر آیا۔

    مذکورہ فہرست کے مطابق پاکستانی پارلیمنٹ میں خواتین کی نمائندگی صرف 20.6 فیصد ہے۔ یعنی 342 نشستوں پر مشتمل پارلیمان میں صرف 70 خواتین موجود ہیں جو ملک بھر کی 10 کروڑ 13 لاکھ سے زائد (مردم شماری کے غیر سرکاری نتائج کے مطابق) خواتین کی نمائندگی کر رہی ہیں۔

    اس معاملے میں افغانستان جیسا قدامت پسند ملک بھی ہم سے آگے ہے جو 27.7 فیصد خواتین اراکین پارلیمان کے ساتھ 53 ویں نمبر پر موجود ہے۔

    افغان پارلیمان

    فہرست میں پڑوسی ملک بھارت 147 ویں نمبر پر موجود ہے جس کی 542 نشستوں پر مشتمل لوک سبھا میں صرف 64 خواتین موجود ہیں۔

    صنفی ماہرین کا کہنا ہے کہ پالیسی سازی کے عمل اور قومی اداروں میں خواتین کی شمولیت اس لیے ضروری ہے تاکہ وہ ملک کی ان خواتین کی نمائندگی کرسکیں جو کمزور اور بے سہارا ہیں۔

    مزید پڑھیں: ہیلری کلنٹن کی شکست کی وجہ خواتین سے نفرت؟

    کسی ملک میں خواتین کو کیا مسائل درپیش ہیں، اور ان سے کیسے نمٹنا ہے، یہ ایک ایسی خاتون سے بہتر کون جانتا ہوگا جو نہ صرف اپنی انتخابی مہم کے دوران ان خواتین سے جا کر ملی ہو اور ان کے مسائل سنے ہوں، بلکہ خود بھی اسی معاشرے کی پروردہ اور انہی مسائل کا شکار ہو۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • غربت کے سبب افریقی نوجوان شدت پسند بن رہے ہیں

    غربت کے سبب افریقی نوجوان شدت پسند بن رہے ہیں

    رسلز : اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ افریقی ممالک میں غربت اور بے روزگاری کی وجہ سے نوجوان شدت پسندی کی جانب مائل ہو رہے ہیں۔

    اقوام متحدہ کی جانب سے صومالیہ، نائجیریا، کینیا، سوڈان، نائجر اور کیمرون میں سرگرم عسکری گروپوں کے تقریبا 5 سو اراکین کے انٹرویو کے بعد کہا گیا ہے کہ گزشتہ کئی برسوں سے افریقہ میں عسکری کارروائیاں کرنے والے گروپوں میں اضافہ غربت اور بے روزگاری کی باعث ہوا ہے۔

    یاد رہے کہ براعظم افریقہ دنیا کا دوسرا بڑا اعظم ہونے کے علاوہ دنیا کا دوسرا سب سے زیادہ آبادی والا براعظم بھی ہے۔

    نائیجیریامیں بوکوحرام کا مسجد پرحملہ‘100 افراد ہلاک

    افریقا کے نمایاں شدت پسند گروہوں میں القائدہ افریقا‘ بوکو حرام‘ الشباب‘ انصار الشریعہ اور البرکات جیسے گروہ شامل ہیں ‘ ان میں سے بوکو حرام اپنی سفاکانہ کارروائیوں کے ساتھ سرفہرست ہے ‘ جس نے ایک طویل عرصے تک نائجیریا میں دہشت اور بربریت کا باز ار گرم رکھا تاہم اب وہاں کی حکومتی فورسز کی کارروائیوں کے نتیجے میں یہ تنظیم دفاعی جنگ لڑنے تک محدود ہوگئی ہے‘ دوسری جانب عراق اور شام میں برسرِ پیکار داعش نے بھی افریقا میں اپنے پنجے گاڑنا شروع کردیے ہیں ۔

    غربت کی شرح زیادہ ہونے کے سبب افریقہ کے 5 سے 14 سال کی درمیانی عمر کے 40 فیصد بچے مزدوری کرتے ہیں اور ان کا شمار چائلڈ لیبر میں ہوتا ہے‘ ان کی اوسط آمدن بھی انتہائی کم ہوتی ہے ۔یہی بچے دہشت گرد تنظیموں کا آسان شکار ہوتے ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔

  • افریقی خواتین اپنے گاؤں کو روشن کرنے کے مشن پر

    افریقی خواتین اپنے گاؤں کو روشن کرنے کے مشن پر

    طویل خانہ جنگیوں کے شکار ممالک کو جنگ ختم ہونے کے بعد اپنی معیشت اور انفرا اسٹرکچر کی بحالی، یا یوں کہہ لیجیئے کہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے لیے ایک طویل وقت درکار ہوتا ہے۔

    اس دور میں ملک کے ہر شخص کو، چاہے وہ تعلیم یافتہ ہو یا نہ ہو، کسی بھی شعبہ، کسی بھی ذریعہ روزگار سے تعلق رکھتا ہو، صنف اور عمر کی تفریق کے بغیر فعال کردار ادا کرنے کی ضورت ہوتی ہے تاکہ ملک کو جنگ کی تباہی سے نکالا جاسکے۔

    براعظم افریقہ اس لحاظ سے ایک بدقسمت خطہ ہے کہ وہاں کے زیادہ تر ممالک طویل عرصے سے خونی تنازعوں اور خانہ جنگیوں میں الجھے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ افریقہ کا شمار تیسری دنیا میں ہوتا ہے جہاں زندگی کی بنیادی سہولیات بھی ناپید ہیں اور ہر طرف بھوک، غربت اور خوف کے سائے ہیں۔

    مغربی افریقہ کا ملک لائبیریا بھی ایسا ہی ملک ہے جو سنہ 1989 سے 1997 تک ایک طویل خانہ جنگی کا شکار رہا۔ اس جنگ میں 6 لاکھ افراد مارے گئے۔

    ابھی ملک اس جنگ کی تباہ کاریوں سے سنبھلنے بھی نہ پایا تھا کہ سنہ 1999 میں ایک اور خانہ جنگی کا آغاز ہوگیا جو بظاہر تو لائبیریا میں جمہوریت کے لیے لڑی جارہی تھی، تاہم اس جنگ نے بچی کچھی زراعت، معیشت اور انفرا اسٹرکچر کو بھی تباہ کردیا۔

    ان خانہ جنگیوں نے لوگوں سے زندگی کی بنیادی ضروریات بھی چھین لی۔ دور دور تک غربت، بے روزگاری اور جہالت کا اندھیرا ہے۔

    دو طویل خانہ جنگیوں نے اس ملک کو بجلی کی نعمت سے بھی محروم کردیا ہے۔ آج اس تباہ حال ملک کی صرف 10 فیصد آبادی ایسی ہے جسے جدید دور کی یہ بنیادی سہولت یعنی بجلی میسر ہے۔

    لائبیریا کا گاؤں ٹوٹوا بھی ایسا ہی گاؤں ہے جہاں کبھی پاور گرڈز موجود تھے مگر خانہ جنگی کے دوران یہ تباہ کردیے گئے جس کے بعد سے گاؤں والے بیٹری سے چلنے والے لالٹینوں سے اپنے گھروں کو روشن کرتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: پناہ گزین کیمپ کی خواتین کا معاشی خوشحالی کا سفر

    یہاں کچھ قریبی آبادیاں جو ذرا خوشحال ہیں، اپنے گھروں کو جنریٹرز سے روشن رکھتی ہیں۔

    توانائی کے اس ذریعہ کا مرکز قریب واقع ایک جزیرہ ہے جسے مقامی زبان میں ’540‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ دراصل خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد لائبیرین فوجیوں کو ہتھیار ڈالنے کے عوض 540 ڈالر ادا کیے گئے تھے، اور اس جزیرے سے بجلی کی سہولت سے فائدہ اٹھانے والے زیادہ تر یہی فوجی ہیں جو ان ڈالرز کی بدولت اپنے ہم وطنوں کی نسبت کچھ خوشحال ہیں۔

    یہ گاؤں یوں ہی اندھیروں میں ڈوبا رہتا، اگر اقوام متحدہ ان کی مدد کو آگے نہ بڑھتا۔

    اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خواتین یو این وومین نے ان دیہاتوں کو بجلی کی فراہمی کے لیے شمسی توانائی کے ذرائع کا سوچا۔

    تاہم مسئلہ یہ تھا کہ اگر یہاں شمسی پینل نصب کردیے جائیں تو ان کی دیکھ بھال اور مرمت کون کرے گا؟ تب یو این وومین نے اس مقصد کے لیے یہاں کی خواتین کو چنا۔

    پروجیکٹ کے آغاز کے بعد لائبیریا کے علاوہ یوگنڈا، جنوبی سوڈان اور تنزانیہ کے متعدد دیہاتوں سے کچھ خواتین منتخب کی گئیں جنہیں سولر پینلز کی دیکھ بھال کی تربیت دی گئی۔ اب یہ خواتین سولر انجینئرز کہلائی جاتی ہیں۔

    شمسی توانائی کی آمد سے قبل گاؤں والے اپنے گھروں کو مٹی کے تیل سے جلنے والے لالٹینوں سے روشن رکھتے تھے جو ان کی صحت اور ماحول دونوں کے لیے خطرناک تھے۔

    تاہم اب گاؤں میں خواتین سولر انجینئر کی موجودگی کے باعث گاؤں کا بڑا حصہ روشنی کی نعمت سے مالا مال ہوگیا ہے۔

    یہ خواتین گاؤں کے مختلف گھروں میں ان پینلز کی تنصیب کا کام کرتی ہیں۔ علاوہ ازیں جن گھروں میں یہ پینلز نصب ہیں، کسی خرابی کی صورت میں یہ وہاں جا کر مرمت بھی کرتی ہیں۔

    امن کی جھونپڑیاں

    لائبیریا میں خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد گاؤں کی ان خواتین نے امن کی جھونپڑیاں یا پیس ہٹس بنانے بھی شروع کردیے جن کا رجحان ملک بھر میں پھیل گیا۔ یہ جھونپڑیاں جنگ سے نفرت اور امن کے فروغ کا اظہار تھیں۔

    ان جھونپڑیوں کی حیثیت ایسی ہی ہے جیسے برصغیر میں چوپال کی، بس فرق یہ ہے کہ افریقہ کی یہ چوپال خواتین کے لیے ہے۔

    مزید پڑھیں: خواتین کے لیے صحت مند تفریح کا مرکز ویمن ڈھابہ

    اب جبکہ کئی دیہات شمسی توانائی کی بدولت روشن ہوچکے ہیں تو ان جھونپڑیوں میں رات کے وقت محفلیں جمتی ہیں جہاں خواتین مطالعہ کرتی ہیں، ایک دوسرے کے مسائل اور ان کے حل کے بارے میں گفتگو کرتی ہیں اور کچھ پل فرصت کے گزارتی ہیں۔

    ان خواتین کا عزم ہے کہ سولر انجینئرز کی تربیت لینے کے بعد یہ ملک کے دیگر پسماندہ حصوں کی خواتین کی بھی تربیت کریں تاکہ پورے ملک سے اندھیرے دور ہوں اور لائبیریا پھر سے ایک روشن ملک بن جائے۔

    مضمون و تصاویر بشکریہ: یو این وومین


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • بارودی سرنگیں ہٹانے والے ہیرو چوہے

    بارودی سرنگیں ہٹانے والے ہیرو چوہے

    چوہوں کے اندر چیزیں سونگھنے کی صلاحیت کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں بارودی سرنگ تلاش کرنے کی تربیت دی گئی جس کے بعد پہلا تجربہ افریقی علاقے موزمبیق میں کیا گیا۔

    چوہوں نے اپنی سونگھنے کی صلاحیت اور دی جانے والی تربیت کی مدد سے ہزاروں بارودی سرنگیں نکالیں اور زمین میں نصب ہونے والے بارودی مواد کی نشاندہی کی جس کے بعد 270 مربع میل کا علاقہ کلئیر کرواکے کاشت کاروں کے حوالے کردیا گیا۔

    mouse-6

    افریقی علاقے کی اس زمین پر 1980 میں بارودی سرنگیں بچھائی گئی تھیں جس کے بعد سے یہ غیر آباد تھی تاہم اب افریقی حکومت نے چوہوں کی مدد سے اس زمین کو کلئیر کرلیا ہے۔

    ایک بارودی سرنگ لگانے پر 30 ڈالر کے اخراجات آتے ہیں جبکہ اسے نکالنے یا ناکارہ بنانے پر 300 سے 1000 ہزار ڈالر تک خرچ ہوتے ہیں تاہم اب یہ کام چوہوں کی مدد سے بالکل مفت بلکہ کوڑیوں کے دام کیا جارہا ہے۔

    mouse-7

    ایک چوہا 100 مربع میٹر کے علاقے میں بارودی مواد تلاش کرنے کا کام 16 سے 25 منٹ میں ختم کرلیتا ہے جب کہ میٹل ڈیٹیکٹر کے ساتھ ایک انسان کو اس کے لیے 2 سے تین دن تک لگ سکتے ہیں۔

    mouse-5

    میٹل ڈیٹیکٹر کی مدد سے صرف دھاتی خول میں بند بارود کا پتا لگایا جاسکتا ہے جب کہ چوہا پلاسٹک کی بارودی سرنگوں کی بھی نشاندہی کر دیتا ہے جسے بصورت دیگر ڈھونڈنا کا فی دشوار ہوتا ہے۔

    mouse-3

    چوہے کو قدرت کی جانب سے سونگھنے کی طاقت ور حس عطا کی گئی ہے جس کی بدولت وہ اپنا شکار بھی تلاش کرلیتا ہے، اس خوبی کو مد نظر رکھتے ہوئے تربیت کاروں نے چوہوں کی تریبت کا عمل شروع کیا اور یہ کامیاب رہا۔

    mouse-4

    جنگلی چوہوں کے تحفظ پر کام کرنے والے بیلجئم کےایک ماہر برٹ نامی نوجوان نے اس کامیاب تجربے پر کہا کہ ’’یہ کام کتوں سے بھی لیا جاسکتا ہے مگر کتوں کی تربیت پر 40 ہزار ڈالر تک اخراجات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے جبکہ کتا اپنے مالک کے بغیر یہ کام نہیں کرے گا‘‘۔

    mouse-8

    انہوں نے کہا کہ ’’چوہے بارودی سرنگ کو تلاش کرنے کا کام صرف مونگ پھلی یا کیلے کے حصول کے لیے کرتے ہیں کیونکہ یہ دونوں چیزیں ان کی پسندیدہ غذائیں ہیں‘‘۔ چوہوں کی تربیت کرنے والے برٹ کا کہنا ہے کہ چوہے کی تربیت کا عمل 6 ماہ میں مکمل ہوجاتا ہے جس کے بعد یہ بہت اچھے کھوجی کا کام کرسکتا ہے۔


    پڑھیں: ’’ پشاور کینٹ میں چوہے کے سرکی قیمت300روپےمقرر ‘‘


    ان چوہوں کو ہیرو کا نام دیا گیا ہے جو تنزانیہ سمیت ، موزمبیق، انگولا، کمبوڈیا، لاؤس اور تھائی لینڈ میں بارودی سرنگیں ہٹانے کا کام کرچکے ہی کچھ عرصے سے امریکا میں بھی چوہوں کو جانوروں کی غیرقانونی تجارت کاکھوج لگانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔


    مزید پڑھیں: ہوشیار! کلائمٹ چینج کے باعث پہلا ممالیہ معدوم

    یہ بھی پڑھیں: ’’ انسانی خون کی منتقلی کے بعد بوڑھے چوہوں میں حیران کن تبدیلی ‘‘


    ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت دنیا کے جنگ اور شورش زدہ علاقوں میں 11 کروڑ سے زیادہ بارودی سرنگیں بچھی ہوئی ہیں، جن کی زد میں آکر ہر سال پانچ ہزار کے لگ بھگ لوگ ہلاک اور اس سے کہیں زیادہ زخمی ہوجاتے ہیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ بارودی سرنگیں براعظم افریقا میں ہیں اور انہیں ہٹانے کے لیے اربوں ڈالر درکار ہیں۔