Tag: Agra

  • بھارت میں تہرے قتل کی سفاکانہ واردات، دیکھنے والے بھی خوفزدہ

    بھارت میں تہرے قتل کی سفاکانہ واردات، دیکھنے والے بھی خوفزدہ

    آگرہ : بھارت میں تین افراد کے بہیمانہ قتل کی واردات ہوئی ہے، ملزمان نے ماں باپ اور بیٹے کو تشدد کے بعد جلا کر مار ڈالا، مقتولین کے منہ میں پلاسٹک کی تھیلیاں بھر دی گئیں تھیں۔

    تفصیلات کے مطابق بھارتی ریاست اترپردیش میں ایک ہی خاندان کے تین افراد کو بھیانک انداز میں قتل کردیا گیا، اترپردیش کے ضلع آگرہ کے علاقے اعتماالدولہ میں پیر کی صبح ایک ہی خاندان کے تین افراد کی لاشیں گھر سے برآمد ہوئی ہیں۔

    تینوں مقتولین کی لاشیں کافی حد تک جلی ہوئی ہیں۔ اس حوالے سے پولیس ذرائع نے بتایا کہ جائے وقوعہ سے شوہر، بیوی اور بیٹے کی لاشیں ملی ہیں۔

    مقتول رام ویر اس کی اہلیہ میرا اور 23 سالہ بیٹے ببلو کی نعشیں ٹیپوں سے بندھی پائی گئیں اور ان کے منہ میں پولیتھین کی تھیلیاں بھری ہوئی تھیں، پولیس کو نعشوں کے پاس ایک گیس سلینڈر بھی ملا ہے جس کا پائپ نکلا ہوا تھا مقتول رام ویر اپنے گھر میں بنایا ہوا جنرل اسٹور چلاتا تھا،

    عینی شاھدین کا کہنا ہے کہ پیر کی صبح انہوں نے دیکھا کہ دکان بند ہے جبکہ رام ویر اسے جلدی کھولتا تھا جب گھر کے اندر جھانک کر دیکھا تو پتہ چلا کہ وہاں لاشیں پڑی ہیں جس کے بعد پڑوسیوں نے پولیس کو مطلع کیا۔

    پولیس نے نعشیں تحویل میں لینے کے بعد پوسٹ مارٹم کیلئے اسپتال منتقل کردیں، ابتدائی اطلاعات کے مطابق پولیس اب تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی مقتول رام ویر کے بھائی کو پولیس نے طلب کرلیا، مزید تحقیقات جاری ہیں۔

  • بھارت: کرونا مریضوں کو دروازے کے باہر سے کھانا پھینک کر دیا جانے لگا

    بھارت: کرونا مریضوں کو دروازے کے باہر سے کھانا پھینک کر دیا جانے لگا

    نئی دہلی: بھارتی شہر آگرہ کے ایک قرنطینہ سینٹر میں مریضوں کو دروازے کے باہر سے پھینک کر کھانا دیا جانے لگا، شہر کے میئر نے مقامی انتظامیہ کو ناکارہ قرار دے کر شہر کے ووہان بننے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔

    بھارتی سوشل میڈیا پر وائرل ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک شخص حفاظتی لباس پہنے ایک دروازے کے اندر کھانے کا سامان اور پانی کی بوتلیں پھینک رہا ہے اور دروازے کے دوسری طرف کھڑے افراد اسے حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

    یہ ویڈیو مبینہ طور پر آگرہ کے ہندوستان کالج کی ہے جسے مقامی انتظامیہ نے قرنطینہ سینٹر میں تبدیل کردیا ہے۔

    مقامی افراد کا دعویٰ ہے کہ اس قرنطینہ میں اسی طرح سے کھانا تقسیم کیا جاتا ہے۔ آگرہ کے ضلع مجسٹریٹ پربھو نارائن سنگھ نے بھی اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ واقعہ کچھ روز پہلے پیش آیا تھا تاہم اب صورتحال مختلف ہے۔

    مجسٹریٹ کے مطابق واقعے کے بارے رپورٹ مرتب کی جارہی ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ اس سینٹر میں 500 سے زائد افراد رہ رہے ہیں تاہم ایک مقامی ہیلتھ افسر نے وہاں رہنے والے افراد کی تعداد 130 بتائی۔

    ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ اونیش کمار اوستھی کا کہنا ہے کہ واقعے کی تحقیقات کی جارہی ہیں، کھانا تقسیم کرنے میں کچھ دیر ہوئی تھی جس کی وجہ سے افراتفری کی صورتحال پیش آئی۔

    خیال رہے کہ آگرہ میں کرونا وائرس کی صورتحال نہایت خراب ہے، آگرہ کے میئر نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ شہر میں ووہان جیسی صورتحال ہوسکتی ہے کیونکہ مقامی انتظامیہ نہایت ناکارہ ہے۔

    ان کا کہنا ہے کہ ہاٹ اسپاٹ ایریا میں بنائے گئے قرنطینہ سینٹروں میں کئی کئی دنوں تک جانچ نہیں ہو پا رہی، نہ ہی مریضوں کے لیے کھانے پانی کا مناسب انتظام کیا جارہا ہے۔

    میئر نے اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ کو خط لکھتے ہوئے کہا ہے کہ میرا آگرہ بحران سے گزر رہا ہے۔ آگرہ کو بچانے کے لیے سخت فیصلے لینے کی ضرورت ہے، حالات بہت سنگین ہو چکے ہیں۔ میں آپ سے ہاتھ جوڑ کر گزارش کر رہا ہوں کہ میرے آگرہ کو بچا لیجیئے۔

    دوسری جانب آگرہ سمیت پورے بھارت میں اب تک کرونا وائرس کے 31 ہزار 332 افراد میں کرونا وائرس کی تشخیص ہوچکی ہے جبکہ وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد 1 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔

  • لڑکیوں کے موبائل فون استعمال کرنے اور جینز ٹی شرٹ پر پابندی عائد

    لڑکیوں کے موبائل فون استعمال کرنے اور جینز ٹی شرٹ پر پابندی عائد

    آگرہ: بھارتی ریاست فتح گڑھی کے گاؤں خیر تحصیل میں پنجائیت نے فیصلہ کرتے ہوئے لڑکیوں کے موبائل فون کے استعمال، جینز اور ٹی شرٹ پہننے اور پر مکمل پابندی عائد کردی جبکہ گاؤں میں شراب نوشی اور جوئے کے اڈے بھی بند کرنے کا اعلان کردیا گیا۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق نیک کرم چوہدری کی سربراہی میں بھارتی ریاست آگرہ کے گاؤں میں 28 رکنی مہا پنچائیت کا اجلاس منعقد کیا گیا، جس میں لڑکیوں کو موبائل فون کے استعمال جینز ٹی شرٹ پہننے پر پابندی جبکہ گاؤں میں جوئے اور شراب نوشی پر پابندی کا فیصلہ کیا گیا۔

    پنجائیت کے سربراہ نیک کرم چوہدری نے فیصلے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ’’لڑکیوں کے موبائل فون کا استعمال جینز اور  ٹی شرٹ پہننا ہندوستانی روایات کے خلاف ہے، اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے پابندی کا فیصلہ کیا گیا ہے‘‘۔


    پڑھیں: ’’ لڑکیوں کا عالمی دن، پاکستان کا نام روشن کرنے والی طالبات ‘‘


     انہوں نے کہا کہ ’’پنجائیت کا فیصلہ نہ ماننے والے افراد اور اُن کے والدین کو سزا دی جائے گی تاہم سزا یا جرمانہ عائد کرنے کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا‘‘۔ چوہدری نیک کرم نے کہا کہ اگر گاؤں میں کوئی شخص جوا کھیلتے ہوئے پکڑا گیا تو اُس پر 3100 روپے جرمانہ جبکہ شراب نوشی والے کو 5000 روپے بطور ادا کرنے ہوں گے‘‘۔

    انہوں نے مزید کہا کہ جرمانے سے حاصل ہونے والی رقم گاؤں کے فلاحی کاموں پر لگائی جائے گی تاہم خلاف ورزی کرنے والے کو پنچائیت کی جانب سے اعلان کردہ سزا کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔

    بھارتی حکام کے مطابق گاؤں میں 2000 سے زائد خاندان آباد ہیں جو پنچائیت کا فیصلہ ماننے پر مجبور ہیں۔

    خیال رہے کہ رواں سال علی گڑھ میں واقع باسولی گاؤں میں بھی پنچائیت نے لڑکیوں کے موبائل فون کے استعمال پر پابندی لگائی ہے۔

  • بھارتی عدالت کا ’تاج محل‘ بچانے کے لئے ’شمشان گھاٹ‘ ہٹانے کا حکم

    بھارتی عدالت کا ’تاج محل‘ بچانے کے لئے ’شمشان گھاٹ‘ ہٹانے کا حکم

    نئی دہلی: بھارتی سپریم کورٹ نے اترپردیش کی حکومت کو ’تاج محل‘ کو آلودگی سے بچانے کے لئے شمشان گھاٹ منتقل کرنے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کت مطابق سپریم کورٹ کے ایک جج نے تاج محل کے دورے کے دوران مشاہدہ کیا کہ عظیم تاج پرکو شمشان سے اٹھنے والے دھویں اور راکھ سے نقصان پہنچ رہا ہے جس کے سدباب کے لئے ان کی جانب سے لکھے جانے والے خط پر سپریم کورٹ نے شمشان منقتل کرنے کا فیصلہ دیا۔

    واضح رہے کہ ہندو اپنے مردوں کو ان کے آخری انجام تک پہنچانے کے لئے لکڑیوں پر جلاتے ہیں تاہم بھارتی حکومت کوشاں ہیں کہ عوام لکڑیوں کے بجائے الیکٹرک شمشان کا استعمال کرنا شروع کردیں۔

    عظیم میناروں اورپرشکوہ گنبد سے آراستہ تاج محل دنیا کی عظیم عمارتوں میں سے ایک ہے جس کی سیاحت کے لئے ہرسال لگ بھگ تیس لاکھ سیاح آتے ہیں۔

    دریائے یمنا کے کنارے تعمیر اس پرشکوہ مقبرے کو مغل شہنشاہ شاہ جہاں نے اپمی محبوب ملکہ ممتاز محل کی یاد میں تعمیرکرایا تھا اور 1983 میں یونیسکو نے اسے عالمی ورثہ قرار دیا تھا۔

    سنگ مرمر کا شاہکار تاج محل آلودگی کے سبب پیلاہٹ کا شکار ہے، بھارتی حکومت نے اس کی بحالی کے لئے کئی اقدامات کئے ہیں جن میں تاج کے ارد گرد واقع فیکٹریاں بند کی گئی ہیں جبکہ آگرہ شہر کو مسلسل بجلی فراہم کی جاتی ہے کہ عوام ڈیزل جنریٹر استعمال نہ کریں۔

    عدالت نے اترپردیش کی حکومت کو حکم دیا ہے کہ شمشمان کی منتقلی کے حوالے سے 15 دن میں فیصلہ کرکے عدالت کو آگاہ کیا جائے۔

  • تاج محل میں جاپانی سیاح ’’سیلفی پکچر‘‘ لینے کے دوران جاں بحق

    تاج محل میں جاپانی سیاح ’’سیلفی پکچر‘‘ لینے کے دوران جاں بحق

    نئی دہلی: بھارت میں ایک جاپانی سیاح محبت کی یادگار تاج محل کی سیاحت کے دوران دورہ قلب کے سبب انتقال کرگیا۔

    آگرہ کے ٹورسٹ پولیس اسٹیشن کے انچارج کے مطابق 66 سالہ جاپانی سیاح اپنے تین ساتھیوں اورمقامی گائیڈ کے ہمراہ عظیم تاج کے دورے پر تھا کہ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے گرگیا۔

    پولیس کے مطابق سیاح کا نام ’’ہیدیتو اویدا‘‘ بتایا گیا ہے، اسے اسپتال لے جایا گیا لیکن وہ دورے کی شدت سے جانبر نہ ہوسکا۔

    پوسٹ مارٹم کی رپورٹ سے تصدیق ہوئی ہے کہ سیاح کو دل کا دورہ پڑا تھا، پولیس کے مطابق جاپانی سفارت خانے کو اس سانحے کی اطلاع دے دی گئی ہے۔

    برطانوی خبررساں ادارے کے مطابق ایک عینی شاہد ساگرسنگھ کا کاکہنا ہےکہ جاپانی سیاح تاج محل کے شاہی دروازے کے نزدیک سیلفی لے رہا تھا کہ یکدم فرش پرگرگیا۔

    بھارت کے قرونِ وسطیٰ کی عظمت کی شاندار یادگارتاج محل مغل شہنشاہ شاہجہاں نے اپنی چہیتی ملکہ ممتازمحل کی یاد میں 1631ء میں تعمیر کروایا تھا، جہاں روزانہ 12 ہزار سے زائد ملکی اورغیرملکی سیاح محبت کی اس لازوال یادگارکو خراجِ تحسین پیش کرنے آتے ہیں۔

  • بھارت میں 200 مسلمانوں کوزبردستی ہندو بنالیا گیا

    بھارت میں 200 مسلمانوں کوزبردستی ہندو بنالیا گیا

    ہندوستان کے شمالی شہرآگرہ میں بعض ہندو تنظیموں کی جانب سے تقریباً 200 مسلمانوں کا مذہب ’تبدیل‘کروانے کے واقعہ پر بدھ کو پارلیمان میں زبردست ہنگامہ ہوا اور حزب اختلاف کی جماعتوں نے حکمراں بی جے پی پر ملک کے سیکولر اصولوں کی خلاف ورزی کرنے کا الزام لگایا۔

    یہ واقعہ پیر کا ہے جب آگرہ کی ایک کچی بستی میں رہنے والے تقریباً 50 غریب مسلمان خاندانوں کو ’گھر واپسی‘ کے نام پر ہندو بنانےکا دعویٰ کیا گیا تھا۔ اس تقریب کی تصاویر اخبارات میں شائع ہوئی تھیں جن میں ٹوپی پہنے ہوئے کچھ مسلمان ایک ہندو مذہبی تقریب میں حصہ لیتے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں۔

    تقریب وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل اور دھرم جاگرن منچ کی جانب سے منعقد کرائی گئی تھی جن کے اہلکاروں کا کہنا ہے جن ہندوؤں نے ماضی میں کوئی دوسرا مذہب قبول کر لیا تھا اب انھیں ’گھر واپس‘ لانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور یہ پروگرام عرصے سے جاری ہے۔

    لیکن جن مسلمانوں کے بارے میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ انھوں نے خود اپنی مرضی سے ہندو مذہب قبول کیا تھا، ان کا اب الزام کہ انھیں ’دھوکے‘ سے تقریب میں بلایا گیا تھا اور تنظیم کے مقامی رہنماؤں نے انھیں راشن کارڈ اور شناختی کارڈ بنوانے کا لالچ دیا تھا۔

    لیکن بجرنگ دل کے مقامی رہنما اجو چوہان کا کہنا ہے ملسمانوں نے اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کیا تھا اور اب وہ ’خوف‘ کی وجہ سے ان پر الزام لگا رہے ہیں۔

    بھارت میں مسلمانوں کوہندو بنانے کے خلاف مظاہرہ

    اس کے برعکس مقامی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ وہ خوف کی وجہ سے تقریب میں شریک ہوئے تھے اور انھیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ انھیں ہندو بنایا جارہا ہے۔ ان میں سے زیادہتر لوگ کوڑا اٹھانے کا کام کرتے ہیں اور ان کا تعلق مغربی بنگال اور بہار سے ہے۔

    ضلعی انتظامیہ نے اس سلسلے میں ایک مقدمہ قائم کیا ہے کیونکہ ملک میں لالچ دے کر مذہب تبدیل کرانا ایک جرم ہے اور مذہب تبدیل کرنے سے پہلے ضلعی انتظامیہ کو مطلع کرنا ضروری ہے۔