Tag: Ahmad faraz

  • شہرہ آفاق شاعر’احمد فراز‘ کا 88 واں یومِ پیدائش آج منایا جا رہا ہے

    شہرہ آفاق شاعر’احمد فراز‘ کا 88 واں یومِ پیدائش آج منایا جا رہا ہے

    اسلام آباد: اردو زبان اورغزل کو آفاقی شہرت بخشنے والے شاعراحمد فرازؔ کا آج 88 واں یومِ پیدائش ہے‘ آپ کا شمارعصرحاضر کے مقبول ترین شعراء میں ہوتا ہے۔

    احمد فراز کا اصل نام سید احمد شاہ تھا اور وہ 12 جنوری 1931ء کو نوشہرہ میں پیدا ہوئے تھے، ان کے والد سید محمد شاہ برق کا شمارکوہائی فارسی کے ممتاز شعراء میں ہوا کرتا تھا۔

    احمد فراز کے مشاعرے کی ویڈیو دیکھنے کے لئے نیچے اسکرول کیجئیے

    احمد فراز اردو، فارسی اور انگریزی ادب میں ماسٹرز کی ڈگری کے حامل تھے اورانہوں نے ریڈیو پاکستان سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔

    ریڈیو پاکستان کے بعد احمد فراز پشاور یونیورسٹی سے بطورلیکچرار منسلک ہوگئے۔ وہ پاکستان نیشنل سینٹر پشاور کے ریذیڈنٹ ڈائریکٹر، اکادمی ادبیات پاکستان کے اولین ڈائریکٹر جنرل اور پاکستان نیشنل بک فاؤنڈیشن کے منیجنگ ڈائریکٹر کے عہدوں پر بھی فائز رہے۔

    احمد فراز کا شمار عہد حاضر کے مقبول ترین شعراء میں ہوتا ہے۔ ان کی عمومی شناخت ان کی رومانوی شاعری کے حوالے سے ہے لیکن وہ معاشرے کی ناانصافیوں کے خلاف ہردورمیں صدائے احتجاج بلند کرتے رہے جس کی پاداش میں انہیں مختلف پابندیاں جھیلنی پڑیں اورجلاوطنی بھی اختیار کرنی پڑی۔

    آج ہم دار پہ کھینچے گئے جن باتوں پر
    کیا عجب کل وہ زمانےکو نصابوں میں ملیں

    احمد فراز کے مجموعہ ہائے کلام میں ’تنہا تنہا‘، ’درد آشوب‘، ’نایافت‘، ’شب خون‘، ’مرے خواب ریزہ ریزہ‘، ’جاناں جاناں‘، ’بے آواز گلی کوچوں میں‘، ’نابینا شہر میں آئینہ‘، ’سب آوازیں میری ہیں‘، ’پس انداز موسم‘، ’بودلک‘، ’غزل بہانہ کروں‘ اور ’اے عشق جنوں پیشہ‘ کے نام شامل ہیں۔

    اب کے ہم بچھڑےتوشاید کبھی خوابوں میں ملیں
    جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں

    احمد فراز کے کلام کی کلیات بھی شہر سخن آراستہ ہے کے نام سے اشاعت پذیر ہوچکی ہے۔ انہیں متعدد اعزازات سے نوازا گیا جن میں آدم جی ادبی انعام، کمال فن ایوارڈ، ستارہ امتیاز اور ہلال امتیاز کے نام سرفہرست ہیں۔ ہلال امتیاز کا اعزاز انہوں نے جنرل پرویز مشرف کی پالیسیوں سے اختلاف کی وجہ سے واپس کردیا تھا۔ انہیں جامعہ کراچی کی جانب سے پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری بھی عطا کی گئی تھی۔

    احمد فراز 25 اگست 2008ء کو اسلام آباد میں وفات پاگئے۔ وہ اسلام آباد کے مرکزی قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

    شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
    اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

  • ایک عہد ساز شخصیت، احمد فراز کا آج 86 واں یوم پیدائش ہے

    ایک عہد ساز شخصیت، احمد فراز کا آج 86 واں یوم پیدائش ہے

    کراچی : احمد فرازمرحوم شاعری کی دنیا میں نام پیدا کرنے والی ایک مشہور و معروف شخصیت تھے۔ ان کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں، احمد فراز کا اصل نام سید احمد شاہ تھا لیکن وہ اپنے تخلص ”فراز“ سے مشہور ہیں۔ احمد فراز جنوری 14 سال 1931 کو صوبہ سرحد ( پختون خوا ) کے شہر کوہاٹ میں پیدا ہوئے۔ احمد فراز کے والد کا نام برق کوہاٹی ہے۔ احمد فراز کے والد بھی مشہور شاعر تھے۔

    احمد فراز نے فارسی اوراردو میں ایم اے پشاور یونیورسٹی سے کیا۔ اس کے بعد اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا اور ریڈیو پاکستان میں اسکرپٹ رائٹر کی حیثیت سے مقرر ہوئے۔ ایڈورڈ کالج ( پشاور ) میں تعلیم کے دوران ریڈیو پاکستان کے لیے فیچر لکھنے شروع کیے۔

    جب ان کا پہلا شعری مجموعہ "” تنہا تنہا "” شائع ہوا تو وہ بی اے میں تھے ۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد ریڈیو سے علیحدہ ہو گئے اور یونیورسٹی میں لیکچر شپ اختیار کرلی ۔ اسی ملازمت کے دوران ان کا دوسرا مجموعہ "” درد آشوب "”چھپا جس کو پاکستان رائٹرزگلڈ کی جانب سے ” آدم جی ادبی ایوارڈ "” عطا کیا گیا۔

    احمد فراز کے کلام کی کلیات بھی شہر سخن آراستہ ہے کے نام سے اشاعت پذیر ہوچکی ہے۔ انہیں متعدد اعزازات سے نوازا گیا جن میں آدم جی ادبی انعام، کمال فن ایوارڈ، ستارہ امتیاز اور ہلال امتیازاوربھارت سے ملنے والا ”گورکھ پوری ایوارڈ“  سرفہرست ہیں۔

    یونیورسٹی کی ملازمت کے بعد پاکستان نیشنل سینٹر (پشاور) کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ اسلام آباد میں نیشنل بک فاؤنڈیشن کے چیئرمین بھی رہے۔ انہیں 1976 ء میں اکادمی ادبیات پاکستان کا پہلا سربراہ بنایا گیا، بعد ازاں جنرل ضیاء کے دور میں انہیں مجبوراً جلا وطنی اختیار کرنی پڑی۔

    احمد فراز کی شاعری کے مختلف مشہور زبانوں میں ترجمے بھی ہوئے جن میں فرنگی، پنجابی ،روسی ، فرانسی اور جرمن سر فہرست ہیں۔ ان کو سب سے زیادہ شہرت ضیاء الحق کے مار شل لاء کے خلاف شاعری کر نے پر ملی۔ انہوں نے سال 2000 میں ”ہلال امتیاز“ کا ایوارڈ بھی جیتا جو انہوں نے جنرل مشرف کے دور میں واپس لوٹا دیا۔

    faraz-post-1

    احمد فرز کے کلاموں میں آئینوں کے شہر میں نابینا ، سخن آراستہ ، تنہا تنہا ، جان جاناں ، نایافت ، اے عشق جنون مشہور و معروف ہیں۔

    انہوں نے متعدد ممالک کے دورے کیے، ان کا کلام علی گڑھ یونیورسٹی اور پشاور یونیورسٹی کے نصاب میں شامل ہے جامعہ ملیہ (بھارت ) میں ان پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا گیا جس کا موضوع "” احمد فراز کی غزل "” ہے۔

    بہاولپورمیں بھی "” احمد فراز ۔ فن اور شخصیت "” کے عنوان سے پی ایچ ڈی کا مقالہ تحریر کیا گیا، احمد فراز نے کئی نظمیں لکھیں جنہیں عالمی سطح پر سراہا گیا۔ ان کی غزلیات کو بھی بہت شہرت ملی۔

    احمد فراز کی بے شمار مشہور غزلوں میں سے ایک غزل قارئین کی نذر

    سنا ہے لوگ اس کو آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
    سو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں

    احمد فراز 25 اگست 2008ء کو اسلام آباد میں قضائے الہٰی سے وفات پاگئے۔ وہ اسلام آباد کے مرکزی قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

  • شہرہ آفاق شاعر’فراز احمد فراز‘کو گزرے 8 برس بیت گئے

    شہرہ آفاق شاعر’فراز احمد فراز‘کو گزرے 8 برس بیت گئے

    اسلام آباد: اردو زبان اور غزل کو آفاقی شہرت بخشنے والے شاعر فرازاحمد فرازؔ کی آجآٹھویں برسی ہے آپ کا شمار عصر حاضر کے مقبول ترین شعراء میں ہوتا ہے۔

    احمد فراز کا اصل نام سید احمد شاہ تھا اور وہ 12 جنوری 1931ءکو نوشہرہ میں پیدا ہوئے تھے، ان کے والد سید محمد شاہ برق کا شمارکوہائی فارسی کے ممتاز شعراء میں ہوا کرتا تھا۔


    احمد فراز کے مشاعرے کی ویڈیو دیکھنے کے لئے نیچے اسکرول کیجئیے


    احمد فراز اردو، فارسی اور انگریزی ادب میں ماسٹرز کی ڈگری کے حامل تھے اور انہوں ریڈیو پاکستان سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔

    ریڈیو پاکستان کے بعد احمد فراز پشاور یونیورسٹی سے بطور لیکچرار منسلک ہوگئے۔ وہ پاکستان نیشنل سینٹر پشاور کے ریذیڈنٹ ڈائریکٹر، اکادمی ادبیات پاکستان کے اولین ڈائریکٹر جنرل اور پاکستان نیشنل بک فاﺅنڈیشن کے منیجنگ ڈائریکٹر کے عہدوں پر بھی فائز رہے۔

    احمد فراز کا شمار عہد حاضر کے مقبول ترین شعراء میں ہوتا ہے۔ ان کی عمومی شناخت ان کی رومانوی شاعری کے حوالے سے ہے لیکن وہ معاشرے کی ناانصافیوں کے خلاف ہر دور میں صدائے احتجاج بلند کرتے رہے جس کی پاداش میں انہیں مختلف پابندیاں جھیلنی پڑیں اور جلاوطنی بھی اختیار کرنی پڑی۔

    آج ہم دار پہ کھینچے گئے جن باتوں پر

    کیا عجب کل وہ زمانےکو نصابوں میں ملیں

    احمد فراز کے مجموعہ ہائے کلام میں ’تنہا تنہا‘، ’درد آشوب‘، ’نایافت‘، ’شب خون‘، ’مرے خواب ریزہ ریزہ‘، ’جاناں جاناں‘، ’بے آواز گلی کوچوں میں‘، ’نابینا شہر میں آئینہ‘، ’سب آوازیں میری ہیں‘، ’پس انداز موسم‘، ’بودلک‘، ’غزل بہانہ کروں‘ اور ’اے عشق جنوں پیشہ‘ کے نام شامل ہیں۔

    اب کے ہم بچھڑےتوشاید کبھی خوابوں میں ملیں

    جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں

    احمد فراز کے کلام کی کلیات بھی شہر سخن آراستہ ہے کے نام سے اشاعت پذیر ہوچکی ہے۔ انہیں متعدد اعزازات سے نوازا گیا جن میں آدم جی ادبی انعام، کمال فن ایوارڈ، ستارہ امتیاز اور ہلال امتیاز کے نام سرفہرست ہیں۔ ہلال امتیاز کا اعزاز انہوں نے جنرل پرویز مشرف کی پالیسیوں سے اختلاف کی وجہ سے واپس کردیا تھا۔ انہیں جامعہ کراچی نے پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری بھی عطا کی گئی تھی۔

    احمد فراز 25 اگست 2008ء کو اسلام آباد میں وفات پاگئے۔ وہ اسلام آباد کے مرکزی قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

    شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا

    اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

  • نیشنل بک فاوٗنڈیشن کا ’احمد فراز‘کی گاڑی نیلام کرنے کا فیصلہ

    نیشنل بک فاوٗنڈیشن کا ’احمد فراز‘کی گاڑی نیلام کرنے کا فیصلہ

    اسلام آباد: نیشنل بک فاوٗنڈٰیشن نے اپنے سابق مینجنگ ڈائریکٹر اور اردو زبان کے عظیم شاعر احمد فرازؔ کے زیراستعمال رہنے والی گاڑی نیلام کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

    احمد فراز کی زندگی کے آخری ایان میں انکے استعمال میں رہنے والی گاڑی1996 ماڈل کی ٹویوٹا کرولا ہے جس کا رجسٹریشن نمبر آئی ڈی ایچ 7957 ہے۔

    احمد فراز کی گاڑٖی کی نیلامی 10 دسمبر بروز جمعرات اسلام آباد میں نیلام کی جائے گی۔

    معروف شاعر کی گاڑی کی نیلامی کا اشتہار نیشنل بک فاوٗنڈیشن کے اسٹنٹ ڈائریکٹر محمد رفیق ناز کی جانب سے دیا گیا ہے۔

    AHMAD FARAZ

    احمد فراز کا اصل نام سید احمد شاہ تھا اور وہ 12 جنوری 1931ءکو نوشہرہ میں پیدا ہوئے تھے، ان کے والد سید محمد شاہ برق کا شمارکوہائی فارسی کے ممتاز شعراء میں ہوا کرتا تھا۔

    احمد فراز کے مجموعہ ہائے کلام میں ’تنہا تنہا‘، ’درد آشوب‘، ’نایافت‘، ’شب خون‘، ’مرے خواب ریزہ ریزہ‘، ’جاناں جاناں‘، ’بے آواز گلی کوچوں میں‘، ’نابینا شہر میں آئینہ‘، ’سب آوازیں میری ہیں‘، ’پس انداز موسم‘، ’بودلک‘، ’غزل بہانہ کروں‘ اور ’اے عشق جنوں پیشہ‘ کے نام شامل ہیں۔

    فراز پاکستان نیشنل سینٹر پشاور کے ریذیڈنٹ ڈائریکٹر، اکادمی ادبیات پاکستان کے اولین ڈائریکٹر جنرل اور پاکستان نیشنل بک فاﺅنڈیشن کے منیجنگ ڈائریکٹر کے عہدوں پر بھی فائز رہے

    احمد فراز 25 اگست 2008ء کو اسلام آباد میں وفات پاگئے۔ وہ اسلام آباد کے مرکزی قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

    شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا

    اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

  • مرحوم شاعراحمد فراز کے گھرڈکیتی کی واردات

    مرحوم شاعراحمد فراز کے گھرڈکیتی کی واردات

    لاہور :ملک کے معروف شاعر احمد فراز مرحوم کے گھر ڈکیتی کی واردات، ڈاکو لاکھوں مالیت کا سامان لوٹ کر با آسانی فرار ہوگئے۔

    تفصیلات کے مطابق تھانہ آبپارہ کے علاقے میں مشہور شاعراحمد فراز مرحوم کے گھر داخل ہوکر مسلح ڈاکو دس تولے سونا، تین موبائل فون، لیپ ٹاپ اور مختلف اعزازات لوٹ کرفرارہوگئے۔

    مذکورہ واقعہ سات اپریل کی علی الصبح پیش آیا، ڈاکوؤں نے گھر میں داخل ہوکر اہل خانہ کو یرغمال بنا لیا، اہل خانہ کے مطابق ڈاکو پشتومیں بات چیت کررہے تھے اورچہروں کونقاب سے ڈھانپ رکھا تھا۔

    پولیس نے واقعے کامقدمہ درج کرکے تفتیش شروع کردی ہے۔ ابتدائی تفتیش میں ملزمان کے فنگرپرنٹس بھی حاصل کرلئے گئے۔ تاہم ابھی تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔