Tag: ahmad rushdi

  • گول گپے والا آیا گول گپے لایا

    گول گپے والا آیا گول گپے لایا

    ماضی کے منفرد ومقبول ترین گلوکار احمد رشدی کی36 ویں برسی آج منائی جارہی ہے۔احمد رشدی کو دنیا سے گزرے ساڑھے تین دہائیوں سے زائد کا عرصہ گزر چکا لیکن ان کی جادوئی آواز آج بھی مداحوں کے کانوں میں رس گھول رہی ہے۔

    منفرد آواز کے مالک احمد رشدی نے تین دہائیوں تک فلمی نگری پرراج کیا۔ انہیں پاکستان کاپہلا پاپ سنگر بھی کہا جاتا ہے۔ فلمی سچویشن اور شاعری کے ملاپ کو اپنی آواز سے پراثر بنانے میں ان کاکوئی ثانی نہیں تھا۔

    معروف گلوکار احمد رشدی عمدہ اور دلکش نغمات کی بدولت تین دہائیوں تک فلمی صنعت پر چھائے رہے ، شوخ وچنچل اور مزاحیہ گانوں میں ان کاکوئی ثانی نہیں تھا۔ پاکستان فلم انڈسٹری کی تاریخ میں انہیں پہلی بارانگریز ی گیت گانے کابھی اعزاز حاصل ہے۔

    احمد رشدی نے اپنے فنی کیریئر کا اغاز ریڈیو پاکستان کراچی سے کیا، معروف گانے ،بندر روڈ سے کیماڑی میری چلی رے گھوڑا گاڑی، نے انہیں شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔

    احمد رشدی کا تعلق ایک قدامت پسند سید گھرانے سے تھا۔ ان کے والد سید منظور احمد حیدرآباد دکن میں عربی اور فارسی کے استاد تھے۔ ان کا احمدرشدی کے بچپن میں ہی انتقال ہو گیا تھا۔ رشدی بچپن سے ہی موسیقی کے شوقین تھے۔

    انہوں نے پہلا گیت ہندوستان کی فلم “عبرت”(1951) کے لئے گایا. پھر پاکستان آ کر 1954 میں “بندر روڈ سے کیماڑی” گا کر شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئے. اس کے بعد رشدی نے کبھی پیچھے مڑ کے نہیں دیکھا. بڑے بڑے گلوکار ان کے آگے بجھ کر رہ گئے۔

    احمد رشدی نے موسیقی کی تربیت باقاعدہ کسی استاد سے حاصل نہیں کی تھی بلکہ ان کی یہ صلاحیت خداداد تھی۔ موسیقی اور گائیکی ان کی رگ رگ میں رچی ہوئی تھی۔رشدی ہندوستان کے مشہور فلمی گلوکار کشور کمار کے بھی آئیڈل تھے اور کشورکمار نے انگلستان میں رشدی مرحوم کے گانوں پر پرفارم کیا۔ انہوں نے غزل کی گائیکی میں بھی اپنی ایک منفرد طرزایجاد کی۔ یہ البیلا گلوکار ہر کردار میں اپنی آواز کا جادو بھر دیتا تھا۔

    چاکلیٹی ہیرو اداکار وحید مراد کے ساتھ رشدی کی جوڑی بہت کامیاب رہی۔ اس جوڑی کے سارے نغمے ہٹ ہوئے۔ ان کے انتقال کو برسوں گزرنے کے بعد بھی احمد رُشدی جیسا گلوکار پاکستان کی فلمی صنعت کو نہیں مل سکا ہے۔

    احمد رُشدی کو بے شمار ایوارڈز ملے۔پاکستان کے صد‏‏ر پرویز مشرف کی حکومت نے ان کے انتقال کے بیس سال بعد رُشدی کو ستاره ا متيا ز کے ایوارڈ سے بھی نوازا۔ ان کا نام پاکستان میں سب سے زیادہ گیت گانے والے گلوکار کے طورپرآیا۔ 5000 سے زیادہ نغمے گائے اور وہ بے شمار گیت آج بھی لوگوں کی زبان پر ہیں۔

    انہوں نے کچھ فلموں میں بھی کام کیا۔ رُشدی نے بہت خوبصورت تلفظ کے ساتھ نہ صرف اردو بلکہ بنگالی، اوڑیا‘ کننڈا، پنجابی، تامل، تلگو او ر مراٹھی میں بھی اپنی آواز پیش کی۔ کئی مرتبہ انہوں نے بغیر پیسے لئے موسیقاروں کے لئے گیت گائے۔ وہ بہت شریف النفس انسان تھے. احمد رُشدی نے کئی نسلوں کو اپنی آواز سے متاثر کیا ہے۔

    احمد رشدی کو مالا کے ساتھ فلموں میں 100 سے زائد دوگانے، گانے کا اعزاز بھی حاصل ہے جو پاکستانی فلمی تاریخ میں کسی اور جوڑی کے حصے میں نہیں آسکا۔روک اینڈ رول کے بادشاہ اور آواز کے جادوگر احمد رُشدی 11 اپریل 1983 کو کراچی میں 48 برس کی عمر میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔

    آپ کی تدفین کراچی میں ہی کی گئی۔احمد رشدی کا شمار دنیا کی ان شخصیات میں ہوتا ہے جو کہ اس دنیا سے گزر جانے کے بعد بھی اپنے فن کے سبب عوام میں بہت زیادہ مقبول ہیں۔

  • معروف گلوکار احمد رشدی کی 34ویں برسی آج منائی جارہی ہے

    معروف گلوکار احمد رشدی کی 34ویں برسی آج منائی جارہی ہے

    کراچی : ماضی کے منفرد ومقبول ترین گلوکار احمد رشدی کی چونتیسویں برسی آج منائی جارہی ہے۔احمد رشدی کو دنیا سے بچھڑے چونتیس برس بیت گئے لیکن ان کی جادوئی آواز آج بھی مداحوں کے کانوں میں رس گھول رہی ہے۔

    منفرد آواز کے مالک احمد رشدی نے تین دہائیوں تک فلمی نگری پرراج کیا۔ انہیں پاکستان کاپہلا پاپ سنگر بھی کہا جاتا ہے۔ فلمی سچویشن اور شاعری کے ملاپ کو اپنی آواز سے پراثر بنانے میں ان کاکوئی ثانی نہیں تھا۔

     معروف گلوکار احمد رشدی عمدہ اور دلکش نغمات کی بدولت تین دہائیوں تک فلمی صنعت پر چھائے رہے ، شوخ وچنچل اور مزاحیہ گانوں میں ان کاکوئی ثانی نہیں تھا۔ پاکستان فلم انڈسٹری کی تاریخ میں انہیں پہلی بارانگریز ی گیت گانے کابھی اعزاز حاصل ہے۔

    احمد رشدی نے اپنے فنی کیریئر کا اغاز ریڈیو پاکستان کراچی سے کیا، معروف گانے ،بندر روڈ سے کیماڑی میری چلی رے گھوڑا گاڑی، نے انہیں شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔

    احمد رشدی کا تعلق ایک قدامت پسند سید گھرانے سے تھا۔ ان کے والد سید منظور احمد حیدرآباد دکن میں عربی اور فارسی کے استاد تھے۔ ان کا احمدرشدی کے بچپن میں ہی انتقال ہو گیا تھا۔ رشدی بچپن سے ہی موسیقی کے شوقین تھے۔

    انہوں نے پہلا گیت ہندوستان کی فلم "عبرت”(1951) کے لئے گایا. پھر پاکستان آ کر 1954 میں "بندر روڈ سے کیماڑی” گا کر شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئے. اس کے بعد رشدی نے کبھی پیچھے مڑ کے نہیں دیکھا. بڑے بڑے گلوکار ان کے آگے بجھ کر رہ گئے.

    احمد رشدی نے موسیقی کی تربیت باقاعدہ کسی استاد سے حاصل نہیں کی تھی بلکہ ان کی یہ صلاحیت خداداد تھی۔ موسیقی اور گائیکی ان کی رگ رگ میں رچی ہوئی تھی. رشدی ہندوستان کے مشہور فلمی گلوکار کشور کمار کے بھی آئیڈل تھے اور کشورکمار نے انگلستان میں رشدی مرحوم کے گانوں پر پرفارم کیا۔ انہوں نے غزل کی گائیکی میں بھی اپنی ایک منفرد طرزایجاد کی۔ یہ البیلا گلوکار ہر کردار میں اپنی آواز کا جادو بھر دیتا تھا۔

    چاکلیٹی ہیرو اداکار وحید مراد کے ساتھ رشدی کی جوڑی بہت کامیاب رہی۔ اس جوڑی کے سارے نغمے ہٹ ہوئے. ان کے انتقال کو برسوں گزرنے کے بعد اب یہ ثابت ہو گیا ہے کہ احمد رُشدی جیسا گلوکار پاکستان کی فلمی صنعت کو نہیں مل سکتا۔

    احمد رُشدی کو بے شمار ایوارڈز ملے. پاکستان کے صد‏‏ر پرویز مشرف کی حکومت نے ا ن کے انتقال کے  بیس سال بعد رُشدی کو "ستاره ا متيا ز” کے ایوارڈ سے بھی نوازا۔ ان کا نام پاکستان میں سب سے زیادہ گیت گانے والے گلوکار کے طور پر آیا۔ 5000 سے زیادہ نغمے گائے اور وہ بے شمار گیت آج بھی لوگوں کی زبان پر ہیں.

    انہوں نے ﮐﮁﮭ فلموں میں بھی کام کیا. رُشدی نے بہت خوبصورت تلفظ کے ساﮅﮭ نہ صرف اردو بلکہ بنگالی، اوڑیا‘ کننڈا، پنجابی، تامل، تلگو او ر مراٹھی میں بھی اپنی آواز پیش کی۔ کئی مرتبہ انہوں نے بغیر پیسے لئے موسیقاروں کے لئے گیت گائے۔ وہ بہت سیدھے انسان تھے. احمد رُشدی نے کئی نسلوں کو اپنی آواز سے متاثر کیا ہے۔.

    احمد رشدی کو مالا کے ساتھ فلموں میں 100 سے زائد دوگانے، گانے کا اعزاز بھی حاصل ہے جو پاکستانی فلمی تاریخ میں کسی اور جوڑی کے حصے میں نہیں آسکا۔

     احمد رشدی کے دس مقبول ترین گیت، قارئین کی نذر

    روک اینڈ رول کے بادشاہ اور آواز کے جادوگر احمد رُشدی 11 اپریل 1983 کو کراچی میں 48 برس کی عمر میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے. آپ کو کراچی میں ہی دفن کیا گیا۔

    گلوکاراحمد رشدی کا شمار دنیا کی ان شخصیات میں ہوتا ہے جو کہ مرنے کے بعد بھی دنیا میں بہت زیادہ مقبول ہیں۔

  • آج پاکستان کے نامور فلمی ہیرو’وحید مراد‘ کی سال گرہ ہے

    آج پاکستان کے نامور فلمی ہیرو’وحید مراد‘ کی سال گرہ ہے

    کراچی (ویب ڈیسک) – پاکستان فلم انڈسری پر60 اور70 کی دہائی میں راج کرنے والے ناموراداکاروحید مراد 2 اکتوبر 1938ءکوکراچی میں پیدا ہوئے تھے، انہوں نے اپنی تعلیمی مدارج بھی کراچی میں مکمل کئے اور جامعہ کراچی سے انگریزی ادب میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔

    1960ءمیں انہوں نے اپنا ذاتی فلمسازادارہ ’’فلم آرٹس‘‘ کے نام سے قائم کیا اوراس ادارے کے تحت دو فلمیں ’’انسان بدلتا ہے‘‘ اور ’’جب سے دیکھا ہے تمہیں‘‘ بنائیں۔ ان فلموں کی تکمیل کے دوران انہیں خود بھی اداکاری کا شوق ہوا۔ وہ درپن کی بہ حیثیت فلمساز ایک فلم ساتھی میں موٹر مکینک کا چھوٹا سا کردار بھی ادا کرچکے تھےاوربالاخر1962ءمیں انہیں ہدایت کار ایس ایم یوسف نے اپنی فلم ’’اولاد‘‘ میں بہ حیثیت اداکار متعارف کروایا یہ فلم بے حد کامیاب رہی اس کے بعد انہوں نے فلم ’’دامن‘‘ میں کام کیا اور اپنی دلکش شخصیت کے باعث اس فلم میں بھی بے حد پسند کئے گئے۔

    یہ ان کی ہیرو شپ کا نقطۂ آغاز تھا اب انہوں نے اپنے ادارے فلم آرٹس کے تحت فلم ’’ہیرااور پتھر‘‘ شروع کی جس میں انہوں نے زیبا کے ہمراہ مرکزی کردار ادا کیا۔ اس فلم کے فلمساز پرویز ملک، موسیقار سہیل رعنا اور نغمہ نگار مسرور انور تھے۔ اس فلم کی کامیابی نے وحید مراد کو خواتین کے ایک بڑے حلقے میں چاکلیٹی ہیرو اور لیڈی کلر کے خطابات دلوائے۔

    ’’ہیرااورپتھر‘‘ کی کامیابی کے بعدان چاروں دوستوں نے کئی اورفلمیں بنائیں جن میں فلم ’’ارمان‘‘ نے پاکستان کی پہلی پلاٹینم جوبلی فلم ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ اس فلم میں احمد رشدی کے نغمات بھی بے حد مقبول ہوئے اس کے بعد وحید مراد کی اداکاری اور احمد رشدی کی آواز گویا لازم و ملزوم بن گئی۔ وحید مراد کی دیگر کامیاب فلموں میں جوش، جاگ اٹھا انسان، احسان، دو راہا، انسانیت، دل میرا دھڑکن تیری، انجمن، مستانہ ماہی اور عندلیب کے نام سرفہرست ہیں۔ وحید مراد نے لاتعداد فلموں میں ایوارڈز حاصل کئےاوروہ بلاشبہ پاکستان کی فلمی صنعت کے ایک صاحب اسلوب اداکار کہے جاسکتے ہیں۔

    وحید مراد 23 نومبر 1983ءکو کراچی میں انتقال کرگئے وہ لاہورمیں گلبرگ قبرستان میں آسودہ خاک ہیں